ڈالر کا شکنجہ توڑنے کی کوششیں
ڈالرز تو ایکسپورٹس کی کمائی سے خزانے میں آتے ہیں اور ہماری ایکسپورٹس کا حال خاصا پتلا ہے
امریکی ڈالروں کا حصول پاکستان کے لیے وبالِ جان بن چکا ہے ۔ اور ڈالر ہیں کہ پاکستان کو دستیاب نہیں۔ قرض میں مل رہے ہیں نہ پاکستانی ایکسپورٹس سے۔ ڈالرز تو ایکسپورٹس کی کمائی سے خزانے میں آتے ہیں اور ہماری ایکسپورٹس کا حال خاصا پتلا ہے۔
پاکستانی ایکسپورٹس اور امپورٹس میں جو بے پناہ فرق آچکا ہے ،اِس نے حکومت اور عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ ڈالر کی قیمت300روپے کے آس پاس ہے۔
ڈالر کی بے تحاشہ بڑھتی اور روپے کی بے پناہ گھٹتی قیمت کے سبب اِس بار پاکستانی حاجی بھی مطلوبہ تعداد سے کم ہی جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف ہے کہ اُس نے ہماری اتحادی حکومت کی بسیار کوششوں اور ترلہ منت کے باوجود ابھی تک ایک ڈالر نہیں دیا ، بلکہ قرض میں ڈالر دینے سے پہلے سخت شرائط کے تحت آئی ایم ایف کی جانب سے ہماری قومی ناک کی لکیریں نکلوائی جا رہی ہیں۔
مفتاح اسماعیل کو وزارت سے فارغ کروانے کے بعد اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو ڈالر لانے، اس کی قیمت کم کرنے اور ملکی خزانے میں (قرض) کے ڈالروں میں اضافے کے کئی بلند بانگ دعوے کیے مگر ابھی تک اُن کا ایک بھی دعویٰ پورا نہیں ہو سکا ، حالانکہ اسحق ڈار کو وزیر خزانہ بنے ہُوئے بھی 9 مہینے گزر چکے ہیں ۔
ہمارے قومی خزانے میں امریکی ڈالروں میں کمی کے باعث ہماری معاشی جان شکنجے میں آ چکی ہے ۔ اِسی کارن مہنگائی کا جِنّ بھی قابو سے باہر ہے۔
امریکی ڈالروں کی کمیابی کے موجب جو مہیب اور سنگین مسائل آج پاکستان کو درپیش ہیں، ایسے ہی مسائل کا بنگلہ دیش کو بھی سامنا تھا۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم ، محترمہ حسینہ واجد ، نے مگر اپنی کمٹمنٹ، محنت اور وطن سے لگن کی بدولت بنگلہ دیش کو اِن مسائل سے نکالا ہے۔
ہم تعصبات کا اظہار کرتے ہُوئے جتنا مرضی محترمہ حسینہ واجد کو ''آمرانہ ذہنیت '' کی حامل اور ''بھارت کی پٹھو'' حکمران قرار دے ڈالیں ، مگر حقیقت یہی ہے کہ بنگلہ بندھو( شیخ مجیب الرحمن) کی صاحبزادی بنگلہ دیش کے لیے ہر لحاظ اور ہر رُخ سے محسنہ ثابت ہُوئی ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کے خزانے میں ، ایکسپورٹس کی بدولت، 60ارب کے قریب امریکی ڈالرز پڑے ہیں : ایٹمی پاکستان سے 10گنا زیادہ! کیا یہ ہمارے حکمرانوں، پالیسی سازوں اور وزرائے خزانہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ہے ؟ ہمارے پاس قومی فخر کی آخر کیا شئے باقی رہ گئی ہے؟
بنگلہ دیش نے امریکا ڈالر کی اجارہ داری، چودھراہٹ اور بالا دستی سے قدرے نجات حاصل کر لی ہے۔ یہ عظیم کامیابی اُس نے اس لیے پائی ہے کہ محترمہ حسینہ واجد کی زیر نگرانی بنگلہ دیش نے کئی ممالک سے امریکی ڈالر کے بجائے مقامی کرنسیوں میں کاروبار کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں بنگلہ دیش اور بھارت نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہے۔
دونوں ممالک نے فائدہ اُٹھایا اور دونوں ہی امریکی ڈالرکی غلامی سے نجات حاصل کررہے ہیں ۔ بنگلہ دیش دُنیا کا وہ19واں ملک بن چکا ہے جو بھارت سے بھارتی روپے(INR) میں لین دین کرتے ہُوئے امریکی ڈالر کو تقریباً خیرباد کہہ چکا ہے ۔ دو طرفہ تجارتی لین دین میں بھارت اپنے روپے اور بنگلہ دیش اپنے ''ٹکا'' کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
دونوں کوچونکہ اپنی اپنی ایل سیز کھولنے کے لیے امریکی ڈالروں کی احتیاج کم ہے ، اس لیے دونوں کے خزانے پر ادائیگیوں کے لیے ڈالر کا دباؤ بھی نہیں ہے ۔
اِس سلسلے میں بنگلہ دیش کے 2بینک (سونالی بینک اور ایسٹرن بینک) بھارت میں اور بھارت کے2بینک (اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور ICICI) بنگلہ دیش میں بروئے کار ہیں اور دو طرفہ تجارتی معاملات میں مقامی کرنسیوں کا استعمال کررہے ہیں ۔
سونالی بینک کے بنگلہ دیشی چیف ایگزیکٹو آفیسر (افضل کریم) اور ایم ڈی و ترجمان ( محبوب الحق) کا کہنا ہے: '' بھارتی روپے اوربنگلہ دیشی ٹکا میں کاروبار کرنے سے دونوں ممالک یکساں فائدے حاصل کر رہے ہیں۔''بنگلہ دیش چیمبر آف انڈسٹریز کے صدر، انوارالحق چوہدری پرویز، بھی مقامی کرنسیوں کے استعمال سے مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ '' امریکی ڈالر کی بالا دستی سے قطعی نجات حاصل کرنا ہمارا خواب ہے ۔''
رواں لمحوں میں بھارت و بنگلہ دیش میں دو طرفہ تجارت میں تجارتی توازن بھارت کی جانب ہے ۔ پچھلے برس بنگلہ دیش نے13ارب ڈالر کی اشیا بھارت سے درآمد کی تھیں۔
اِن میں 2ارب ڈالر کی ادائیگی انڈین روپے میں کی گئی ۔ اس وجہ سے بھی بنگلہ دیشی قومی خزانے میں ڈالروں کی تعداد اور مقدار پر دباؤ خاصا کم ہُوا۔ بھارت نے بنگلہ دیش کے علاوہ جن دیگر 18ممالک سے بھارتی روپے میں تجارتی لین دین شروع کررکھا ہے۔
ان میں رُوس، برطانیہ ، اسرائیل ، ملائشیا، سنگاپور ، جرمنی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ عالمی تجارتی ماحول کو امریکی ڈالر نے جس طرح اپنے ظالمانہ شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، تنگ آ کر کئی ممالک نے مقامی کرنسیوں میں کاروبار شروع کر دیا ہے ۔
اِس کا آغاز 2016 میں ہُوا تھا۔ یوں ڈالر کی بالادستی اور استحصالی قوت میں واضح کمی واقع ہُوئی ہے ۔اِسی پس منظر میں ورلڈ ٹریڈ پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے Eurizon SLJ Asset Management کا کہنا ہے کہ مقامی کرنسیوں کے کاروبار کی وجہ سے Global Reserves Shareمیں امریکی ڈالر کے بالا دست کردار میں21فیصد کمی آ ئی ہے ۔
اور جب سے رُوس، یوکرائن جنگ چھڑی ہے ( اور رُوس پر امریکی پابندیوں میں اضافہ ہُوا ہے ) تب سے امریکی ڈالر کے عالمی لین دین میں خاصی کمی اور مقامی کرنسیوں کو بطور متبادل استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ انڈین روپے، رُوسی روبل اور چینی یو آن کرنسیوں کا کردار بڑھ رہا ہے ۔
امریکا بطور ِحکومت اور امریکی سرمایہ دار اور ساہو کار ادارے (اور خصوصاً آئی ایم ایف) ڈالر کی عالمی حاکمیت میں کمی سے پریشان ہیں۔
اس سلسلے میں آئی ایم ایف نے ڈالر کی عالمی گھٹتی قدر اور ڈالر کے عالمی کردار کے بتدریج زوال بارے جو اعداد وشمار پیش کیے ہیں ، وہ بھی خاصے پریشان کن ہیں ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ارب پتی امریکی سرمایہ دار ایلون مسک (جوTeslaاور Space Xایسے اربوں ڈالر صنعتی اداروں کے سربراہ بھی ہیں)نے ملفوف دھمکی بھی دی ہے کہ '' اگر امریکی ڈالر کے خلاف مقامی کرنسیوں میں مزید اضافہ کیا گیا اور De Dollarisationبڑھتی گئی تو مقامی کرنسیوں میں کاروبار کرنے والے ممالک کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔''
عالمی سطح پرایلون مسک کی اِس دھمکی کا سنجیدہ جواب دینے کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے ۔پاکستان بھی کوشش کررہا ہے کہ مقامی کرنسیوں میں کچھ ممالک سے لین دین کرکے امریکی ڈالر کے شکنجے سے نجات حاصل کی جائے ۔
مثال کے طور پر پاکستان ، رُوس سے جو تیل نسبتاً سستے داموں حاصل کررہا ہے، اس کی ادائیگی مبینہ طور پر ڈالر کے بجائے چینی کرنسی( یو آن) میں کی جائے گی۔
2جون 2023 کو پاکستان نے رُوس، ایران اور افغانستان سے بارٹر ٹریڈ کا جو فیصلہ کیا ہے، یہ بھی درحقیقت امریکی ڈالر کے شکنجے سے آزاد ہونے کی ایک سبیل اورسعی ہی ہے ۔ خدا کرے اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت کا یہ فیصلہ جلد ثمر آور بھی ثابت ہو اور مستقل بھی ۔
پاکستانی ایکسپورٹس اور امپورٹس میں جو بے پناہ فرق آچکا ہے ،اِس نے حکومت اور عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ ڈالر کی قیمت300روپے کے آس پاس ہے۔
ڈالر کی بے تحاشہ بڑھتی اور روپے کی بے پناہ گھٹتی قیمت کے سبب اِس بار پاکستانی حاجی بھی مطلوبہ تعداد سے کم ہی جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف ہے کہ اُس نے ہماری اتحادی حکومت کی بسیار کوششوں اور ترلہ منت کے باوجود ابھی تک ایک ڈالر نہیں دیا ، بلکہ قرض میں ڈالر دینے سے پہلے سخت شرائط کے تحت آئی ایم ایف کی جانب سے ہماری قومی ناک کی لکیریں نکلوائی جا رہی ہیں۔
مفتاح اسماعیل کو وزارت سے فارغ کروانے کے بعد اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو ڈالر لانے، اس کی قیمت کم کرنے اور ملکی خزانے میں (قرض) کے ڈالروں میں اضافے کے کئی بلند بانگ دعوے کیے مگر ابھی تک اُن کا ایک بھی دعویٰ پورا نہیں ہو سکا ، حالانکہ اسحق ڈار کو وزیر خزانہ بنے ہُوئے بھی 9 مہینے گزر چکے ہیں ۔
ہمارے قومی خزانے میں امریکی ڈالروں میں کمی کے باعث ہماری معاشی جان شکنجے میں آ چکی ہے ۔ اِسی کارن مہنگائی کا جِنّ بھی قابو سے باہر ہے۔
امریکی ڈالروں کی کمیابی کے موجب جو مہیب اور سنگین مسائل آج پاکستان کو درپیش ہیں، ایسے ہی مسائل کا بنگلہ دیش کو بھی سامنا تھا۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم ، محترمہ حسینہ واجد ، نے مگر اپنی کمٹمنٹ، محنت اور وطن سے لگن کی بدولت بنگلہ دیش کو اِن مسائل سے نکالا ہے۔
ہم تعصبات کا اظہار کرتے ہُوئے جتنا مرضی محترمہ حسینہ واجد کو ''آمرانہ ذہنیت '' کی حامل اور ''بھارت کی پٹھو'' حکمران قرار دے ڈالیں ، مگر حقیقت یہی ہے کہ بنگلہ بندھو( شیخ مجیب الرحمن) کی صاحبزادی بنگلہ دیش کے لیے ہر لحاظ اور ہر رُخ سے محسنہ ثابت ہُوئی ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کے خزانے میں ، ایکسپورٹس کی بدولت، 60ارب کے قریب امریکی ڈالرز پڑے ہیں : ایٹمی پاکستان سے 10گنا زیادہ! کیا یہ ہمارے حکمرانوں، پالیسی سازوں اور وزرائے خزانہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ہے ؟ ہمارے پاس قومی فخر کی آخر کیا شئے باقی رہ گئی ہے؟
بنگلہ دیش نے امریکا ڈالر کی اجارہ داری، چودھراہٹ اور بالا دستی سے قدرے نجات حاصل کر لی ہے۔ یہ عظیم کامیابی اُس نے اس لیے پائی ہے کہ محترمہ حسینہ واجد کی زیر نگرانی بنگلہ دیش نے کئی ممالک سے امریکی ڈالر کے بجائے مقامی کرنسیوں میں کاروبار کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں بنگلہ دیش اور بھارت نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما ہے۔
دونوں ممالک نے فائدہ اُٹھایا اور دونوں ہی امریکی ڈالرکی غلامی سے نجات حاصل کررہے ہیں ۔ بنگلہ دیش دُنیا کا وہ19واں ملک بن چکا ہے جو بھارت سے بھارتی روپے(INR) میں لین دین کرتے ہُوئے امریکی ڈالر کو تقریباً خیرباد کہہ چکا ہے ۔ دو طرفہ تجارتی لین دین میں بھارت اپنے روپے اور بنگلہ دیش اپنے ''ٹکا'' کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
دونوں کوچونکہ اپنی اپنی ایل سیز کھولنے کے لیے امریکی ڈالروں کی احتیاج کم ہے ، اس لیے دونوں کے خزانے پر ادائیگیوں کے لیے ڈالر کا دباؤ بھی نہیں ہے ۔
اِس سلسلے میں بنگلہ دیش کے 2بینک (سونالی بینک اور ایسٹرن بینک) بھارت میں اور بھارت کے2بینک (اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور ICICI) بنگلہ دیش میں بروئے کار ہیں اور دو طرفہ تجارتی معاملات میں مقامی کرنسیوں کا استعمال کررہے ہیں ۔
سونالی بینک کے بنگلہ دیشی چیف ایگزیکٹو آفیسر (افضل کریم) اور ایم ڈی و ترجمان ( محبوب الحق) کا کہنا ہے: '' بھارتی روپے اوربنگلہ دیشی ٹکا میں کاروبار کرنے سے دونوں ممالک یکساں فائدے حاصل کر رہے ہیں۔''بنگلہ دیش چیمبر آف انڈسٹریز کے صدر، انوارالحق چوہدری پرویز، بھی مقامی کرنسیوں کے استعمال سے مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ '' امریکی ڈالر کی بالا دستی سے قطعی نجات حاصل کرنا ہمارا خواب ہے ۔''
رواں لمحوں میں بھارت و بنگلہ دیش میں دو طرفہ تجارت میں تجارتی توازن بھارت کی جانب ہے ۔ پچھلے برس بنگلہ دیش نے13ارب ڈالر کی اشیا بھارت سے درآمد کی تھیں۔
اِن میں 2ارب ڈالر کی ادائیگی انڈین روپے میں کی گئی ۔ اس وجہ سے بھی بنگلہ دیشی قومی خزانے میں ڈالروں کی تعداد اور مقدار پر دباؤ خاصا کم ہُوا۔ بھارت نے بنگلہ دیش کے علاوہ جن دیگر 18ممالک سے بھارتی روپے میں تجارتی لین دین شروع کررکھا ہے۔
ان میں رُوس، برطانیہ ، اسرائیل ، ملائشیا، سنگاپور ، جرمنی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ عالمی تجارتی ماحول کو امریکی ڈالر نے جس طرح اپنے ظالمانہ شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، تنگ آ کر کئی ممالک نے مقامی کرنسیوں میں کاروبار شروع کر دیا ہے ۔
اِس کا آغاز 2016 میں ہُوا تھا۔ یوں ڈالر کی بالادستی اور استحصالی قوت میں واضح کمی واقع ہُوئی ہے ۔اِسی پس منظر میں ورلڈ ٹریڈ پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے Eurizon SLJ Asset Management کا کہنا ہے کہ مقامی کرنسیوں کے کاروبار کی وجہ سے Global Reserves Shareمیں امریکی ڈالر کے بالا دست کردار میں21فیصد کمی آ ئی ہے ۔
اور جب سے رُوس، یوکرائن جنگ چھڑی ہے ( اور رُوس پر امریکی پابندیوں میں اضافہ ہُوا ہے ) تب سے امریکی ڈالر کے عالمی لین دین میں خاصی کمی اور مقامی کرنسیوں کو بطور متبادل استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ انڈین روپے، رُوسی روبل اور چینی یو آن کرنسیوں کا کردار بڑھ رہا ہے ۔
امریکا بطور ِحکومت اور امریکی سرمایہ دار اور ساہو کار ادارے (اور خصوصاً آئی ایم ایف) ڈالر کی عالمی حاکمیت میں کمی سے پریشان ہیں۔
اس سلسلے میں آئی ایم ایف نے ڈالر کی عالمی گھٹتی قدر اور ڈالر کے عالمی کردار کے بتدریج زوال بارے جو اعداد وشمار پیش کیے ہیں ، وہ بھی خاصے پریشان کن ہیں ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ارب پتی امریکی سرمایہ دار ایلون مسک (جوTeslaاور Space Xایسے اربوں ڈالر صنعتی اداروں کے سربراہ بھی ہیں)نے ملفوف دھمکی بھی دی ہے کہ '' اگر امریکی ڈالر کے خلاف مقامی کرنسیوں میں مزید اضافہ کیا گیا اور De Dollarisationبڑھتی گئی تو مقامی کرنسیوں میں کاروبار کرنے والے ممالک کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔''
عالمی سطح پرایلون مسک کی اِس دھمکی کا سنجیدہ جواب دینے کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے ۔پاکستان بھی کوشش کررہا ہے کہ مقامی کرنسیوں میں کچھ ممالک سے لین دین کرکے امریکی ڈالر کے شکنجے سے نجات حاصل کی جائے ۔
مثال کے طور پر پاکستان ، رُوس سے جو تیل نسبتاً سستے داموں حاصل کررہا ہے، اس کی ادائیگی مبینہ طور پر ڈالر کے بجائے چینی کرنسی( یو آن) میں کی جائے گی۔
2جون 2023 کو پاکستان نے رُوس، ایران اور افغانستان سے بارٹر ٹریڈ کا جو فیصلہ کیا ہے، یہ بھی درحقیقت امریکی ڈالر کے شکنجے سے آزاد ہونے کی ایک سبیل اورسعی ہی ہے ۔ خدا کرے اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت کا یہ فیصلہ جلد ثمر آور بھی ثابت ہو اور مستقل بھی ۔