قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا
قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا ہو گیا ہے جو خوش آیند بات ہے اور اس میں وزیر خزانہ کا اہم کردار ہے
نیک جذبے انسان کے وجود میں ایک خوبصورت لہرکو جنم دیتے ہیں، ہمیں امیدوں کے چراغ کو بجھانا نہیں ہے۔
پچھلے دنوں 80 برس کے ایک بزرگ نے پریس کلب سے میرا نمبر لے لیا اور مجھ سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ آپ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ضرورت اور اہمیت پر حکام بالا کی توجہ مبذول کروانے کے لیے کالم لکھیں، میں نے ''اسلامی سرٹیفکیٹ'' کے حوالے سے جب کالم لکھا تو ایڈیٹر طاہر نجمی(مرحوم) نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔
ذاتی طور پر ایسے عمر رسیدہ افراد کو جانتا ہوں جنھوں نے ساری عمر نیکی، ہمت و استقامت سے زندگی گزاری ان میں ریٹائرڈ پنشنر، انکم ٹیکس کمشنر، پروفیسر، ادیب، گورنمنٹ اسپتالوں میں FRCS ڈاکٹر غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی آنکھوں میں نمی دیکھی کہ ساری عمر نیکی کے ساتھ اکتاہٹ کا سفر ہیجانی کیفیت ذہنی افراتفری، معاشرے کی پیچیدگیاں دیکھیں مگر کبھی رشوت اور معاشی مسائل کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا بلکہ عزم و استقلال سے پاکستان کی بقا اور اسلام کے احکامات پر عمل کیا پھر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا۔
اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر پرافٹ نہ ہونے کے برابر تھا، اگر نیکی کا راستہ اختیارکرنا تھا تو اسلامی سرٹیفکیٹ میں معقول معاوضے دیتے جو عمر رسیدہ فرد 6 لاکھ بھی جمع پونجی جمع کراتا اسے زیادہ تر 450 روپے ایک لاکھ پر دیے گئے جو 2700 روپے بنتے ہیں۔
اب ان 2700 روپے میں وہ کیسے زندگی بسر کر سکتا تھا؟ اس نے پھر قومی بچت کا رخ کیا جو مکمل سود پر مشتمل تھا ساری عمر نیکی کے ساتھ یہ عمر رسیدہ دیدہ دلیری سے لڑتے رہے مگر جب یہ قبر کے نزدیک آئے تو بے چارے مجبور ہوکر سود کی ٹرین میں سوار ہوگئے اور پھر مختلف حکومتوں نے ان عمر رسیدہ حضرات کے پرافٹ میں کمی کردی جن سے ان کی زندگی سود کی وجہ سے عذاب میں تھی پھر دنیا کا عذاب بھی خوب دیکھا۔
راقم نے سود کے خلاف صرف بینرز دیکھے اس سے سود کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ عمر رسیدہ افراد کم معاوضے کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے پھر ایک نیک سیرت ایماندار رب کا نیک بندہ تاریخ اور ثقافت کا بادشاہ باضابطہ ذمے دار ان کی شخصیت پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔
نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور پریس کوبہت عزت دی اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے درخواست ہے کہ میرے بارے میں یا کابینہ کے بارے میں نہ لکھیں بلکہ قومی مسائل کو اجاگر کریں اور مجھے پتا چلے کہ میرے عوام کس مشکل میں ہیں یہ میری ذمے داری ہے کہ میں قوم کے مسائل پر توجہ دوں پھر رب نے ان کے دل میں رحم ڈال دیا اور انھوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ایک لاکھ پر سینئر سٹیزن کو 1500 روپے ماہانہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ ان کے انتقال پر عام عمر رسیدہ افراد کو میں نے مایوسی میں روتے دیکھا ہے، میں گواہ ہوں ان کے انتقال کے کچھ عرصے کے بعد پھر سیاسی فیشن کے تحت اس کا معاوضہ کم کرکے عمر رسیدہ افراد کو 880 اور 860 روپے دیے گئے۔
بھلا بتائیے 60 سال کی عمر میں تو انسان بیماریوں کے دریا نہیں بلکہ سمندر میں اتر جاتا ہے جب تک معراج خالد مرحوم نگران وزیر اعظم رہے انھوں نے باقاعدہ سینئر سٹیزن کو 1500 روپے دیے پھر ان کے جانے کے بعد سیاسی افراتفری نے ان سینئر سٹیزن کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا اور یہ مفلوک الحال بے سرو ساماں عمر رسیدہ لوگ اداس رنگ کے کنوئیں میں ڈوب گئے پرافٹ کا یہ عالم رہا کہ اسے کم کرکے 880 روپے کردیا گیا اور جنھوں نے یہ اقدام اٹھایا وہ مراعات کی گاڑیوں میں رواں دواں ہوتے رہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت ان عمر رسیدہ لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتی نہ ان کو میڈیکل کی سہولت ہے نہ ریلوے میں کوئی مراعات ہیں نہ ہوائی سفر میں ان کو کوئی مراعات حاصل ہیں۔ ہاں یہ سیاسی لوگ اپنے بیانات کے تحت یورپ کی مثالیں دیتے ہیں جب کہ یورپ کے قوانین کو بھول جاتے ہیں۔
یہ آج بھی تعلیم یافتہ عمر رسیدہ لوگوں کو عقل سے پیدل سمجھتے ہیں، یہ قابل مذمت فعل ہے اہل سیاست عمر رسیدہ لوگوں پر توجہ دیں۔ یہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جب کہ ہماری اسمبلی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد سیکڑوں میں ہے مگر اپنی بقا کا خیال رکھتے ہیں۔ سیاسی طور پر بے مقصد تصادم میں وقت کا ضیاع ہو رہا ہے۔
سابقہ حکومت میں ای او بی آئی میں 8500 دیے گئے جب کہ کئی سال تک 5250 روپے دیے گئے اب بھی اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت آئی تو ہم ای او بی آئی میں 15000 دیں گے یہ بات تو حالیہ حکومت کو سوچنی چاہیے۔
عمر رسیدہ افراد اپنے مقدس دامن کو سود سے صرف اس لیے رنگ رہے تھے کہ ان کے پاس اس بانجھ سفر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ویسے تو پاکستان میں اور بین الاقوامی طور پر اپنی خدمات کے لیے زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں اشیائے خور و نوش کے دام بے لگام ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دنوں قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا ہے جس میں (ثروا اسلامک سیونگ اکاؤنٹ) کا اجرا کیا گیا ہے، اس کی شرح متوقع 19.50 دی گئی ہے جس میں ٹیکس کاٹ کر تقریباً 1350 روپے ماہانہ دیے جائیں گے۔ وزیر خزانہ سے مودبانہ گزارش ہے کہ عمر رسیدہ افراد کو ٹیکس سے مستثنیٰ قراردیں۔
میں تہہ دل سے وزیر خزانہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرکے انھوں نے عمر رسیدہ افراد کے دل جیت لیے ہیں اور ان کا یہ کام نیکی کے زمرے میں آئے گا۔ ماضی میں جب راقم نے روزنامہ ایکسپریس میں آرٹیکل لکھا تھا۔
قومی بچت میں اسلامک سرٹیفکیٹ کا اجرا کیجیے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم جواد صاحب نے اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد باقاعدہ کہا تھا کہ روزنامہ ایکسپریس نے ہمیشہ قارئین کے لیے بصیرت افروز تحریریں شایع کی ہیں اور ان کے اس بیان کو کراچی کے اخبارات نے نمایاں کوریج دی تھی۔
اب قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا ہو گیا ہے جو خوش آیند بات ہے اور اس میں وزیر خزانہ کا اہم کردار ہے وہ تین مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں چونکہ ان کے اس فیصلے نے عمر رسیدہ افراد کے دل جیت لیے ہیں کیونکہ اسلام ہمیں سود سے برملا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کرتا ہے۔
اس کے علاوہ مقابلے کی دوڑ کا آغاز ہوگا جب قومی بچت ماہانہ تقریباً 1380 روپے دے گا تو نجی بینکوں کی اجارہ داری بھی ختم ہوگی۔ قومی بچت حکومت پاکستان کا معزز ادارہ ہے اور عوام ان پر بھروسہ کرتے ہیں اب تو اگر کسی نجی بینک نے اسلامی سرٹیفکیٹ میں ماہانہ 1500 روپے یا 1600روپے دیے تو شاید پھر لوگ سوچیں گے کہ اب کیا کرنا ہے ۔
پچھلے دنوں 80 برس کے ایک بزرگ نے پریس کلب سے میرا نمبر لے لیا اور مجھ سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ آپ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ضرورت اور اہمیت پر حکام بالا کی توجہ مبذول کروانے کے لیے کالم لکھیں، میں نے ''اسلامی سرٹیفکیٹ'' کے حوالے سے جب کالم لکھا تو ایڈیٹر طاہر نجمی(مرحوم) نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔
ذاتی طور پر ایسے عمر رسیدہ افراد کو جانتا ہوں جنھوں نے ساری عمر نیکی، ہمت و استقامت سے زندگی گزاری ان میں ریٹائرڈ پنشنر، انکم ٹیکس کمشنر، پروفیسر، ادیب، گورنمنٹ اسپتالوں میں FRCS ڈاکٹر غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی آنکھوں میں نمی دیکھی کہ ساری عمر نیکی کے ساتھ اکتاہٹ کا سفر ہیجانی کیفیت ذہنی افراتفری، معاشرے کی پیچیدگیاں دیکھیں مگر کبھی رشوت اور معاشی مسائل کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا بلکہ عزم و استقلال سے پاکستان کی بقا اور اسلام کے احکامات پر عمل کیا پھر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا۔
اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر پرافٹ نہ ہونے کے برابر تھا، اگر نیکی کا راستہ اختیارکرنا تھا تو اسلامی سرٹیفکیٹ میں معقول معاوضے دیتے جو عمر رسیدہ فرد 6 لاکھ بھی جمع پونجی جمع کراتا اسے زیادہ تر 450 روپے ایک لاکھ پر دیے گئے جو 2700 روپے بنتے ہیں۔
اب ان 2700 روپے میں وہ کیسے زندگی بسر کر سکتا تھا؟ اس نے پھر قومی بچت کا رخ کیا جو مکمل سود پر مشتمل تھا ساری عمر نیکی کے ساتھ یہ عمر رسیدہ دیدہ دلیری سے لڑتے رہے مگر جب یہ قبر کے نزدیک آئے تو بے چارے مجبور ہوکر سود کی ٹرین میں سوار ہوگئے اور پھر مختلف حکومتوں نے ان عمر رسیدہ حضرات کے پرافٹ میں کمی کردی جن سے ان کی زندگی سود کی وجہ سے عذاب میں تھی پھر دنیا کا عذاب بھی خوب دیکھا۔
راقم نے سود کے خلاف صرف بینرز دیکھے اس سے سود کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ عمر رسیدہ افراد کم معاوضے کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے پھر ایک نیک سیرت ایماندار رب کا نیک بندہ تاریخ اور ثقافت کا بادشاہ باضابطہ ذمے دار ان کی شخصیت پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔
نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور پریس کوبہت عزت دی اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے درخواست ہے کہ میرے بارے میں یا کابینہ کے بارے میں نہ لکھیں بلکہ قومی مسائل کو اجاگر کریں اور مجھے پتا چلے کہ میرے عوام کس مشکل میں ہیں یہ میری ذمے داری ہے کہ میں قوم کے مسائل پر توجہ دوں پھر رب نے ان کے دل میں رحم ڈال دیا اور انھوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ایک لاکھ پر سینئر سٹیزن کو 1500 روپے ماہانہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ ان کے انتقال پر عام عمر رسیدہ افراد کو میں نے مایوسی میں روتے دیکھا ہے، میں گواہ ہوں ان کے انتقال کے کچھ عرصے کے بعد پھر سیاسی فیشن کے تحت اس کا معاوضہ کم کرکے عمر رسیدہ افراد کو 880 اور 860 روپے دیے گئے۔
بھلا بتائیے 60 سال کی عمر میں تو انسان بیماریوں کے دریا نہیں بلکہ سمندر میں اتر جاتا ہے جب تک معراج خالد مرحوم نگران وزیر اعظم رہے انھوں نے باقاعدہ سینئر سٹیزن کو 1500 روپے دیے پھر ان کے جانے کے بعد سیاسی افراتفری نے ان سینئر سٹیزن کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا اور یہ مفلوک الحال بے سرو ساماں عمر رسیدہ لوگ اداس رنگ کے کنوئیں میں ڈوب گئے پرافٹ کا یہ عالم رہا کہ اسے کم کرکے 880 روپے کردیا گیا اور جنھوں نے یہ اقدام اٹھایا وہ مراعات کی گاڑیوں میں رواں دواں ہوتے رہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت ان عمر رسیدہ لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتی نہ ان کو میڈیکل کی سہولت ہے نہ ریلوے میں کوئی مراعات ہیں نہ ہوائی سفر میں ان کو کوئی مراعات حاصل ہیں۔ ہاں یہ سیاسی لوگ اپنے بیانات کے تحت یورپ کی مثالیں دیتے ہیں جب کہ یورپ کے قوانین کو بھول جاتے ہیں۔
یہ آج بھی تعلیم یافتہ عمر رسیدہ لوگوں کو عقل سے پیدل سمجھتے ہیں، یہ قابل مذمت فعل ہے اہل سیاست عمر رسیدہ لوگوں پر توجہ دیں۔ یہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جب کہ ہماری اسمبلی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد سیکڑوں میں ہے مگر اپنی بقا کا خیال رکھتے ہیں۔ سیاسی طور پر بے مقصد تصادم میں وقت کا ضیاع ہو رہا ہے۔
سابقہ حکومت میں ای او بی آئی میں 8500 دیے گئے جب کہ کئی سال تک 5250 روپے دیے گئے اب بھی اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ اگر ہماری حکومت آئی تو ہم ای او بی آئی میں 15000 دیں گے یہ بات تو حالیہ حکومت کو سوچنی چاہیے۔
عمر رسیدہ افراد اپنے مقدس دامن کو سود سے صرف اس لیے رنگ رہے تھے کہ ان کے پاس اس بانجھ سفر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ویسے تو پاکستان میں اور بین الاقوامی طور پر اپنی خدمات کے لیے زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں اشیائے خور و نوش کے دام بے لگام ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دنوں قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا ہے جس میں (ثروا اسلامک سیونگ اکاؤنٹ) کا اجرا کیا گیا ہے، اس کی شرح متوقع 19.50 دی گئی ہے جس میں ٹیکس کاٹ کر تقریباً 1350 روپے ماہانہ دیے جائیں گے۔ وزیر خزانہ سے مودبانہ گزارش ہے کہ عمر رسیدہ افراد کو ٹیکس سے مستثنیٰ قراردیں۔
میں تہہ دل سے وزیر خزانہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرکے انھوں نے عمر رسیدہ افراد کے دل جیت لیے ہیں اور ان کا یہ کام نیکی کے زمرے میں آئے گا۔ ماضی میں جب راقم نے روزنامہ ایکسپریس میں آرٹیکل لکھا تھا۔
قومی بچت میں اسلامک سرٹیفکیٹ کا اجرا کیجیے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم جواد صاحب نے اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد باقاعدہ کہا تھا کہ روزنامہ ایکسپریس نے ہمیشہ قارئین کے لیے بصیرت افروز تحریریں شایع کی ہیں اور ان کے اس بیان کو کراچی کے اخبارات نے نمایاں کوریج دی تھی۔
اب قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا ہو گیا ہے جو خوش آیند بات ہے اور اس میں وزیر خزانہ کا اہم کردار ہے وہ تین مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں چونکہ ان کے اس فیصلے نے عمر رسیدہ افراد کے دل جیت لیے ہیں کیونکہ اسلام ہمیں سود سے برملا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کرتا ہے۔
اس کے علاوہ مقابلے کی دوڑ کا آغاز ہوگا جب قومی بچت ماہانہ تقریباً 1380 روپے دے گا تو نجی بینکوں کی اجارہ داری بھی ختم ہوگی۔ قومی بچت حکومت پاکستان کا معزز ادارہ ہے اور عوام ان پر بھروسہ کرتے ہیں اب تو اگر کسی نجی بینک نے اسلامی سرٹیفکیٹ میں ماہانہ 1500 روپے یا 1600روپے دیے تو شاید پھر لوگ سوچیں گے کہ اب کیا کرنا ہے ۔