فالج علامات اور احتیاطی تدابیر
مریض کی نگہداشت طویل اور صبر آزما مرحلہ ہے
فالج دماغ میں خون کی نالی کی بندش یا رساؤ کے باعث ہوتا ہے جو ناکافی آکسیجن اور غذائیت کی فراہمی کا باعث بنتا ہے اور اس کا نتیجہ دماغی خلیوں کی خرابی یا تباہی ہے۔
یہ مخصوص دماغی افعال جیساکہ اعضائی حرکات اور گفتار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بعض مریض اپنی نگہداشت کی اہلیت میں مزید کمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ فالج کی دو بنیادی اقسام ہوتی ہیں۔ 'اسکیمک فالج' دماغی خلیے کی جانب خون کی گردش کی تجدید یا اچانک کمی کے باعث واقع ہوتا ہے اور یہ بہت عام ہے۔
یعنی 80 فیصد سے زائد فالج اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، دیگر وجوہات میں سیریبل آرٹریز میں ایتھروسیلزوسس اور جسم کے دیگر حصوں بالخصوص دل سے خون کے لوتھڑوں کا بننا شامل ہے۔ 'ہیموریجک فالج' میں کچھ بیماریوں جیسے بلند فشار خون وغیرہ کے نتیجے میں دماغ کی خون کی نالی پھٹ جاتی ہے۔
فالج کی علامات
اکثر افراد میں فالج سے قبل کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ہے۔ فالج کی ظاہری شکل کا انحصار خون کی نالی کے مقام کے ساتھ ساتھ نقصان کے درجے پر منحصر ہوتا ہے۔ جب درج ذیل علامات ظاہر ہوں تو مریضوں کو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔
1۔ سن ہونے کی کیفیت، چہرے، کسی عضو یا بدن کے کسی حصے میں۔
2۔اعضائی اور بدنی کمزوری عام طور پر جسم کے ایک طرف ہو۔
3۔توازن کا اچانک چلے جانا۔
4۔غیر واضح گفتگو۔ تھوک گرنا، نگلنے میں دشواری، منہ کا ٹیڑھا پن۔
5۔نظر کی دھندلاہٹ، دہری بصارت
6۔غنودگی، کوما۔
7۔ اچانک مسلسل شدید سردرد، مسلسل چکر آنا۔
ٹرانزینٹ اسکیمک اٹیک (ٹی آئی۔اے) فوکل برین، ریڑھ کی ہڈی یا ریٹینل اسکیمیا کے باعث ہونے والے نیورو لاجک ڈس فنکشن کا ایک عارضی واقعہ ہوتا ہے جوکہ عموماً 24 گھنٹوں سے کم وقت کے لیے قائم رہتا ہے۔ ایک مریض کو ٹی آئی اے ایک بار یا زائد مرتبہ ہوسکتا ہے۔
یہ ایک اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل فالج کا حملہ ہونے والا ہے۔ ایک قسم کے فالج میں خون کی شریان پھٹ جانا، دوسرا دماغ کی خون کی شریانوں میں کسی رکاوٹ کا آجانا، دل میں خرابی، دل کے والوو میں خرابی، گردن کی شریانوں میں چربی کا جم جانا، فالج کی کچھ علامات جو ایک ہفتہ پہلے نظر آجاتی ہیں۔
فالج ایسا مرض ہے جس کے دوران دماغ کو نقصان پہنچتا ہے اور جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہو جاتا ہے اور مناسب علاج بروقت مل جائے تو اس کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے تاہم اکثر لوگ اس جان لیوا مرض کی علامات کو دیگر طبی مسائل سمجھ لیتے ہیں اور علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
فالج درحقیقت ہارٹ اٹیک کی طرح ہوتا ہے مگر اس میں دل کی جگہ دماغ نشانہ بنتا ہے۔ فالج کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک میں خون کی رگیں بلاک ہو جانے کے نتیجے میں دماغ کو خون کی فراہمی میں کمی ہوتی ہے۔
دوسری قسم ایسی ہوتی ہے جس میں کسی خون کی شریان سے دماغ میں خون خارج ہونے لگتا ہے۔ ان دونوں قسم کے فالج کی علامات یکساں ہوتی ہیں۔ ہر فرد کے لیے ان سے واقفیت ضروری ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فالج کی یہ انتہائی نشانیاں مختلف شکلوں میں اصل دورے سے ایک ہفتہ پہلے سامنے آنے لگتی ہیں۔
جسم کے ایک حصے کا سن ہو جانا یا چلنا ناممکن ہو جانا، بولنے سے قاصر ہو جانا یا باتوں کو سمجھ نہ پانا۔ بہت زیادہ ذہنی الجھن ایک جانب سے چہرہ ڈھلک جانا اور مسکرانے کے قابل بھی نہ رہنا۔ شدید سر درد اور قے، ایک یا دونوں آنکھوں سے دیکھنے میں مشکل کا سامنا، چلنے میں مشکلات کا سامنا، کچھ نگلنا مشکل ہو جانا، جسمانی توازن برقرار رکھنے میں مشکل، جسمانی توازن میں کمی کے باعث چلتے ہوئے لڑکھڑانا، شدید کمزوری، لاغری، ان علامات کا احساس ہوتے ہی اگر فوری طور پر طبی امداد کے لیے رجوع کیا جائے تو آپ اپنی یا اپنے گھر کے کسی فرد کی زندگی بچا سکتے ہیں۔
فالج کیوں ہوتا ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
سیانوں نے کہا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ حرکت کرتے رہنا یعنی ہلنا جلنا موومنٹ کرنا زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔
اگر کسی وجہ سے حرکت میں کمی واقع ہو جائے اور زیادہ تر بیٹھنا پڑے، جسم زیادہ دیر جامد رہے، ایک ایسی حالت جس میں عام طور پر ذہن تو مفلوج نہیں ہوتا مگر جسم کا کوئی ایک حصہ اچانک کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں ہوش تو اکثر باقی رہتا ہے مگر جسم سے جوش اور ولولہ ختم ہو جاتا ہے، لامحدود زندگی پر حدیں نافذ ہو جاتی ہیں۔
خود پر سے، اپنے جسم، اپنے بدن سے اختیار ختم ہو جاتا ہے، جیتی جاگتی زندگی فقط کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ تک محدود ہو سکتی ہے۔ اکثر اپنی بنیادی ضروریات اور روزمرہ حاجات کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہونا پڑ جاتا ہے۔ فالج کی وجہ سے جسم کے کسی حصے کے مفلوج اور معذور ہو جانے کی اس کیفیت کو انگریزی میں سٹروک کہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ فالج کے حملے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 70 فیصد سے زیادہ لوگ فالج کی وجہ سے کسی بھی مستقل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کا شکار ہیں۔
اسی طرح 20 فیصد لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ فالج ایک اور حوالے سے بھی ایک منفرد اور پیچیدہ بیماری ہے۔ ایک طرف تو خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہے دوسری طرف مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔
فالج کیا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جسم کی حرکت، ہمارے بولنے، ہماری زبان، ہمارے ہوش، ہمارے سوچنے سمجھنے کو ہمارا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ جس طرح کسی بھی گاڑی کو فیول کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح ہمارے دماغ کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے خون کے ذریعے سے ملتی ہے۔
اب اگر کسی وجہ سے دماغ کو اس خون کی فراہمی متاثر ہو جائے، اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے یا اس میں کمی ہو جائے تو دماغ کے کچھ خلیات مر جاتے ہیں اور ان خلیات کی موت کے نتیجے میں فالج کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ہمارے دماغ کے ان خلیات کو نقصان ہو، جو ہماری زبان، ہماری بول چال کو قابو میں رکھتے ہیں تو فالج کی وجہ سے ہم بول نہیں سکتے۔
اسی طرح اگر دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو ہماری جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے تو ہم جسمانی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ فالج کے دورے کے بعد ہر گزرتے منٹ میں دماغ 19 لاکھ خلیات سے محروم ہو جاتا ہے۔
علاج میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا زیادہ بولنے میں مشکلات، یادداشت سے محرومی جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فالج سے پہلے اور فالج کے دوران بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اورکوئی چیز کھانا، پینا یا نگلنا دشوار ہو جاتا ہے۔
وہ لوگ جن کا جسمانی وزن نارمل سے زیادہ ہو یا جو تمباکونوشی یا الکحل استعمال کرتے ہوں، بلڈ پریشر زیادہ ہو، ذیابیطس کے مریض ہوں، مستقل ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کے شکار ہوں، ایسے افراد میں فالج کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد پر فالج حملہ کرے تو اس کے نتیجے میں موت کا امکان55 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح اپنی غذا میں نمک کا زیادہ استعمال کرنے والے لوگ اور وہ لوگ جن کی عمر 50 سال سے زائد ہو یا وہ لوگ جن کی دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی ہو، ایک کیفیت جسے ایٹریل فبریکشن کہتے ہیں موجود ہو، سب فالج کے حملے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مرغن غذاؤں کے شوقین فربہ افراد، جو بیٹھے رہتے ہیں اور کسی قسم کی ورزش نہیں کرتے ان میں بھی فالج کا حملہ ہونے کے خدشات ہوتے ہیں۔
ہم کیسے فالج کے حملے کو روک سکتے ہیں؟ اپنے بلڈ پریشر پر چوبیس گھنٹے قابو رکھیں، روزانہ ورزش کریں۔ اپنی غذا میں چربی اور ٹرانس فیٹ میں کمی لانا فالج کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ میٹھی چیزوں اور چکنائی کا استعمال کم کریں، تمباکونوشی ختم کریں۔
پھلوں کا استعمال، سبزیوں، مچھلی، بغیر چربی والا گوشت اور اجناس پر مبنی متوازن غذا کھائیں۔ زیادہ سیب کھائیں۔ ٹماٹر کا استعمال بڑھادیں۔ نمک کا استعمال کم کریں۔ فالج کے علاج کے لیے سب سے بہترین بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھیں، صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
یہ مخصوص دماغی افعال جیساکہ اعضائی حرکات اور گفتار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بعض مریض اپنی نگہداشت کی اہلیت میں مزید کمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ فالج کی دو بنیادی اقسام ہوتی ہیں۔ 'اسکیمک فالج' دماغی خلیے کی جانب خون کی گردش کی تجدید یا اچانک کمی کے باعث واقع ہوتا ہے اور یہ بہت عام ہے۔
یعنی 80 فیصد سے زائد فالج اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، دیگر وجوہات میں سیریبل آرٹریز میں ایتھروسیلزوسس اور جسم کے دیگر حصوں بالخصوص دل سے خون کے لوتھڑوں کا بننا شامل ہے۔ 'ہیموریجک فالج' میں کچھ بیماریوں جیسے بلند فشار خون وغیرہ کے نتیجے میں دماغ کی خون کی نالی پھٹ جاتی ہے۔
فالج کی علامات
اکثر افراد میں فالج سے قبل کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ہے۔ فالج کی ظاہری شکل کا انحصار خون کی نالی کے مقام کے ساتھ ساتھ نقصان کے درجے پر منحصر ہوتا ہے۔ جب درج ذیل علامات ظاہر ہوں تو مریضوں کو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔
1۔ سن ہونے کی کیفیت، چہرے، کسی عضو یا بدن کے کسی حصے میں۔
2۔اعضائی اور بدنی کمزوری عام طور پر جسم کے ایک طرف ہو۔
3۔توازن کا اچانک چلے جانا۔
4۔غیر واضح گفتگو۔ تھوک گرنا، نگلنے میں دشواری، منہ کا ٹیڑھا پن۔
5۔نظر کی دھندلاہٹ، دہری بصارت
6۔غنودگی، کوما۔
7۔ اچانک مسلسل شدید سردرد، مسلسل چکر آنا۔
ٹرانزینٹ اسکیمک اٹیک (ٹی آئی۔اے) فوکل برین، ریڑھ کی ہڈی یا ریٹینل اسکیمیا کے باعث ہونے والے نیورو لاجک ڈس فنکشن کا ایک عارضی واقعہ ہوتا ہے جوکہ عموماً 24 گھنٹوں سے کم وقت کے لیے قائم رہتا ہے۔ ایک مریض کو ٹی آئی اے ایک بار یا زائد مرتبہ ہوسکتا ہے۔
یہ ایک اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل فالج کا حملہ ہونے والا ہے۔ ایک قسم کے فالج میں خون کی شریان پھٹ جانا، دوسرا دماغ کی خون کی شریانوں میں کسی رکاوٹ کا آجانا، دل میں خرابی، دل کے والوو میں خرابی، گردن کی شریانوں میں چربی کا جم جانا، فالج کی کچھ علامات جو ایک ہفتہ پہلے نظر آجاتی ہیں۔
فالج ایسا مرض ہے جس کے دوران دماغ کو نقصان پہنچتا ہے اور جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہو جاتا ہے اور مناسب علاج بروقت مل جائے تو اس کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے تاہم اکثر لوگ اس جان لیوا مرض کی علامات کو دیگر طبی مسائل سمجھ لیتے ہیں اور علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
فالج درحقیقت ہارٹ اٹیک کی طرح ہوتا ہے مگر اس میں دل کی جگہ دماغ نشانہ بنتا ہے۔ فالج کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک میں خون کی رگیں بلاک ہو جانے کے نتیجے میں دماغ کو خون کی فراہمی میں کمی ہوتی ہے۔
دوسری قسم ایسی ہوتی ہے جس میں کسی خون کی شریان سے دماغ میں خون خارج ہونے لگتا ہے۔ ان دونوں قسم کے فالج کی علامات یکساں ہوتی ہیں۔ ہر فرد کے لیے ان سے واقفیت ضروری ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فالج کی یہ انتہائی نشانیاں مختلف شکلوں میں اصل دورے سے ایک ہفتہ پہلے سامنے آنے لگتی ہیں۔
جسم کے ایک حصے کا سن ہو جانا یا چلنا ناممکن ہو جانا، بولنے سے قاصر ہو جانا یا باتوں کو سمجھ نہ پانا۔ بہت زیادہ ذہنی الجھن ایک جانب سے چہرہ ڈھلک جانا اور مسکرانے کے قابل بھی نہ رہنا۔ شدید سر درد اور قے، ایک یا دونوں آنکھوں سے دیکھنے میں مشکل کا سامنا، چلنے میں مشکلات کا سامنا، کچھ نگلنا مشکل ہو جانا، جسمانی توازن برقرار رکھنے میں مشکل، جسمانی توازن میں کمی کے باعث چلتے ہوئے لڑکھڑانا، شدید کمزوری، لاغری، ان علامات کا احساس ہوتے ہی اگر فوری طور پر طبی امداد کے لیے رجوع کیا جائے تو آپ اپنی یا اپنے گھر کے کسی فرد کی زندگی بچا سکتے ہیں۔
فالج کیوں ہوتا ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
سیانوں نے کہا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ حرکت کرتے رہنا یعنی ہلنا جلنا موومنٹ کرنا زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔
اگر کسی وجہ سے حرکت میں کمی واقع ہو جائے اور زیادہ تر بیٹھنا پڑے، جسم زیادہ دیر جامد رہے، ایک ایسی حالت جس میں عام طور پر ذہن تو مفلوج نہیں ہوتا مگر جسم کا کوئی ایک حصہ اچانک کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں ہوش تو اکثر باقی رہتا ہے مگر جسم سے جوش اور ولولہ ختم ہو جاتا ہے، لامحدود زندگی پر حدیں نافذ ہو جاتی ہیں۔
خود پر سے، اپنے جسم، اپنے بدن سے اختیار ختم ہو جاتا ہے، جیتی جاگتی زندگی فقط کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ تک محدود ہو سکتی ہے۔ اکثر اپنی بنیادی ضروریات اور روزمرہ حاجات کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہونا پڑ جاتا ہے۔ فالج کی وجہ سے جسم کے کسی حصے کے مفلوج اور معذور ہو جانے کی اس کیفیت کو انگریزی میں سٹروک کہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ فالج کے حملے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 70 فیصد سے زیادہ لوگ فالج کی وجہ سے کسی بھی مستقل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کا شکار ہیں۔
اسی طرح 20 فیصد لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ فالج ایک اور حوالے سے بھی ایک منفرد اور پیچیدہ بیماری ہے۔ ایک طرف تو خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہے دوسری طرف مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔
فالج کیا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جسم کی حرکت، ہمارے بولنے، ہماری زبان، ہمارے ہوش، ہمارے سوچنے سمجھنے کو ہمارا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ جس طرح کسی بھی گاڑی کو فیول کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح ہمارے دماغ کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے خون کے ذریعے سے ملتی ہے۔
اب اگر کسی وجہ سے دماغ کو اس خون کی فراہمی متاثر ہو جائے، اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے یا اس میں کمی ہو جائے تو دماغ کے کچھ خلیات مر جاتے ہیں اور ان خلیات کی موت کے نتیجے میں فالج کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ہمارے دماغ کے ان خلیات کو نقصان ہو، جو ہماری زبان، ہماری بول چال کو قابو میں رکھتے ہیں تو فالج کی وجہ سے ہم بول نہیں سکتے۔
اسی طرح اگر دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو ہماری جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے تو ہم جسمانی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ فالج کے دورے کے بعد ہر گزرتے منٹ میں دماغ 19 لاکھ خلیات سے محروم ہو جاتا ہے۔
علاج میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا زیادہ بولنے میں مشکلات، یادداشت سے محرومی جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فالج سے پہلے اور فالج کے دوران بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اورکوئی چیز کھانا، پینا یا نگلنا دشوار ہو جاتا ہے۔
وہ لوگ جن کا جسمانی وزن نارمل سے زیادہ ہو یا جو تمباکونوشی یا الکحل استعمال کرتے ہوں، بلڈ پریشر زیادہ ہو، ذیابیطس کے مریض ہوں، مستقل ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کے شکار ہوں، ایسے افراد میں فالج کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد پر فالج حملہ کرے تو اس کے نتیجے میں موت کا امکان55 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح اپنی غذا میں نمک کا زیادہ استعمال کرنے والے لوگ اور وہ لوگ جن کی عمر 50 سال سے زائد ہو یا وہ لوگ جن کی دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی ہو، ایک کیفیت جسے ایٹریل فبریکشن کہتے ہیں موجود ہو، سب فالج کے حملے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مرغن غذاؤں کے شوقین فربہ افراد، جو بیٹھے رہتے ہیں اور کسی قسم کی ورزش نہیں کرتے ان میں بھی فالج کا حملہ ہونے کے خدشات ہوتے ہیں۔
ہم کیسے فالج کے حملے کو روک سکتے ہیں؟ اپنے بلڈ پریشر پر چوبیس گھنٹے قابو رکھیں، روزانہ ورزش کریں۔ اپنی غذا میں چربی اور ٹرانس فیٹ میں کمی لانا فالج کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ میٹھی چیزوں اور چکنائی کا استعمال کم کریں، تمباکونوشی ختم کریں۔
پھلوں کا استعمال، سبزیوں، مچھلی، بغیر چربی والا گوشت اور اجناس پر مبنی متوازن غذا کھائیں۔ زیادہ سیب کھائیں۔ ٹماٹر کا استعمال بڑھادیں۔ نمک کا استعمال کم کریں۔ فالج کے علاج کے لیے سب سے بہترین بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھیں، صفائی کا خاص خیال رکھیں۔