بارٹر ٹریڈ اور معیشت
پبلک سیکٹر اور اور پرائیویٹ سیکٹرمال کے بدلے مال کی بنیاد پر باہمی تجارت کر سکیں گے
وفاقی حکومت نے روس، ایران، افغانستان سمیت دیگر ملکوں سے بارٹر ٹریڈ کے میکنزم کا اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔
اس اعلامیے کے مطابق پبلک سیکٹر اور اور پرائیویٹ سیکٹرمال کے بدلے مال کی بنیاد پر باہمی تجارت کر سکیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کا ایف بی آر کی ایکٹیو ٹیکس پیئرز لسٹ میں ہونا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔
وزارتِ تجارت نے باقاعدہ ایس آر او جاری کردیا ہے۔ بارٹر ٹریڈ کرنے والوں کے لیے پاکستان سنگل ونڈو سسٹم اور امپورٹ ایکسپورٹ کا لائسنس بھی بنیادی شرط ہو گی، تجارت کے لیے ایف بی آر کے آن لائن پورٹل کے ذریعے درخواست دینا ہوگی، متعلقہ ملک میں پاکستانی مشن سے تصدیق بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ پاکستان سے دودھ، کریم، انڈے، سیریل ایکسپورٹ کیے جا سکیں گے۔
وزارت تجارت حکام کے مطابق گوشت، مچھلی کی مصنوعات، پھل، سبزیاں بھی فہرست میں شامل ہیں، چاول، بیکری آئٹمز، نمک، آئل، پرفیوم اور کاسمیٹکس بھی برآمد ہو سکیں گے، کیمیکلز، پلاسٹک، ربڑ، چمڑا، لکڑی کی مصنوعات بھی ایکسپورٹ کی جا سکیں گی۔
وزارت تجارت حکام کے مطابق پیپر، فٹ ویئر، لوہا، اسٹیل، تانبا، ایلومینئم، کٹلری بھی فہرست میں شامل ہیں، پاکستان الیکٹرک فین، ہوم ایمپلائنسز، موٹر سائیکلز بھی برآمد کر سکے گا۔
وزارت تجارت حکام کا کہنا ہے کہ سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان بھی ایکسپورٹ کیا جائے گا، روس سے بارٹر سسٹم کے تحت گندم، دالیں، پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کی جائیں گی، روس سے کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری بھی درآمد کی جائے گی، وزارت تجارت ہمسایہ ملکوں سے آئل سیڈز، منرل، کاٹن بھی امپورٹ کی جا سکے گی۔
وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ درست سمت میں قدم قرار دیا جا سکتا ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو بارٹر ٹریڈ میں کس قسم کی طلب و رسد کا سامنا پڑے گا اور جس مال کو بارٹر کرنا ہے، اس کی قیمت کا تعین کس میکنزم کے تحت کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان روس سے پٹرولیم مصنوعات خریدتا ہے، اب روس اس کے بدلے میں پاکستان سے کیا خریدے گا۔
اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ دونوں ملک اپنی اپنی پراڈکٹ کا پیرٹی ریٹ کس فارمولے کے تحت مقرر کریں گے۔ اس وقت پاکستان میں کاسمیٹکس سے لے کر سینیٹری ویئرز تک درآمد کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی کرنسی اوربارٹر ٹریڈ والے ملکوں کی کرنسی کی شرح تبادلہ کا تعین کس طرح کیا جائے گا کیونکہ پاکستان کی کرنسی کی قدر کے بارے میں سارے ملکوں کو آگاہی حاصل ہے۔
بہرحال حکومت نے کچھ نہ کچھ سوچ کر اور ہوم ورک کر کے یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے حوالے سے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے ملک میں عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (PSDP) کی رقم 31 فیصد بڑھا کر 950 ارب روپے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پہلے وفاقی ترقیاتی پروگرام (PSDP) کے لیے رقم 700 ارب روپے رکھی گئی تھی تاہم گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی (APCC) کے اجلاس کے بعد یہ رقم بڑھا کر950 ارب روپے کر دی گئی حالانکہ وزارت منصوبہ بندی 700 ارب کے ترقیاتی پروگرام کا ورکنگ پیپر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم کر چکی تھی۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر اعظم نے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے۔ اس میں سالانہ وفاقی ترقیاتی پروگرام 950 ارب کا ہو گا۔ پرائیویٹ سیکٹرکی طرف سے اس مد میں خرچ کیے جانے والے 150ارب روپے اس کے علاوہ ہوں گے۔ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص 2.5 ٹریلین روپے کی رقم رواں مالی سال کی رقم سے 90 ارب روپے زیادہ ہو گی۔
وزیراعظم کی زیرصدارت سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC) نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی نموکا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا ہے جس میں شعبہ زراعت کی نمو کا ہدف 3.5 فیصد، صنعتی ترقی کا ہدف 3.4 فیصد اور سروسز سیکٹر کا ہدف3.6 فیصد رکھا گیا ہے۔ اگلے بجٹ میں مہنگائی کی شرح 21 فیصدتک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ آج پھر ہم نے بڑے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، ہم نے پاکستان تو سنگین ترین کلائمیٹ ڈیزاسٹر اور امپورٹ مینجمنٹ کر کے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے 80 ارب کی غیر ضروری درآمدات کیں، جس کے باعث بڑا تجارتی خسارہ دیکھنا پڑا، پی ٹی آئی نے ریکارڈ قرضے لے کر پاکستان کو معاشی دلدل میں پھنسایا، گزشتہ 4 برسوں کے دوران یہ ملک بغیر کسی میپ کے چلتا رہا، جن حالات میں پاکستان کو چھوڑا گیا اس وقت پیشگوئی تھی کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا لیکن اب مشکل حالات سے پاکستان کو نکال لیا گیا ہے۔ اس سال برآمدات 28 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے، اگلے سال 30 ارب ڈالرز تک برآمدات جا سکتی ہیں، تجارتی خسارہ 1.1 فیصد مثبت ہوا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے تھا جو پی ٹی آئی دور میں 500 ارب روپے رہ گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے، پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع کو دیگر اضلاع کے برابر لانا ہو گا، ملکی ترقی کے لیے معیشت کو برآمدی بنانا ہو گا، زرعی شعبے کی بہتری سے گرین انقلاب ہماری اوّلین ترجیح ہے، انرجی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی۔
جون میں بجٹ کی آمد متوقع ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ موجودہ معاشی و سیاسی بحران کے تناظر میں بجٹ سازی خاصا جان جوکھم کا کام ہے۔ میڈیا میں بھی مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ کی تیاری حتمی مراحل میں داخل ہوگئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے مالی و اقتصادی بحران کے باوجود دستیاب وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لاتے ہوئے کاروبار دوست بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اقتصادی ماہرین، تاجر وں اور صنعت کاروں کا مؤقف ہے کہ حکومت بجٹ میں طویل المیعاد پالیسیاں متعارف کرائے اور اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کی روشنی میں بجٹ تیار کیا جائے، آیندہ عام انتخابات کے تناظر میں بجٹ سازی کرنے کے بجائے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ تیار کیا جائے، سیاسی کے بجائے حقیقی معاشی بجٹ دیا جائے۔
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی آخری مدت کے دوران دھڑادھڑ ترقیاتی کام شروع کراتی ہے۔ اب پاکستان ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے، اس حوالے سے بہتر یہی ہے کہ معاشی حقائق اور ملک کی حقیقی ضروریات کو سامنے رکھ کر بجٹ سازی کی جائے۔
پارلیمنٹیرینز کو ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص کرنا، ملازمتوں کے کوٹے مقرر کرنا، پارلیمنٹیرینز کی ڈیمانڈ کے مطابق سرکاری افسران اور اہلکاروں کی تقرریاں اور تبادلے کرنا، جمہوری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ملک میں ترقیاتی اسکیمیں تیار کرنے اور ترقیاتی کام مکمل کرنے کے لیے سرکاری ادارے موجود ہیں۔
ترقیاتی فنڈز اداروں کو منتقل ہونے چاہئیں اور وہی ادارے ترقیاتی پروجیکٹس کو مکمل کرانے کے ذمے دار ہونے چاہئیں۔ پارلیمنٹیرینز اپنے حلقوں میں ترقیاتی اسکیموں میں اگر کوئی بدعنوانی یا کوتاہی ہو رہی ہو، تو اس پر بات کر سکتے ہیں۔
پاکستان کو اب تمام اداروں اور افسروں کو اپنے اپنے آئینی اور قانونی دائرے میں محدود رہنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹیرینز کی بنیادی ذمے داری قانون سازی کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین کا بھی جائزہ لینا ہے۔ جن جن قوانین میں ابہام ہے، ذومعنیت ہے یا معمولی سا اشتباہ موجود ہے، ان چیزوں کو ختم کرنے کے لیے قوانین کو واضح، دوٹوک اور ابہام سے پاک بنانے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔
اسی طرح ریاستی اداروں، نوکرشاہی اور جمہوری اداروں کے یکطرفہ اختیارات، بے جا اخراجات، سہولیات ومراعات اور صوابدیدی نوعیت کے اختیارات پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ، ایڈمنسٹریشن اور جوڈیشری کے افعال اور اعمال کی جوابدہی کا خودکار میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اعلیٰ ترین ادارے اورعہدے سے لے کر تھانے، کچہری کے نچلی سطح تک کے ملازمین پر محیط ہونا چاہیے۔ اعلیٰ اداروں کے سربراہان اور جمہوری مناصب پر فائز بااختیار عہدوں کو حاصل مالی منافعت والے صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اس اعلامیے کے مطابق پبلک سیکٹر اور اور پرائیویٹ سیکٹرمال کے بدلے مال کی بنیاد پر باہمی تجارت کر سکیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کا ایف بی آر کی ایکٹیو ٹیکس پیئرز لسٹ میں ہونا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔
وزارتِ تجارت نے باقاعدہ ایس آر او جاری کردیا ہے۔ بارٹر ٹریڈ کرنے والوں کے لیے پاکستان سنگل ونڈو سسٹم اور امپورٹ ایکسپورٹ کا لائسنس بھی بنیادی شرط ہو گی، تجارت کے لیے ایف بی آر کے آن لائن پورٹل کے ذریعے درخواست دینا ہوگی، متعلقہ ملک میں پاکستانی مشن سے تصدیق بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ پاکستان سے دودھ، کریم، انڈے، سیریل ایکسپورٹ کیے جا سکیں گے۔
وزارت تجارت حکام کے مطابق گوشت، مچھلی کی مصنوعات، پھل، سبزیاں بھی فہرست میں شامل ہیں، چاول، بیکری آئٹمز، نمک، آئل، پرفیوم اور کاسمیٹکس بھی برآمد ہو سکیں گے، کیمیکلز، پلاسٹک، ربڑ، چمڑا، لکڑی کی مصنوعات بھی ایکسپورٹ کی جا سکیں گی۔
وزارت تجارت حکام کے مطابق پیپر، فٹ ویئر، لوہا، اسٹیل، تانبا، ایلومینئم، کٹلری بھی فہرست میں شامل ہیں، پاکستان الیکٹرک فین، ہوم ایمپلائنسز، موٹر سائیکلز بھی برآمد کر سکے گا۔
وزارت تجارت حکام کا کہنا ہے کہ سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان بھی ایکسپورٹ کیا جائے گا، روس سے بارٹر سسٹم کے تحت گندم، دالیں، پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کی جائیں گی، روس سے کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری بھی درآمد کی جائے گی، وزارت تجارت ہمسایہ ملکوں سے آئل سیڈز، منرل، کاٹن بھی امپورٹ کی جا سکے گی۔
وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ درست سمت میں قدم قرار دیا جا سکتا ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو بارٹر ٹریڈ میں کس قسم کی طلب و رسد کا سامنا پڑے گا اور جس مال کو بارٹر کرنا ہے، اس کی قیمت کا تعین کس میکنزم کے تحت کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان روس سے پٹرولیم مصنوعات خریدتا ہے، اب روس اس کے بدلے میں پاکستان سے کیا خریدے گا۔
اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ دونوں ملک اپنی اپنی پراڈکٹ کا پیرٹی ریٹ کس فارمولے کے تحت مقرر کریں گے۔ اس وقت پاکستان میں کاسمیٹکس سے لے کر سینیٹری ویئرز تک درآمد کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی کرنسی اوربارٹر ٹریڈ والے ملکوں کی کرنسی کی شرح تبادلہ کا تعین کس طرح کیا جائے گا کیونکہ پاکستان کی کرنسی کی قدر کے بارے میں سارے ملکوں کو آگاہی حاصل ہے۔
بہرحال حکومت نے کچھ نہ کچھ سوچ کر اور ہوم ورک کر کے یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے حوالے سے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے ملک میں عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (PSDP) کی رقم 31 فیصد بڑھا کر 950 ارب روپے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پہلے وفاقی ترقیاتی پروگرام (PSDP) کے لیے رقم 700 ارب روپے رکھی گئی تھی تاہم گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی (APCC) کے اجلاس کے بعد یہ رقم بڑھا کر950 ارب روپے کر دی گئی حالانکہ وزارت منصوبہ بندی 700 ارب کے ترقیاتی پروگرام کا ورکنگ پیپر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم کر چکی تھی۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر اعظم نے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے۔ اس میں سالانہ وفاقی ترقیاتی پروگرام 950 ارب کا ہو گا۔ پرائیویٹ سیکٹرکی طرف سے اس مد میں خرچ کیے جانے والے 150ارب روپے اس کے علاوہ ہوں گے۔ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص 2.5 ٹریلین روپے کی رقم رواں مالی سال کی رقم سے 90 ارب روپے زیادہ ہو گی۔
وزیراعظم کی زیرصدارت سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی(APCC) نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی نموکا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا ہے جس میں شعبہ زراعت کی نمو کا ہدف 3.5 فیصد، صنعتی ترقی کا ہدف 3.4 فیصد اور سروسز سیکٹر کا ہدف3.6 فیصد رکھا گیا ہے۔ اگلے بجٹ میں مہنگائی کی شرح 21 فیصدتک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ آج پھر ہم نے بڑے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، ہم نے پاکستان تو سنگین ترین کلائمیٹ ڈیزاسٹر اور امپورٹ مینجمنٹ کر کے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے 80 ارب کی غیر ضروری درآمدات کیں، جس کے باعث بڑا تجارتی خسارہ دیکھنا پڑا، پی ٹی آئی نے ریکارڈ قرضے لے کر پاکستان کو معاشی دلدل میں پھنسایا، گزشتہ 4 برسوں کے دوران یہ ملک بغیر کسی میپ کے چلتا رہا، جن حالات میں پاکستان کو چھوڑا گیا اس وقت پیشگوئی تھی کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا لیکن اب مشکل حالات سے پاکستان کو نکال لیا گیا ہے۔ اس سال برآمدات 28 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے، اگلے سال 30 ارب ڈالرز تک برآمدات جا سکتی ہیں، تجارتی خسارہ 1.1 فیصد مثبت ہوا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے تھا جو پی ٹی آئی دور میں 500 ارب روپے رہ گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے، پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع کو دیگر اضلاع کے برابر لانا ہو گا، ملکی ترقی کے لیے معیشت کو برآمدی بنانا ہو گا، زرعی شعبے کی بہتری سے گرین انقلاب ہماری اوّلین ترجیح ہے، انرجی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی۔
جون میں بجٹ کی آمد متوقع ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ موجودہ معاشی و سیاسی بحران کے تناظر میں بجٹ سازی خاصا جان جوکھم کا کام ہے۔ میڈیا میں بھی مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ کی تیاری حتمی مراحل میں داخل ہوگئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے مالی و اقتصادی بحران کے باوجود دستیاب وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لاتے ہوئے کاروبار دوست بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اقتصادی ماہرین، تاجر وں اور صنعت کاروں کا مؤقف ہے کہ حکومت بجٹ میں طویل المیعاد پالیسیاں متعارف کرائے اور اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کی روشنی میں بجٹ تیار کیا جائے، آیندہ عام انتخابات کے تناظر میں بجٹ سازی کرنے کے بجائے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ تیار کیا جائے، سیاسی کے بجائے حقیقی معاشی بجٹ دیا جائے۔
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی آخری مدت کے دوران دھڑادھڑ ترقیاتی کام شروع کراتی ہے۔ اب پاکستان ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے، اس حوالے سے بہتر یہی ہے کہ معاشی حقائق اور ملک کی حقیقی ضروریات کو سامنے رکھ کر بجٹ سازی کی جائے۔
پارلیمنٹیرینز کو ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص کرنا، ملازمتوں کے کوٹے مقرر کرنا، پارلیمنٹیرینز کی ڈیمانڈ کے مطابق سرکاری افسران اور اہلکاروں کی تقرریاں اور تبادلے کرنا، جمہوری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ملک میں ترقیاتی اسکیمیں تیار کرنے اور ترقیاتی کام مکمل کرنے کے لیے سرکاری ادارے موجود ہیں۔
ترقیاتی فنڈز اداروں کو منتقل ہونے چاہئیں اور وہی ادارے ترقیاتی پروجیکٹس کو مکمل کرانے کے ذمے دار ہونے چاہئیں۔ پارلیمنٹیرینز اپنے حلقوں میں ترقیاتی اسکیموں میں اگر کوئی بدعنوانی یا کوتاہی ہو رہی ہو، تو اس پر بات کر سکتے ہیں۔
پاکستان کو اب تمام اداروں اور افسروں کو اپنے اپنے آئینی اور قانونی دائرے میں محدود رہنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹیرینز کی بنیادی ذمے داری قانون سازی کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین کا بھی جائزہ لینا ہے۔ جن جن قوانین میں ابہام ہے، ذومعنیت ہے یا معمولی سا اشتباہ موجود ہے، ان چیزوں کو ختم کرنے کے لیے قوانین کو واضح، دوٹوک اور ابہام سے پاک بنانے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔
اسی طرح ریاستی اداروں، نوکرشاہی اور جمہوری اداروں کے یکطرفہ اختیارات، بے جا اخراجات، سہولیات ومراعات اور صوابدیدی نوعیت کے اختیارات پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ، ایڈمنسٹریشن اور جوڈیشری کے افعال اور اعمال کی جوابدہی کا خودکار میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اعلیٰ ترین ادارے اورعہدے سے لے کر تھانے، کچہری کے نچلی سطح تک کے ملازمین پر محیط ہونا چاہیے۔ اعلیٰ اداروں کے سربراہان اور جمہوری مناصب پر فائز بااختیار عہدوں کو حاصل مالی منافعت والے صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔