ایک تیر کئی شکار

امریکا کے لیے برصغیر کی تقسیم اس لیے ضروری تھی کہ وہ اپنے حریف سوویت یونین کا خاتمہ چاہتا تھا ...

افغانستان میں انتخاب کا عمل مکمل ہو چکا۔ ہندوستان میں جاری ہے۔ جب انتخابات کا ذکر آ ہی گیا تو 1937کے انتخابات کا ذکر بہت ضروری ہے جس نے برصغیر کی تاریخ کو ہی تبدیل کر دیا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی چنانچہ مسلم لیگ نے دو قومی نظریے کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا یعنی ہندو مسلم دو قومیں ہیں اور یہ دو قومیں متحدہ ہندوستان میں اب مزید اکٹھے نہیں رہ سکتیں جس کی شدید مخالفت ہوئی لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اسی گرما گرمی میں مئی 1946 میں کیبنٹ مشن پلان سامنے آیا جس میں وہ تمام علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی چند معاملات کو چھوڑ کر اندرونی خود مختاری دینے کی تجویز دی گئی۔

یہ تجویز برطانوی حکومت کی طرف سے لارڈ مائونٹ بیٹن نے پیش کی جو برصغیر کے آخری وائسرائے تھے لیکن اگلے ہی مہینے جون 46ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے اس تجویز کا مذاق اڑا کر اسے مسترد کر دیا حالانکہ یہ آخری تجویز تھی جو برصغیر کو متحد رکھ سکتی تھی۔ اس پر عملدرآمد سے لاکھوں جانوں کے اتلاف اور کروڑوں انسانوں کی تباہی سے بچا جا سکتا تھا۔ برٹش حکومت نے آخری وقت تک کوشش کی کہ برصغیر کو متحد رکھتے ہوئے اسے تقسیم نہ ہونے دیا جائے جب کہ قائد اعظم نے بھی کیبنٹ مشن پلان کی اس تجویز کو کہ برصغیر تقسیم نہ ہو اندرونی خود مختاری کے اصول کو تسلیم کر لیا تھا چنانچہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے ذمے دار پنڈت جواہر لال نہرو تھے نہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہرو نے برصغیر کو متحد رکھنے کی تجویز کس کے کہنے پر کس کے مفاد میں سبوتاژ کی۔

جواب یہ ہے کہ امریکا کے کہنے پر کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کی جگہ امریکی سامراج جگہ لے رہا تھا۔ امریکا کے لیے برصغیر کی تقسیم اس لیے ضروری تھی کہ وہ اپنے حریف سوویت یونین کا خاتمہ چاہتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ برصغیر کو تقسیم کیا جائے کیونکہ ایک تو برصغیر کے عوام کی اکثریت ان تحریکوں کے ساتھ تھی جو اینٹی سامراج تھیں۔ دوسرا متحدہ ہندوستان کی صورت میں برصغیر ایک بڑی طاقت ہوتا جس کا اثر و رسوخ مشرق وسطیٰ سے مشرق بعید تک ہونے کی صورت میں عالمی طاقتوں میں شامل ہوتا۔ اس صورت میں اسے سوویت یونین اور چین کا بھی تعاون ہوتا۔ یہ اتحاد آخر کار سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دیتا۔ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام جس کا حصہ پاکستان اور بھارت بھی ہیں۔

برصغیر کی تقسیم امریکا کی ضرورت تھی اسی لیے اس کی تقسیم خونی ٹھہری کیونکہ پر امن تقسیم کی صورت میں یہ دونوں ملک دوستی کے بندھن میں بہت جلد بندھ جاتے اس لیے برصغیر کی تقسیم طے شدہ وقت سے ایک سال پہلے کرا دی گئی۔ خونی تقسیم کے نتیجے میں موجودہ پاکستانی پنجاب سے ہندوئوں، سکھوں کا انخلا کرایا گیا جو سیکڑوں سال سے مسلمانوں کے ساتھ رواداری برداشت بھائی چارہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ہندو اور سکھ اس سامراجی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے تھے جو سوویت یونین کے خلاف لڑی جانی تھی۔ برصغیر کے تقسیم کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بنگلہ دیش کا قیام بھی ناگزیر تھا کیونکہ بنگالیوں جیسی باشعور قوم بھی مذہب کے نام پر اس سامراجی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیتی چنانچہ اسی ضمن میں مشرق وسطیٰ میں برصغیر کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں عرب بادشاہتوں اور اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جا سکے۔


اس وقت پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی آبادی 60 کروڑ سے زائد ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود مسلمانوں کے وجود، مذہب، ثقافت کا خاتمہ ہو جاتا، تقسیم نے ہندوئوں کی مسلمانوں پر ظالمانہ اکثریت دلادی اور مسلمانوں کو انڈیا میں اچھوت بنا کر رکھ دیا۔ برصغیر کی تقسیم نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے ضروری تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ سوویت یونین کا ہر حالت میں خاتمہ کیا جائے چاہے اس کے لیے ایٹم بم ہی کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے ایک اور چالاکی بھی کی گئی وہ یہ کہ طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ کر دیا گیا۔

اس کی جگہ مسلم دنیا خاص طور پر پاکستان، بھارت، افغانستان، مشرقی وسطیٰ میں مذہبی جنونیت پھیلائی گئی جس کے نتیجے میں غریب طبقات ظالموں کے خلاف اپنی حقیقی جدوجہد کو بھول کر ایک دوسرے کو قتل کرنا اور کافر قرار دینا شروع ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت مشرق وسطیٰ سے پاکستان بھارت تک کا علاقہ (قرون وسطیٰ میں عیسائی مذہبی جنگوں کی طرح جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے) ایک خوفناک مذہبی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس موقعہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کا اقتدار میں آنا ایک بڑے خطرے کا الارم ہے۔ ویسے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مغرب میں بھی مذہبی جنونیت کا آغاز ہو چکا ہے۔

کیا عجب منظر ہو گا کہ ایک طرف مسلمان مسلمان، مسلمان ہندو ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہونگے پھر عیسائیت بھی اسی مذہبی جنگ میں کود پڑیگی اسلحہ بنانے کی پیداوار اپنے عروج پر ہوگی اور یہ اسلحہ مسلمانوں ہندوئوں کو بیچا جا رہا ہو گا۔ نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ختم ہو جائے گا۔ نئی جغرافیائی تقسیم وجود میں آ رہی ہو گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا ایک ہی علاج ہے۔ وسیع پیمانے پر جنگیں چھیڑنا اس کے نتیجے میں نئے ملک وجود میں آنا کیونکہ مسلم دنیا میں پرانی جغرافیائی تقسیم اب کارآمد نہیں ہو رہی۔ اس سے جتنا کام لینا تھا لے لیا۔ آخری نتیجے میں مسلم دنیا میں خاص طور پر نئی جغرافیائی تقسیم وجود میں تو آئے گی ہی تو دوسری طرف جنگوں میں لاکھوں کروڑوں افراد کے مارے جانے کی صورت میں جنونیت کا آتش فشاں بھی سرد پڑ جائے گا۔ یوں جنونیت اپنے انجام کو پہنچ جائے گی یعنی ایک تیر سے کئی شکار۔

30 اپریل سے 4 مئی کے درمیان سول ملٹری کشیدگی میں کمی کا امکان ہے۔

 
Load Next Story