خواب جو پورے نہ ہوسکے تیسرا حصہ
قیام پاکستان کے بعد جو بات فوراً فراموش کردی گئی وہ یہ تھی کہ پاکستان جمہوری طریقہ کار کے ذریعے بنا تھا
اپنی اس تاریخی تقریر کے اختتام پر انھوں نے کہا ''حضرات، میں آپ لوگوں کا مزید وقت نہیں لینا چاہتا اور ایک بار پھر خود کو دیے جانے والے اعزاز پر آپ کا شکر گزار ہوں۔
میں ہمیشہ عدل اور منصفانہ مواقع کے اصول پر بغیر کسی، جیسے کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے، تعصب اور بدنیتی سے، دوسرے لفظوں میں جانبداری اور منظور نظری سے گریز کرتے ہوئے عمل پیرا رہوں گا۔ میرے رہنما اصول عدل اور مکمل غیر جانبداری ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی مدد اور تعاون کے ساتھ میں پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین مملکتوں میں سے ایک بنانے کی توقع رکھ سکتا ہوں۔''
انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ اس ملک میں رہنے والے ہر مذہب کے شہری کے حقوق یکساں ہوں گے۔ کسی کو کسی پر بالادستی نہیں ہوگی۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں سب آزاد ہوں گے۔ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے قانون کی نظر میں سب ایک ہوں گے۔ سیاسی طور پر کسی سے امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ سیاسی معنوں میں سب ایک ہوں گے۔
مملکت کے شہری کی حیثیت سے سب کی حیثیت برابر ہوگی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورے اترسکے ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا تو غیر مسلم پاکستانیوں کی تعداد 9 فیصد تھی، آج یہ شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر سے بھی امتیازی سلوک کے خلاف آوازیں بلند ہوتی ہیں۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی غیر مسلموں کے ساتھ بعض خراب سلوک کے واقعات کو منظر عام پر لاتی رہتی ہیں۔ جب تک ہم غیر مسلم ہم وطنوں کو اقلیتیں کہنا بند نہیں کریں گے اور انھیں صرف پاکستانی تصور نہیں کریں گے، اس وقت تک بانی پاکستان کا یہ خواب پورا نہیں ہوگا کہ ہر مذہب کے پاکستانیوں کی مساوی حیثیت ہوگی اور ان کے حقوق بھی مساوی ہوں گے۔
ہندوستان کی تقسیم کے اعلان سے قبل اور اس کے بعد جو فرقہ وارانہ قتل عام ہوا اس نے جناح صاحب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ تقسیم کے بعد ہندو مسلم تنازعہ ختم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 6 جنوری 1948کو کراچی میں فسادات شروع ہوئے۔ یہ فساد اور جھگڑے ہندوئوں کی زمینیں اور املاک ہتھیانے کے لیے ہو رہے تھے۔
نارائن شاہین کے مطابق فسادات کی رات جمشید نسروان جی جناح سے ملنے گئے تو انھوں نے ان کو شدید صدمے کی کیفیت میں پایا۔ انھوں نے ہندوئوں اور اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ وہ فسادات روکنے خود ڈی جے کالج پہنچے تو ہجوم نے ان کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ اقلیتوں کا دکھ لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ان کی مذکورہ بالا تقریر اس امر کی عکاسی کرتی ہے۔ اب جناح صاحب کو بھی پاکستان کے ساتھ ہندوستان میں رہ جانے والی مسلم اقلیت کی فکر لاحق ہوگئی تھی جو پاکستان کے لیے بڑے پرجوش تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تقسیم کے بعد ان مسلمانوں کا کیا ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کی آزادی کے لیے اپنی قربانی دیں گے۔
انھوں نے 11 اکتوبر 1948 کو سول، نیول، ملٹری اور ایئر فورس کے افسران سے خطاب کے دوران یہ موقف اختیار کیا کہ '' ہندوستان میں رہ جانے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو میری یہ نصیحت ہوگی کہ وہ جس ریاست (ہندوستان) میں ہیں اس کے لیے اپنی مصمم وفاداری کا مظاہرہ کریں۔''
11 اگست کی تقریر اس وقت کی گئی جب تقسیم کا اعلان ہوچکا تھا، ہندوستان کے مختلف حصوں بالخصوص پنجاب میں فرقہ وارانہ جنون اپنے عروج پر تھا اور بہیمانہ قتل کی ہولناک داستانیں رقم ہورہی تھیں۔ اس ماحول میں جناح صاحب کی تقریر کو کئی حلقوں کی جانب سے کوئی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست ہی بننا تھا تو پھر ہندوستان کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس طرح کے ہندوستان کا وعدہ تو انڈین نیشنل کانگریس بھی کر رہی تھی۔
مخالفت کی شدت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اس تقریر کی اشاعت روک دی گئی، صرف ایک انگریزی اخبار '' ڈان'' میں یہ تقریر شایع ہوئی۔ اس تقریر کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا اور نہ ریاستی سطح پر اس تقریر میں بیان کردہ موقف کبھی تسلیم کیا گیا۔
بانی پاکستان کی اس تقریر کو مکمل سیاق و سباق میں پڑھ کر ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ محمد علی جناح کا کون سا ایک ایسا خواب تھا جسے ہم نے 75 برسوں میں پورا کیا ہو؟اس سوال کا جواب اس کے علاوہ اور کچھ کہ اپنی پالیسی ساز تقریر میں قائد اعظم نے جس پاکستان کا تصور کیا تھا۔ ان کے بعد کا پاکستان اس سے کافی حد تک مختلف تھا۔
قیام پاکستان کے بعد جو بات فوراً فراموش کردی گئی وہ یہ تھی کہ پاکستان جمہوری طریقہ کار کے ذریعے بنا تھا اور اس کی بقا بھی جمہوریت ہی میں مضمر ہے۔ 1947 کا پاکستان 1971 میں دو ٹکڑے نہ ہوتا اگر اس حقیقت کو مان کر ہم نے دستور ساز اسمبلی کے ذریعے بلا وقت ضایع کیے ایک وفاقی جمہوری آئین بنا لیا ہوتا، آئین بنانے کے بعد عام انتخابات کرا لیے جاتے اور ملک کی باگ ڈور عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے حوالے کردی جاتی اور پارلیمنٹ آزادانہ طور پر اپنے فیصلے خود کرتی تو وفاق پاکستان میں شامل کسی دوسرے صوبے یا اکائی کو مرکز سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوتی۔
طاقتور عناصر کی جانب سے شب خون نہ مارا جاتا اور پڑوسی ملک کی طرح پاکستان میں بھی عام انتخابات بلا تعطل ہوتے رہتے تو اس سے قومی یکجہتی از خود مضبوط ہوتی اور ہمیں ترانے لکھ کر یہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت سے ملک کے ہر شہری اندر یہ اعتماد جنم لیتا کہ حکومتوں کو بنانے اور ہٹانے کا اختیار کسی اور کو نہیں بلکہ اس کے پاس ہے۔ عوام کے اندر یہ اعتماد سیاسی استحکام پیدا کرتا ہے جس کے بغیر پائیدار معاشی ترقی کا عمل ممکن نہیں ہوتا۔
اس وقت ہم اپنی تاریخ کے ایک مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ جو کام 75 برس پہلے کرلینا چاہیے تھا وہ اب کر لیا جائے۔
میں ہمیشہ عدل اور منصفانہ مواقع کے اصول پر بغیر کسی، جیسے کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے، تعصب اور بدنیتی سے، دوسرے لفظوں میں جانبداری اور منظور نظری سے گریز کرتے ہوئے عمل پیرا رہوں گا۔ میرے رہنما اصول عدل اور مکمل غیر جانبداری ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی مدد اور تعاون کے ساتھ میں پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین مملکتوں میں سے ایک بنانے کی توقع رکھ سکتا ہوں۔''
انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ اس ملک میں رہنے والے ہر مذہب کے شہری کے حقوق یکساں ہوں گے۔ کسی کو کسی پر بالادستی نہیں ہوگی۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں سب آزاد ہوں گے۔ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے قانون کی نظر میں سب ایک ہوں گے۔ سیاسی طور پر کسی سے امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ سیاسی معنوں میں سب ایک ہوں گے۔
مملکت کے شہری کی حیثیت سے سب کی حیثیت برابر ہوگی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورے اترسکے ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا تو غیر مسلم پاکستانیوں کی تعداد 9 فیصد تھی، آج یہ شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر سے بھی امتیازی سلوک کے خلاف آوازیں بلند ہوتی ہیں۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی غیر مسلموں کے ساتھ بعض خراب سلوک کے واقعات کو منظر عام پر لاتی رہتی ہیں۔ جب تک ہم غیر مسلم ہم وطنوں کو اقلیتیں کہنا بند نہیں کریں گے اور انھیں صرف پاکستانی تصور نہیں کریں گے، اس وقت تک بانی پاکستان کا یہ خواب پورا نہیں ہوگا کہ ہر مذہب کے پاکستانیوں کی مساوی حیثیت ہوگی اور ان کے حقوق بھی مساوی ہوں گے۔
ہندوستان کی تقسیم کے اعلان سے قبل اور اس کے بعد جو فرقہ وارانہ قتل عام ہوا اس نے جناح صاحب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ تقسیم کے بعد ہندو مسلم تنازعہ ختم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 6 جنوری 1948کو کراچی میں فسادات شروع ہوئے۔ یہ فساد اور جھگڑے ہندوئوں کی زمینیں اور املاک ہتھیانے کے لیے ہو رہے تھے۔
نارائن شاہین کے مطابق فسادات کی رات جمشید نسروان جی جناح سے ملنے گئے تو انھوں نے ان کو شدید صدمے کی کیفیت میں پایا۔ انھوں نے ہندوئوں اور اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ وہ فسادات روکنے خود ڈی جے کالج پہنچے تو ہجوم نے ان کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ اقلیتوں کا دکھ لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ان کی مذکورہ بالا تقریر اس امر کی عکاسی کرتی ہے۔ اب جناح صاحب کو بھی پاکستان کے ساتھ ہندوستان میں رہ جانے والی مسلم اقلیت کی فکر لاحق ہوگئی تھی جو پاکستان کے لیے بڑے پرجوش تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تقسیم کے بعد ان مسلمانوں کا کیا ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کی آزادی کے لیے اپنی قربانی دیں گے۔
انھوں نے 11 اکتوبر 1948 کو سول، نیول، ملٹری اور ایئر فورس کے افسران سے خطاب کے دوران یہ موقف اختیار کیا کہ '' ہندوستان میں رہ جانے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو میری یہ نصیحت ہوگی کہ وہ جس ریاست (ہندوستان) میں ہیں اس کے لیے اپنی مصمم وفاداری کا مظاہرہ کریں۔''
11 اگست کی تقریر اس وقت کی گئی جب تقسیم کا اعلان ہوچکا تھا، ہندوستان کے مختلف حصوں بالخصوص پنجاب میں فرقہ وارانہ جنون اپنے عروج پر تھا اور بہیمانہ قتل کی ہولناک داستانیں رقم ہورہی تھیں۔ اس ماحول میں جناح صاحب کی تقریر کو کئی حلقوں کی جانب سے کوئی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست ہی بننا تھا تو پھر ہندوستان کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس طرح کے ہندوستان کا وعدہ تو انڈین نیشنل کانگریس بھی کر رہی تھی۔
مخالفت کی شدت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اس تقریر کی اشاعت روک دی گئی، صرف ایک انگریزی اخبار '' ڈان'' میں یہ تقریر شایع ہوئی۔ اس تقریر کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا اور نہ ریاستی سطح پر اس تقریر میں بیان کردہ موقف کبھی تسلیم کیا گیا۔
بانی پاکستان کی اس تقریر کو مکمل سیاق و سباق میں پڑھ کر ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ محمد علی جناح کا کون سا ایک ایسا خواب تھا جسے ہم نے 75 برسوں میں پورا کیا ہو؟اس سوال کا جواب اس کے علاوہ اور کچھ کہ اپنی پالیسی ساز تقریر میں قائد اعظم نے جس پاکستان کا تصور کیا تھا۔ ان کے بعد کا پاکستان اس سے کافی حد تک مختلف تھا۔
قیام پاکستان کے بعد جو بات فوراً فراموش کردی گئی وہ یہ تھی کہ پاکستان جمہوری طریقہ کار کے ذریعے بنا تھا اور اس کی بقا بھی جمہوریت ہی میں مضمر ہے۔ 1947 کا پاکستان 1971 میں دو ٹکڑے نہ ہوتا اگر اس حقیقت کو مان کر ہم نے دستور ساز اسمبلی کے ذریعے بلا وقت ضایع کیے ایک وفاقی جمہوری آئین بنا لیا ہوتا، آئین بنانے کے بعد عام انتخابات کرا لیے جاتے اور ملک کی باگ ڈور عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے حوالے کردی جاتی اور پارلیمنٹ آزادانہ طور پر اپنے فیصلے خود کرتی تو وفاق پاکستان میں شامل کسی دوسرے صوبے یا اکائی کو مرکز سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوتی۔
طاقتور عناصر کی جانب سے شب خون نہ مارا جاتا اور پڑوسی ملک کی طرح پاکستان میں بھی عام انتخابات بلا تعطل ہوتے رہتے تو اس سے قومی یکجہتی از خود مضبوط ہوتی اور ہمیں ترانے لکھ کر یہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت سے ملک کے ہر شہری اندر یہ اعتماد جنم لیتا کہ حکومتوں کو بنانے اور ہٹانے کا اختیار کسی اور کو نہیں بلکہ اس کے پاس ہے۔ عوام کے اندر یہ اعتماد سیاسی استحکام پیدا کرتا ہے جس کے بغیر پائیدار معاشی ترقی کا عمل ممکن نہیں ہوتا۔
اس وقت ہم اپنی تاریخ کے ایک مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ جو کام 75 برس پہلے کرلینا چاہیے تھا وہ اب کر لیا جائے۔