حکومتی دعوؤں کے باوجود سندھ پولیس بنیادی ضروری سامان اور نفری کی کمی سے دوچار

پولیس میں شعبوں اور یونٹوں کے قیام پرکروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن اہلکار بنیادی مسائل سے دوچار ہیں۔

اہلکاروں کو جدید آلات اورضروری سامان دیا جائے وہ دلجمعی سے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں ، پولیس افسر۔ فوٹو: فائل

شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی اولین ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے، پولیس اہلکار کی شہادت کے بعد تو حکام اس کے ورثا کو ایک کروڑ روپے تک دینے پر رضامند نظر آرہے ہیں جبکہ نئے شعبوں اوریونٹوں کا قیام بھی عمل میں لایا جاتا رہا ہے لیکن دوسری جانب پولیس اہلکار اپنی زندگی میں آج بھی بلٹ پروف جیکٹوں،جدید آلات ، ہنگامہ آرائی پر قابو پانے والا سامان کی عدم فراہمی اور تھانوں میں نفری کی کمی جیسے بنیادی مسائل سے دوچار ہیں۔

تفصیلات کے مطابق شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کا ذمے دار محکمہ پولیس ہے ، بعض اوقات اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران پولیس اہلکار جام شہادت نوش کرجاتے ہیں، شہر قائد میں پولیس اہلکاروں کی شہادت میں بھی تشویشناک اضافہ ہوگیاہے، مروجہ قوانین کے تحت شہید اہلکار کے ورثا کو20 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں جسے اب حکومت ایک کروڑ روپے تک کرنے پر رضامند نظر آرہی ہے جس کی توثیق جمعہ کو مرکزی پولیس دفتر میں ہونے والے اجلاس میں کی گئی ، شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے پولیس میںشعبوںاوریونٹوں کے قیام پرکروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن پولیس اہلکار اپنی زندگی میں بنیادی مسائل سے دوچار نظر آتا ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر پولیس اہلکار کو اس کی زندگی میں ہی جدید آلات اور ضروری سامان بروقت مہیا کردیا جائے تو وہ دلجمعی سے فرائض انجام دے سکتا ہے ، شہر کے ہر تھانے کو نفری کی کمی کا سامنا ہے،کسی بھی علاقے میں ناخوشگوار واقعے پرہمیشہ دوسرے تھانوں سے نفری منگوائی جاتی ہے ، تھانوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے پولیس اہلکار خصوصاً حساس تھانوں کے اہلکار بلٹ پروف جیکٹوں کی کمی کا شکار ہیں جن کی واضح مثال موبائلوں پر حملوں کے نتیجے میں اہلکاروں کی شہادت ہے ، جو جیکٹیں اہلکاروں کو فراہم کی جاتی ہیں وہ بھی ناقص مٹیریل سے تیار کردہ ہیں۔


افسر نے مزید بتایا کہ ہنگامہ آرائی پر قابو پانے والے سامان میں لاٹھی، ہیلمٹ ، جیکٹ ، کہنیوں اور گھٹنوں پر پہننے والے خصوصی طور پر تیار کردہ کیپس شامل ہیں لیکن ہر تھانے میں مذکورہ سامان کا فقدان ہوتا ہے ، ماضی میں پولیس میں کئی قسم کی فورسز بنائی گئیں لیکن وہ تجربات اکثر ناکام ہی رہے اور بیشتر فورسز دوبارہ ریگولر فورس میں ضم کردی گئیں ، پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار کی شہادت پر حکومت جتنی مالی زرتلافی دینا چاہے دے دے لیکن کم از کم پولیس اہلکاروں کو جدید آلات بھی فراہم کردے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے وہ فوری طور پر نمٹ سکیں۔

سال 2014 کراچی پولیس کے لیے بھیانک ثابت ہورہا ہے ، رواں برس 55 پولیس افسران و اہلکار جام شہادت نوش کرچکے ہیں، رواں برس کراچی پولیس پر پہلا حملہ 4 جنوری کو پیرآباد میں کیا گیا جس میں 2 اہلکار جاں بحق ہوئے ، ماہ جنوری میں ہی سہراب گوٹھ میں ٹریفک پولیس کی چوکی میں گھس کر ملزمان نے 2 اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا ، 9 جنوری کو عیسیٰ نگری کے قریب لیاری ایکسپریس وے پر بم دھماکے میں ایس پی چوہدری اسلم کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایس پی سمیت 3 افراد شہید ہوئے۔

13 فروری کو نیشنل ہائی وے پر پولیس کمانڈو کی بس پر بم حملے میں 13 پولیس کمانڈوز شہید کردیے گئے، 24 اپریل کو پرانی سبزی منڈی کے قریب انسپکٹر شفیق تنولی کوخودکش بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ،رواں سال شہید پولیس اہلکاروں میں ایک ایس پی ، 4 انسپکٹر ، 9 سب انسپکٹر ، 6 اسسٹنٹ سب انسپکٹر ، 7 ہیڈ کانسٹیبل اور 28 کانسٹیبل شامل ہیں ، رواں برس نیشنل ہائی وے ،بلدیہ ٹائون ، موچکو ، سکھن ، لانڈھی ، ناظم آباد اور دیگر علاقوں میں پولیس بس اور موبائلوں پر حملے کیے گئے جن میں55افسران اور اہلکار شہید ہوگئے، کئی پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی سے چھٹی کے بعد گھروں کو واپس جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔
Load Next Story