الیکشن
الیکشن کے اعلان سے ملک میں لامحالہ معاشی سرگرمیاں زور پکڑ جائیں گی
ہمارے جو پڑوسی اور عالمی طاقتیں پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتیں، ان کی سازشیں عروج پر ہیں، ان سازشوں کی وجہ سے پاکستان زوال کی طرف گامزن ہے۔ ایک عام پاکستانی کی روز مرہ زندگی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
روٹی مہنگی جب کہ روز گار بہت کم ہے، بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہیں اور دو وقت کھانا بھی بمشکل افورڈ کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آرہا ہے ورنہ ایک زرعی ملک میں کھانا پینا کبھی مسئلہ نہیں رہا تھا لیکن آج معاشی حالات نے کھانا پینا محدود کر دیا ہے، لوگ حکمرانوں سے مایوس ہو کر اﷲ کی مدد کے طلبگار ہیں کیونکہ اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کے معاشی حالات کو سدھار سکتا ہے ۔
غریب طبقے کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی پریشان حال ہیں۔ کون سا ایسا پاکستانی ہے جس کو اپنی حالت زار کا علم نہیں ہے، وہ عالمی مالیاتی دارے جو ہمیں زبردستی قرضے دیا کرتے تھے، اب ہمارے حالات کو دیکھ کر ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہمیں مزید قرض دے دیں ۔
یہ عالمی ساہوکار ایسی ظالمانہ شرائط کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کی وجہ سے عوام پر ٹیکسوں کی مد میں مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے اور ان شرائط کو ہمارے حکمران طوہاً کراہاً پورا بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی قرض کا حصول مزید شرائط کے مطالبے کے ساتھ موخر ہوتا جارہا ہے بقول منیر نیازی
اک اوردریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک دریا پار کرتی تو وہ مطالبات کا ایک نیا دریا سامنے رکھ دیتے ہیں۔
کہا یہ جارہا ہے کہ اگر ہمیں قرض نہ مل سکا تو شاید ہمارا بجٹ نہ بن سکے اور اگر کسی طرح اعدادو شمار کے ماہرین کے ہیر پھیر کے باعث بن بھی گیا تو پاکستانی عوام کو زندگی مزید تکلیف دہ اور اجیرن ہو جائے گی۔ ان عالمی ساہوکاروں نے قرض کی آڑ میں ہمارے اندرونی معاملات میں یہ کہتے ہوئے مداخلت بھی شروع کر دی ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پرعدم استحکام کو جلد ٹھیک کیا جائے ۔
معاشی گرداب میں پھنس کر قوم جس کر ب میں گرفتار ہے، اس بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے قوم کونکالنے کا ایک ہی راستہ سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے عام انتخابات چونکہ موجود اسمبلی کی آئینی مدت اگست کے مہینے میں مکمل ہو رہی ہے، قوم کو ابھی سے اگریہ بتا دیا جائے کہ فلاں تاریخ کو الیکشن ہوں گے تواس اعلان سے نہ صرف عوام میں پریشانی اور مایوسی کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ وہ عالمی طاقتیں جو پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں ان کو بھی پیغام مل جائے گا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل برقرار ہے۔
الیکشن کے اعلان سے ملک میں لامحالہ معاشی سرگرمیاں زور پکڑ جائیں گی کیونکہ کوئی بھی سرمایہ دار اس وقت تک اپنا پیسہ باہر نہیں نکالتا جب تک اسے یقین نہ ہوجائے کہ ایک مخصوص مدت تک اس کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی۔پاکستان کے وہ خیر خواہ جو الیکشن کو ملک کے لیے لازم سمجھتے ہیں ان کی نگاہ بہت دور تک دیکھ رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی یہ جانتی ہیں کہ الیکشن میں ہی ملک کی بقا ہے لیکن اس کے باوجود بھی الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے ضمن میں واضح اعلان ضروری ہے تا کہ ملک میں معیشت کا جام پہیہ رواں ہو سکے اور کسی عالمی طاقت کو پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی بہانہ نہ مل سکے ۔
ہمیں اس بات پر بھی نظر رکھنا ہو گی کہ وہ کون سی عالمی طاقتیں ہیں جو پاکستان کے موجود معاشی حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں ، جس میں سے ایک بڑا مقصد پاکستان کی ایٹمی طاقت کے خاتمے کا ہے کیونکہ ان عالمی طاقتوں کو معلوم ہے کہ دفاعی لحاظ سے ایک کمزور پاکستان ہی ان کا زیر دست رہ سکتا ہے اور وہ اس ہنستے بستے ملک میں اپنی من مرضی کا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں۔بات سمجھنے کی ہے اور شاید ہمارے من جملہ سیاستدان یہ بات جانتے بوجھتے بھی سمجھنا نہیں چاہ رہے ۔
خدا کے بندوں پاکستان کی جو معاشی حالت ہے اور بگاڑ جتنا بڑھ چکا ہے اگر خدا نخواستہ ملک ہی نہ رہا تو کہاں کی سیاست اور کہاں کی حکمرانی۔ ہوش کے ناخن لیں،سب مل بیٹھیں اور ملک کو معاشی ابتری سے نکالنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
روٹی مہنگی جب کہ روز گار بہت کم ہے، بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہیں اور دو وقت کھانا بھی بمشکل افورڈ کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آرہا ہے ورنہ ایک زرعی ملک میں کھانا پینا کبھی مسئلہ نہیں رہا تھا لیکن آج معاشی حالات نے کھانا پینا محدود کر دیا ہے، لوگ حکمرانوں سے مایوس ہو کر اﷲ کی مدد کے طلبگار ہیں کیونکہ اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کے معاشی حالات کو سدھار سکتا ہے ۔
غریب طبقے کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی پریشان حال ہیں۔ کون سا ایسا پاکستانی ہے جس کو اپنی حالت زار کا علم نہیں ہے، وہ عالمی مالیاتی دارے جو ہمیں زبردستی قرضے دیا کرتے تھے، اب ہمارے حالات کو دیکھ کر ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہمیں مزید قرض دے دیں ۔
یہ عالمی ساہوکار ایسی ظالمانہ شرائط کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کی وجہ سے عوام پر ٹیکسوں کی مد میں مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے اور ان شرائط کو ہمارے حکمران طوہاً کراہاً پورا بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی قرض کا حصول مزید شرائط کے مطالبے کے ساتھ موخر ہوتا جارہا ہے بقول منیر نیازی
اک اوردریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک دریا پار کرتی تو وہ مطالبات کا ایک نیا دریا سامنے رکھ دیتے ہیں۔
کہا یہ جارہا ہے کہ اگر ہمیں قرض نہ مل سکا تو شاید ہمارا بجٹ نہ بن سکے اور اگر کسی طرح اعدادو شمار کے ماہرین کے ہیر پھیر کے باعث بن بھی گیا تو پاکستانی عوام کو زندگی مزید تکلیف دہ اور اجیرن ہو جائے گی۔ ان عالمی ساہوکاروں نے قرض کی آڑ میں ہمارے اندرونی معاملات میں یہ کہتے ہوئے مداخلت بھی شروع کر دی ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پرعدم استحکام کو جلد ٹھیک کیا جائے ۔
معاشی گرداب میں پھنس کر قوم جس کر ب میں گرفتار ہے، اس بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے قوم کونکالنے کا ایک ہی راستہ سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے عام انتخابات چونکہ موجود اسمبلی کی آئینی مدت اگست کے مہینے میں مکمل ہو رہی ہے، قوم کو ابھی سے اگریہ بتا دیا جائے کہ فلاں تاریخ کو الیکشن ہوں گے تواس اعلان سے نہ صرف عوام میں پریشانی اور مایوسی کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ وہ عالمی طاقتیں جو پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں ان کو بھی پیغام مل جائے گا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل برقرار ہے۔
الیکشن کے اعلان سے ملک میں لامحالہ معاشی سرگرمیاں زور پکڑ جائیں گی کیونکہ کوئی بھی سرمایہ دار اس وقت تک اپنا پیسہ باہر نہیں نکالتا جب تک اسے یقین نہ ہوجائے کہ ایک مخصوص مدت تک اس کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی۔پاکستان کے وہ خیر خواہ جو الیکشن کو ملک کے لیے لازم سمجھتے ہیں ان کی نگاہ بہت دور تک دیکھ رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی یہ جانتی ہیں کہ الیکشن میں ہی ملک کی بقا ہے لیکن اس کے باوجود بھی الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے ضمن میں واضح اعلان ضروری ہے تا کہ ملک میں معیشت کا جام پہیہ رواں ہو سکے اور کسی عالمی طاقت کو پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی بہانہ نہ مل سکے ۔
ہمیں اس بات پر بھی نظر رکھنا ہو گی کہ وہ کون سی عالمی طاقتیں ہیں جو پاکستان کے موجود معاشی حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں ، جس میں سے ایک بڑا مقصد پاکستان کی ایٹمی طاقت کے خاتمے کا ہے کیونکہ ان عالمی طاقتوں کو معلوم ہے کہ دفاعی لحاظ سے ایک کمزور پاکستان ہی ان کا زیر دست رہ سکتا ہے اور وہ اس ہنستے بستے ملک میں اپنی من مرضی کا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں۔بات سمجھنے کی ہے اور شاید ہمارے من جملہ سیاستدان یہ بات جانتے بوجھتے بھی سمجھنا نہیں چاہ رہے ۔
خدا کے بندوں پاکستان کی جو معاشی حالت ہے اور بگاڑ جتنا بڑھ چکا ہے اگر خدا نخواستہ ملک ہی نہ رہا تو کہاں کی سیاست اور کہاں کی حکمرانی۔ ہوش کے ناخن لیں،سب مل بیٹھیں اور ملک کو معاشی ابتری سے نکالنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔