حقیقی آزادی کے کھلے عام نظارے
14 اگست 1947 کو بانی پاکستان نے ہمیں آزادی دلا دی تھی جس کی ہم نے قدر نہ کی اور 1971 میں ملک دولخت ہو گیا
ہر سیاسی جماعت خصوصاً پی ٹی آئی نے قوم کو نئے پاکستان کا خواب دکھایا تھا جس میں ملک میں پچاس لاکھ نئے گھر حکومت نے بنوانے اور ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینی تھیں۔
سابق حکومت میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا جواب اس طرح دیا گیا کہ متعدد ادارے بند ہو گئے اور سیکڑوں افراد بے روزگار ہوئے، کچھ عرصہ بعد ایک وزیر صاحب نے کہا کہ ہمارے قائد نے سرکاری نوکریاں دینے کا کہا ہی نہیں تھا پھر کچھ عرصے بعد اسی وزیر کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ملک اور بیرون ملک لاکھوں کی تعداد میں نوکریاں دے دی گئی ہیں۔
سابق حکومت کے خاتمے اور اتحادی حکومت کے ایک سال میں مہنگائی، بے روزگاری سے متاثر ہو کر خودکشیوں کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس کی خبریں میڈیا میں مسلسل آ رہی ہیں۔
اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملکی معیشت کی تباہی اور ملکی بدحال صورت حال کا ذمے دار اتحادی حکومت سابق کو قرار دے رہی ہے جس کا اعتراف یا تردید کرنے کے بجائے سابق حکومت کے کرتا دھرتااپنی برطرفی میں امریکا سمیت ملک کے بعض اداروں کے ذمے داروں کو قرار دے کر قوم کو امریکا کے مزید خلاف کرکے قوم کے جذبات کو ابھارا اور نیا نعرہ حقیقی آزادی کا دیا کہ قوم انھیں اقتدار میں دوبارہ لائے اور حقیقی آزادی کا لطف اٹھائے۔
ایک سال مسلسل سڑکوں پر حقیقی آزادی مارچ کر کے درجنوں جلسوں پر اربوں روپے خرچ اور اپنی دو صوبائی حکومتیں ختم کرا کراب بھی منفی سیاست کو جاری کر رکھا ہے اور ملک و قوم کو جس حقیقی آزادی کا خواب دکھایا تھا۔
اس کی تعبیر تو ان کے سابق ہوتے ہی آنا شروع ہوگئی تھی اور حقیقی آزادی کا عملی مظاہرہ قوم نے 9 مئی کو دیکھ لیا اور گمراہ لوگوں کے ہجوم نے آزادی سے وہ کر دکھایا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حقیقی آزادی کے حامیوں نے پہلی بار سرکاری املاک سے زیادہ دفاعی حساس مقامات، فوجی شہدا کی یادگاروں، تصاویر، فضائی ہیرو محمد عالم خان کے تاریخی جہاز، کرنل شیرخان کے مجسمے، ایٹم بم کی یادگار چاغی ماڈل، ایف سی اسکول تیمرگرہ پر حملہ اور تباہی پھیلا کر جشن منایا۔
دفاعی اداروں کی املاک جلانے والوں نے باقی کسر ریڈیو پاکستان پشاور، ایدھی ایمبولینس، پولیس کی موبائلوں اور ایک مسجد کو جلا کر پوری کردی اور 9 مئی کے شرم ناک نقصانات سے اس ملک کو اربوں روپے کا مالی اور جانی نقصان پہنچا دیا جو ملک قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے قدموں میں پڑا خوش آمد کر رہا ہے مگر امریکا کے زیر اثر مالی ادارہ توجہ ہی نہیں دے رہا اور سمجھ رہا ہے کہ جس ملک میں ایک سیاستدان کے حامی ایک دن میں اپنے ملک کا اربوں روپے کا نقصان کر دکھائیں انھیں ہمارے مزید قرضے کی کیا پرواہ، ان کی آنے والی نسل بھی پہلے سے ہی ہماری مقروض ہے تو ہم مزید قرضہ کس امید پر دیں۔
14 اگست 1947 کو بانی پاکستان نے ہمیں آزادی دلا دی تھی جس کی ہم نے قدر نہ کی اور 1971 میں ملک دولخت ہو گیا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو صاحب بہت مقبول تھے جو بعد میں پھانسی چڑھا دیے گئے اور عدالتی مقتول کہلائے مگر پی پی کے جیالوں نے اپنے رہنما کی پھانسی پھر بے نظیر بھٹو کے قتل پر اس حقیقی آزادی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جو ایک لیڈر کے شیدائیوں نے کر دکھایا اور حکومت کو موقعہ دیا کہ وہ 9 مئی کو قومی سطح پر یوم سیاہ کے طور منانے کا اعلان کیا کرے جب کہ اتحادی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) ہر سال 28 مئی کو یوم تکبیر تو پہلے سے ہی منا رہی ہے۔
12 مئی کی بھی ملک میں اہمیت تھی مگر 9 مئی کو حقیقی آزادی کا اظہار کرنے والوں نے اربوں روپے کا نقصان کرکے حقیقی آزادی کے حقیقی مظاہرے کر دکھائے۔ 14 اگست کی آزادی پر لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا تھا اور 9 مئی کو اربوں روپے کا مالی نقصان ہی نہیں بلکہ ملک کی حفاظت کے لیے قربانی دینے والوں کی ناقدری و احسان فراموشی کرنے والوں نے ہماری آزادی کے ازلی دشمن بھارت میں بھی جشن منوا دیا جس کی توقع وہ 75 سالوں سے کر رہا تھا اور 9 مئی کو ایک فرد اور ان کے عقیدت مندوں نے کر دکھایا۔
9 مئی 2023 کی حقیقی آزادی کے مظاہرے بھی قوم نے دیکھے ۔ حکومت اگر 9 مئی کو انٹرنیٹ سروس بند نہ کرتی تو معاملات زیادہ بگڑ جاتے۔۔بڑی عمر کے رہنماؤں کی یہ اشتعال انگیزیاں ہوں تو جوان نظر آنے والے رہنماؤں سے اچھائی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
جنھوں نے کارکنوں کو تشدد پر ابھارا ۔ ہمیں آزادی تو پہلے ہی مکمل حاصل تھی کرپشن، مہنگائی، لوٹ مار، اقربا پروری، خونریزی اور جانی و مالی دہشت گردی، مذہبی تفرقہ بازی اور ملک و قوم کو لوٹنے کا ریکارڈ تو ہم پہلے بھی قائم کرچکے ہیں تو اب ہمیں مزید کون سی آزادی چاہیے۔ 9 مئی کو ہماری اقدار کا جنازہ تو پہلے ہی نکل چکا اب مزید کیا باقی ہونا رہ گیا ہے۔
سابق حکومت میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا جواب اس طرح دیا گیا کہ متعدد ادارے بند ہو گئے اور سیکڑوں افراد بے روزگار ہوئے، کچھ عرصہ بعد ایک وزیر صاحب نے کہا کہ ہمارے قائد نے سرکاری نوکریاں دینے کا کہا ہی نہیں تھا پھر کچھ عرصے بعد اسی وزیر کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ملک اور بیرون ملک لاکھوں کی تعداد میں نوکریاں دے دی گئی ہیں۔
سابق حکومت کے خاتمے اور اتحادی حکومت کے ایک سال میں مہنگائی، بے روزگاری سے متاثر ہو کر خودکشیوں کا جو سیلاب آیا ہوا ہے اس کی خبریں میڈیا میں مسلسل آ رہی ہیں۔
اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملکی معیشت کی تباہی اور ملکی بدحال صورت حال کا ذمے دار اتحادی حکومت سابق کو قرار دے رہی ہے جس کا اعتراف یا تردید کرنے کے بجائے سابق حکومت کے کرتا دھرتااپنی برطرفی میں امریکا سمیت ملک کے بعض اداروں کے ذمے داروں کو قرار دے کر قوم کو امریکا کے مزید خلاف کرکے قوم کے جذبات کو ابھارا اور نیا نعرہ حقیقی آزادی کا دیا کہ قوم انھیں اقتدار میں دوبارہ لائے اور حقیقی آزادی کا لطف اٹھائے۔
ایک سال مسلسل سڑکوں پر حقیقی آزادی مارچ کر کے درجنوں جلسوں پر اربوں روپے خرچ اور اپنی دو صوبائی حکومتیں ختم کرا کراب بھی منفی سیاست کو جاری کر رکھا ہے اور ملک و قوم کو جس حقیقی آزادی کا خواب دکھایا تھا۔
اس کی تعبیر تو ان کے سابق ہوتے ہی آنا شروع ہوگئی تھی اور حقیقی آزادی کا عملی مظاہرہ قوم نے 9 مئی کو دیکھ لیا اور گمراہ لوگوں کے ہجوم نے آزادی سے وہ کر دکھایا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حقیقی آزادی کے حامیوں نے پہلی بار سرکاری املاک سے زیادہ دفاعی حساس مقامات، فوجی شہدا کی یادگاروں، تصاویر، فضائی ہیرو محمد عالم خان کے تاریخی جہاز، کرنل شیرخان کے مجسمے، ایٹم بم کی یادگار چاغی ماڈل، ایف سی اسکول تیمرگرہ پر حملہ اور تباہی پھیلا کر جشن منایا۔
دفاعی اداروں کی املاک جلانے والوں نے باقی کسر ریڈیو پاکستان پشاور، ایدھی ایمبولینس، پولیس کی موبائلوں اور ایک مسجد کو جلا کر پوری کردی اور 9 مئی کے شرم ناک نقصانات سے اس ملک کو اربوں روپے کا مالی اور جانی نقصان پہنچا دیا جو ملک قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے قدموں میں پڑا خوش آمد کر رہا ہے مگر امریکا کے زیر اثر مالی ادارہ توجہ ہی نہیں دے رہا اور سمجھ رہا ہے کہ جس ملک میں ایک سیاستدان کے حامی ایک دن میں اپنے ملک کا اربوں روپے کا نقصان کر دکھائیں انھیں ہمارے مزید قرضے کی کیا پرواہ، ان کی آنے والی نسل بھی پہلے سے ہی ہماری مقروض ہے تو ہم مزید قرضہ کس امید پر دیں۔
14 اگست 1947 کو بانی پاکستان نے ہمیں آزادی دلا دی تھی جس کی ہم نے قدر نہ کی اور 1971 میں ملک دولخت ہو گیا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو صاحب بہت مقبول تھے جو بعد میں پھانسی چڑھا دیے گئے اور عدالتی مقتول کہلائے مگر پی پی کے جیالوں نے اپنے رہنما کی پھانسی پھر بے نظیر بھٹو کے قتل پر اس حقیقی آزادی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جو ایک لیڈر کے شیدائیوں نے کر دکھایا اور حکومت کو موقعہ دیا کہ وہ 9 مئی کو قومی سطح پر یوم سیاہ کے طور منانے کا اعلان کیا کرے جب کہ اتحادی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) ہر سال 28 مئی کو یوم تکبیر تو پہلے سے ہی منا رہی ہے۔
12 مئی کی بھی ملک میں اہمیت تھی مگر 9 مئی کو حقیقی آزادی کا اظہار کرنے والوں نے اربوں روپے کا نقصان کرکے حقیقی آزادی کے حقیقی مظاہرے کر دکھائے۔ 14 اگست کی آزادی پر لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا تھا اور 9 مئی کو اربوں روپے کا مالی نقصان ہی نہیں بلکہ ملک کی حفاظت کے لیے قربانی دینے والوں کی ناقدری و احسان فراموشی کرنے والوں نے ہماری آزادی کے ازلی دشمن بھارت میں بھی جشن منوا دیا جس کی توقع وہ 75 سالوں سے کر رہا تھا اور 9 مئی کو ایک فرد اور ان کے عقیدت مندوں نے کر دکھایا۔
9 مئی 2023 کی حقیقی آزادی کے مظاہرے بھی قوم نے دیکھے ۔ حکومت اگر 9 مئی کو انٹرنیٹ سروس بند نہ کرتی تو معاملات زیادہ بگڑ جاتے۔۔بڑی عمر کے رہنماؤں کی یہ اشتعال انگیزیاں ہوں تو جوان نظر آنے والے رہنماؤں سے اچھائی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
جنھوں نے کارکنوں کو تشدد پر ابھارا ۔ ہمیں آزادی تو پہلے ہی مکمل حاصل تھی کرپشن، مہنگائی، لوٹ مار، اقربا پروری، خونریزی اور جانی و مالی دہشت گردی، مذہبی تفرقہ بازی اور ملک و قوم کو لوٹنے کا ریکارڈ تو ہم پہلے بھی قائم کرچکے ہیں تو اب ہمیں مزید کون سی آزادی چاہیے۔ 9 مئی کو ہماری اقدار کا جنازہ تو پہلے ہی نکل چکا اب مزید کیا باقی ہونا رہ گیا ہے۔