وش کنیا زہریلی لڑکی دوسرا اور آخری حصہ
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ زہراور انسان دونوں میں سے ایک کا مرنا طے ہے
یونانی اور آئیورویدک طریقہ حکمت میں کشتہ جات بنانے کاسلسلہ بہت پرانا اور مقبول ہے، اس میں اکثر زہریلی یاہضم نہ ہونے والی چیزوں کامختلف طریقوں سے کشتہ بنایا جاتا، دوسرے الفاظ میں انھیں انسانی نظام انہضام کے قابل بنایاجاتاہے۔
ہیومیوپیتھک طریقہ علاج میں بھی دوائیں اس اصول پر تیارکی جاتی ہیں لیکن انھیں ڈائیلوٹ یا پتلا کیاجاتاہے ۔اصل یاطریقہ کار یہ ہے کہ زہریلی چیز کو لے کر سو حصے الکحل ملایا جاتاہے پھر اسے ہلاکر مکس کیا جاتاہے پھر اس مکسچر کا ایک حصہ لے کر سو حصے الکحل کے ساتھ مکس کیاجاتاہے ،یہ نمبرایک پوٹنی بن جاتی ہے پھر اسی طرح اس میں الکحل ملا ملا کر پوٹنی بنائی جاتی ہے اور پوٹنی کا نمبر بڑھتاجاتا ہے ۔
کشتہ جات بنانے کاعمل تقریباً ایسا ہی ہوتاہے اورسب طریقوں کامقصد زہرکو انسانی نظام انہضام کے مطابق کرنا یا بنانا ہوتاہے لیکن انسانی نظام انہضام اپنی جگہ ایک بہت بڑی فیکٹری یا لیبارٹری کی طرح ہے کوئی چیزاگر انسان کھا لے تو انتہائی زہریلی چیز تو پہلے ہی مرحلے میں نظام انہضام پر غالب آکر انسان کو مار ڈالے گی اور اگر وہ اس نظام انہضام سے گزر کر جزو بدن ہوجائے تو پھر وہ زہرنہیں خوراک بن جاتی ہے،اس کا زہریلا پن ختم ہوجاتاہے کہ انسانی نظام انہضام ایک بہت بڑا کشتہ گھر یاکشتہ مشین ہے۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ زہراور انسان دونوں میں سے ایک کا مرنا طے ہے، انسان زندہ رہا تو زہر زہر نہیں رہے گا اور زہر زہر رہاتو انسان نہیںرہے گا، اس لیے وش کنیا کایہ تصور ہی ناممکن العمل اور محض ایک مفروضہ ہے۔
یہاں تو بات روایتی اور افسانوی وش کنیا کی ہوگی، اب اس سے آگے ہم دیکھیں گے کہ روایتی وش کنیا کو افسانوی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لایا جا سکتا ہے یالایا گیاہے یا یہ ممکن ہے ؟ تو ہم بات کو سسپنس سے نکال کر آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جدید انسان نے وش کنیا کے اس تصورکو عملی جامہ پہنادیاہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں وش کنیائیں تیارکرکے کام پر لگائی ہوئی ہیں ،روایتی وش کنیاکاکام مقصد اور استعال بھی ''فتوحات''حاصل کرناتھا اورجدید وش کنیاؤں کا مقصد ومرام بھی یہی ہے۔
فرق اگر کوئی ہے تو اتنا کہ پرانے زمانے میں وش کنیاؤں کا استعمال بادشاہوں راجاؤں فاتحوں اور ممالک پر قبضہ کرنے والے کرتے تھے اورآج یہ کام تاجر ،صنعت کار ،سرمایہ کار اور بنکسٹرزکررہے ہیں ،مطلب وہی ہے۔
دوسروں کو مفتوح کرکے اپنی ''مملکتوں''کو پھیلانا ۔اس میں ایک خاص بات ہے کہ جدید وش کنیا کو کسی زہروغیرہ سے زہریلا نہیں بنایا جاتا بلکہ اسے خود مجسم زہربنایا گیا ہے اوروہ بھی بڑی میٹھی چیزوں ،آزادی نسواں اورترقی کے ذریعے ، ذرا '' شوبز''کی دنیا پر نظر ڈالیے قدم قدم پر وش کنیاؤں کااستعمال جاری ہے اوراسے اتنا زہریلا بنایا گیا ہے کہ صر ف دور سے دیکھنے یا پردہ اسکرین پر دشمنوں کو ہلاک کردیتی ہے۔
جس طرح وش کنیا اس کا زہراور استعمال بدل چکاہے اسی طرح اس کی فتوحات اورہلاک کرنے کا کام بھی بدل چکا ہے۔ آپ نے ''شوبز'' کے نام پر مختلف فلمیں اشتہارات اورماڈلوں کے مظاہرے دیکھے ہوں گے، اکثر فلموں اور ڈراموں میں ساحلی مقامات پر عورتیں دیکھی ہوں گی ۔
ایسے مناظر ہمارے پڑوسی ملک کے چینلوںاور فلموں میں آج کل ساری دنیا سے زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس فتوحات کے لیے زہریلی لڑکی سے موثرہتھیار اورکوئی چیزنہیں۔
اکثر لوگوں کو ان خواتین پر غصہ آتاہے لیکن یقین کریں کہ ہمیں ایسے مناظر دیکھ کر اس ''آزاد'' عورت پر غصہ نہیں بلکہ ترس اور رحم آتا ہے کیوں کہ یہ وہ خود نہیں کر رہی ہے بلکہ اسے اس حد تک سدھایا جاچکاہے، ہیپناٹائز کیاچکاہے اور اتنا برین واش کیاجاچکاہے کہ وہ خود وہی کررہی ہے جو مرد اس سے کروانا چاہتا ہے ۔
یہ ہوبہو ویسا ہی سلسلہ ہے جو اشرافیہ اور عوامیہ کا رہا ہے کہ اشرافیہ نے عوامیہ کو ہزاروں سال دماغ کے عدم استعمال پر اورخود کو دماغ کے کثرت استعمال پر لگا رکھاہے جس کے نتیجے میں عوامیہ کا دماغ صفر اور اشرافیہ کادماغ انتہائی تیز چالاک اورطاقتورہوگیا ۔
ٹھیک یہی معاملہ مرد اور عورت کابھی ہے، مرد نے عورت کو ''محدود'' کرکے اس کے جسم اوردماغ دونوں کومفلوج کیا ہوا ہے، نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ عورت کو دماغ اورجسم دونوں لحاظوں سے کمزور کردیاگیاہے، اسے ناقص العقل کہاجاتاہے لیکن وہ اصل میں ناقص العقل نہیں بلکہ اسے ناقص العقل بنایا گیا ہے اوراسے ایک ایسا معمول بنایاگیا ہے جو عامل کی مرضی کے مطابق ہرکام کررہی ہے ۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سے اس کی اصل حیثیت چھین لی گئی ہے جو ''ماں''کی ہے ، دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیٹی نہیں ہوتی، بہن نہیں ہوتی ، بیوی نہیں ہوتی لیکن ایسا کوئی انسان نہیں ہوگا جس کی ماں نہیں ہوگی لیکن آج انسان نے اس عورت کو سب کچھ بنادیاہے۔
صرف وہ ماں نہیں رہی ہے صرف ایک زہریلاجسم بنادی گئی ہے کیوںکہ چالاک مرد نے اسے آزادی کی بانس پرچڑھا کر ''کمائی'' پر لگا دیا ہے حالانکہ کمائی کاکام خالص مرد کا ہے اور وہ اس بیماری میں خوشی خوشی وہ سب کچھ کررہی ہے جو مرد چاہتاہے ،آزادی نسواں کے نام پر اسے زمرد کے گلوبند کا اسیر بنایاگیاہے ۔
اپنے کالموں میں یہ بات میں اکثر کرتاہوں کہ انسانی بچے کی پرورش مرد کاکام ہے اس کی اور اس کی ماں کی مادی ضروریات پوری کرنا شامل ہے جب کہ عورت کاکام اس بچے کے اندرانسان پیداکرنا ہوتاہے اورآج مرد نے اپنا کام (کمائی) بھی عورت کے ذمے کردیا ہے اوراگر عورت کمائی کرنے نکل پڑے اور بچے کو نوکروں، چائلڈ،کیئرسینٹروں اور تنخواہ دار لوگوں پر ڈال دے تو وہ تو ان کے اندر ڈاکٹر،انجینئر،بنکر، تاجر وغیرہ ڈال دیں گے انسان کو کون ڈالے گا۔
ہیومیوپیتھک طریقہ علاج میں بھی دوائیں اس اصول پر تیارکی جاتی ہیں لیکن انھیں ڈائیلوٹ یا پتلا کیاجاتاہے ۔اصل یاطریقہ کار یہ ہے کہ زہریلی چیز کو لے کر سو حصے الکحل ملایا جاتاہے پھر اسے ہلاکر مکس کیا جاتاہے پھر اس مکسچر کا ایک حصہ لے کر سو حصے الکحل کے ساتھ مکس کیاجاتاہے ،یہ نمبرایک پوٹنی بن جاتی ہے پھر اسی طرح اس میں الکحل ملا ملا کر پوٹنی بنائی جاتی ہے اور پوٹنی کا نمبر بڑھتاجاتا ہے ۔
کشتہ جات بنانے کاعمل تقریباً ایسا ہی ہوتاہے اورسب طریقوں کامقصد زہرکو انسانی نظام انہضام کے مطابق کرنا یا بنانا ہوتاہے لیکن انسانی نظام انہضام اپنی جگہ ایک بہت بڑی فیکٹری یا لیبارٹری کی طرح ہے کوئی چیزاگر انسان کھا لے تو انتہائی زہریلی چیز تو پہلے ہی مرحلے میں نظام انہضام پر غالب آکر انسان کو مار ڈالے گی اور اگر وہ اس نظام انہضام سے گزر کر جزو بدن ہوجائے تو پھر وہ زہرنہیں خوراک بن جاتی ہے،اس کا زہریلا پن ختم ہوجاتاہے کہ انسانی نظام انہضام ایک بہت بڑا کشتہ گھر یاکشتہ مشین ہے۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ زہراور انسان دونوں میں سے ایک کا مرنا طے ہے، انسان زندہ رہا تو زہر زہر نہیں رہے گا اور زہر زہر رہاتو انسان نہیںرہے گا، اس لیے وش کنیا کایہ تصور ہی ناممکن العمل اور محض ایک مفروضہ ہے۔
یہاں تو بات روایتی اور افسانوی وش کنیا کی ہوگی، اب اس سے آگے ہم دیکھیں گے کہ روایتی وش کنیا کو افسانوی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لایا جا سکتا ہے یالایا گیاہے یا یہ ممکن ہے ؟ تو ہم بات کو سسپنس سے نکال کر آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جدید انسان نے وش کنیا کے اس تصورکو عملی جامہ پہنادیاہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں وش کنیائیں تیارکرکے کام پر لگائی ہوئی ہیں ،روایتی وش کنیاکاکام مقصد اور استعال بھی ''فتوحات''حاصل کرناتھا اورجدید وش کنیاؤں کا مقصد ومرام بھی یہی ہے۔
فرق اگر کوئی ہے تو اتنا کہ پرانے زمانے میں وش کنیاؤں کا استعمال بادشاہوں راجاؤں فاتحوں اور ممالک پر قبضہ کرنے والے کرتے تھے اورآج یہ کام تاجر ،صنعت کار ،سرمایہ کار اور بنکسٹرزکررہے ہیں ،مطلب وہی ہے۔
دوسروں کو مفتوح کرکے اپنی ''مملکتوں''کو پھیلانا ۔اس میں ایک خاص بات ہے کہ جدید وش کنیا کو کسی زہروغیرہ سے زہریلا نہیں بنایا جاتا بلکہ اسے خود مجسم زہربنایا گیا ہے اوروہ بھی بڑی میٹھی چیزوں ،آزادی نسواں اورترقی کے ذریعے ، ذرا '' شوبز''کی دنیا پر نظر ڈالیے قدم قدم پر وش کنیاؤں کااستعمال جاری ہے اوراسے اتنا زہریلا بنایا گیا ہے کہ صر ف دور سے دیکھنے یا پردہ اسکرین پر دشمنوں کو ہلاک کردیتی ہے۔
جس طرح وش کنیا اس کا زہراور استعمال بدل چکاہے اسی طرح اس کی فتوحات اورہلاک کرنے کا کام بھی بدل چکا ہے۔ آپ نے ''شوبز'' کے نام پر مختلف فلمیں اشتہارات اورماڈلوں کے مظاہرے دیکھے ہوں گے، اکثر فلموں اور ڈراموں میں ساحلی مقامات پر عورتیں دیکھی ہوں گی ۔
ایسے مناظر ہمارے پڑوسی ملک کے چینلوںاور فلموں میں آج کل ساری دنیا سے زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس فتوحات کے لیے زہریلی لڑکی سے موثرہتھیار اورکوئی چیزنہیں۔
اکثر لوگوں کو ان خواتین پر غصہ آتاہے لیکن یقین کریں کہ ہمیں ایسے مناظر دیکھ کر اس ''آزاد'' عورت پر غصہ نہیں بلکہ ترس اور رحم آتا ہے کیوں کہ یہ وہ خود نہیں کر رہی ہے بلکہ اسے اس حد تک سدھایا جاچکاہے، ہیپناٹائز کیاچکاہے اور اتنا برین واش کیاجاچکاہے کہ وہ خود وہی کررہی ہے جو مرد اس سے کروانا چاہتا ہے ۔
یہ ہوبہو ویسا ہی سلسلہ ہے جو اشرافیہ اور عوامیہ کا رہا ہے کہ اشرافیہ نے عوامیہ کو ہزاروں سال دماغ کے عدم استعمال پر اورخود کو دماغ کے کثرت استعمال پر لگا رکھاہے جس کے نتیجے میں عوامیہ کا دماغ صفر اور اشرافیہ کادماغ انتہائی تیز چالاک اورطاقتورہوگیا ۔
ٹھیک یہی معاملہ مرد اور عورت کابھی ہے، مرد نے عورت کو ''محدود'' کرکے اس کے جسم اوردماغ دونوں کومفلوج کیا ہوا ہے، نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ عورت کو دماغ اورجسم دونوں لحاظوں سے کمزور کردیاگیاہے، اسے ناقص العقل کہاجاتاہے لیکن وہ اصل میں ناقص العقل نہیں بلکہ اسے ناقص العقل بنایا گیا ہے اوراسے ایک ایسا معمول بنایاگیا ہے جو عامل کی مرضی کے مطابق ہرکام کررہی ہے ۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سے اس کی اصل حیثیت چھین لی گئی ہے جو ''ماں''کی ہے ، دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیٹی نہیں ہوتی، بہن نہیں ہوتی ، بیوی نہیں ہوتی لیکن ایسا کوئی انسان نہیں ہوگا جس کی ماں نہیں ہوگی لیکن آج انسان نے اس عورت کو سب کچھ بنادیاہے۔
صرف وہ ماں نہیں رہی ہے صرف ایک زہریلاجسم بنادی گئی ہے کیوںکہ چالاک مرد نے اسے آزادی کی بانس پرچڑھا کر ''کمائی'' پر لگا دیا ہے حالانکہ کمائی کاکام خالص مرد کا ہے اور وہ اس بیماری میں خوشی خوشی وہ سب کچھ کررہی ہے جو مرد چاہتاہے ،آزادی نسواں کے نام پر اسے زمرد کے گلوبند کا اسیر بنایاگیاہے ۔
اپنے کالموں میں یہ بات میں اکثر کرتاہوں کہ انسانی بچے کی پرورش مرد کاکام ہے اس کی اور اس کی ماں کی مادی ضروریات پوری کرنا شامل ہے جب کہ عورت کاکام اس بچے کے اندرانسان پیداکرنا ہوتاہے اورآج مرد نے اپنا کام (کمائی) بھی عورت کے ذمے کردیا ہے اوراگر عورت کمائی کرنے نکل پڑے اور بچے کو نوکروں، چائلڈ،کیئرسینٹروں اور تنخواہ دار لوگوں پر ڈال دے تو وہ تو ان کے اندر ڈاکٹر،انجینئر،بنکر، تاجر وغیرہ ڈال دیں گے انسان کو کون ڈالے گا۔