بُک شیلف

حکایات عقل و دانش سے بھرپور ہوتی ہیں اور یہ انسان کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کرتی ہیں۔

حکایات میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں برسوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کا بیان ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

تاریخ عالم کی دلچسپ حکایات

مولفہ: محمد عارف جان

قیمت: 400 روپے،صفحات: 216

ناشر: بک ہوم، بک سڑیٹ، 46۔ مزنگ روڈ، لاہور



کسی مختصر، دلچسپ اور سبق آموز واقعہ کو حکایت کہتے ہیں ۔ حکایات عقل و دانش سے بھرپور ہوتی ہیں اور یہ انسان کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کرتی ہیں۔ حکایات میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں برسوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کا بیان ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی قوم، کوئی علاقہ یا کوئی براعظم حکایات سے خالی نہیں اور ہر ایک کی اپنی حکایات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں یہ نصاب تعلیم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور زبان زد عام ہوتی تھیں۔ لوگ آج آٹھ سو سال بعد بھی حکایات سعدی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ اس کے علاوہ حکایات رومی، حکایات لقمان اور کلیلہ و دمنہ بہت مشہور ہیں۔

اس مجموعے میں دنیا کے تمام حصوں میں مشہور اور سبق آموز حکایات میں سے انتخاب کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں 300 دلچسپ حکایات شامل ہیں۔ آج کے دور میں جب لوگوں کو پڑھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ملتا، اور وہ تھوڑے وقت میں پڑھ کر زیادہ سیکھنا چاہتے ہیں، ان حکایات کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ یہ کتابیں ہر قسم کے پڑھنے والوں کے لیے یکساں دلچسپی کی حامل ہیں، خاص طور پر بچے ان سبق آموز واقعات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ محمد عارف جان نے حکایات کے انتخاب میں ایک خاص معیار کو مدنظر رکھا ہے، اس طرح ایک معیاری کتاب پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کتاب کی اشاعت اور پیشکش معیاری ہے۔

٭٭٭
تاریخ پاکستان (1947-2013ء)

مصنف: پروفیسر ایم نزید احمد تشنہ

قیمت: 780روپے

ناشر: بک کارنر شوروم، بالمقابل اقبال لائبریری، بک سٹریٹ، جہلم



تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے، تاریخ سے بے بہرہ، بہرہ اور گونگا ہی تو ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیاجاتا حالانکہ تاریخ سے سبق حاصل کرکے ہی قومیں اپنا آج گزرے کل سے بہتربناتی ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قوموں کو ایسی تاریخ پڑھنے کو کم ہی ملتی ہے جو انھیں آئینہ دکھائے، ان کی کمیوں اور کوتاہیوں کو آشکار کرے۔ یقیناً تاریخ لکھتے وقت غیرجانبدار رہنا ایک مشکل کام ہے۔ مولف کتنی بھی کوشش کردیکھے صدفی صد کامیابی حاصل نہیں کرپاتا۔ اس کی ذاتی پسند وناپسند کہیں نہ کہیں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بالخصوص جب تاریخ ماضی قریب سے تعلق رکھتی ہو تو اس میں انصاف کرنا اور بھی مشکل ہوجاتاہے۔

غیرجانبداری کے دعوے کے ساتھ تاریخ پاکستان پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور لکھی جارہی ہیں۔ ہر ایک کی اپنی انفرادیت ہے۔ زیرنظرکتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ قیام پاکستان سے سن 2013ء تک کے تمام واقعات پر محیط ہے۔اس میں اختصار اور جامعیت، دونوں پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھاگیاہے۔ مولف نے پوری کوشش کی ہے کہ تاریخ پاکستان کو یہاں رونما ہونے والے واقعات کی زبانی ہی بیان کیاجائے، مولف کی ذاتی پسند وناپسند کی کہیں جھلک نہ ملے۔ 'بک کارنرشوروم' نے حسب روایت کتاب کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیاہے۔

٭٭٭
اقبال اور کارل مارکس

مصنف: ڈاکٹر محمد افضل حمید

قیمت:200 روپے،صفحات:104

ناشر:شمع بکس، بھوانہ بازار ، فیصل آباد



علامہ اقبال اور کارل مارکس دونوں شخصیات ایسی ہیں کہ ان پر کتابوں پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور لکھی گئی ہیں ۔ ان دونوں مفکرین کی زندگی کے اتنے پہلو اور علم کا پھیلائو اتنا زیادہ ہے کہ ابھی تک محقق تحقیق کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ ڈاکٹر افضل حمید نے بھی ان دونوں کے مشترک ذہنی رجحانات پر قلم اٹھایا ہے۔ وہ اس سے قبل سرسید اور اقبال، سرسید اور تحریک آزادی،اقبال اور ان کا عہد ، واقعات اقبال، حیات مادر ملت جیسی ایوارڈ یافتہ کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ ہمارے یہاں دائیں بازو کے مفکرین کارل مارکس کو اس کے لادینی رجحانات کی وجہ سے یکسر رد کر دیتے ہیں حتیٰ کہ زیر بحث لانا بھی پسند نہیں کرتے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت کارل مارکس کی اصل شخصیت سے واقف ہی نہیں ہے، جبکہ کارل مارکس کا مطمع نظر عوام کا استحصال کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی تھا جس کا فائدہ سراسر عوام کو ہی پہنچنا تھا۔

علامہ اقبال نے کارل مارکس کے اسی پہلو کو اپنی شاعری میں سمویا ہے ۔ مصنف نے زیر تبصرہ کتاب میں اقبال اور مارکس کے مشترکہ خیالات کو بڑی فصاحت سے بیان کیا ہے ۔ تاہم کارل مارکس کی شخصیت زیادہ زیر بحث لائی گئی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت ان کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتی۔ علامہ اقبال اپنے مذہبی رجحانات کے باوجود جس طرح کارل مارکس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس سے ان کی روشن خیالی صاف عیاں ہے اور یہی ایک ممتاز فلسفی اور مفکر کا سب سے بڑا وصف ہوتا ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
اچھے تعلقات کے رہنما اصول

مصنف: پریم پی بھالا

ناشر: بک ہوم، لاہور

قیمت: 360 روپے،صفحات: 184



بطور سماجی حیوان انسان کو مختلف تعلقات نبھانے پڑتے ہیں۔ رشتے اور تعلق کا یہ بندھن انسان کی زندگی میں روز اول سے شامل رہا ہے۔ بچہ پیدائش کے فوراً بعد ہی اپنی ماں سے تعلق کی ایک بنیاد رکھتا ہے۔ پھر باپ، بہن، بھائی اور دیگر رشتے دار اس دائرے کو وسیع تر کرتے ہیں۔ استاد، دوست، پیرومرشد حتیٰ کہ ریاست کے ساتھ بھی انسان کا ایک تعلق خودبخود ارتقا پا جاتا ہے۔ جدید دنیا کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں رشتوں میں اب وہ گہرائیاں، گیرائیاں نہیں رہیں۔ آج کا انسان کمزور رشتوں کا زخم خوردہ ہے۔ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے اور اس کے باعث کئی قسم کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

پریم پی بھالا کی یہ کتاب بتاتی ہے کہ ان حالات میں ہم کس طرح رشتوں میں توازن قائم کر سکتے ہیں۔ کتاب میں درجہ بدرجہ وہ اصول و ضوابط دیے گئے ہیں جو انسانی تعلقات کی بہتری کے لیے رہنما اصول کے طور پر اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جدید دنیا میں کچھ رشتے بوجھ بن گئے ہیں اور انسانی حیات ان رشتوں کا بوجھ سہارتے سہارتے تھک چکی ہے۔ جبکہ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح رشتوں کو خوشگوار اور خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب بک ہوم کی سیلف ہیلپ سیریز کا حصہ ہے، امید ہے لوگ اسے مفید پائیں گے۔

٭٭٭
مبسوط انوار

مصنف: محمد قاسم بھٹہ


قیمت: 500روپے،صفحات:338

ناشر:معراج خالد پرنٹرز اردو بازار لاہور



راہ سلوک پر چلنے کے لئے بزرگان دین کی محبت اور قربت بہت ضروری ہے کیونکہ اس پر پیچ راہ پر قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی وہ راہ ہے جس پر چلتے ہوئے انسان اسلام کی روح کو صحیح معنوں میں سمجھ سکتا ہے ۔ مصنف نے زیر تبصرہ کتا ب اپنے مرشد میاں نذیر احمد صوبہؒ نقشبندی ،مرتضائی ،مجددی کی حیات مبارکہ پر لکھی ہے ، جس سے قاری کو ان کے مرشد کی پاکیزہ زندگی کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہوتی ہے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ کتاب میں فرمودہ شاہ نقشبندؒ ،مثنوی مولانا رومؒ ، کلام حافظ شیرازیؒ ، قصیدہ بردہ شریف، قصیدہ نعمانیہ، قصیدہ شفائی اور دیگر اہم مضامین شامل ہیں ۔ کتاب میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ مرتضائیہ مختلف حوالوں سے دیا گیا ہے ۔ مختلف مزارات کی رنگین تصاویر بھی شامل کی کی گئی ہیں ۔ راہ سلوک پر چلنے والے افراد کے لئے یہ بڑی مفید کتا ب ہے اس کے مطالعے سے انھیں یقینا رہنمائی ملے گی ۔مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کیساتھ شائع کیا گیا۔

٭٭٭
مشہور جلاوطن شخصیات

مصنف: ذبیح اللہ صدیق بلگن

قیمت:530روپے

ناشر: نگارشات،24 مزنگ روڈ ،لاہور



کتاب کے نام سے ہی بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ یہ کس موضوع پر لکھی گئی ہے، اس بابت مزیدکچھ لکھ کر قاری کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا، البتہ یہ کتاب کیسی لکھی گئی، اس سوال کا جواب دلچسپ ہے۔ مصنف کے بقول:'' ملائشیا میں میری ملاقات چند ایسی بھارتی شخصیات سے ہوئی جن کے بھارت داخلے پر پابندی عائد تھی اور وہ ملائشیا میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے، جب ہم ایک پرفضا مقام پر کافی سے لطف اندوز ہورہے تھے تب میں نے ان سے عرض کیاتھا کہ آپ پہلے اور آخری فرد نہیں جنھیں جلاوطنی کا سامنا کرناپڑاہے۔

حضرت انسان بذات خود اس دنیا میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہاہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کا حقیقی گھرجنت میں تھا تاہم ایک لغزش کے باعث ان سے ان کا وطن واپس لے لیاگیا اور انھیں زمین پر اتاردیاگیا، گویا انسانیت کی ابتدا ہی جلاوطنی سے ہوئی ہے۔ اور اگر آپ دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو متعدد ایسی نامور شخصیات دکھائی دیں گی جنھیں اپنی زندگی میں جلاوطنی کے مرحلہ سے گزرنا پڑا''۔ مصنف کہتے ہیں کہ اسی گفتگو کے دوران میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے ایسی شخصیات کے حالات زندگی، جلاوطنی کے اسباب اور ان کی جدوجہد کو کتابی شکل میں مجتمع کرناچاہئے۔

کتاب کا آغاز حضرت سعید بن جبیر ؒ کے تذکرہ سے ہوتاہے جو ایک مشہور تابعی تھے، حجاج بن یوسف کے دورمیں انھیں جلاوطنی کا سامنا کرناپڑا۔ کتاب کے اگلے ابواب میں منصورحلاج، نصیرالدین محمد ہمایوں( دوسرے مغل بادشاہ)، بہادر شاہ ظفر، اسیرمالٹا شیخ الہند مولانامحمود الحسن، مولانا عبیداللہ سندھی، کارل مارکس، گورو رجنیش، نپولین بوناپارٹ، محمد رضا شاہ پہلوی، آیت اللہ خمینی، دلائی لامہ، عیدی امین، زین العابدین بن علی ، اسامہ بن لادن، گلبدین حکمت یار، شیخ حسینہ واجد، آنگ سان سوچی، بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف، جنرل پرویزمشرف اور الطاف حسین شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے ازخودجلاوطن لوگ ہیں۔مختلف موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ذبیح اللہ صدیق بلگن نے اس دلچسپ موضوع پر کام کرکے بہت سے علم دوستوںکا بھلا کردیا ہے۔ چہاررنگہ سرورق، مضبوط جلد اور سفید کاغذ پر خوبصورت طباعت نے کتاب کے ظاہری وقار میں بھی اضافہ کیاہے۔

٭٭٭
میرے افسانے، میری کہانی

مصنفہ: انیلا منور،قیمت:300روپے

ناشر: مقبول اکیڈمی، سرکلر روڈ چوک اردوبازار،لاہور



کہانیوں کا یہ مجموعہ ایک ایسی افسانہ نگار کا ہے جس نے زندگی کا ایک بڑا حصہ شاعری پڑھتے گزارا، شاید اس دوران اس نے شاعرہ بننے کا سوچا ہوگا لیکن افسانہ نگار بن گئی۔ ان کی کہانیاں پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ وہ زندگی کے تلخیوں اور رعنائیوں سے واقف ہیں۔ معاشی اور معاشرتی نشیب وفراز کا رونا بھی ان افسانوں میں ملے گا اورمحبت کا ایک خوبصورت جہان بھی آباد ہے۔ ہرافسانے میں ان کی ذات کی پرچھائیاں نظرآتی ہیں۔ انتہائی پرتاثیر کہانیاں ہیں، سب کی سب مختصر، ایک بھی طویل نہیں۔ البتہ وہ تاثر گہراچھوڑتی ہیں، تاثر ہی کہانی کے بارے میں فیصلہ کرنے کاپیمانہ ہوتاہے۔ انیلہ کہانیاں لکھتی رہیں تو یقینا وہ ہرجگہ اپنا آپ منوانے میں ضرور کامیاب ہوں گی۔خوبصورت سرورق اور عمدہ طباعت نے کتاب کے حسن کو دوچند کردیاہے۔
یادوں کی بارات، قلمی نسخہ اور اسکے گم شدہ اوراق

مصنف: جوش ملیح آبادی

قیمت:1200روپے

ناشر: بک کارنرشوروم، بالمقابل اقبال لائبریری بک سٹریٹ جہلم



جوش ملیح آبادی( اصل نام شبیر حسین خاں) اردو ادب کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعلق اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے سے تھا، تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی، انجمن ترقی اردو (کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ روح ادب، آوازہ حق، شاعر کی راتیں، جوش کے سو شعر، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، پیغمبر اسلام، عرفانیات جوش،محراب و مضراب، دیوان جوش ،مقالات جوش، اوراق زریں، جذبات فطرت، اشارات، مقالات جوش، مکالمات جوش اور یادوں کی بارات (خود نوشت سوانح) اس کثیر التصانیف شاعر و مصنف کے شعری مجموعوں اور تصانیف میں شامل ہیں۔

موخرالزکر کتاب خوب پڑھی گئی، کہاجاتاہے کہ ستر کی دہائی میں جب یہ کتاب پہلی بار شائع ہوئی تو اپنے اصل مسودہ کے مطابق نہیں تھی، اس کے بہت سے اوراق اڑالئے گئے۔ جوش صاحب سے محبت کرنے والوں نے جب 'یادوں کی بارات' کے ساتھ یہ سلوک دیکھاتو انھوں نے اصل مسودہ کو تلاش کیا، چرائے گئے اوراق کو اکٹھاکیا اور بالآخر اسے اصل مسودہ کے مطابق منظرعام پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کوشش میں اہم ترین کردار ڈاکٹرسہیل نقوی کا تھا جو جناب جوش کے ہونہار شاگرد ہیں۔ 'بک کارنرشوروم' ایک چھوٹے سے شہر میں بیٹھ کر اتنے بڑے بڑے کام کررہاہے، حیرت اور خوشی ہوتی ہے۔
فلسفہ ،اصول ومبادی اور نشو وارتقا

مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد

قیمت:250روپے

ناشر:مکتبہ جمال تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردو بازار لاہور



مولانا آزادؒ ایک جید عالم ، منفرد مفسرقرآن، عظیم خطیب، بلندپایہ مفکر، بے بدل دانشور ومدبر، مایہ ناز ماہرتعلیم اور قابل رشک انشا پردازتھے، گویامولانا علم کا بحربیکراں تھے۔ انھوں نے برعظم کے مسلمانوں کی بیداری میں جو کردار اداکیا وہ تاریخ میں سنہری حروف سے رقم کیاگیا۔ علم ودانش کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں مولانا نے علمی وادبی ورثہ نہ چھوڑا ہو، انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اسے امر کردیا۔

قرآن پاک نے تمثیل وتشبیہ کے تمام پردے ہٹاکر صفات الٰہی کا جلوہ دکھایا تو مجاز کی جگہ حقیقت نے لے لی۔ اور شرک کی تمام راہیں مسدود ہوکر رہ گئیں۔ اب غیرصفاتی تصور کی جگہ ایک ایسے معبود حقیقی نے لے لی جو اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے جو انسان کے وجدانی احساس سے ماورا ہے اور اس کا دامن کبریائی تھام کر انسان اپنی روحانی تشنگی کا سامان مہیا کرسکتاہے۔ یہی قرآن حکیم کا وہ معجزہ ہے جس سے سسکتی اور بھٹکتی ہوئی انسانیت کوسکون نصیب ہوا۔ تصور الٰہ نے انسان کی عبادت میں عجزونیاز کی کیفیت کو تقویت بخشی اور انسانی عقل کی درماندگی کو منزل سے ہم کنار کردیا۔ انسانی طلب اور معرفت کی تین قدرتی منزلیں پائی جاتی ہیں، ربوبیت، رحمت اور عدالت۔ ان تینوں صفات کو سورہ فاتحہ میں اسی ترتیب سے بیان کیاگیاہے۔ غرضیکہ قرآن کے تصور الٰہ نے فکر انسانی کے ہربنیادی سوال کی تشفی کردی ہے۔

زیرنظرمجموعہ مولانا آزاد کی مختلف تحریروں پر مشتمل ہے جنھیں فلسفہ کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے۔ یقینا ً طالبانِ علم اس سے مکمل طورپر مستفید ہوں گے۔
Load Next Story