وڈیرہ شاہی اور صنعت کاروں کا گٹھ جوڑ
سرمایہ دار طبقے کی گرفت معیشت کے علاوہ سیاست پر اتنی مضبوط ہے کہ اسے کوئی کمزور نہ کرسکا
سرمایہ دارانہ نظام میں زر کی حیثیت ایسے ہتھیارکی ہوتی ہے، جس سے سرمایہ دار طبقہ بااختیار بن جاتا ہے بدقسمتی سے جو جمہوریت جب کبھی پاکستان میں روشناس رہی اس کو چلانے والے سرمایہ دار ہی رہے آج بھی یہی طبقہ بااختیار ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی گرفت معیشت کے علاوہ سیاست پر اتنی مضبوط ہے کہ اسے کوئی کمزور نہ کرسکا۔
بدقسمتی سے تاریخ میں ہمیشہ بائیں بازو نے عوام کی نمایندگی کی لیکن یہ طبقہ کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرلیتا اور بے چارے سیاستدان صرف منہ دیکھتے رہ جاتے یا پھر سرمایہ دار طبقے کے پارٹنر بن جاتے۔ ہمارے ملک میں یہ کس قدر حیرت کی بات ہے ابھی تک پاکستان کے دیہی علاقوں میں وڈیرہ شاہی نظام اس قدر مضبوط اور بااثر ہے کہ عام آدمی خاص طور پر کسان اس کے آگے سر نہیں اٹھا سکتے۔
یہ کام ہمارے سیاست دانوں کا ہے کہ وہ جمہوری اداروں کی سرپرستی کریں لیکن اس المیے کو کیا کہا جائے کہ یہ طبقہ نوکر شاہی کا غلام بنا ہوا ہے اور دیہات میں تو ان وڈیروں کی بادشاہت چلتی ہے۔
چونکہ یہ طبقہ نوکر شاہی سے ملا ہوا ہوتا ہے لہٰذا اسے کسی کی پروا نہیں ہوتی، خوش قسمتی سے اب دیہی علاقوں کے عوام تعلیم حاصل کر رہے ہیں آہستہ آہستہ ان میں شعور آ رہا ہے کہ وہ اس ملک کے غلام نہیں بلکہ بادشاہ ہیں اگر ملک کا سیاستدان طبقہ عوام سے مخلص ہو تو وہ نہ صرف انھیں باشعور بنا سکتا ہے بلکہ وڈیرہ شاہی کے سامنے ایک مضبوط طاقت بن کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دیہی علاقوں کے نوجوان اتنے باشعور اور طاقتور نہ بن سکے کہ وہ وڈیرہ شاہی کو باہر نکال کر پھینک سکیں۔
وڈیرے اس قدر ہوشیار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے بیورو کریسی کو اپنا پارٹنر بنا لیتے ہیں۔ عام کسانوں پر اس کا اتنا اثر اور دباؤ ہوتا ہے کہ بے چارہ کسان سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
اگرچہ دیہی علاقوں میں وڈیرے اور ان کے پیٹی بھائی بیوروکریٹ وڈیروں کے دست راز بن گئے یہ صحیح ہے کہ وڈیرہ شاہی اب سرمایہ دار طبقے میں بدل رہی ہے لیکن اس کا فائدہ عوام کو یوں نہیں ہو سکا اگر سرمایہ دار مضبوط بن گیا تو یہ تبدیلی ضرور آ سکتی ہے کہ دیہی علاقوں کے سادہ دل شہری ابھی تک اپنے آپ کو طبقاتی بنیادوں پر کھڑا نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو وڈیرہ بذات فرد مضبوط ہے۔
پاکستان میں بلاشبہ وڈیرہ شاہی نظام ختم ہو رہا ہے لیکن اس کی جگہ نوکر شاہی کے تعاون سے وڈیرے اس قدر طاقتور ہوگئے کہ وہ عام غریب کسان مزدور کو جب چاہے جہاں سے چاہے اٹھا لے جاسکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں تو وڈیرہ شاہی ختم ہو رہی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی جگہ کسان قیادت کو آگے آنے کے بجائے سرمایہ دار طبقہ ہی کسانوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔
دیہی علاقوں میں کسانوں کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی غرض سے شہروں میں ملازمتیں ڈھونڈ رہے ہیں، اس کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ دیہی عوام شہری زندگی کے اسرار و رموز سے واقف ہو رہی ہے اور اس میں آہستہ آہستہ طبقاتی شعور اجاگر ہو رہا ہے۔
یہ ایک اچھی علامت ہے اور طبقاتی فرض بھی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے دیہات کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے طبقے کو مضبوط بنانے کے بجائے سرمایہ داروں کی غلامی کو زیادہ پسند کر رہے ہیں۔ ہمارا دانشور طبقہ طبقاتی ذمے داریوں کو پورا کرنے اور دیہی عوام میں شعور اجاگر کرنے کے بجائے تھوڑے سے پیسوں کے لیے سرمایہ داروں، صنعت کاروں کے غلام بنتے جا رہے ہیں۔
اب یہ دیہات کے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ تھوڑے سے پیسوں کے لیے سرمایہ داروں کی غلامی کرنے کے بجائے اپنے طبقے کو مضبوط بنائیں تاکہ وہ وڈیرہ شاہی کا مقابلہ کرسکے۔
دیہی علاقوں میں بلاشبہ عوام میں طبقاتی شعور تو پیدا ہو رہا ہے لیکن بے چارہ کسان ابھی ایک منظم طبقے کی حیثیت اختیار نہ کرسکا، دوسری بات یہ کہ وڈیرہ شاہی اور صنعت کار دونوں مل کر غریب کسانوں کا استحصال کر رہے ہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں وہ وڈیرہ شاہی کے جال سے باہر نہیں نکل سکے اگر دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ عوام ایک طبقے کی حیثیت سے اپنے آپ کو منظم کریں تو بلاشبہ وہ کسانوں میں بیداری پیدا کرسکتے ہیں۔
اچھی زندگی کی خواہش میں دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان شہروں کا رخ کر رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں یہ اچھی علامت ہے لیکن دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو وڈیرہ شاہی اور صنعت کاروں کے گٹھ جوڑ سے ہوشیار رہنا چاہیے یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وڈیرہ شاہی کا ایک حصہ (کمانے) کی خاطر اپنے طبقاتی فرض کو بھول کر شہروں میں نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
بدقسمتی سے تاریخ میں ہمیشہ بائیں بازو نے عوام کی نمایندگی کی لیکن یہ طبقہ کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرلیتا اور بے چارے سیاستدان صرف منہ دیکھتے رہ جاتے یا پھر سرمایہ دار طبقے کے پارٹنر بن جاتے۔ ہمارے ملک میں یہ کس قدر حیرت کی بات ہے ابھی تک پاکستان کے دیہی علاقوں میں وڈیرہ شاہی نظام اس قدر مضبوط اور بااثر ہے کہ عام آدمی خاص طور پر کسان اس کے آگے سر نہیں اٹھا سکتے۔
یہ کام ہمارے سیاست دانوں کا ہے کہ وہ جمہوری اداروں کی سرپرستی کریں لیکن اس المیے کو کیا کہا جائے کہ یہ طبقہ نوکر شاہی کا غلام بنا ہوا ہے اور دیہات میں تو ان وڈیروں کی بادشاہت چلتی ہے۔
چونکہ یہ طبقہ نوکر شاہی سے ملا ہوا ہوتا ہے لہٰذا اسے کسی کی پروا نہیں ہوتی، خوش قسمتی سے اب دیہی علاقوں کے عوام تعلیم حاصل کر رہے ہیں آہستہ آہستہ ان میں شعور آ رہا ہے کہ وہ اس ملک کے غلام نہیں بلکہ بادشاہ ہیں اگر ملک کا سیاستدان طبقہ عوام سے مخلص ہو تو وہ نہ صرف انھیں باشعور بنا سکتا ہے بلکہ وڈیرہ شاہی کے سامنے ایک مضبوط طاقت بن کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دیہی علاقوں کے نوجوان اتنے باشعور اور طاقتور نہ بن سکے کہ وہ وڈیرہ شاہی کو باہر نکال کر پھینک سکیں۔
وڈیرے اس قدر ہوشیار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے بیورو کریسی کو اپنا پارٹنر بنا لیتے ہیں۔ عام کسانوں پر اس کا اتنا اثر اور دباؤ ہوتا ہے کہ بے چارہ کسان سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
اگرچہ دیہی علاقوں میں وڈیرے اور ان کے پیٹی بھائی بیوروکریٹ وڈیروں کے دست راز بن گئے یہ صحیح ہے کہ وڈیرہ شاہی اب سرمایہ دار طبقے میں بدل رہی ہے لیکن اس کا فائدہ عوام کو یوں نہیں ہو سکا اگر سرمایہ دار مضبوط بن گیا تو یہ تبدیلی ضرور آ سکتی ہے کہ دیہی علاقوں کے سادہ دل شہری ابھی تک اپنے آپ کو طبقاتی بنیادوں پر کھڑا نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو وڈیرہ بذات فرد مضبوط ہے۔
پاکستان میں بلاشبہ وڈیرہ شاہی نظام ختم ہو رہا ہے لیکن اس کی جگہ نوکر شاہی کے تعاون سے وڈیرے اس قدر طاقتور ہوگئے کہ وہ عام غریب کسان مزدور کو جب چاہے جہاں سے چاہے اٹھا لے جاسکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں تو وڈیرہ شاہی ختم ہو رہی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی جگہ کسان قیادت کو آگے آنے کے بجائے سرمایہ دار طبقہ ہی کسانوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔
دیہی علاقوں میں کسانوں کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی غرض سے شہروں میں ملازمتیں ڈھونڈ رہے ہیں، اس کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ دیہی عوام شہری زندگی کے اسرار و رموز سے واقف ہو رہی ہے اور اس میں آہستہ آہستہ طبقاتی شعور اجاگر ہو رہا ہے۔
یہ ایک اچھی علامت ہے اور طبقاتی فرض بھی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے دیہات کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے طبقے کو مضبوط بنانے کے بجائے سرمایہ داروں کی غلامی کو زیادہ پسند کر رہے ہیں۔ ہمارا دانشور طبقہ طبقاتی ذمے داریوں کو پورا کرنے اور دیہی عوام میں شعور اجاگر کرنے کے بجائے تھوڑے سے پیسوں کے لیے سرمایہ داروں، صنعت کاروں کے غلام بنتے جا رہے ہیں۔
اب یہ دیہات کے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ تھوڑے سے پیسوں کے لیے سرمایہ داروں کی غلامی کرنے کے بجائے اپنے طبقے کو مضبوط بنائیں تاکہ وہ وڈیرہ شاہی کا مقابلہ کرسکے۔
دیہی علاقوں میں بلاشبہ عوام میں طبقاتی شعور تو پیدا ہو رہا ہے لیکن بے چارہ کسان ابھی ایک منظم طبقے کی حیثیت اختیار نہ کرسکا، دوسری بات یہ کہ وڈیرہ شاہی اور صنعت کار دونوں مل کر غریب کسانوں کا استحصال کر رہے ہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں وہ وڈیرہ شاہی کے جال سے باہر نہیں نکل سکے اگر دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ عوام ایک طبقے کی حیثیت سے اپنے آپ کو منظم کریں تو بلاشبہ وہ کسانوں میں بیداری پیدا کرسکتے ہیں۔
اچھی زندگی کی خواہش میں دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان شہروں کا رخ کر رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں یہ اچھی علامت ہے لیکن دیہی علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو وڈیرہ شاہی اور صنعت کاروں کے گٹھ جوڑ سے ہوشیار رہنا چاہیے یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وڈیرہ شاہی کا ایک حصہ (کمانے) کی خاطر اپنے طبقاتی فرض کو بھول کر شہروں میں نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔