سرکاری جامعات کی گرانٹ میں پانچ فیصد کمی نئے کیمپس کھولنے پر بھی پابندی

گرانٹ میں کٹوتی کے باعث جامعات کو تنخواہوں، پنشن اور یوٹیلٹی بلز سمیت دیگر ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے

گرانٹ میں کٹوتی سے براہ راست طلبا متاثر ہورہے ہیں اور معیار تعلیم پر فرق پڑ رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ مزید مشکلات کا شکار ہونے جارہا ہے۔ وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کا مجموعی فنڈ نہ بڑھانے کے ساتھ آئندہ مالی سال 2023/24 کےلیے چاروں صوبوں کی تمام جامعات کے انفرادی فنڈز میں ڈیڑھ ڈیڑھ فیصد تک کٹوتی کردی ہے۔

رواں مالی سال 2022/23 کی منظور کردہ گرانٹ بھی آخری ماہ جون میں تمام جامعات کو 5 فیصد کٹوتی کے ساتھ بھجوائی گئی ہے۔ اس طرح رواں مالی سال کی گرانٹ پر بھی کٹ لگادیا گیا ہے۔

آئندہ سال کےلیے کی گئی ڈیڑھ ڈیڑھ فیصد کی کٹوتی کے بعد، ایچ ای سی کی جانب سے وفاقی حکومت کے ماتحت جامعات کے انفرادی بجٹ میں پانچ فیصد تک اضافہ کیا جارہا ہے تاہم یہ اضافہ وفاقی جامعات کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔

وفاقی اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے کمیشن کے ایک ہنگامی اجلاس میں ان فیصلوں کی منظوری بھی لے لی ہے اور اجلاس میں موجود تمام شرکاء پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ 2018 سے چلی آرہی 64 ملین روپے کی گرانٹ ہی اس سال 2023/24 بھی جامعات کو دی جائے گی کیونکہ وفاقی حکومت جامعات کی گرانٹ میں اضافے کےلیے تیار نہیں۔

تاہم کمیشن کے اس اجلاس میں سندھ کی جامعات کی گرانٹ میں کٹوتی کو شدید ردعمل کے ساتھ مسترد کیا گیا ہے، جس کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر سندھ کی جامعات کی گرانٹ میں کٹوتی نہ بھی کی جائے تب بھی باقی تین صوبوں کی گرانٹ میں کٹوتی ہوگی اور اس گرانٹ کو وفاقی جامعات میں دیا جائے گا۔

دوسری جانب اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے رواں مالی سال 2022/23 کی سرکاری جامعات کی گرانٹ بھی 5 فیصد کم کردی ہے۔ یہ کٹوتی منظور شدہ مجموعی گرانٹ میں کی گئی ہے اور رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی کے آخری حصے میں گرانٹ کٹوتی کے بعد منہا کرکے بھجوائی گئی ہے، جس سے سرکاری جامعات کو شدید مشکلات درپیش ہیں کیونکہ جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 2023/24 کی مختص گرانٹ روایتی طور پر تقریباً دو ماہ کی تاخیر سے آنا شروع ہوگی جبکہ رواں برس کی گرانٹ میں کٹوتی کے باعث جامعات کو تنخواہوں، پنشن اور یوٹیلٹی بلز سمیت دیگر ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔


''ایکسپریس'' کو معلوم ہوا ہے کہ صرف این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو منظور شدہ گرانٹ سے 54 ملین روپے کم دیے گئے ہیں۔ اسی طرح جامعہ کراچی کی منظور شدہ گرانٹ سے 100 ملین روپے نکال لیے گئے ہیں۔ وفاق کے تحت چلنے والی اردو یونیورسٹی کی سالانہ گرانٹ میں سے بھی 45 ملین روپے منہا کیے گئے ہیں۔ سندھ کی دیگر سرکاری جامعات کی مجموعی گرانٹ سے بھی اسی طرح پانچ، پانچ فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ اندرون سندھ کی کئی جامعات اوور ڈرافٹ OD پر چل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ 2018 سے سندھ سمیت ملک بھر کی سرکاری جامعات کی سالانہ گرانٹ میں اضافہ نہیں ہوسکا، جبکہ اب منظور کردہ گرانٹ میں کٹوتی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

ایک جانب کئی سال سے گرانٹ میں اضافہ نہیں ہورہا جبکہ اب کٹوتی کی خبریں سامنے آرہی ہیں، دوسری جانب بعض جامعات قرضے لے کر تنخواہیں ادا کررہی ہیں۔ جامعات کے اخراجات میں ایچ ای سی گرانٹ کا تناسب ہر سال کم ہورہا ہے جس کے باعث بعض جامعات کی لائبریری میں کتابوں کی خریداری رکی ہوئی ہے۔ اکثر جامعات اپنے جرنلز پرنٹ کرنے کے بجائے اسے صرف آن لائن کررہی ہیں۔ تجربہ گاہوں میں کیمیکل اور دوسرے آلات خریدے نہیں جارہے۔ جامعات اپنا انفرااسٹرکچر بہتر کرنے سے قاصر ہیں، جس سے براہ راست طلبا متاثر ہورہے ہیں اور معیار تعلیم پر فرق پڑ رہا ہے۔

چیئرمین ایچ ای سی اسلام آباد ڈاکٹر مختار احمد نے گرانٹ کے سلسلے میں ''ایکسپریس'' سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ گرانٹ میں اضافہ نہیں ہورہا۔ وفاقی حکومت نے نئے آنے والے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں 2018 والی گرانٹ دینے کی بات کی ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی کا کہنا تھا کہ انھوں نے چاروں صوبائی حکومتوں کو خطوط لکھے ہیں کہ وہ اپنی اپنی صوبائی جامعات کا مالی بوجھ ہم سے شیئر کریں اور اس سلسلے میں اپنے اپنے کنٹری بیوشن کو بڑھائیں۔ انھوں سندھ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ نے اپنی جامعات کی گرانٹ میں کافی اضافہ کیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ باقی صوبے بھی ایسا کریں۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت نے نئے مالی سال 2023/24 کے بجٹ میں سرکاری جامعات کی گرانٹ 14 ارب روپے سے بڑھا کر ساڑھے 21 ارب روپے کردی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس مختص گرانٹ کی سمری منظور کرلی ہے تاہم ساتھ ہی سندھ کی تمام جامعات کے نئے کیمپسز کھولنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے ایک بڑا مالی بوجھ ہوتا ہے۔

سرکاری جامعات کی گرانٹ میں اضافے کی منظور کی گئی سمری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام پروفیشنل (میڈیکل، انجینئرنگ، ایگری کلچر اور ٹیکنیکل) جامعات مزید اور نئی جنرل فیکلٹیز قائم کرنے کے بجائے اپنے اپنے پروگرام پر فوکس کریں کیونکہ اس سے اضافہ مالی بوجھ پڑے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے منظور کردہ سمری میں کہا گیا ہے کہ جامعات خودمختار ہیں، حکومتی گرانٹ ان جامعات کی مالی امداد کا پائیدار حل نہیں، لہٰذا وہ حکومتی گرانٹ پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنے وسائل بروئے کار لائیں۔ انکم میں اضافے اور اخراجات میں کمی کےلیے اپنے بزنس پلان ترتیب دیں۔

سندھ کی سرکاری یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے ''ایکسپریس'' کو اس سلسلے میں اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب تک وفاق اپنی گرانٹ میں اضافہ نہیں کرتا ہماری مشکلات بڑھتی ہی جائیں گی۔ سندھ حکومت کی جانب سے گرانٹ میں اضافے کی خبریں قابل تحسین ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ مہنگائی اور بجٹ کے بعد تنخواہوں میں اضافہ ہمیں اس گرداب سے نکلنے ہی نہیں دیتا، دوسری جانب اب ایچ ای سی کی جانب سے ڈیولپمنٹ گرانٹس بھی نہیں آتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جامعات میں نئے شعبے کھولنا اور نئے منصوبے متعارف کروانا دشوار ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہم تو موجودہ فیکلٹی کی تنخواہوں کا انتظام ہی بہ مشکل کرپاتے ہیں، نئے شعبے اور نئی فیکلٹی کہاں سے لائیں؟ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری جامعات میں متوسط اور غریب طبقے کے طلبا آتے ہیں، فیسوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سرکاری جامعات کی گرانٹ تقریباً 7 ارب روپے تک اضافے کے بعد این ای ڈی یونیورسٹی کی صوبائی گرانٹ 69 کروڑ سے 1 ارب 14 کروڑ ہوجائے گی۔ مہران یونیورسٹی کی گرانٹ 97 کروڑ روپے سے 1 ارب 45 کروڑ، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی صوبائی گرانٹ 55 کروڑ سے 89 کروڑ، 1 ارب 49 کروڑ سے 2 ارب 46 کروڑ روپے، لیاری یونیورسٹی کی 12 سے 18 کروڑ، داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی 83 کروڑ سے 1 ارب 11 کروڑ روپے، جبکہ سندھ یونیورسٹی جامشورو کی گرانٹ 1 ارب 42 کروڑ سے 1 ارب 93 کروڑ روپے ہوجائے گی۔
Load Next Story