مہنگائی بجٹ ٹیکس کا نظام

ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد عوامی فلاحی منصوبوں اور دیگر اخراجات کے لیے محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے

ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد عوامی فلاحی منصوبوں اور دیگر اخراجات کے لیے محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ فوٹو : فائل

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان بھنور سے نکل آئے گا، حکومتی اقدامات سے کئی شعبوں میں بہتری آئی ہے۔

خوردنی تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دو ہفتوں کے دوران دو بار کی گئی، کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر بینکرز کو ڈالر لینے پڑتے تھے، اس کے لیے ہم نے اجازت دیدی ہے، اس سے ڈالر کی قدر میں بہتری آئی ہے۔

اس وقت پاکستان شدید مشکل معاشی حالات سے دوچار ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بھی کڑی ہیں۔ سابقہ حکومت نے جو معاہدے کیے ہیں، قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے، ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے قوم کو مشکل وقت گزارنا پڑے گا۔

موجودہ اتحادی حکومت کی کوشش ہے کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جائے، کیونکہ غریب عوام کئی سالوں سے مہنگائی کا مقابلہ کر رہے ہیں، توقع کی جاتی ہے کہ موجودہ بجٹ متوازن ہوگا اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریب عوام کو ریلیف مل سکے گا۔

بہتر ہوتا کہ حکومت عوام کو ساری صورت حال کے بارے میں آگاہ کرتی۔ معاشی اصلاح کے انقلابی اور اہم فیصلے کیے بغیر ملک کو خوشحالی اور ترقی کی منزل کی طرف گامزن کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ کمی صرف نعرے لگانے اور الزامات عائد کرنے سے پوری نہیں ہو سکتی۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں بجلی اور گیس کی سبسڈی مزید کم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی و گیس صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

حکومت ٹیکسوں، سبسڈی ختم کرکے بجٹ اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے، سبسڈی ختم ہونے سے مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں، البتہ حکومت کے پاس بیرونی قرض نہ ملنے سے بجٹ اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا نام لے کر اس قدر مہنگائی کی اور اتنے ٹیکس لگائے کہ امرا کی بھی چیخیں نکل گئیں۔

ملک میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح 38 فیصد تک پہنچ گئی، یہ ملکی تاریخ کی بھی بلند ترین شرح ہے جب کہ جنوبی ایشیا میں بھی سب سے بلند سطح ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری مہنگائی کے اعداد و شمار کے مطابق قومی سطح پر ایک سال میں کھانے پینے کی اشیا 48.65 فیصد جب کہ ٹرانسپورٹ کرائے 53فیصد مہنگے ہوگئے۔ ایف بی ایس کے مطابق تفریحی سہولیات گزشتہ سال کی نسبت 72فیصد مہنگی ہوئیں جب کہ ریسٹورنٹ اور ہوٹل چارجز میں بھی 42فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کے روادار نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ طاقتور اور متمول افراد اتنا ٹیکس ادا نہیں کرتے جتنی مراعات اور فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔

کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ وہ بزنس لین دین پر فکسڈ سیلز ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اونچی شرح کا ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) پاکستان کے مخصوص کاروباری ماحول میں قابل قبول نہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے صرف طاقتور اور بددیانت تاجروں، ٹیکس افسران اور مشیروں کا مافیا وجود میں آیا۔


اس مافیا کی ' مہربانی' کی وجہ سے اس ٹیکس (VAT) کے حصول کی شرح صرف 7 فیصد ہے جب کہ اسے 18 فیصد ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نا صرف ویلیو ایڈڈ ٹیکس پاکستان میں درست طریقے سے رائج نہیں ہو سکا بلکہ اس کی اونچی شرح اور غیر لچک دار ضابطوں کی وجہ سے ان افراد کو خاصی دقت کا سامنا ہے جو پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان پر دباؤ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں وہ لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جن کی آمدنی کم ہے جب کہ زیادہ اثاثے رکھنے والے ٹیکس بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں معاشی ناہمواری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں، چاہے وہ سول ہوں یا غیر سول، عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے اور تعلیم، صحت، ہاؤسنگ اور روزگار جیسے فلاحی منصوبوں سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

دیکھنے میں آتا ہے کہ جب حکومت ٹیکس وصول نہیں کر پاتی تو اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لیتی ہے اور وصول ہونے والا تھوڑا بہت ٹیکس اس قرضے کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید قرض اور مزید ادائیگی۔ یہ چکر گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ موجودہ مالی سال کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی شرح ٹیکس کی وصولی کا 66 فیصد ہے۔

یہ بات تقریباً طے ہے کہ پاکستان میں موجودہ غربت اور ٹیکس کے ناقص نظام میں براہ راست تعلق ہے۔ 1991 کے بعد سے یہ صورت حال زیادہ سنگینی کی طرف گامزن ہے کیونکہ اس دور میں انکم ٹیکس کی آڑ میں بالواسطہ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا۔

اس کے بعد سے آج تک ٹیکس کا تمام تر بوجھ غریب آدمی نے اٹھایا ہوا ہے جب کہ دولت مند اور وڈیرے ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق غریب عوام 48 فیصد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ دولت مند افراد صرف 18 فیصد۔ اس کی وجہ سے دولت کی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں موجودہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمے داری بھی زیادہ تر اسی ناہمواری پر عائد ہوتی ہے۔

ہمارے ٹیکس کے نظام میں پائے جانے والے ان نقائص کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ان میں تبدیلی کا تقاضا کرتے رہتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈالتے۔ حالانکہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دولت مند اپنا دامن بچا جاتے ہیں جب کہ غریب آدمی پس رہا ہے۔

ان اداروں کی دلچسپی عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنی رقوم اور سود کی وصولی میں ہوتی ہے۔ سول اداروں کے نقائص اور کمزور جمہوریت کی وجہ سے گزرنے والے سالوں میں ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ سے زیادہ خرابیوں سے دوچار ہو رہا ہے۔

چنانچہ اب جب کہ ملک میں جمہوریت کا دعویٰ کیا جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی جمہوری فوائد سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے لیے سب سے اہم قدم محصولات کا منطقی اور شفاف نظام رائج کرنا ہے۔

دراصل یہ جمہوری حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ محصولات کی منصفانہ وصولی ممکن بنائے اور غریب عوام کو سہولیات فراہم کرے۔ بالواسطہ ٹیکسز VAT یا سیلز ٹیکس پر بہت زیادہ دارومدار مزید معاشی خرابیوں کا باعث بنے گا کیونکہ کمزور طبقات پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے 10فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز دو شرائط پر مان لے۔ پہلی شرط یہ کہ وہ اپنی درست آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کریں گے اور دوسری یہ کہ ٹیکس کی رقم کو ری فنڈ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح کا ٹیکس نظام امریکا سمیت بہت سے ممالک میں رائج ہے۔ ہم بھی مغربی ممالک کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنی حالت بہتر کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی قوتِ ارادی درکار ہے۔

ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد عوامی فلاحی منصوبوں اور دیگر اخراجات کے لیے محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس مشینری کی اصلاح کی جائے اور دولت کی تقسیم میں موجودہ خوفناک عدم مساوات کو جہاں تک ممکن ہو کم کیا جا سکے۔ معاشی ناہمواری کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کی اونچی شرح، سرمائے کی منتقلی پر بھاری ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کو سختی سے وصول کیا جائے۔

مغربی ممالک میں تمام حکومتیں اس ضمن میں غیر لچکدار رویہ اپناتی ہیں تا کہ معاشرے میں بے چینی کا خاتمہ کر سکیں، لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ٹیکس کا نظام جتنا مرضی اچھا بنا لیں، اگر اسے نافذ کرنے کے سخت قوانین پر عمل درآمد نہ ہو تو سب کاوش اکارت ہو جاتی ہے۔

کوئی بھی اپنی مرضی سے ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس کی وصولی کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے غیر لچک دار نظام وضع کرے، وہ تمام اثاثے جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور وہ چاہے اندرون ملک ہیں یا بیروِن ملک، ان کو ضبط کرنے کے لیے قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جائے۔ اس جمہوری عمل کے ذریعے گزشتہ سات عشروں سے جاری لوٹ مار اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی بلا روک ٹوک سرگرمی کا خاتمہ ہو سکے گا۔
Load Next Story