ظفراقبال کی ایک غزل …

عجیب بات ہے کہ خیالات میں ندرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے

میرا ایک شعر ہے ؎

دو مصرعوں میں ربط ہو صوری نہ معنوی

دور جدیدیت کی وہ الجھی غزل کہوں؟

جدیدیت اتنی جدید بھی نہیں کہ اسے کسی تحریک کا نام دیا جائے۔ ہر فنکار، ہر دور میں یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے فن میں کچھ نیا پیش کرے۔ اردو غزل گوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ میر ہوں، غالب ہوں یا داغ و حسرت سب حتی المقدور اپنی شاعری میں تنوع لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں،آج کے جدت پسند شاعروں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جدت کو اختیار کریں اور روایت کو ترک کر دیں۔ یعنی روایتی شعر بالکل نہ کہیں۔ مگر پھر بھی ان کی غزلوں میں روایت کی جھلک آ ہی جاتی ہے۔

سب سے پہلے تو اس غزل کی ردیف ٖ''آ نہیں رہا '' درست جملہ نہیں۔ اس میں فعل ناقص ، '' تھا ، ہے'' کی کمی ہے جس سے زمانے کا تعین ہوسکے۔ دوئم اس میں تعقید لفظی کا عیب بھی ہے، درست جملہ یوں ہونا چاہیے '' نہیں آ رہا ہے۔''

ہو سکتا ہے، پنجابی میں درست ہو مگر اردو میں نہیں۔

اس غزل کا مطلع ہے۔

کیسا ہے یہ زوال کمال آ نہیں رہا

ہے منتظر جواب سوال آ نہیں رہا

مجھے دونوں مصرعوں میں کوئی ربط نظر نہیں آرہا ہے، نہ صوری نہ معنوی۔ دوسری بات یہ کہ زوال کے بعد کمال یک بیک نہیں آتا۔ زوال کے بعد بہتری، اعتدال، عروج اور پھر کمال آتا ہے۔ زوال کے بعد سیدھے کمال کی امید رکھنا غیر منطقی ہے۔

دوسرا شعر ہے۔

اک برف سی جمی ہے رگوں کے نواح میں

مدت ہوئی کسی میں ابال آ نہیں رہا

رگوں میں خون کا جمنا تو محاورہ ہے مگر رگوں کے نواح میں برف کا جمنا، شاید جدت پسندی کی ترکیب ہے۔ یہاں بھی جمی ہوئی برف میں فورا ابال کا آنا غیر منطقی ہے۔ برف پگھلتی ہے، معتدل ہوتی، گرم ہوتی ہے پھر اس میں ابال آسکتا ہے۔ظفر اقبال عصر حاضرکی جدید شاعری کے علمبردار ہیں، اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں۔ اردو ادب کو ان پر ناز ہونا چاہیے کہ انہوں نے غزل گوئی کو ایک نئی جہت اور نیا انداز بخشا۔ زیر نظر غزل کی چند باتوں کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے لہٰذا اس کے اظہارکی جسارت کر رہا ہوں۔تیسرا شعر ہے۔

مشکل پسند طبع کے اپنے ہیں سلسلے

آساں ہے دستیاب محال آ نہیں رہا

شعر مبہم ہے۔ کیا آسان دستیاب ہے؟ شاید خیال۔ خیالِ محال کی کیا اہمیت ہے۔ بلند خیالی البتہ ایک صفت ہوتی ہے۔ مشکل خیالی تو کسی کام کی نہیں۔ چوتھا شعر ہے۔

ایک ایک کرکے لمحے گزرتے ہیں رات دن

جو عمر میں شمار ہو سال آ نہیں رہا

اچھا شعر ہے، یہاں لمحے کے بعد رات، دن اور پھر سال کاذکر تسلسل سے ہے۔

چلتا ہے سب کا اپنی ہی مرضی سے کاروبار


خوشیاں ہیں دور دور ملال آ نہیں رہا

ہمارا عقیدہ ہے کہ کاروبار نہ اپنی مرضی سے چلتا ہے نہ کسی اورکی مرضی سے یہ اللہ کی مرضی سے چلتا ہے، اگر خوشی اور ملال کا کارو بار،کسی اورکی مرضی چل رہا ہے تو پھر ملال کیوں منتخب کرے گا کوئی؟ ہمیشہ خوشی ہی خوشی رکھے گا۔

جو چیز آنی چاہیے ہے راہ میں رکی

سرکو ہے انتظار وبال آ نہیں رہا

پہلے مصرعے میں تعقید لفظی کا عیب ہے جیسا کہ ردیف میں ہے، اتنے مستند شاعر سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے، اگر چاہتے تو آسانی سے درست کرسکتے تھے جیسے ''جو چیز آنی چاہیے رستے میں رک گئی'' دوسری بات یہ کہ کسی سرکو وبال کا انتظار کیوں ہے؟ آسانیوں کا انتظار ہوتا ہے وبال کا نہیں۔ایک اور شعر ہے۔

گانا تو خیر چھوڑیے رونا نہیں نصیب

سُر بے سرا ہے دیر سے تال آ نہیں رہا

ذہنی پریشانی کی عکاسی کی گئی ہے، مگر جب آپ گانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ''خیر چھوڑیے'' کیوںکہہ رہے ہیں۔

میرے خیال میں'' گانا تو خیرگانا ہے، رونا نہیں نصیب'' کا محل ہے۔

ایک اور شعر ہے۔

کیا خوب روگزر رہے ہیں دائیں بائیں سے

وہ ہے جوآپ اپنی مثال آ نہیں رہا

روایتی سا شعر ہے اور پہلے مصرعے میں صوتی تنافر بھی ہے۔

مقطع ہے۔

دریا کو چھوڑ کرکہیں جانے کو ہیں ظفر

تنگ آچکی ہیں مچھلیاں جال آنہیں رہا

عجیب سا شعر ہے۔ مچھلیاں کیوں دریا سے تنگ آچکی ہیں؟

پانی سے نکل کے کیسے زندہ رہیں گی، شاید اسی کو جدت کہتے ہیں۔

میں نے یہ غزل سرفراز تبسم اور شہزاد انجم کی مرتب کردہ کتاب ''ادبیت '' میں پڑھی۔ اس غزل میں خیال کی ندرت مجھے کہیں نظر نہیں آئی،اسی رسالے کی ایک تنقیدی مضمون میں ظفر اقبال فرماتے ہیں'' جہاں تک فکر و خیال کی بلندی کا تعلق ہے تو اس کی گنجائش اس لیے بھی باقی نہیں رہتی کہ مضامین سارے کے سارے دہرائے جا چکے ہیں۔ چنانچہ لے دے کے ایک زبان ہی رہ جاتی ہے جو اس سلسلے میں نہ صرف مطلوبہ سہولیات فراہم کرسکتی ہے، بلکہ امکانات کے ایک پورے جہان سے روشناس کراتی ہے۔''

عجیب بات ہے کہ خیالات میں ندرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔ دنیا میں اتنی ساری ایجادات کے باوجود آئے دن نئی نئی اختراعات اور ایجادات ہو رہی ہیں مگر اردو ادب نئے خیالات سے سیر ہو چکی ہے اور فکر و تصورات کے پر کٹ چکے ہیں۔ خامہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھیے۔

انساںکے تخیل کی تو مریخ نہیں حد

آئیں گی ابھی راہ میں کچھ کاہکشاں اور
Load Next Story