خطرناک مجرم فرار ہونے میں کامیاب

پہلا ڈرامہ پیش خدمت ہے ’’جیل کو فرار‘‘… نوٹ کر لیجیے ’’جیل سے فرار‘‘ نہیں بلکہ ’’جیل کو فرار‘‘

barq@email.com

ہمارے ناظرین کا اصرار تھا کہ چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' ویسے تو بڑے زوروں سے چل رہا ہے لیکن اس میں ایک کمی ہے ڈرامے کی... اگر ڈرامہ بھی ہو جائے تو چینل کو کم از کم سولہ چاند تو لگ ہی جائیں.

لیجیے وہ کمی بھی آج پوری کی جا رہی ہے پہلا ڈرامہ پیش خدمت ہے ''جیل کو فرار''... نوٹ کر لیجیے ''جیل سے فرار'' نہیں بلکہ ''جیل کو فرار'' یعنی ایک شخص جو بالآخر ''جیل کو فرار'' ہونے میں کامیاب ہو گیا، ڈرامے کے رائٹر ہیں جناب ''فاقہ مست پیاسا'' اور اسے پیش کر رہے ہیں جناب شکم خان بسیار خور، ڈرامے کی اوپننگ جیل کے ایک دروازے سے ہوتی ہے دروازہ آہستہ آہستہ کھلتا ہے پہلے اس میں ایک ناک نظر آتی ہے ایک ایسی ناک کہ ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ اس ناک سے لگا ہوا چہرہ دکھائی دیتا ہے جو مکمل طور پر خدا ماروں کا چہرہ ہے، چہرے کا درشن ہوتے ہی پورا جسم سین میں ان ہو جاتا ہے اور نہایت ہی سلوٹ دار لباس اور جسم والا ہیرو باہر آتا ہے چند لمحے کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھتا ہے لیکن

بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے

کوئی بھی اسے خوش آمدید کہنے والا نہیں ہے چنانچہ آہستہ قدمی سے ایک طرف بڑھ جاتا ہے۔
...............
دوسرے سین میں سب سے پہلے ایک بورڈ دکھائی دیتا ہے جس پر نہایت ہی گندے حروف میں... لکھا ہوا ہے ویل کم ٹو ناپرسان... ناپرسان میں خوش آمدید، کیمرہ نیچے زوم کرتا ہے تو ایک چیک پوسٹ ہے جس پر چار پانچ درجن لوگ اس قیدی پر خطرناک ہتھیار تانے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک ''اہل کار'' اس کی تلاشی لے رہا ہے پہلے اس کے جسم کو ٹٹولا جاتا ہے اس کے بعد لباس اتروا کر اچھی طرح جھاڑا جاتا ہے اس کے بعد اس کی ناک کے اندر جھانکا جاتا ہے کانوں کی تلاشی لی جاتی ہے اور منہ کھلوا کر اندر حلق میں بھی جھانکا جاتا ہے، اس کے بعد اہل کار ایک میز پر بیٹھ جاتا ہے جس پر کچھ کاغذات اور جیب کا سامان رکھا ہوتا ہے ان کاغذات وغیرہ کو الٹ پلٹ شناختی کارڈ اٹھاتا۔
اہل کار: یہ تمہارا ہے۔
قیدی: تصویر میری ہے تو میرا ہی ہو گانا ۔
اہل کار: ضروری نہیں ہو سکتا ہے کہ کسی اور کے کارڈ پر تم نے اپنی تصویر چپکا دی ہو۔
قیدی: میں ابھی ابھی جیل سے چھوٹا ہوں اور جیل میں اس قسم کی سہولیات موجود نہیں۔
اہل کار: کیا کرنے گئے تھے جیل۔
قیدی: شادی کرنے گیا تھا، جیل کوئی کس لیے جاتا ہے۔
اہل کار: کس جرم میں گئے تھے۔
قیدی: کوئی جرم نہ کرنے کے جرم میں۔
اہل کار: کتنی سزا ہوئی تھی۔
قیدی: چودہ سال ۔
اہل کار: یہ شناختی کارڈ کیوں لیے پھرتے ہو ساتھ۔
اتنے میں ایک اور اہل کار آ کر اس اہل کار کے کان میں سرگوشی کرتا ہے ۔
اہلکار 2: (سرگوشی میں) شناختی کارڈ لیے پھرنے کا مطلب ہے کہ یہ شخص خود کو شک سے بالاتر کر کے اندر گھسنا چاہتا ہے!
اہل کار: ہوں... عام طور پر لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتا اور تمہارے پاس ہے اس کا مطلب ہے کہ تم پر کوئی شک نہ کیا جائے اور تم آرام سے شہر کے اندر گھس کر تخریب کاری کر سکو۔
قیدی: میرے پاس تخریب کاری کے لیے کیا ہے تم نے تو میری تلاشی لی ہے کچھ نکلا ہے۔
اہل کار: یہی تو سب سے زیادہ شک کرنے والی بات ہے ہو سکتا ہے کہ تمہارا باڈی واش ڈریس واش اور برین واش کر کے بھیجا گیا ہو۔
قیدی: اچھا پھر؟
اہل کار : پھر یہ کہ تم اندر نہیں جا سکتے۔
قیدی: نہیں جا سکتے۔
اہل کار: نہیں۔

قیدی: کپڑے تو پہن سکتا ہوں۔
اہل کار: ہاں پہن لو... قیدی اپنا سامان اٹھا کر پہننے لگتا ہے اہل کار کی توجہ دوسری طرف ہے قیدی لباس پہن کر اچانک دوڑ پڑتا ہے۔
پکڑو...پکڑو... جانے نہ پائے... فائر ۔
سارے ہتھیار بند فائر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی بھی بندوق یا کلاشن کوف سے فائر نہیں ہوتا، اور قیدی بھاگ جاتا ہے، سارے اہل کار اپنے اپنے ہتھیاروں کو شرمندگی سے دیکھتے ہیں اہل کار سب کو ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے '' کوئی بات نہیں سرکاری کام ہے اور اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں''
...............
وہی قیدی ایک اور چیک پوسٹ پر اسلحہ میں گھرا کھڑا اسی مرحلے سے گزر رہا ہے تلاشی کے بعد سوال و جواب ہوتا ہے۔
اہل کار: تمہارے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔
قیدی: بھول گیا ہوں۔
اہل کار: بھولے نہیں ہو تخریب کاری کے لیے آئے ہو۔
قیدی: مگر میرے پاس ہے کیا تخریب کاری کے لیے۔
اہل کار: ابھی پتہ چل جاتا ہے دوبارہ تلاشی لو... دوبارہ تلاشی لی جاتی ہے ایک اہل کار جو ٹارچ سے اس کی ناک حلق اور کانوں کے اندر روشنی ڈال کر تلاشی لے رہا ہے اچانک چلا اٹھتا ہے ۔
اہل کار 2: سر سر یہاں کچھ ہے، قیدی کے کان میں دیکھتے ہوئے بتاتا ہے، پہلا افسر اہل کار اٹھ کر کان میں دیکھتا ہے۔
اہل کار: اندر کچھ تو ہے۔
قیدی: میل ہو گا کافی عرصے سے میں نے کان صاف نہیں کیے ہیں۔
اہل کار: بارود بھی ہو سکتا ہے ۔
قیدی: اتنے سے بارود سے کیا ہو گا۔
اہل کار: ہو سکتا ہے تمہارے اور بھی ساتھی ہوں اور سارے اتنا اتنا بارود اپنے کانوں میں لے جا شہر کے اندر اکٹھا کریں تو۔
قیدی: دیکھو خدا کے بندو... میں ابھی ابھی سے چھوٹا ہوں اپنے بال بچوں کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں خدا کے لیے مجھے جانے دو۔
اہل کار: بالکل بھی نہیں شناختی کارڈ کے بغیر کوئی بھی اندر نہیں جا سکتا۔
قیدی: وہ شناختی کارڈ ہونے پر پکڑتے اور یہ نہ ہونے پر...
اہل کار: کیا بڑبڑا رہے ہو۔
قیدی: اپنے آپ کو کوس رہا ہوں۔
اہل کار: نہیں تم ضرور مملکت ناپرستان کی حکومت کو کوس رہے ہو اور یہ سنگین جرم ہے لے جاؤ اسے...
قیدی اچانک خود کو چھڑا کر ایک طرف بھاگ جاتا ہے۔
...............
اس سین میں قیدی آگے آگے بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے تعاقب کرنے والوں کا ایک اژدہام ہے جس میں وردی والے اور بے وردی کے اہل کار بھی ہیں، سب کی پشت پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہے بارودی اہل کاروں کی پیٹھ پر تو ''قانون'' لکھا ہوا ہے، سول ڈریس والوں میں کسی کی پیٹھ پر دکاندار لکھا ہوا ہے کسی کی پیٹھ پر سرکار لکھا ہوا ہے کسی کی پیٹھ پر مہنگائی لکھا ہوا ہے کوئی ویسے ہی ڈنڈے لیے اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے، سامنے اسی جیل کا دروازہ ہے قیدی اس دروازے پر پہنچ کر پہرہ داروں سے دروازہ کھولنے کے لیے کہتا ہے وہ دروازہ نہیں کھولتے لیکن یہ ذیلی کھڑکی سے اندر گھسنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اندر پہنچ کر ہانپتا ہے... اسکرین پر الفاظ ابھرتے ہیں۔
جاں بچی سو لاکھوں پائے
خیر سے بدھو گھر کو آئے
پھر اسکرین پر اخبارات اور اس کی شہ سرخیاں ابھرتی ہیں۔
خطرناک مجرم فرار ہونے میں کامیاب۔
تخریب کار فرار ہو گیا۔
فرار مجرم کی تلاش جاری۔
Load Next Story