ہم دیکھیں گے
یہ خوبصورت نظم اقبال بانو نے کیا خوب گائی ہے کہ حق ادا کردیا ہے
کسی شاعر نے کہا ہے:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا بات کیجیے اور کس سے کیجیے؟ ہر طرف ایک ہی رونا ہے، مہنگائی اور سیاست مہنگائی نے لوگوں کے چودہ طبق روشن کر رکھے ہیں۔
سیاست دانوں اور حکمرانوں کا سارا زور بیان بازی پر ہے تاکہ ایک دوسرے کو کک آؤٹ کیا جاسکے، اتحادی حکومت معاشی میدان میں تاحال مطلوبہ رزلٹ حاصل نہیں کر پائی ہے، اگر حکومت ڈالر کو نیچے لانے میں اور مہنگائی کم کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو لوگ خود ہی ان کے حلقہ بگوش ہو جاتے، کیونکہ روٹی بنیادی حق ہے۔ رہ گئی سیاست تو بہت پہلے کسی شاعر نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا کہ:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اسی سیاست کی وجہ سے آج لوگوں میں نفرت بڑھ رہی ہے، لوگ باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں، قوت برداشت ختم ہوگئی ہے، حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کی ساری توجہ صرف اقتدار کے حصول کے لیے ہے۔
اسی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے، ہر دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں بڑھا رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، دودھ، دہی، گوشت، چکن، پھل، آٹا، چاول، دالیں، کپڑا لتہ، غرض یہ کہ ہر شے کی قیمتیں ہوش بڑھ رہی ہیں، اور اہل اقتدار کا زور صرف اقتدار کی رسہ کشی پر ہے۔
کتنے سادہ اور معصوم ہیں یہ گائے کے سے سادہ اور سیدھے لوگ، جنھیں کوئی بقراط نہ ملا یہ بتانے کے لیے کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے صرف مہنگائی پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
ابھی تک آئی ایم ایف سے حتمی معاہدہ نہ ہوپایا، اوپر سے بجٹ کی آمد آمد ہے اور حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا نعرہ بھی لگا دیا ہے لیکن عام آدمی ابھی ان باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔رہ گئی بات جمہوریت کی تو اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک نوزائیدہ بچے کو پیدا ہوتے ہی نمک مرچ اور مسالے نہیں کھلاتے بلکہ آہستہ آہستہ عمر کے ساتھ ساتھ ان سب چیزوں کا عادی بنایا جاتا ہے، ہمارا ملک جمہوریت کی مار نہیں سہہ سکتا، جہاں وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے ہاتھ میں عنان حکومت ہو، جہاں آمریت کا ایک لمبا دور گزرا ہو، وہاں جمہوریت کا پودا کبھی پنپ نہیں سکتا، جمہوریت تو یہاں کبھی آئی ہی نہیں اور نہ کبھی آئے گی، اس ملک کا جمہوری منظرنامہ یہ ہے کہ سیاسی دائرہ بنایا ہوتاہے۔
اس دائرے میں ایک چھوٹا سا دائرہ اور ہوتا ہے، جس میں ایک چھوٹی سی کرسی رکھی ہے، اس کرسی پر ایک شخص کو بٹھا دیا جاتا ہے، دائرے کے باقی بڑے حصے میں اصل حکمران عیش کرتے ہیں، کبھی غلطی سے اس کرسی پہ بیٹھے شخص نے ہاتھ اٹھا کر انگڑائی لینے کی کوشش کی تو نیا بندہ کرسی پہ لاکر بٹھا دیا جاتا ہے ۔
بنگلہ دیش 1971 میں بنا اور آج اس کی معیشت ہم سے کئی گنا بہتر ہے، ان کا ''ٹکا'' ہماری کرنسی کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہے۔
چلیے آج آپ کو فیض کے کچھ اشعار سناتی ہوں، فیض صاحب 1984 میں وفات پاگئے تھے لیکن یہ اشعار دیکھیے تو لگتا ہے کہ آج کی صورت حال کا عکس ہیں:
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جب دریا جھوم کے اٹھیں گے' تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
٭٭٭
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے' جسم و جاں بچا کے چلے
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
٭٭٭
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھینچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردش اسیراں ہے
نہ سنگ میل نہ منزل نہ مخلصی کی سبیل
٭٭٭
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
٭٭٭
ہاں تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
٭٭٭
کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے
آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے
٭٭٭
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
وہ راہ ازل میں لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت اچھالے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
یہ خوبصورت نظم اقبال بانو نے کیا خوب گائی ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ کئی کئی بار سننے کے بعد بھی جی نہیں بھرتا۔
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا بات کیجیے اور کس سے کیجیے؟ ہر طرف ایک ہی رونا ہے، مہنگائی اور سیاست مہنگائی نے لوگوں کے چودہ طبق روشن کر رکھے ہیں۔
سیاست دانوں اور حکمرانوں کا سارا زور بیان بازی پر ہے تاکہ ایک دوسرے کو کک آؤٹ کیا جاسکے، اتحادی حکومت معاشی میدان میں تاحال مطلوبہ رزلٹ حاصل نہیں کر پائی ہے، اگر حکومت ڈالر کو نیچے لانے میں اور مہنگائی کم کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو لوگ خود ہی ان کے حلقہ بگوش ہو جاتے، کیونکہ روٹی بنیادی حق ہے۔ رہ گئی سیاست تو بہت پہلے کسی شاعر نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا کہ:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اسی سیاست کی وجہ سے آج لوگوں میں نفرت بڑھ رہی ہے، لوگ باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں، قوت برداشت ختم ہوگئی ہے، حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کی ساری توجہ صرف اقتدار کے حصول کے لیے ہے۔
اسی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے، ہر دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں بڑھا رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، دودھ، دہی، گوشت، چکن، پھل، آٹا، چاول، دالیں، کپڑا لتہ، غرض یہ کہ ہر شے کی قیمتیں ہوش بڑھ رہی ہیں، اور اہل اقتدار کا زور صرف اقتدار کی رسہ کشی پر ہے۔
کتنے سادہ اور معصوم ہیں یہ گائے کے سے سادہ اور سیدھے لوگ، جنھیں کوئی بقراط نہ ملا یہ بتانے کے لیے کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے صرف مہنگائی پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
ابھی تک آئی ایم ایف سے حتمی معاہدہ نہ ہوپایا، اوپر سے بجٹ کی آمد آمد ہے اور حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا نعرہ بھی لگا دیا ہے لیکن عام آدمی ابھی ان باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔رہ گئی بات جمہوریت کی تو اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک نوزائیدہ بچے کو پیدا ہوتے ہی نمک مرچ اور مسالے نہیں کھلاتے بلکہ آہستہ آہستہ عمر کے ساتھ ساتھ ان سب چیزوں کا عادی بنایا جاتا ہے، ہمارا ملک جمہوریت کی مار نہیں سہہ سکتا، جہاں وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے ہاتھ میں عنان حکومت ہو، جہاں آمریت کا ایک لمبا دور گزرا ہو، وہاں جمہوریت کا پودا کبھی پنپ نہیں سکتا، جمہوریت تو یہاں کبھی آئی ہی نہیں اور نہ کبھی آئے گی، اس ملک کا جمہوری منظرنامہ یہ ہے کہ سیاسی دائرہ بنایا ہوتاہے۔
اس دائرے میں ایک چھوٹا سا دائرہ اور ہوتا ہے، جس میں ایک چھوٹی سی کرسی رکھی ہے، اس کرسی پر ایک شخص کو بٹھا دیا جاتا ہے، دائرے کے باقی بڑے حصے میں اصل حکمران عیش کرتے ہیں، کبھی غلطی سے اس کرسی پہ بیٹھے شخص نے ہاتھ اٹھا کر انگڑائی لینے کی کوشش کی تو نیا بندہ کرسی پہ لاکر بٹھا دیا جاتا ہے ۔
بنگلہ دیش 1971 میں بنا اور آج اس کی معیشت ہم سے کئی گنا بہتر ہے، ان کا ''ٹکا'' ہماری کرنسی کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہے۔
چلیے آج آپ کو فیض کے کچھ اشعار سناتی ہوں، فیض صاحب 1984 میں وفات پاگئے تھے لیکن یہ اشعار دیکھیے تو لگتا ہے کہ آج کی صورت حال کا عکس ہیں:
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جب دریا جھوم کے اٹھیں گے' تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
٭٭٭
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے' جسم و جاں بچا کے چلے
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
٭٭٭
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھینچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردش اسیراں ہے
نہ سنگ میل نہ منزل نہ مخلصی کی سبیل
٭٭٭
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
٭٭٭
ہاں تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
٭٭٭
کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے
آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے
٭٭٭
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
وہ راہ ازل میں لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت اچھالے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
یہ خوبصورت نظم اقبال بانو نے کیا خوب گائی ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ کئی کئی بار سننے کے بعد بھی جی نہیں بھرتا۔