حبیب جالب کی پنجابی شاعری

حبیب جالب پنجابی میں بہت کچھ لکھ سکتے تھے، لیکن ان کی ابتدا ہی اردو شاعری سے ہوئی تھی

ہال میں ایک سریلی آواز گونج رہی تھی، در و دیوار سے جیسے موسیقی کی تانیں پھوٹ رہی تھیں اور سامعین مدہوشی کے عالم میں دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے، شاید یہ پنجابی کے ایک کلاسیکل گیت کی دھن کا کمال تھا جو تقسیم سے قبل شیخوپورہ سے اجڑ کر دہلی میں آباد ہونے والے مایہ ناز گائیک آسا سنگھ مستانہ نے گایا تھا اور اپنے محبوب سے گھر کے سارے کام دھندے چھوڑ کر میلے پر جانے کی درخواست کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

آج سارے چھڈ جنجال کڑے

میلے نوں چل میرے نال کڑے

ہال میں گونجنے والی سریلی آواز آسا سنگھ مستانہ کی نہیں تھی اور نہ ہی اس کی سر میں گانے والا شخص اپنے محبوب سے میلے پر جانے کی التجا کر رہا تھا بلکہ وہ مزدوروں اور کسانوں کا محبوب شاعر حبیب جالب تھا اور اپنی محبوب لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو سے یہ درخواست کررہا تھا کہ وہ امریکا سے اپنے تعلقات کا جائزہ لے، وہ انتہائی دکھ بھرے میں لہجے میں اپنی سیاسی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

ایہنے قتل آزادی نوں کیتا

ایہنے اس دھرتی دا لہو پیتا

ایہنے کٹوایا بنگال کُڑے

نہ جا امریکا نال کُڑے

حبیب جالب جب بھی کراچی کے کسی سیاسی جلسے، مشاعرے یا مظاہرے میں اسٹیج پر نمودار ہوتے ان کی آواز کا اتار چڑھائو اور ترنم سامعین کو مبہوت کر دیتا، ایسے میں پنجابی زبان نہ سمجھنے کی بات جھوٹ ثابت ہوتی اور انہیں اتنی ہی داد ملتی جتنی اردو کی مشہور نظموں، ظلمت کو ضیا، سر سر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا یا وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے پڑھنے پر دی جاتی۔

حبیب جالب پنجابی میں بہت کچھ لکھ سکتے تھے، لیکن ان کی ابتدا ہی اردو شاعری سے ہوئی تھی، پہلا شعر جو ساتویں جماعت میں انہوں نے لکھا تھا وہ اردو میں ہی تھا، لیکن گھرکا ماحول انتہائی فقیرانہ اور قلندرانہ ہونے کیساتھ پنجاب کے روایتی کلچر میں گندھا ہوا تھا۔ انھوں نے پنجابی اپنی ماں کی گود میں سیکھی اور ہوشیار پور کے گائوں میانی افغاناں کے گلی کوچوں میں ہوش سنبھالا، جہاں صرف پنجابی ہی بولی اور سمجھی جاتی تھی، مدرسے میں داخل ہوئے تو ہم جماعت بھی پنجابی بولنے والے تھے یہاں تک کہ مدرسے میں انھیں قرآن کی تعلیم دینے والے استاد مولانا غلام رسول عالمپوری کا تعلق بھی اسی زبان سے تھا۔

کراچی کے بڑے بڑے مشاعرے سامعین کو اچھی طرح یاد ہوں گے جن میں وہ اپنی اردو کی نظم سناتے ہوئے لمحہ بھر کو رکتے اور اپنی گرفتاری، اُس نظم کی بنت یا اُس کے پس منظر کے بارے میں سامعین کو پنجابی میں سمجھانے لگتے۔ حبیب جالب کے دوست احباب اور چاہنے والے بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ ہسپتال میں ہوں، ہوٹل میں قیام فرما ہوں یا کسی نجی محفل میں بیٹھے ہوں پنجابی میں گفتگو کو ترجیح دیتے تھے۔

کراچی میں اُن کے دو مستقل میزبانوں میں بابا نجمی اور ایس ایم انعام مرحوم سب سے نمایاں تھے، نجی محفلوں میں بھی یہ دونوں حضرات اُن کے قریب رہتے تھے جن سے وہ پنجابی میں ہی گفتگو کرتے تھے۔ بہت ساری محفلوں میں مجھے بھی اُن کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ بیماری کے دوران کراچی میں اُن کی عیادت کیلئے بابا نجمی کے ساتھ کئی بار اُن کے پاس جانا ہوا تو انھوں نے ہمارے ساتھ پنجابی میں ہی اس بات کا اظہار کیا کہ اُن کے بیٹے کا کوئی مستقل روزگار نہیں ہے اور میں اُس کے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتا ہوں۔

حبیب جالب کی زندگی کی طرح اُن کی پنجابی شاعری کے بھی کئی ادوار ہیں، لیکن اوائل عمری میں انھوں نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ وقت گزرنے کیساتھ اور اردو شاعری میں اپنی پہچان بنانے کے بعد انھوں نے جب بائیں بازو کی سیاست میں قدم رکھا تو مزدوروں، کسانوں اور سیاسی کارکنوں کی مشکلات کیساتھ اپنی پنجابی نظموں کے ذریعے عالمی سامراج کی ریشہ دوانیوں کا بھی پردہ چاک کرنا شروع کر دیا۔

امریکہ توں جنگ آوندی اے

بھُک آوندی اے ننگ آوندی اے

روٹی کپڑا چھت نہیں آئوندی

چہریاں تے رنگت نہیں آوندی


تاپ آئوندا اے گھنگ آئوندی اے

امریکہ توں جنگ آئوندی اے

جالب کی ابتدائی اور آبائی زندگی کا تعلق دیہی علاقے سے تھا اور وہ کسانوں کے استحصال کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے چلے آئے تھے، شاید اسی لیے انھوں نے انیس سو باون میں پہلی دفعہ جس سیاسی پارٹی یا تحریک میں شمولیت اختیار کی، وہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک تھی۔ جالب صاحب کو پہلی دفعہ اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے گرفتار بھی کیا گیا اور پھر گرفتاریوں کا یہ سلسلہ پوری زندگی جاری رہا۔

حبیب جالب کی پنجابی شاعری میں اُن کے لکھے ہوئے فلمی گیتوں کا بھی ایک بڑا حصہ شامل ہے، لیکن یہ گیت لکھنے اور کراچی سے لاہور منتقل ہونے سے قبل وہ ہدایت کار روپ کے شوری کی مشہور زمانہ فلم '' مس چھپن'' کیلئے بھی ایک گیت تحریر کر چکے تھے جو کچھ یوں تھا۔

یہ چاندنی یہ سائے

پہلو میں تم ہو میرے

پھر کیوں نہ پیار آئے

حبیب جالب نے پنجابی فلموں کے لیے جو گیت تحریر کیے اُن میں پنجابی کے کلاسیک سے زیادہ ان کی مزاحمتی طبیعت کا رنگ زیادہ جھلکتا ہے۔ فلم ''ہاشو خان '' کے گیت ہوں یا فلم ''سرفروش'' اور ''درندگی'' میں لکھے گئے اُن کے پنجابی گیت ہوں تفریح سے زیادہ ان کی طبیعت کے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں۔ فلم سرفروش کے ایک گیت میں وہ ظالم سے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔

باز ظلم توں آ ظالما باز ظلم توں آ

اگلے پل دی خبر نہ تینوں بن بن بہویں خدا

فلم '' درندگی'' کے لیے لکھا گیا، اُن کا یہ گیت بھی ان کی مزاحمتی سوچ کا عکس ہے۔

جگ دیا مالکا دہائی اے دہائی اے

دیکھ ذرا ظالماں نے کنی لٹ پائی اے

ابتدا میں ہم نے آسا سنگھ مستانہ کے گائے ہوئے جس پنجابی گیت کا حوالہ دیتے ہوئے حبیب جالب کی ترنم سے پڑھی جانے والی نظم کا ذکر کیا تھا اگر اسے ان فلمی گانوں سے ملایا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زندگی کے جس دور میں انھوں نے یہ گیت تحریر کیے تھے، اس وقت ان پر فلمی گیتوں سے زیادہ مزاحمتی شاعری کا ٹھپہ لگ چکا تھا اور دوسرا اُن کی طبیعت بھی پنجابی شاعری کی طرف اس طرح راغب نہیں تھی جس طرح وہ اردو میں اظہار کر رہے تھے۔

حبیب جالب کی شاعری میں مزاحمتی رنگ تو ابتدا سے ہی موجود تھا، مگر اُن کی پنجابی شاعری میں یہ رنگ ضیا الحق کے دور میں اُبھر کر سامنے آیا۔ اُس کے بعد پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور میں انھوں نے پنجابی میں جو مزاحمتی نظمیں لکھیں وہ بھی انتہائی مشہور ہوئیں۔

پیپلز پارٹی اور اس جماعت کے رہنمائوں سے جالب صاحب کا تعلق دھوپ چھائوں جیسا تھا۔ وہ جب پارٹی کے سیاسی فیصلوں پر تنقید کرتے تو کارکن اُن سے ناراض ہو جاتے، مگر اگلے ہی کچھ دنوں میں اگر کوئی بڑا پروگرام ترتیب دیا جاتا تو جالب صاحب کو نہ صرف اس میں مدعو کیا جاتا بلکہ ان کے سفری اخراجات اور رہائش کا بھی انتظام کیا جاتا اور اسٹیج پر اُس دور کے وزرا اور سینیٹر بھی اُن کے ساتھ براجمان ہوتے، جو اُن کی تنقیدی نظموں کو سنتے، تھوڑی دیر کیلئے ناک بھوں چڑھاتے لیکن دوسرے ہی لمحے اُن کیساتھ شیروشکر ہو جاتے۔

انھوں نے اپنی پنجابی نظم ِ نہ جا امریکا نال کڑے، کراچی اور لاہور میں پہلی دفعہ سنائی تو بھی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اُن کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھی۔ شاید یہی رویہ پیپلز پارٹی کو ہم عصر جماعتوں سے ممتاز بناتا ہے۔ حبیب جالب کی پنجابی شاعری پر بہت کم لکھا گیا ہے اور پنجابی حلقوں نے تو اس پر نہ لکھنے کے برابر لکھا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ '' حبیب جالب بحیثیت پنجابی شاعر'' نامی کتاب میں اُن کی پنجابی شاعری کا بھر پور جائزہ لیا جائے تاکہ ان کی مادری زبان میں لکھی ہوئی شاعری سے بھی اُن کے چاہنے والے واقف ہو سکیں۔
Load Next Story