وہی رونا دھونا
ممبران اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری اٹھا کر دیکھ لیجیے، نام بڑے اور ٹیکس کے درشن اس قدر شرمناک
حالات حاضرہ کی تبدیلی کی کسے خواہش نہیں ہوتی لیکن یہ خواہش اس وقت سراسر زیاں کاری محسوس ہوتی ہے جب حالات ِ حاضرہ بجائے خود مستقل ہو جائیں۔ اس مضحکہ خیز صورت حال کو مشہور شاعر دلاور فگار نے یوں قلم بند کیا:
حالاتِ حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہو گئے
حالت حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالت حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
جون کا آغاز ہوتے ہی اکنامک سروے کے اعداد و شمار اور بجٹ کے وار کا انتظار اور ذکر شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ ایک لگی بندھی پختہ سالانہ رسم ہے۔ اکنامک سروے اور بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت دُہائی دیتی ہے کہ اس نے کمال کردیا، جب کہ اپوزیشن اس کے بالکل برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ کمال سراسر دھوکا ہے۔
اعدادوشمارکی بہتات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ برسات کے مچھروں کی بہتات کو مات کرتا ہے۔ اللہ بھلا کرے جس نے یہ دریافت کرکے ہم ایسوں کی دل جوئی کا سامان کر دیا کہ سفید جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں؛ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعدادوشمار! عام آدمی ادھر ادھر کی سن اور دیکھ کر فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اصل کہانی کیا ہے ؟
انگریزی کا ایک محاورہ کچھ یوں ہے کہ اگر آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے تو اپنی اس حالت کے لیے آپ کو آس پاس سب کچھ تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہم ہیں کہ اپنے آپ کو بدلنے پر تیار نہیں۔ تجارتی ، صنعتی اور سروسز کا طبقہ اپنے لیے مراعات کا طلبگار ہے لیکن ٹیکس اور دستاویزی معیشت پر تیار نہیں۔ جو برے بھلے دستاویزی نرغے میں آگئے، ٹیکس مشینری کے حکام انھیں وہ وہ ناکوں چنے چبواتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔
ممبران اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری اٹھا کر دیکھ لیجیے، نام بڑے اور ٹیکس کے درشن اس قدر شرمناک۔ مگر سب جاری و ساری ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ بات بات پر عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت کے زعم کا نعرہ لگانے والے آبادی کے اعتبار سے چھٹے سب سے بڑے ملک کے مالی استحکام کا یہ عالم ہے کہ اس کے پاس ایک ڈیڑھ مہینے کی درآمدات کے لیے زرمبادلہ ہے۔
جو زرِ مبادلہ ہے اس میں دکھاوے کے لیے دوست ممالک کے چند ارب ڈالرز بھی شامل ہیں۔ بیلنس آف پیمنٹ کا بحران ایک حالت مسلسل میں ہے۔ برآمدات کا جو مکس تیس سال پہلے تھا وہی آج ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم گل محمد بنے وہیں کے وہیں جمے ہوئے ہیں۔
فریق مخالف پر ہر شے کا الزام دھرنا آسان فیصلہ ہے ۔ مشکل فیصلے ان وجوہات کے سد باب میں ہیں جن سے آنکھیں چراتے چراتے ملکی معیشت اس مقام تک آن پہنچی ہے۔ ملکی معیشت سراسر غیر پیداواری سرمایہ کاری کے بھینٹ چڑھ چکی ہے؛ ایک مکمل صارف معیشت۔ تسلیم ! پاکستانی معیشت کو مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیا کہ دیوالیے کے دہانے معیشت جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کے ہاں سیاسی اتحادیوں کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی اخراجات کا اہتمام ہے۔
یہ روش حقیقت پسند ہے اور نہ زیادہ دیر چلنے والی۔ مشکل فیصلے کریں جن سے امپورٹس کم ہوں، انرجی کی کھپت کم ہو۔ بجٹ خسارہ دور کرنے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھائیں نہ کہ دستاویزی عمل کو تہہ کرکے اپنے حلقہ انتخاب کے تاجروں اور درآمد کنندگان کو معمولی فکس ٹیکس لگا کر دہائی مچائیں کہ ہم مشکل میں اور مشکل فیصلے کر رہے ہیں!!
پاکستان کے بیلنس آف پیمنٹ کا بحران نیا نہیں، نوّے کی دِہائی سے لے کر ہر حکومت اس بحران کا سامنا کرتی آئی ، ہمارے مالیاتی حکیموں کو علاج بالقرض کے سوا کبھی کچھ سوجھا ہی نہیں۔ سیاسی معجون اور کشتے ایک سے بڑھ کر ایک تیار ہوتے رہے لیکن مجال ہے کسی نے ادھر بھی توجہ دی ہو۔ پبلک سیکٹر اداروں کا سالانہ نقصان سات سو ارب سے ایک ہزار روپے تک بتایا جاتا ہے۔
بجلی کا سرکلر ڈیٹ ساڑھے تین ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ گیس کمپنیوں کا سرکلر ڈیٹ بھی ڈیڑھ ارب روپے ہونے کو ہے ۔ زراعت کی پیداوار میں جمود طاری ہے ۔ نتیجہ یہ کہ اب گندم چینی سمیت کھانے پینے کی اشیاء پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ ملک میں ڈی انڈسٹریلالیزیشن کا عمل کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ سب ہمارے سیاسی حاذق حکیموں کا کیا دھرا ہے۔ ان حکیموں پر اور کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
حکمران اشرافیہ کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، انھیں ہم ایسوں کے نیک و بد سمجھانے کا کوئی اثر لینے کی کیا مجبوری ہے۔ مگر زمینی حالات کا جبر اب پریشر ککر کی طرح پھٹنے کو تیار ہے۔ مشکل فیصلوں کا مطلب صرف عوام کی جیب ہلکی کرنے کا رویہ نہیں چلے گا۔
حکمران اشرافیہ کو اپنی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، پروٹوکول، نوکر شاہی اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام کی مہنگی مراعات سے بھی کچھ قربان کرنا پڑے گا ورنہ آج نہیں تو کل معاملات خوفناک ہو سکتے ہیں۔ عوام اب مشکل فیصلوں جیسے تماشوں سے تنگ ہیں۔ وہ اب اتنے بے شعور بھی نہیں کہ بقول صغیر احمد صغیر یہ نہ جان سکیں کہ ؛
اگرچہ طے ہے کہ یہ روز و شب تماشا ہے
کسی سبب سے ہی یہ بے سبب تماشا ہے!
گزشتہ دو سال سے آئی ایم ایف پروگرام کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا وہ نبھانا آسان نہ تھا۔ پی ڈی ایم حکومت نے پہلے پہل تو آئی ایم ایف کو سنجیدگی سے لیا لیکن پھر اسحاق ڈار نے اپنے انداز سے آئی ایم ایف کو ڈیل کرنے کا بیڑا اٹھایا جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اب پرانے قرض پروگرام کے ساتھ ایک نئے قرض پروگرام کی شنید ہے ۔ اللہ خیر رکھے ۔
حالاتِ حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہو گئے
حالت حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالت حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
جون کا آغاز ہوتے ہی اکنامک سروے کے اعداد و شمار اور بجٹ کے وار کا انتظار اور ذکر شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ ایک لگی بندھی پختہ سالانہ رسم ہے۔ اکنامک سروے اور بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت دُہائی دیتی ہے کہ اس نے کمال کردیا، جب کہ اپوزیشن اس کے بالکل برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ کمال سراسر دھوکا ہے۔
اعدادوشمارکی بہتات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ برسات کے مچھروں کی بہتات کو مات کرتا ہے۔ اللہ بھلا کرے جس نے یہ دریافت کرکے ہم ایسوں کی دل جوئی کا سامان کر دیا کہ سفید جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں؛ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعدادوشمار! عام آدمی ادھر ادھر کی سن اور دیکھ کر فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اصل کہانی کیا ہے ؟
انگریزی کا ایک محاورہ کچھ یوں ہے کہ اگر آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے تو اپنی اس حالت کے لیے آپ کو آس پاس سب کچھ تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہم ہیں کہ اپنے آپ کو بدلنے پر تیار نہیں۔ تجارتی ، صنعتی اور سروسز کا طبقہ اپنے لیے مراعات کا طلبگار ہے لیکن ٹیکس اور دستاویزی معیشت پر تیار نہیں۔ جو برے بھلے دستاویزی نرغے میں آگئے، ٹیکس مشینری کے حکام انھیں وہ وہ ناکوں چنے چبواتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔
ممبران اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری اٹھا کر دیکھ لیجیے، نام بڑے اور ٹیکس کے درشن اس قدر شرمناک۔ مگر سب جاری و ساری ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ بات بات پر عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت کے زعم کا نعرہ لگانے والے آبادی کے اعتبار سے چھٹے سب سے بڑے ملک کے مالی استحکام کا یہ عالم ہے کہ اس کے پاس ایک ڈیڑھ مہینے کی درآمدات کے لیے زرمبادلہ ہے۔
جو زرِ مبادلہ ہے اس میں دکھاوے کے لیے دوست ممالک کے چند ارب ڈالرز بھی شامل ہیں۔ بیلنس آف پیمنٹ کا بحران ایک حالت مسلسل میں ہے۔ برآمدات کا جو مکس تیس سال پہلے تھا وہی آج ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم گل محمد بنے وہیں کے وہیں جمے ہوئے ہیں۔
فریق مخالف پر ہر شے کا الزام دھرنا آسان فیصلہ ہے ۔ مشکل فیصلے ان وجوہات کے سد باب میں ہیں جن سے آنکھیں چراتے چراتے ملکی معیشت اس مقام تک آن پہنچی ہے۔ ملکی معیشت سراسر غیر پیداواری سرمایہ کاری کے بھینٹ چڑھ چکی ہے؛ ایک مکمل صارف معیشت۔ تسلیم ! پاکستانی معیشت کو مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیا کہ دیوالیے کے دہانے معیشت جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کے ہاں سیاسی اتحادیوں کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی اخراجات کا اہتمام ہے۔
یہ روش حقیقت پسند ہے اور نہ زیادہ دیر چلنے والی۔ مشکل فیصلے کریں جن سے امپورٹس کم ہوں، انرجی کی کھپت کم ہو۔ بجٹ خسارہ دور کرنے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھائیں نہ کہ دستاویزی عمل کو تہہ کرکے اپنے حلقہ انتخاب کے تاجروں اور درآمد کنندگان کو معمولی فکس ٹیکس لگا کر دہائی مچائیں کہ ہم مشکل میں اور مشکل فیصلے کر رہے ہیں!!
پاکستان کے بیلنس آف پیمنٹ کا بحران نیا نہیں، نوّے کی دِہائی سے لے کر ہر حکومت اس بحران کا سامنا کرتی آئی ، ہمارے مالیاتی حکیموں کو علاج بالقرض کے سوا کبھی کچھ سوجھا ہی نہیں۔ سیاسی معجون اور کشتے ایک سے بڑھ کر ایک تیار ہوتے رہے لیکن مجال ہے کسی نے ادھر بھی توجہ دی ہو۔ پبلک سیکٹر اداروں کا سالانہ نقصان سات سو ارب سے ایک ہزار روپے تک بتایا جاتا ہے۔
بجلی کا سرکلر ڈیٹ ساڑھے تین ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ گیس کمپنیوں کا سرکلر ڈیٹ بھی ڈیڑھ ارب روپے ہونے کو ہے ۔ زراعت کی پیداوار میں جمود طاری ہے ۔ نتیجہ یہ کہ اب گندم چینی سمیت کھانے پینے کی اشیاء پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ ملک میں ڈی انڈسٹریلالیزیشن کا عمل کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ سب ہمارے سیاسی حاذق حکیموں کا کیا دھرا ہے۔ ان حکیموں پر اور کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
حکمران اشرافیہ کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، انھیں ہم ایسوں کے نیک و بد سمجھانے کا کوئی اثر لینے کی کیا مجبوری ہے۔ مگر زمینی حالات کا جبر اب پریشر ککر کی طرح پھٹنے کو تیار ہے۔ مشکل فیصلوں کا مطلب صرف عوام کی جیب ہلکی کرنے کا رویہ نہیں چلے گا۔
حکمران اشرافیہ کو اپنی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، پروٹوکول، نوکر شاہی اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام کی مہنگی مراعات سے بھی کچھ قربان کرنا پڑے گا ورنہ آج نہیں تو کل معاملات خوفناک ہو سکتے ہیں۔ عوام اب مشکل فیصلوں جیسے تماشوں سے تنگ ہیں۔ وہ اب اتنے بے شعور بھی نہیں کہ بقول صغیر احمد صغیر یہ نہ جان سکیں کہ ؛
اگرچہ طے ہے کہ یہ روز و شب تماشا ہے
کسی سبب سے ہی یہ بے سبب تماشا ہے!
گزشتہ دو سال سے آئی ایم ایف پروگرام کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا وہ نبھانا آسان نہ تھا۔ پی ڈی ایم حکومت نے پہلے پہل تو آئی ایم ایف کو سنجیدگی سے لیا لیکن پھر اسحاق ڈار نے اپنے انداز سے آئی ایم ایف کو ڈیل کرنے کا بیڑا اٹھایا جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اب پرانے قرض پروگرام کے ساتھ ایک نئے قرض پروگرام کی شنید ہے ۔ اللہ خیر رکھے ۔