انتخابی نعرے جھوٹے وعدے دلفریب منشور
عوام سے ووٹ لینے کے لئے سیاسی جماعتیں شاندار منشور کا اعلان کرتی ہیں مگر اس پر کبھی دس فیصد عمل بھی نہیں کیا گیا
ایک سیاسی پارٹی نے پچھلے انتخابات سے قبل 50 لاکھ مکانات ایک کروڑ نوکریاں اور تین سو نئے ڈیم بنانے کا وعدہ کیا۔
عوام نے اس پارٹی کے چیئرمین کی ساکھ دیکھتے ہوئے اس بات پر تقریباً یقین کر لیا تھا کہ اس پارٹی کی اس معاملے میں ور کنگ مکمل ہوگی، کیو نکہ یہ کام کچھ مشکل بھی نہیں تھا، کیونکہ پارٹی چیئرمین نے تعمیرات کے شعبے کو ترقی دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔
لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر قبضہ گروپوں نے قبضے کئے ہوئے ہیں، لوگوں کا خیال تھا کہ شائد قبضہ گروپوں سے سرکاری زمینیں واگزار کروا کے آدھی زمینیں بیچ کر اُس رقم سے باقی آدھی زمینوں پر مکانات تعمیر کئے جائیں گئے۔
اس طرح پچاس لاکھ مکانا ت بھی بن جائیں گے اور مزید ایک کروڑ لوگوں کو صرف کنسٹرکشن کے شعبے میں ہی روزگار مل جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا، دوسرے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے، حالات خرا بی کے جس ٹریک پر چل رہے تھے۔ اُس راستے پر چلتے رہے اور یہ وہ راستہ ہے کہ جو آگے جا کر مز ید خراب ہو رہا ہے۔
انتخا بی و جماعتی منشور ایک طرف رہ گیا، وہی سب کچھ ہونے لگا کہ جو پاکستانی سیاست کا خاصا ہے۔
ایک اور مقبول سیا سی پارٹی نے ہر الیکشن سے پہلے پا کستان کو '' ایشیاء کا ٹائیگر'' بنانے کا اعلان کیا، لوگوں کو ایسے سبز باغ دکھائے گئے کہ ایک بڑے طبقے کو یقین ہو گیا کہ پاکستان ایک صنعتی ملک بننے لگا ہے۔
چنانچہ یہ پا رٹی بھی تین دفعہ حکومت بنا نے میں کامیاب ہوئی،دو تہا ئی اکثریت سے کا میاب ہوئی مگر ہر دفعہ نجا نے کیا سوچ کر،یا اپنے آ پ کو '' شیر'' سمجھ کر ہاتھی سے یہ ضرور پوچھتی کہ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟اور ہر مرتبہ ہا تھی نے اُ سے اپنی سُونڈ میں لپیٹ کر پٹخ دیا۔ یہ پارٹی ہر دفعہ گِلہ کرتی'' اگر اُس کو اِس بات کا علم نہیں تھا تو اُس سے پو چھ لیتے' بّرا منا نے کی کیا بات تھی'' مگر اس پارٹی نے بھی اپنے منشور پر کبھی بھی عمل نہیں کیا۔
اس پارٹی نے بھی شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اپنے ووٹروں کو کبھی منشور یاد ہی نہیں آنے دیا۔
ایک پارٹی ہر مرتبہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے مگر اس سلسلہ میں نہ تو قابل عمل پروگرام پیش کیا جاتا ہے نہ عمل کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جس صوبے میں لگاتار یہ پارٹی جیت کر حکو مت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، وہاں بھی اس نعرے کی عملی تصویر کا عشر عشیر نظر نہیں آتا۔ لو گوں کو کچھ معاملات میں اس طرح اُ لجھا دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ اپنے صوبے میں جہاں کراچی جیسا شہر بھی موجود ہے کہ جو تقریباً سارے پا کستان کو ''پا لتا'' ہے، لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کیوں نہیں دیتے۔
اس پارٹی کی ساری سیاست کا محور '' شہید'' ہیں، یہ پا رٹی ''شہیدوں'' کے نا م پر ووٹ ما نگتی ہے، مگر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ'' شہیدوں'' کے نام پر ووٹ دینے سے عوام کی حالت بہتر کیسے ہو گی؟ ملک وقوم کے حالات میں مثبت تبدیلی کیسے آ ئے گی؟۔ اس پارٹی کے '' شہید بانی'' نے جو منشور پیش کیا تھا،اُس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟۔
باقی تمام سیاسی پارٹیاں بھی جو انتخابی منشور پیش کرتی ہیں اُس پر عملدرآمد امریکہ اور یورپ میں بھی ممکن نہیںہے، ایک پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ برسر اقتدار آ گئی تو تمام اشیاء اور خوراک کی قیمت 1960 ء کی سطح پر لے جا ئے گی۔
تمام پارٹیوں کے منشور میں کچھ نکات یکساں ہیں ۔
(۱) برسراقتدار آ کر کشمیر کو آ زاد کرایا جائے گا۔
(۲) لوگوں کو انصاف ان کے گھر کی دہلیز پر ملے گا۔
(۳) تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتیں ہر شہری کو میسر ہونگی۔
(۴) مہنگائی پر کنٹرول کر کے ہر شہری کی زندگی آسان بنائی جائے گی۔
(۵) روٹی،کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ بھی ہر پارٹی کے منشور میں تقریباً شامل ہے۔
پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت تقریباً ہر پارٹی کو برسر اقتدار آنے کا مو قع ملا ہے مگر عوام کی حالت دن بہ دن ناگفتہ بہ ہو رہی ہے، ملکی قومی ترقی کا گراف بھی نیچے ہی آ رہا ہے، پڑھے لکھے طبقے کی بہت بڑی تعداد ملک سے باہر جا رہی ہے، سب کچھ عوام کے سا منے ہے کیونکہ وہی سب کچھ بھگت رہے ہیں۔
الیکشن سر پر ہے مگر ہر پارٹی ملک و قوم کی حالت زار بہتر بنانے کا عملی پروگرام دینے کی بجائے الزامات، مغلظات، تخیلات اور شخصیات کی سیاست کر رہی ہے ، عوام کی اکثریت اس طرز سیاست سے نالاں ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے ہی نہیں نکلتی، لوگوںکو اپنے مسائل کاحل چاہیے؟ عوام کی بہت بڑی تعداد با شعور ہو چکی ہے۔
انکا مطالبہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی جماعت کو منشور پیش کرے اور اسکے قابل عمل ہونے کا بھی یقین دلائے، نمائندوں کی قابلیت اور کردار بھی عوام کے سامنے رکھے، قبضہ گروپوں ، بدمعاشوں، منشیات فروشوں اور ضمیر فروشوں کو زبردستی عوام کا نما ئندہ نہ بنایا جائے۔ پاکستان کا انتخابی نظام ایسی بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے کہ بعض اوقات کچھ نما ئندے کل ووٹوں کا صرف نو یا دس فیصد لیکر بھی جیت جا تے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ بدنام ِ زما نہ ظالم ، استحصالی، فراڈئیے، بدمعاش اور خودغرض افراد بھی کچھ ووٹ لیکر زبردستی عوام کے ''نما ئندے'' بن جا تے ہیں۔
مسلک کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنا؟
اب ہماری سیاست میں ایک نیا رجحان یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر بھی ووٹ مانگا جاتا ہے، یہ جماعتیں بھی قابل عمل منشور پیش کرنے سے قاصر ہیں، حتیٰ کہ وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر وہ برسراقتدار آ بھی گئیں تو ریاست کو کیسے چلایا جائے گا اور درپیش چیلنجز کا مقا بلہ کیسے کیا جائے گا؟ ملک وقوم کو خوشحالی اور ترقی سے کیسے ہمکنار کیا جائے گا۔ اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل و لیج بن چکی ہے۔
سائنسی ترقی نے نئی راہوں کا تعین کر دیا ہے، اقوام کے مابین ترقی کا مقابلہ تیز تر ہو رہا ہے، تجارت کے نئے رحجانات پیدا ہو چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے ترقی کے نئے راستے کھول دیئے ہیں مگر مسلک و فرقہ کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے والے اور انکے ووٹردونوں ہی نہیں جانتے کہ ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے کونسی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
جیتنے والی جماعت کو منشور پر عملدرآ مد کا پابند بنایا جائے
ہر الیکشن میں ناقابل ِعمل منشور پیش کر کے بھولے بھالے عوام کو ورغلایا جاتا ہے۔ ایک نئی آس اور اُمید کا فریب دیا جاتا ہے ، مگر برسر اقتدار آنے کے بعد ہر سیا سی پا رٹی اپنے ہی منشور کو پس پُشت ڈال دیتی ہے اس کا واضح حل تو یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اور متعلقہ ادارے اس بات کا جائزہ لیں کہ جیتنے والی پارٹی اپنے منشور پر عملدرآ مد بھی کر رہی ہے یا نہیں اس مقصد کیلئے آئین میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی پارٹی اپنے انتخابی و جماعتی منشور پر عملدرآ مد نہ کرے تو اُ سے عوام کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کا مرتکب قرار دیا جائے۔ جس حلقے میں 50 فیصد ووٹ کاسٹ نہ ہو اُ س حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے کہ عوام کی اکثریت نے سیاستدانوں پر عدم اعتماد کیا ہے،اور وہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام اُمیدواروں کو اپنے ووٹ کا حقدار نہیں سمجھتے،اُ س حلقے میں نئے اُ میدواروں کے ساتھ از سر نو الیکشن کروایا جائے۔
ریاست پاکستان میں جاری مختلف بحرانوں میں شدِت پیدا ہو رہی ہے ، بعض اوقات تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ شائد ان بحرانوں کا کبھی بھی کوئی حل نہ نِکل سکے؟۔ ملکی وقومی مسائل میں دن رات اضا فہ ہو رہا ہے،عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں ۔
بے یقینی اور بے چینی کی فضا میں اضافہ ہو رہا ہے، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مسائل کا واحد حل شفاف انتخاب ہیں ۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو تمام مسائل ہو جائیں گے۔
تما م چینلز میں پاکستان کے '' راہنما'' مسائل کا حل بتانے کی بجائے سارا وقت ایک دوسرے پر الزامات لگانے ایک دوسرے کو بّرا بھلا کہنے میں گزار دیتے ہیں،عوام اپنے راہنما ؤں کی تقلید کرتے ہیں، انکے نقش قدم پر چلتے ہیں اور یہی طرزِ عمل اپنا لیتے ہیں۔
ہماری سیاست میں دلیل اور نظریات کی اہمیت چنداں ختم ہو چکی ہے، انتخابی سیا ست نے نظریا تی سیاست کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ اب عوام کا ذہن بھی اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ نظریات کی بجائے الزامات اور شخصیات کو تر جیح دیتے ہیں۔
سیاستدان کوئی پروگرام پیش کرے یا ملکی وقومی مسائل کا قابل عمل ٹھوس حل بتانے کی بجائے سارا زور اپنے آپ کو خوبصورت بنانے میں لگا دیتے ہیں، ان کی ساری گفتگو کا ماخذ مخالف سیاستدان ہوتے ہیں۔ وہ ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی بجائے ذاتیات پر تنقید کرتے ہیں، اس ساری صورتحال میں عوام کی مایوسی اور بد دلی میں اضافہ تر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لوگ ملک سے بھا گنے کو تیار ہو رہے ہیں، ایک سال کے اند رعام لوگوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بہت بڑی تعداد بھی اپنے بہتر مستقبل کیلئے دیار غیر کا رُخ کرنے پر مجبور ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آ یا کہ اس الیکشن میں سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے ملک وقوم کی خوشحالی اور بہتری کیلئے قابلِ عمل منشور پیش کریں؟!!!
جمہوریت کا اصل حُسن نظریات اور افراد کا کردار ہے
ریاست کی مضبوطی ،قوموں کی ترقی اور افراد کی خوشحالی اور سکون کیلئے جمہوریت ایک بہترین نظام ہے اگر جمہوریت اپنی اصلی شکل میں بحال ہو تو عوام کی فلاح وبہبود اور ریاست کی مضبوطی اور ترقی کا تسلسل جاری رہتا ہے۔
جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنے آ پ کو ریاست کا اسٹیک ہولڈر سمجھتا ہے، اُسے علم ہوتا ہے کہ ہر باصلاحیت فرد کیلئے آگے بڑھنے اور اپنا کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع موجود ہیں، جمہوری نظام ہر اہل فرد کو آ گے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ریاست بھی ایسے افراد کی مکمل مدد اور معاونت کرتی ہے۔
جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں ذاتی جائیداد نہیں ہوتی ہیں کہ انکی صدارت اور قیادت وراثت کے طور پر اولادوں کو منتقل ہوتی رہے۔ جو جتنا قابل اور باصلاحیت ہے اُسے قیادت سنبھالنے کا اُتنا ہی موقع مِلتا ہے۔
سیاسی پارٹیاں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کرتی ہیں، کہ یہ منشور تخیلاتی چیز نہیں ہے بلکہ اس پروگرام پر عملدرآمد کرنے کا مکمل ایجنڈا بھی انکے پاس موجود ہے۔
عوام ان پارٹیوں کے پروگرامز اور ان پارٹیوں کی لیڈر شِپ کی صلاحیت خلوص اور کردار دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے کہ کس پارٹی کا پروگرام ملک و قوم کیلئے بہترین ہے، عوام اپنے اور ریاستی مفادات کی بنیاد پر پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
جمہوریت میں امیدوارں کے ماضی، کردار،خلوص اور صلاحیت کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ مفاد پرست عنا صر کو رَد کر دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا بہترین حُسن شخصیات اور ذاتیات نہیں، بلکہ نظریات ہوتا ہے۔
چھوٹے ذہن ذاتیات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں
ایک انگریزی محاورے کا اُرود تر جمہ ہے کہ'' چھوٹے ذ ہن ذاتیات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں' عام ذ ہن عام چیزوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ـ' عظیم ذہن نظریات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔'' جن ممالک میں ذاتیات کی بجائے نظریات پر گفتگو کی جاتی ہے، نظریات کو اہمیت دی جاتی ہے،وہ قومیں ہر شعبے میں ترقی کرتی ہیں۔
ان قوموں کا ارتقائی عمل جاری رہتا ہے، ان قوموں کے راہنماؤں کے پیشِ نظر خوراک، صحت ، انصاف، امن اور ترقی کے معاملات ہوتے ہیں۔ ان راہنماؤں کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ انکی عوام کو کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہو، افراد عوام اور ریاست کی ترقی کا عمل جاری و ساری رہے، لوگ چین کی نیند سوئیں اور ترقی کے عمل میں اپنا کردار سر انجام دیں۔
ان راہنماؤں کی اوّلین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ لوگ ما لی دشواری کا شکار نہ ہو ں کہ مالی پریشانیوں میں مبتلا افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ بے یقینی اور مایوسی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں ان مسائل کا حل بتانے کی بجائے صرف اور صرف ذاتیات کو اچھالا جاتا ہے۔
عوام نے اس پارٹی کے چیئرمین کی ساکھ دیکھتے ہوئے اس بات پر تقریباً یقین کر لیا تھا کہ اس پارٹی کی اس معاملے میں ور کنگ مکمل ہوگی، کیو نکہ یہ کام کچھ مشکل بھی نہیں تھا، کیونکہ پارٹی چیئرمین نے تعمیرات کے شعبے کو ترقی دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔
لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر قبضہ گروپوں نے قبضے کئے ہوئے ہیں، لوگوں کا خیال تھا کہ شائد قبضہ گروپوں سے سرکاری زمینیں واگزار کروا کے آدھی زمینیں بیچ کر اُس رقم سے باقی آدھی زمینوں پر مکانات تعمیر کئے جائیں گئے۔
اس طرح پچاس لاکھ مکانا ت بھی بن جائیں گے اور مزید ایک کروڑ لوگوں کو صرف کنسٹرکشن کے شعبے میں ہی روزگار مل جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا، دوسرے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے، حالات خرا بی کے جس ٹریک پر چل رہے تھے۔ اُس راستے پر چلتے رہے اور یہ وہ راستہ ہے کہ جو آگے جا کر مز ید خراب ہو رہا ہے۔
انتخا بی و جماعتی منشور ایک طرف رہ گیا، وہی سب کچھ ہونے لگا کہ جو پاکستانی سیاست کا خاصا ہے۔
ایک اور مقبول سیا سی پارٹی نے ہر الیکشن سے پہلے پا کستان کو '' ایشیاء کا ٹائیگر'' بنانے کا اعلان کیا، لوگوں کو ایسے سبز باغ دکھائے گئے کہ ایک بڑے طبقے کو یقین ہو گیا کہ پاکستان ایک صنعتی ملک بننے لگا ہے۔
چنانچہ یہ پا رٹی بھی تین دفعہ حکومت بنا نے میں کامیاب ہوئی،دو تہا ئی اکثریت سے کا میاب ہوئی مگر ہر دفعہ نجا نے کیا سوچ کر،یا اپنے آ پ کو '' شیر'' سمجھ کر ہاتھی سے یہ ضرور پوچھتی کہ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟اور ہر مرتبہ ہا تھی نے اُ سے اپنی سُونڈ میں لپیٹ کر پٹخ دیا۔ یہ پارٹی ہر دفعہ گِلہ کرتی'' اگر اُس کو اِس بات کا علم نہیں تھا تو اُس سے پو چھ لیتے' بّرا منا نے کی کیا بات تھی'' مگر اس پارٹی نے بھی اپنے منشور پر کبھی بھی عمل نہیں کیا۔
اس پارٹی نے بھی شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اپنے ووٹروں کو کبھی منشور یاد ہی نہیں آنے دیا۔
ایک پارٹی ہر مرتبہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے مگر اس سلسلہ میں نہ تو قابل عمل پروگرام پیش کیا جاتا ہے نہ عمل کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جس صوبے میں لگاتار یہ پارٹی جیت کر حکو مت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، وہاں بھی اس نعرے کی عملی تصویر کا عشر عشیر نظر نہیں آتا۔ لو گوں کو کچھ معاملات میں اس طرح اُ لجھا دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ اپنے صوبے میں جہاں کراچی جیسا شہر بھی موجود ہے کہ جو تقریباً سارے پا کستان کو ''پا لتا'' ہے، لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کیوں نہیں دیتے۔
اس پارٹی کی ساری سیاست کا محور '' شہید'' ہیں، یہ پا رٹی ''شہیدوں'' کے نا م پر ووٹ ما نگتی ہے، مگر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ'' شہیدوں'' کے نام پر ووٹ دینے سے عوام کی حالت بہتر کیسے ہو گی؟ ملک وقوم کے حالات میں مثبت تبدیلی کیسے آ ئے گی؟۔ اس پارٹی کے '' شہید بانی'' نے جو منشور پیش کیا تھا،اُس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟۔
باقی تمام سیاسی پارٹیاں بھی جو انتخابی منشور پیش کرتی ہیں اُس پر عملدرآمد امریکہ اور یورپ میں بھی ممکن نہیںہے، ایک پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ برسر اقتدار آ گئی تو تمام اشیاء اور خوراک کی قیمت 1960 ء کی سطح پر لے جا ئے گی۔
تمام پارٹیوں کے منشور میں کچھ نکات یکساں ہیں ۔
(۱) برسراقتدار آ کر کشمیر کو آ زاد کرایا جائے گا۔
(۲) لوگوں کو انصاف ان کے گھر کی دہلیز پر ملے گا۔
(۳) تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتیں ہر شہری کو میسر ہونگی۔
(۴) مہنگائی پر کنٹرول کر کے ہر شہری کی زندگی آسان بنائی جائے گی۔
(۵) روٹی،کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ بھی ہر پارٹی کے منشور میں تقریباً شامل ہے۔
پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت تقریباً ہر پارٹی کو برسر اقتدار آنے کا مو قع ملا ہے مگر عوام کی حالت دن بہ دن ناگفتہ بہ ہو رہی ہے، ملکی قومی ترقی کا گراف بھی نیچے ہی آ رہا ہے، پڑھے لکھے طبقے کی بہت بڑی تعداد ملک سے باہر جا رہی ہے، سب کچھ عوام کے سا منے ہے کیونکہ وہی سب کچھ بھگت رہے ہیں۔
الیکشن سر پر ہے مگر ہر پارٹی ملک و قوم کی حالت زار بہتر بنانے کا عملی پروگرام دینے کی بجائے الزامات، مغلظات، تخیلات اور شخصیات کی سیاست کر رہی ہے ، عوام کی اکثریت اس طرز سیاست سے نالاں ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے ہی نہیں نکلتی، لوگوںکو اپنے مسائل کاحل چاہیے؟ عوام کی بہت بڑی تعداد با شعور ہو چکی ہے۔
انکا مطالبہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی جماعت کو منشور پیش کرے اور اسکے قابل عمل ہونے کا بھی یقین دلائے، نمائندوں کی قابلیت اور کردار بھی عوام کے سامنے رکھے، قبضہ گروپوں ، بدمعاشوں، منشیات فروشوں اور ضمیر فروشوں کو زبردستی عوام کا نما ئندہ نہ بنایا جائے۔ پاکستان کا انتخابی نظام ایسی بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے کہ بعض اوقات کچھ نما ئندے کل ووٹوں کا صرف نو یا دس فیصد لیکر بھی جیت جا تے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ بدنام ِ زما نہ ظالم ، استحصالی، فراڈئیے، بدمعاش اور خودغرض افراد بھی کچھ ووٹ لیکر زبردستی عوام کے ''نما ئندے'' بن جا تے ہیں۔
مسلک کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنا؟
اب ہماری سیاست میں ایک نیا رجحان یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر بھی ووٹ مانگا جاتا ہے، یہ جماعتیں بھی قابل عمل منشور پیش کرنے سے قاصر ہیں، حتیٰ کہ وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر وہ برسراقتدار آ بھی گئیں تو ریاست کو کیسے چلایا جائے گا اور درپیش چیلنجز کا مقا بلہ کیسے کیا جائے گا؟ ملک وقوم کو خوشحالی اور ترقی سے کیسے ہمکنار کیا جائے گا۔ اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل و لیج بن چکی ہے۔
سائنسی ترقی نے نئی راہوں کا تعین کر دیا ہے، اقوام کے مابین ترقی کا مقابلہ تیز تر ہو رہا ہے، تجارت کے نئے رحجانات پیدا ہو چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے ترقی کے نئے راستے کھول دیئے ہیں مگر مسلک و فرقہ کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے والے اور انکے ووٹردونوں ہی نہیں جانتے کہ ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے کونسی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
جیتنے والی جماعت کو منشور پر عملدرآ مد کا پابند بنایا جائے
ہر الیکشن میں ناقابل ِعمل منشور پیش کر کے بھولے بھالے عوام کو ورغلایا جاتا ہے۔ ایک نئی آس اور اُمید کا فریب دیا جاتا ہے ، مگر برسر اقتدار آنے کے بعد ہر سیا سی پا رٹی اپنے ہی منشور کو پس پُشت ڈال دیتی ہے اس کا واضح حل تو یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اور متعلقہ ادارے اس بات کا جائزہ لیں کہ جیتنے والی پارٹی اپنے منشور پر عملدرآ مد بھی کر رہی ہے یا نہیں اس مقصد کیلئے آئین میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی پارٹی اپنے انتخابی و جماعتی منشور پر عملدرآ مد نہ کرے تو اُ سے عوام کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کا مرتکب قرار دیا جائے۔ جس حلقے میں 50 فیصد ووٹ کاسٹ نہ ہو اُ س حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے کہ عوام کی اکثریت نے سیاستدانوں پر عدم اعتماد کیا ہے،اور وہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام اُمیدواروں کو اپنے ووٹ کا حقدار نہیں سمجھتے،اُ س حلقے میں نئے اُ میدواروں کے ساتھ از سر نو الیکشن کروایا جائے۔
ریاست پاکستان میں جاری مختلف بحرانوں میں شدِت پیدا ہو رہی ہے ، بعض اوقات تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ شائد ان بحرانوں کا کبھی بھی کوئی حل نہ نِکل سکے؟۔ ملکی وقومی مسائل میں دن رات اضا فہ ہو رہا ہے،عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں ۔
بے یقینی اور بے چینی کی فضا میں اضافہ ہو رہا ہے، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مسائل کا واحد حل شفاف انتخاب ہیں ۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو تمام مسائل ہو جائیں گے۔
تما م چینلز میں پاکستان کے '' راہنما'' مسائل کا حل بتانے کی بجائے سارا وقت ایک دوسرے پر الزامات لگانے ایک دوسرے کو بّرا بھلا کہنے میں گزار دیتے ہیں،عوام اپنے راہنما ؤں کی تقلید کرتے ہیں، انکے نقش قدم پر چلتے ہیں اور یہی طرزِ عمل اپنا لیتے ہیں۔
ہماری سیاست میں دلیل اور نظریات کی اہمیت چنداں ختم ہو چکی ہے، انتخابی سیا ست نے نظریا تی سیاست کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ اب عوام کا ذہن بھی اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ نظریات کی بجائے الزامات اور شخصیات کو تر جیح دیتے ہیں۔
سیاستدان کوئی پروگرام پیش کرے یا ملکی وقومی مسائل کا قابل عمل ٹھوس حل بتانے کی بجائے سارا زور اپنے آپ کو خوبصورت بنانے میں لگا دیتے ہیں، ان کی ساری گفتگو کا ماخذ مخالف سیاستدان ہوتے ہیں۔ وہ ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی بجائے ذاتیات پر تنقید کرتے ہیں، اس ساری صورتحال میں عوام کی مایوسی اور بد دلی میں اضافہ تر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
لوگ ملک سے بھا گنے کو تیار ہو رہے ہیں، ایک سال کے اند رعام لوگوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بہت بڑی تعداد بھی اپنے بہتر مستقبل کیلئے دیار غیر کا رُخ کرنے پر مجبور ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آ یا کہ اس الیکشن میں سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے ملک وقوم کی خوشحالی اور بہتری کیلئے قابلِ عمل منشور پیش کریں؟!!!
جمہوریت کا اصل حُسن نظریات اور افراد کا کردار ہے
ریاست کی مضبوطی ،قوموں کی ترقی اور افراد کی خوشحالی اور سکون کیلئے جمہوریت ایک بہترین نظام ہے اگر جمہوریت اپنی اصلی شکل میں بحال ہو تو عوام کی فلاح وبہبود اور ریاست کی مضبوطی اور ترقی کا تسلسل جاری رہتا ہے۔
جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنے آ پ کو ریاست کا اسٹیک ہولڈر سمجھتا ہے، اُسے علم ہوتا ہے کہ ہر باصلاحیت فرد کیلئے آگے بڑھنے اور اپنا کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع موجود ہیں، جمہوری نظام ہر اہل فرد کو آ گے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ریاست بھی ایسے افراد کی مکمل مدد اور معاونت کرتی ہے۔
جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں ذاتی جائیداد نہیں ہوتی ہیں کہ انکی صدارت اور قیادت وراثت کے طور پر اولادوں کو منتقل ہوتی رہے۔ جو جتنا قابل اور باصلاحیت ہے اُسے قیادت سنبھالنے کا اُتنا ہی موقع مِلتا ہے۔
سیاسی پارٹیاں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کرتی ہیں، کہ یہ منشور تخیلاتی چیز نہیں ہے بلکہ اس پروگرام پر عملدرآمد کرنے کا مکمل ایجنڈا بھی انکے پاس موجود ہے۔
عوام ان پارٹیوں کے پروگرامز اور ان پارٹیوں کی لیڈر شِپ کی صلاحیت خلوص اور کردار دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے کہ کس پارٹی کا پروگرام ملک و قوم کیلئے بہترین ہے، عوام اپنے اور ریاستی مفادات کی بنیاد پر پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
جمہوریت میں امیدوارں کے ماضی، کردار،خلوص اور صلاحیت کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ مفاد پرست عنا صر کو رَد کر دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا بہترین حُسن شخصیات اور ذاتیات نہیں، بلکہ نظریات ہوتا ہے۔
چھوٹے ذہن ذاتیات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں
ایک انگریزی محاورے کا اُرود تر جمہ ہے کہ'' چھوٹے ذ ہن ذاتیات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں' عام ذ ہن عام چیزوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ـ' عظیم ذہن نظریات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔'' جن ممالک میں ذاتیات کی بجائے نظریات پر گفتگو کی جاتی ہے، نظریات کو اہمیت دی جاتی ہے،وہ قومیں ہر شعبے میں ترقی کرتی ہیں۔
ان قوموں کا ارتقائی عمل جاری رہتا ہے، ان قوموں کے راہنماؤں کے پیشِ نظر خوراک، صحت ، انصاف، امن اور ترقی کے معاملات ہوتے ہیں۔ ان راہنماؤں کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ انکی عوام کو کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہو، افراد عوام اور ریاست کی ترقی کا عمل جاری و ساری رہے، لوگ چین کی نیند سوئیں اور ترقی کے عمل میں اپنا کردار سر انجام دیں۔
ان راہنماؤں کی اوّلین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ لوگ ما لی دشواری کا شکار نہ ہو ں کہ مالی پریشانیوں میں مبتلا افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ بے یقینی اور مایوسی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں ان مسائل کا حل بتانے کی بجائے صرف اور صرف ذاتیات کو اچھالا جاتا ہے۔