دورہ چین کا احوال

چین کی توجہ خطہ کے کم ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہے تا کہ ان کی ترقی کو بھی ممکن بنایا جا سکے

msuherwardy@gmail.com

وزیر خارجہ بلاول بھٹو حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گوا گئے۔ سب نے سوال کیا کہ بھارت جانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن پاکستان نے جواب دیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ہمارے لیے بہت اہم ہے۔

ایسے میں پاکستان میں یہ سوال سامنے آیا کہ کیا واقعی شنگھائی تعاون تنظیم اتنی اہم ہے کہ ہم اس کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت میں جا سکتے ہیں۔ جب یہ بحث اپنے جوبن پر تھی تو ایک دن چین کے سفارتخانے سے فون آیا کہ چین کی حکومت شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے صحافیوں کو چین کا دورہ کروا رہی ہے۔

اس میں ہر رکن ملک سے ایک صحافی ہوگا۔ چین کی حکومت نے خود ہی سب صحافیوں کو منتخب کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں اس میں آپ پاکستان سے ہوں۔ میں نے کہا پاکستان سے اور کون کون ہوگا۔ تو جواب ملا کہ پاکستان سے صرف آپ ہوں گے۔

کیا آپ جانا چاہتے ہیں؟ میں نے سوچا ایک تو شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے صحافیوں سے ملاقات ہو جائے گی پھر میں آج تک چین گیا بھی نہیں تھا۔ اس لیے یہ ایک بہترین موقع تھا۔

وفد میں میرے ساتھ روس، بھارت، سری لنکا، نیپال، منگولیا، ازبکستان، قازکستان، آذربائیجان، بیلا روس ، سعودی عرب، قطر ،لبنان، مصر، افغانستان اور ایران کے صحافی تھے۔

بہر حال قصہ مختصر بیجنگ پہنچ گئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم سے منسلک ممالک کے صحافیوں سے وہاں ہوٹل میں ملاقات ہوئی اور پہلے دن ہی ہم بیجنگ میں چین کے دفتر خارجہ پہنچے۔ جہاں SCOشنگھائی تعاون تنظیم کے نیشنل کوارڈینیٹر Zhang Haizhouسے ملاقات ہوئی۔

دفتر خارجہ کے ایک بڑے میٹنگ ہال میں یہ بریفنگ ہوئی۔ Haizhou Zhang نے چینی زبان میں گفتگو کی جب کہ انگریزی اور روسی زبان کے متراجم ساتھ تھے۔

سینٹرل ایشیاممالک کے لوگ انگریزی نہیں سمجھتے 'ان کے لیے روسی زبان کے متراجم ہیں جب کہ بھارت' افغانستان 'ایران' پاکستان' سری لنکا اور دیگر ممالک کے لیے انگریزی زبان میں ترجمہ کا بندو بست کیا گیا ہے۔

یہ بات بھی حیران کن تھی شنگھائی تعاون تنظیم کی آفیشل زبان ریشیئن ہے۔ وہاں پہنچ کر روسی زبان کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا۔ ہمارے ساتھ روس کی خاتون صحافی Elena Olufemaبھی تھیں اور وہ تھوڑی بہت انگریزی سمجھتی تھیں۔

Zhang Haizhouاپنی گفتگو میں بہت واضح تھے۔ چین کے لیے بیلٹ اینڈروڈ پروجیکٹ اور سی پیک کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم بہت اہم ہے۔ میرے ذہن میں ایک سوال تھا کہ بھارت کی موجودگی کیوں لیکن یہ بھی چین کی سفارتکاری کی کامیابی ہے کہ اس نے بھارت کو ساتھ رکھا ہوا ہے۔

ہمیں چین سے سیکھنا چاہیے کہ مخالفین کو ساتھ لے کر کیسے چلا جاتا ہے۔ Zhang Haizhouکی گفتگو میں سی پیک کا کافی ذکر موجود تھا۔ وہ اسے شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم جزو سمجھتے ہیں۔

وسطیٰ ایشیا کے ممالک کی اہمیت کا اندازہ بھی شنگھا ئی تعاون تنظیم میں جاکر ہی ہوتا ہے۔ چین کے لیے وسطی ایشیا کے ممالک بہت اہم ہیں۔


وہ چین کو یورپ تک راہداری دے رہے ہیں۔ اسی لیے ہمیں شنگھائی تعاون تنظیم میں وسطیٰ ایشیا کے ممالک نظر آتے ہیں۔ Zhang Haizhou کی گفتگو میں بھی ان کی اہمیت کا بار بار ذکر تھا۔

چین کی سوچ ہے کہ ترقی کے لیے سب ممالک کو اپنے ملک کے اندر انفرا اسٹرکچر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ جڑ نہیں جائیں گے۔

ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ چین سمندر اور جہاز کے ساتھ سڑک سے تجارت کی اہمیت کو بھی سامنے لا رہا ہے۔ اسی لیے وہ بار بار شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کے رابطے مضبوط کرنے کا کہہ رہا ہے۔

اس میں زیر زمین ریل جہاز اور سمندر سب شامل ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کسی بھی ملک کے انفرااسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ اس لیے ممالک کو باہمی طور پر ایک دوسرے کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ اسی لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں چین ان ممالک کے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین کا موقف ہے کہ ترقی سب ممالک کا یکساں حق ہے۔

کسی بھی ملک کو اس سے محروم نہیں رکھاجا سکتا۔ کسی بھی ملک کی ترقی دوسرے ملک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ اس لیے ترقی کو روکنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم جہاں باہمی تجارت کے فروغ کی بات کر رہا ہے۔ وہاں یکساں ترقی کے مواقعے کی بات بھی کر رہا ہے۔

یہی شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی فلسفہ ہے۔ امیر ملک تو اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ لیکن کم ترقی یافتہ ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ چین کا موقف ہے کہ اب تک عالمی مالیاتی نظام ایسا ہی ہے کہ امیر ملک امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جب کہ غریب ملک غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

چین اس کو بدلنے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت امیر اور غریب ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا کی بھی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا میں یکساں ترقی نظر نہیں آرہی۔ بد اعتمادی کی اس فضا کو ختم کرنا ہی شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی کام ہے۔

چین کا بنیادی موقف ہے کہ جب تک ممالک کے درمیان رابطے مضبوط نہیں ہونگے ترقی نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے چین شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے درمیان رابطوں کو بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔

چین کے مطابق ترقی اور خوشحالی ہی باہمی تنازعات کو حل کرنے میں مدد دے گی۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی تنازعات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تمام ممالک کی کرنسی کی اہمیت ہونی چاہیے۔ ڈالر کی غیر ضروری اہمیت نے بھی ممالک کی ترقی کو روکا ہوا ہے۔

اس لیے ممالک کو اپنے درمیان نئے حل تلاش کرنا ہونگے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ اسی کی کاوش ہے۔ دنیا میں وسائل کی جنگ ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لیے چین کوشش کر رہا ہے۔

اس لیے چین کی توجہ خطہ کے کم ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہے تا کہ ان کی ترقی کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔ Zhang Haizhou سے دو گھنٹے سے زائد ملاقات جاری رہی۔ SCO پر تفصیل سے بات ہوئی۔ چین عرب ممالک کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔

وہ جنوبی ایشیا کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ اور وہ وسطیٰ ایشیا کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ روس اور چین کے درمیان تعاون کی جو نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ اس میں منگولیا کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔
Load Next Story