بیٹھک فلم انوکھی اور اداکار ایاز
ایاز کی بدقسمتی کے یہ فلم بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی تھی پھر بھی ایاز کو تسلسل کے ساتھ فلمیں ملتی جا رہی تھیں
دوستوں کی بیٹھک تو سنی ہے ادبی بیٹھک اور شعر و شاعری کی بیٹھک بھی بڑی مشہور رہی ہے۔ مگر نیوجرسی یو۔ایس۔اے کے علاقے سمرسٹ میں بیٹھک کے نام سے ایک ہوٹل بھی کھل گیا ہے۔
ایک دن ہم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہوئے تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ دروازے کے ساتھ ایک خوبصورت بک شیلف نظر آئی جو ہم نے اس سے پہلے کسی ہوٹل میں نہیں دیکھی۔ بک شیلف میں کئی نامور رائٹرز کی کتابیں اپنے ٹائٹل کے ساتھ جھلک رہی تھیں اور پھر دوسری حیرت دیوار پر لگی ایک ستر سال پرانی ریلیز شدہ فلم انوکھی کی بڑی سی تصویر پر نظر آئی۔
اتنی پر انی پاکستانی تصویر یہاں لگانے کی کیا وجہ تھی اگر بیٹھک کا مالک انڈین ہے تو یہاں آج کے دور کے نام ور ہیرو امیتابھ بچن یا شاہ رخ کی کسی فلم کی تصویر ہوتی اور اگر بیٹھک کا مالک پاکستانی امریکن ہے تو بیٹھک کی دیوار پر نامور ہیرو ندیم محمد علی، شبنم، زیبا یا وحید مراد کی تصویر ہوتی مگر یہاں تصویر اداکار ایاز اور فلم انوکھی کی ہیروئن شیلا رمانی کی تھی۔
چند منٹ تصویر دیکھنے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کاؤنٹر پر جا کر برسوں پرانی تصویر دیوار پر لگانے کی وجہ جاننا چاہی۔ کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب نے مسکراتے ہوئے ایک سوال داغ دیا کہ آپ یہ بتائیں آپ نے یہ تصویر کیسے پہچانی کہ یہ فلم انوکھی کی تصویر ہے۔
پھر میں نے اپنا تعارف کرایا کہ فلموں کا رائٹر اور نغمہ نگار ہوں میرا نام سن کر قریب کھڑی ہوئی خاتون نے ہنستے ہوئے کہا '' ہم تو آپ کے مشہور گیت ریڈیو سے سنتے رہے ہیں۔'' پھر وہ خاتون بولیں ''یہ تصویر میرے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس فلم کے ہیرو ایاز میرے والد محترم تھے اور فلم انوکھی کی یہ تصویر ہمارے لیے ایک کروڑ روپے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور آپ نے انھیں اس تصویر میں پہچان لیا ہے۔
یہ بات بھی ہمارے لیے حیرت کی بات ہے۔'' اس پر میں نے کہا '' میں فلمی دنیا میں پہلے بحیثیت ایک فلمی صحافی داخل ہوا تھا پھر بعد میں فلموں کے لیے لکھنا شروع کیا اورآج کل میں روزنامہ ایکسپریس میں باقاعدگی سے ہر ہفتے کالم لکھتا ہوں، میرے کالموں کی زینت ادبی شخصیات کے علاوہ نام ور فلمی شخصیات بھی ہوتی ہیں۔
میں ہندوستان اور پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لوگوں کی ایک سنہری تاریخ بھی لکھ رہا ہوں۔ میری ان باتوں کو سن کر اداکار ایاز کی بیٹی ندا فاروقی نے بڑی تحسین کی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔
اب میں آتا ہوں 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم انوکھی اور اس کے ہیرو ایاز کی طرف ایازکا بھی پورا نام ایاز فاروقی تھا اور یہ ایک خوبرو نوجوان کی حیثیت میں فلمی دنیا میں اس وقت داخل ہوئے تھے جب اداکار سنتوش کمار، درپن اور اداکار سدھیرکے بڑے چرچے تھے۔ اسی دوران مشہور تقسیم کار و فلم ساز شیخ لطیف حسین کی ملاقات ایاز سے ہوئی۔
ایازکو پھر انھوں نے اپنی فلم انوکھی میں انڈیا سے پاکستان آئی ہوئی مشہور اداکارہ شیلا رمانی کے ساتھ ہیرو کاسٹ کرلیا اپنے دور کے مشہور اداکار شاہنواز لطیف حسن کے دیرینہ دوست تھے وہ فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ شیلا رمانی ان دنوں کسی رشتے دار کی شادی کی تقریب میں کراچی آئی ہوئی تھی، شیخ لطیف حسن سے اس کی ملاقات ہوئی، انھوں نے اس کو اپنی فلم انوکھی میں ہیروئن سائن کرلیا تھا۔
فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں نیر سلطانہ، شاد لہری، دلجیت مرزا، شاہ نواز اور ہیرو ایاز تھا اور یہ فلم بہت کم وقت میں مکمل کرکے ریلیز کردی گئی تھی، اس فلم میں اداکار لہری جو اس وقت اسٹیج کے مشہور اداکار تھے ان کی بھی یہ پہلی فلم تھی اور ریڈیو کے مشہور سنگر احمد رشدی نے بھی بطور پلے بیک سنگر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ فلم کے نغمہ نگار فیاض ہاشمی تھے اور احمد رشدی نے اپنا جو پہلا گیت اس فلم کے لیے ریکارڈ کرایا تھا، اس کے بول تھے:
ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار
میاں مجنوں کو آیا بخار
اس گیت کے علاوہ گلوکار زبیدہ خانم کی آواز میں ایک گیت کو بھی بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے۔
گاڑی کو چلانا بابو
ذرا ہلکے ہلکے
کہیں دل کا جام نہ جھلکے
یہ گیت اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن سے تقریباً روزانہ ہی نشر کیا جاتا تھا اور بڑا مقبول ہوا تھا، فلم انوکھی ایک اوسط درجے کی فلم تھی جو اپنے گیتوں، شیلا رمانی کی اداکاری کی وجہ سے کافی دنوں تک فلم بینوں کی توجہ کا مرکز رہی تھی۔
اداکار ایاز کے فلمی سفر کا آغاز ہو گیا تھا پھر یکے بعد دیگرے ایاز نے کئی فلموں میں کام کیا، فلم ساز و ہدایت کار نجم نقوی جن کا بمبئی کی فلمی دنیا سے گہرا تعلق رہا تھا انھوں نے پاکستان آ کر فلم ''کنواری بیوہ'' بنائی۔
اس میں ایاز کو ہیرو لیا اور کراچی ہی سے ایک نیا چہرہ شمیم آرا کے نام سے بطور ہیروئن متعارف کرایا، شمیم آرا کی بھی کنواری بیوہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد شمیم آرا ترقی کرتی چلی گئی اور پھر وہ صف اول کی ہیروئن بن گئی تھی جب کہ ایاز مذکورہ فلم کے ناکام ہونے سے شہرت حاصل نہ کرسکا۔ وہ دور کراچی فلم انڈسٹری کا بالکل ابتدائی دور تھا۔
اسی دوران کراچی میں یکے بعد دیگرے کئی فلمیں بنائی گئیں ان فلموں میں منڈی، جو 1956 ہی کی فلم تھی اور اسی دوران کی ایک اور فلم شکار تھی فلم منڈی میں اداکار ایاز کے ساتھ خورشید بیگم اور ببو بیگم بھی شامل تھیں یہ وہی بمبئی کی مشہور اداکارہ ببو تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی جوتیوں میں ہیرے جڑے رہتے تھے اور بڑے بڑے نواب اور رئیس زادے ان کے گھر کے چکر لگایا کرتے تھے۔
فلم منڈی کے بعد شکار بھی بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، اسی فلم شکار میں اداکار ایاز کے ساتھ جن آرٹسٹوں نے کام کیا تھا۔
ان میں خورشید، کلاوتی، ستارہ، راشدی، صفیہ اور غوری کے نام شامل تھے۔ فلم شکار میں پاکستان کے نامور غزل سنگر مہدی حسن جنھیں پاکستان و ہندوستان میں شہنشاہ غزل کا خطاب دیا گیا تھا وہ بھی پہلی بار بطور پلے بیک سنگر فلم شکار سے متعارف ہوئے تھے اور شاعر سید یزدانی جالندھری کے ایک گیت سے منظر عام پر آئے تھے۔ گیت کی موسیقی اصغر علی محمد حسین نے مرتب کی تھی اور گیت کے بول تھے:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
اس فلم کے مکالمے اس دور کے ایک رائٹر مقبول جلیس نے لکھے تھے جو ابراہیم جلیس کے ساتھ ساتھ ہی مقامی روزنامہ اخبارات میں کالم نگار ہوا کرتے تھے۔
ایاز کی بدقسمتی کے یہ فلم بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی تھی پھر بھی ایاز کو تسلسل کے ساتھ فلمیں ملتی جا رہی تھیں۔ شکار کے بعد فلم ممتاز میں اداکارہ نیلو اور راگنی کے ساتھ ایاز کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ فلم بھی فلم بینوں کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی تھی اور ایاز کی ناکام فلموں میں ایک اور اضافہ ثابت ہوئی تھی۔
اس صورت حال سے ایاز نے مجبوراً اور اپنے خاندان کے اصرار کرنے پر فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، یہاں اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کے مقدر کو بھی بڑا دخل حاصل ہوتا ہے۔
اپنی پہلی فلم چراغ جلتا رہا میں محمد علی بطور ولن آیا اور فلم کا ہیرو عارف تھا جب کہ عارف گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گیا اور محمد علی فلمی دنیا کا نامور ہیرو بن کر فلمی دنیا پر ایک طویل عرصے تک راج کرتا رہا تھا، اسی طرح اسلامیہ کالج کا طالب علم نذیر بیگ جو ڈھاکہ بطور سنگر گیا تھا اور پھر بطور اداکار وہاں اپنی پہلی فلم چکوری کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کا ممتاز ترین ہیرو بن کر فلم انڈسٹری میں چھاتا چلا گیا تھا اور آج بھی ٹی وی ڈراموں کا وہ سب سے مہنگا اداکار ہے۔
اسے کہتے ہیں مقدر بڑی چیز ہے اور خاص طور پر فلمی دنیا میں تو مقدر کی بڑی اہمیت ہے یہ مقدر ہی کی بات تھی کہ مزاحیہ اداکار رنگیلا خوبرو نہ ہوتے ہوئے ہیرو جیسا انداز نہ رکھتے ہوئے بھی اپنے دور کا کامیاب ترین ہیرو بن گیا تھا نہ صرف ہیرو بلکہ ہدایت کار، فلم ساز، تقسیم کار اور مشہور سنگر کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا تھا جب ہی کہا جاتا ہے کہ مقدر ساتھ دے تو سب کچھ ہے مقدر نہ ساتھ دے تو سب بے کار ہے۔
ایک دن ہم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہوئے تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ دروازے کے ساتھ ایک خوبصورت بک شیلف نظر آئی جو ہم نے اس سے پہلے کسی ہوٹل میں نہیں دیکھی۔ بک شیلف میں کئی نامور رائٹرز کی کتابیں اپنے ٹائٹل کے ساتھ جھلک رہی تھیں اور پھر دوسری حیرت دیوار پر لگی ایک ستر سال پرانی ریلیز شدہ فلم انوکھی کی بڑی سی تصویر پر نظر آئی۔
اتنی پر انی پاکستانی تصویر یہاں لگانے کی کیا وجہ تھی اگر بیٹھک کا مالک انڈین ہے تو یہاں آج کے دور کے نام ور ہیرو امیتابھ بچن یا شاہ رخ کی کسی فلم کی تصویر ہوتی اور اگر بیٹھک کا مالک پاکستانی امریکن ہے تو بیٹھک کی دیوار پر نامور ہیرو ندیم محمد علی، شبنم، زیبا یا وحید مراد کی تصویر ہوتی مگر یہاں تصویر اداکار ایاز اور فلم انوکھی کی ہیروئن شیلا رمانی کی تھی۔
چند منٹ تصویر دیکھنے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کاؤنٹر پر جا کر برسوں پرانی تصویر دیوار پر لگانے کی وجہ جاننا چاہی۔ کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب نے مسکراتے ہوئے ایک سوال داغ دیا کہ آپ یہ بتائیں آپ نے یہ تصویر کیسے پہچانی کہ یہ فلم انوکھی کی تصویر ہے۔
پھر میں نے اپنا تعارف کرایا کہ فلموں کا رائٹر اور نغمہ نگار ہوں میرا نام سن کر قریب کھڑی ہوئی خاتون نے ہنستے ہوئے کہا '' ہم تو آپ کے مشہور گیت ریڈیو سے سنتے رہے ہیں۔'' پھر وہ خاتون بولیں ''یہ تصویر میرے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس فلم کے ہیرو ایاز میرے والد محترم تھے اور فلم انوکھی کی یہ تصویر ہمارے لیے ایک کروڑ روپے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور آپ نے انھیں اس تصویر میں پہچان لیا ہے۔
یہ بات بھی ہمارے لیے حیرت کی بات ہے۔'' اس پر میں نے کہا '' میں فلمی دنیا میں پہلے بحیثیت ایک فلمی صحافی داخل ہوا تھا پھر بعد میں فلموں کے لیے لکھنا شروع کیا اورآج کل میں روزنامہ ایکسپریس میں باقاعدگی سے ہر ہفتے کالم لکھتا ہوں، میرے کالموں کی زینت ادبی شخصیات کے علاوہ نام ور فلمی شخصیات بھی ہوتی ہیں۔
میں ہندوستان اور پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لوگوں کی ایک سنہری تاریخ بھی لکھ رہا ہوں۔ میری ان باتوں کو سن کر اداکار ایاز کی بیٹی ندا فاروقی نے بڑی تحسین کی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔
اب میں آتا ہوں 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم انوکھی اور اس کے ہیرو ایاز کی طرف ایازکا بھی پورا نام ایاز فاروقی تھا اور یہ ایک خوبرو نوجوان کی حیثیت میں فلمی دنیا میں اس وقت داخل ہوئے تھے جب اداکار سنتوش کمار، درپن اور اداکار سدھیرکے بڑے چرچے تھے۔ اسی دوران مشہور تقسیم کار و فلم ساز شیخ لطیف حسین کی ملاقات ایاز سے ہوئی۔
ایازکو پھر انھوں نے اپنی فلم انوکھی میں انڈیا سے پاکستان آئی ہوئی مشہور اداکارہ شیلا رمانی کے ساتھ ہیرو کاسٹ کرلیا اپنے دور کے مشہور اداکار شاہنواز لطیف حسن کے دیرینہ دوست تھے وہ فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ شیلا رمانی ان دنوں کسی رشتے دار کی شادی کی تقریب میں کراچی آئی ہوئی تھی، شیخ لطیف حسن سے اس کی ملاقات ہوئی، انھوں نے اس کو اپنی فلم انوکھی میں ہیروئن سائن کرلیا تھا۔
فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں نیر سلطانہ، شاد لہری، دلجیت مرزا، شاہ نواز اور ہیرو ایاز تھا اور یہ فلم بہت کم وقت میں مکمل کرکے ریلیز کردی گئی تھی، اس فلم میں اداکار لہری جو اس وقت اسٹیج کے مشہور اداکار تھے ان کی بھی یہ پہلی فلم تھی اور ریڈیو کے مشہور سنگر احمد رشدی نے بھی بطور پلے بیک سنگر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ فلم کے نغمہ نگار فیاض ہاشمی تھے اور احمد رشدی نے اپنا جو پہلا گیت اس فلم کے لیے ریکارڈ کرایا تھا، اس کے بول تھے:
ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار
میاں مجنوں کو آیا بخار
اس گیت کے علاوہ گلوکار زبیدہ خانم کی آواز میں ایک گیت کو بھی بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے۔
گاڑی کو چلانا بابو
ذرا ہلکے ہلکے
کہیں دل کا جام نہ جھلکے
یہ گیت اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن سے تقریباً روزانہ ہی نشر کیا جاتا تھا اور بڑا مقبول ہوا تھا، فلم انوکھی ایک اوسط درجے کی فلم تھی جو اپنے گیتوں، شیلا رمانی کی اداکاری کی وجہ سے کافی دنوں تک فلم بینوں کی توجہ کا مرکز رہی تھی۔
اداکار ایاز کے فلمی سفر کا آغاز ہو گیا تھا پھر یکے بعد دیگرے ایاز نے کئی فلموں میں کام کیا، فلم ساز و ہدایت کار نجم نقوی جن کا بمبئی کی فلمی دنیا سے گہرا تعلق رہا تھا انھوں نے پاکستان آ کر فلم ''کنواری بیوہ'' بنائی۔
اس میں ایاز کو ہیرو لیا اور کراچی ہی سے ایک نیا چہرہ شمیم آرا کے نام سے بطور ہیروئن متعارف کرایا، شمیم آرا کی بھی کنواری بیوہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد شمیم آرا ترقی کرتی چلی گئی اور پھر وہ صف اول کی ہیروئن بن گئی تھی جب کہ ایاز مذکورہ فلم کے ناکام ہونے سے شہرت حاصل نہ کرسکا۔ وہ دور کراچی فلم انڈسٹری کا بالکل ابتدائی دور تھا۔
اسی دوران کراچی میں یکے بعد دیگرے کئی فلمیں بنائی گئیں ان فلموں میں منڈی، جو 1956 ہی کی فلم تھی اور اسی دوران کی ایک اور فلم شکار تھی فلم منڈی میں اداکار ایاز کے ساتھ خورشید بیگم اور ببو بیگم بھی شامل تھیں یہ وہی بمبئی کی مشہور اداکارہ ببو تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی جوتیوں میں ہیرے جڑے رہتے تھے اور بڑے بڑے نواب اور رئیس زادے ان کے گھر کے چکر لگایا کرتے تھے۔
فلم منڈی کے بعد شکار بھی بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، اسی فلم شکار میں اداکار ایاز کے ساتھ جن آرٹسٹوں نے کام کیا تھا۔
ان میں خورشید، کلاوتی، ستارہ، راشدی، صفیہ اور غوری کے نام شامل تھے۔ فلم شکار میں پاکستان کے نامور غزل سنگر مہدی حسن جنھیں پاکستان و ہندوستان میں شہنشاہ غزل کا خطاب دیا گیا تھا وہ بھی پہلی بار بطور پلے بیک سنگر فلم شکار سے متعارف ہوئے تھے اور شاعر سید یزدانی جالندھری کے ایک گیت سے منظر عام پر آئے تھے۔ گیت کی موسیقی اصغر علی محمد حسین نے مرتب کی تھی اور گیت کے بول تھے:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
اس فلم کے مکالمے اس دور کے ایک رائٹر مقبول جلیس نے لکھے تھے جو ابراہیم جلیس کے ساتھ ساتھ ہی مقامی روزنامہ اخبارات میں کالم نگار ہوا کرتے تھے۔
ایاز کی بدقسمتی کے یہ فلم بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی تھی پھر بھی ایاز کو تسلسل کے ساتھ فلمیں ملتی جا رہی تھیں۔ شکار کے بعد فلم ممتاز میں اداکارہ نیلو اور راگنی کے ساتھ ایاز کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ فلم بھی فلم بینوں کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی تھی اور ایاز کی ناکام فلموں میں ایک اور اضافہ ثابت ہوئی تھی۔
اس صورت حال سے ایاز نے مجبوراً اور اپنے خاندان کے اصرار کرنے پر فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، یہاں اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کے مقدر کو بھی بڑا دخل حاصل ہوتا ہے۔
اپنی پہلی فلم چراغ جلتا رہا میں محمد علی بطور ولن آیا اور فلم کا ہیرو عارف تھا جب کہ عارف گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گیا اور محمد علی فلمی دنیا کا نامور ہیرو بن کر فلمی دنیا پر ایک طویل عرصے تک راج کرتا رہا تھا، اسی طرح اسلامیہ کالج کا طالب علم نذیر بیگ جو ڈھاکہ بطور سنگر گیا تھا اور پھر بطور اداکار وہاں اپنی پہلی فلم چکوری کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری کا ممتاز ترین ہیرو بن کر فلم انڈسٹری میں چھاتا چلا گیا تھا اور آج بھی ٹی وی ڈراموں کا وہ سب سے مہنگا اداکار ہے۔
اسے کہتے ہیں مقدر بڑی چیز ہے اور خاص طور پر فلمی دنیا میں تو مقدر کی بڑی اہمیت ہے یہ مقدر ہی کی بات تھی کہ مزاحیہ اداکار رنگیلا خوبرو نہ ہوتے ہوئے ہیرو جیسا انداز نہ رکھتے ہوئے بھی اپنے دور کا کامیاب ترین ہیرو بن گیا تھا نہ صرف ہیرو بلکہ ہدایت کار، فلم ساز، تقسیم کار اور مشہور سنگر کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا تھا جب ہی کہا جاتا ہے کہ مقدر ساتھ دے تو سب کچھ ہے مقدر نہ ساتھ دے تو سب بے کار ہے۔