ایک سبق آموز کہانی
پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر کے غبارے میں اتنی ہوا بھری گئی جس سے اس ملک کی حقیقی سیاسی قوتیں خائف ہوکر رہ گئیں
الحمدللہ! جس طرح روزنامہ ایکسپریس کے قارئین میں ہر مکتبہ فکر، تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور وابستگان کے علاوہ مختلف الخیال لوگ شامل ہیں اسی طرح" تبدیلی" کے قارئین میں بھی مختلف الخیال لوگ شامل ہیں۔
اور وہ اپنی سوچ اور پسند و ناپسند کے مطابق اپنا ردعمل دیتے ہیں جس میں داد و تحسین بھی ہوتی ہے، تند و تیز تنقید کے نشتر بھی، بہت سے قارئین مفید مشوروں سے بھی نوازتے ہیں اور بہت سے گالیوں کی بوچھاڑ بھی کرتے ہیں۔
میری بی بی جی مرحومہ کو اللہ رب العزت کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کرے وہ ہمیں کہا کرتی تھیں کہ جس برتن میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے وہی گرتا ہے۔ یعنی ہر بندہ معاملات اپنی خاندانی حیثیت اور ذہنی استعداد کے مطابق کرتا ہے لہذا لوگوں کے ناروا سلوک سے پریشان نہ ہوا کریں۔ یہ نصیحت جو میری ماں کی وفات کے بعد میرے لیے وصیت کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کی بنیاد پر میں "عمران دار" قارئین کی گالیاں نظرانداز کرکے ان کا معاملہ اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
ہر کالم نگار کے قارئین میں سے کچھ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کو کالم نگار کوئی بہت ہی باخبر اور پہنچا ہوا لگتا ہے تو وہ ان سے مختلف اوقات پر ایسے سوالات کرتے رہتے ہیں، کہ ایسا کیوں ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوا اور اب کیا ہوگا تو اسی چکر میں تبدیلی کے قارئین میں سے بھی کچھ لوگ مجھے بھی دانشور سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی طرف سے اس طرح کے سوالات وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں مگر 9 مئی یعنی یوم سیاہ کے المناک بلکہ شرمناک واقعات کے بعد ایک سوال مسلسل ہورہا ہے کہ اس کے منصوبہ ساز کے ساتھ ایسا کیوں ہوا کہ وہ عرش سے فرش پر آگیا۔اب میرے جیسا بندہ ان ثقیل سوالات کے جوابات کیسے دے؟ مگر اپنی دانشوری کی لاج رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ تو بتانا پڑے گا۔ مگر اس سے پہلے کہ میں اپنی دانشوری کی کرشمہ سازی پیش کروں پہلے ایک حکایت نما کہانی سناتا ہوں کہ موڈ ذرا بہتر ہوجائے، پھر اس کے بعد اپنی دانشوری کا رعب بٹھائیں گے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ:
"ایک شکاری شیر کا شکار کرنا چاہتا تھا لیکن وہ خوف کا شکار رہتا تھا'اس نے اپنے ایک ہمدرد کو اپنے ہدف اور خوف کے بارے میں بتایا اور مدد طلب کی ' اس نے مشورہ دیا کہ فلاں جگہ کرامت والا مرشد ہے وہ ہر مسئلے کا حل بتاتا ہے، مستجاب الدعوت شخصیت ہے۔
ان کی دعاؤں میں بلا کی تاثیر ہے۔ تم اس کے پاس جاکر اپنی فریاد سنا دو۔ وہ شکاری فوراً مرشد کے پاس پہنچا اور اپنی پریشانی کا سبب بتایا۔ کہ مرشد جس گھر میں رہتا ہوں اسی گھر میں ایک شیر بھی ہے میں ڈر کے مارے باہر نہیں نکل سکتا۔ مرشد نے کہا "بولو تم کیا چاہتے ہو؟" شکاری کے ذہن پر شیر خوف سوار تھا اور اس کے شکار کابھی جنون تھا' اس نے مرشد سے فرمائش کی کہ اسے بہادر بنا دیا جائے۔ مرشد نے اپنی کرامت والی لاٹھی اس کے پیٹ پر مار دی، جس سے وہ بہادر شکاری میں تبدیل ہو گیا۔
اب وہ بلا خوف زندگی گزارنے لگا۔ تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ اسے احساس ہونے لگا کہ یہ تبدیلی بھی کافی نہیں ہے کیونکہ اسے اب بھی شیر کو گھر سے نکالنے میں مشکل آ رہی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اس کی مدد کی جائے۔
پھر کرامت والی لاٹھی اس کے پیٹ پر پڑی 'مرشد نے ایک دو بندے اس کی مدد کو بھیجے یوں وہ شیر کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔اب اس کے تیور مکمل طور پر بدل گئے تھے وہ دیگر ہر ایک پر بلاوجہ رعب جھاڑنے لگا تھا۔
ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نا میں سب سے طاقتور بن جاؤں۔ اس وقت سب سے طاقتور تو وہ خود تھا لیکن ایک اس سے بھی طاقتور تھا اور وہ مرشد تھا کیونکہ اگر شیر کو گھر سے نکال سکتا ہے تو کل کسی اور کو اس سے بھی طاقتور بنا دے گا، لہذا مستقبل کے خطرات سے مکمل تحفظ اسی میں ہے کہ مرشد کو ہی ختم کر دیا جائے۔
اس خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اس نے سب سے پہلے مرشد پر حملہ کرنے کا پلان بنایا اور پھر اس پلان پر عمل درآمد کرنے کے لیے مرشد کے پاس پہنچا اور حملہ کر دیا۔
لیکن مرشد تو مرشد ہوتا ہے اس کو سب کچھ پتہ چل چکا تھا' اس نے کرامت والی لاٹھی سے وار کرکے کہا چل واپس، اب شیر والی حیثیت تیری نہیں رہی۔ سب کچھ کھونے کے بعد اس نے کہا میں اپنے کیے پر شرمندہ اور پشیمان ہوں اور اس سوچ کی بھرپور مذمت کرتا ہوں، آیندہ ایسا نہیں ہوگا، اب آپ جو کہیں گے میں ماننے کو تیار ہوں یعنی دوسرے لفظوں میں ڈائیلاگ کے لیے تیار ہوں مگر مرشد نے کہا بھئی آپ کا کھیل ختم ہو چکاہے۔
اسکول کے زمانے میں جب اساتذہ ہمیں اس طرح کی سبق آموز کہانی سناتے تھے تو آخر میں پوچھتے تھے آپ نے کیا سبق سیکھا اس کہانی سے، جب میں نے آج اپنے آپ سے پوچھا تو میں نے یہ سبق سیکھا کہ اگر ایسے حالات میں شیر بن کر رہنا ہے تو مرشد سے کبھی نہ بگاڑناچاہئے ورنہ پھر اپنی اصل حالت میں جانے کے لیے تیار رہیں۔
یہ کہانی ملکی سیاسی منظر نامے کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جب میں نے اس کہانی کو سنا تو مجھے "مشن ہائیبرڈ سسٹم" یاد آگیا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا وہ ناکام مشن تھا جس کے ملبے تلے آنے سے منصوبہ ساز بھی محفوظ نہیں رہے۔
پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر کے غبارے میں اتنی ہوا بھری گئی جس سے اس ملک کی حقیقی سیاسی قوتیں خائف ہوکر رہ گئیں۔ پہلے ایک صوبے کی حکومت اس کے حوالے کی گئی پھر وفاقی حکومت کے"سنگھاسن"پر لاکر بٹھا دیا گیا ساتھ ہی ساتھ پنجاب کی حکومت بھی اسے سونپ دی گئی۔ اس نے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پاکستان کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا۔ ہماری آنے والی کئی نسلوں کو مقروض بنا کر رکھ دیا۔
صرف اتنا ہی نہیں جب اقتدار سے نکالا گیا تو اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشا، ان کی کردار کشی سے لے کر ان پر حملوں تک، کون سا ایسا کام ہے جو اس نے نہ کیا ہو۔ جب اپنا تیار کردہ رپورٹ خود کو سب کچھ سمجھنے لگ جائے تو مرشد کا فرض بنتا ہے اسے آئینہ دکھائے۔ آج ''تبدیلی آئی رے'' کے ساتھ وہی ہوا جوایسے کاموں میں ہوا تھا کیونکہ مرشد تو مرشد ہوتا ہے۔یہ مکافات عمل اور مقام عبرت ہے کہ آج وہ بالکل اکیلا ہوگیا ہے۔
اور وہ کہتے ہیں کہ "شاید میرا کیس لڑنے کے لیے وکلاء بھی ساتھ چھوڑ جائیں"۔ اس نے ساری حدود و قیود کراس کر دی، اور اپنی ڈوبتی ہوئی ساکھ بچانے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے اپنے ساتھیوں یہاں تک کہ خواتین رہنماؤں اور ورکرز اور ان کے خاندان کی عزتیں بھی داؤ پر لگا دیں، اور بڑی عیاری سے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات لگا دئے۔
اس پر اگلے کالم میں گفتگو ہوگی۔ سردست اتنا بتادوں کہ اس پی ٹی آئی کی تباہ کاریوں سے نمٹنا شاید کسی سیاسی حکومت کے بس کی بات نہ ہو۔ پی ڈی ایم نے بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا اور اس کے کیے کا ملبہ ایک سال سے اٹھا رکھا ہے۔
موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے جارہی ہے آئینی طور پر الیکشن ناگزیر ہیں، مگر ملک کے حالات ہنگامی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ان حالات میں الیکشن کسی صورت مسائل کا حل نہیں ، جو بھی حکومت آئے گی رسوائی اس کا مقدر بنے گی۔ یہ سیاست کا نہیں ریاست بچانے کا وقت ہے اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
سپہ سالار ملک کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر دو تین سال کے لیے ٹیکنو کریٹس حکومت لائیں جس کا مکمل خاکہ تیار پڑا ہے۔ مختلف شعبوں کے منجھے ہوئے ماہرین ہوں جو اس ملک کی اکانومی کو درست کریں اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بطور چیف ایگزیکٹو ذمے داری نبھائیں، اور بے رحم احتساب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کروائیں۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے ملک کو بحالی کی طرف لایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ہر راستہ ہمیں مزید دلدل میں دھنسانے کا سبب بنے گا۔
اور وہ اپنی سوچ اور پسند و ناپسند کے مطابق اپنا ردعمل دیتے ہیں جس میں داد و تحسین بھی ہوتی ہے، تند و تیز تنقید کے نشتر بھی، بہت سے قارئین مفید مشوروں سے بھی نوازتے ہیں اور بہت سے گالیوں کی بوچھاڑ بھی کرتے ہیں۔
میری بی بی جی مرحومہ کو اللہ رب العزت کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کرے وہ ہمیں کہا کرتی تھیں کہ جس برتن میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے وہی گرتا ہے۔ یعنی ہر بندہ معاملات اپنی خاندانی حیثیت اور ذہنی استعداد کے مطابق کرتا ہے لہذا لوگوں کے ناروا سلوک سے پریشان نہ ہوا کریں۔ یہ نصیحت جو میری ماں کی وفات کے بعد میرے لیے وصیت کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کی بنیاد پر میں "عمران دار" قارئین کی گالیاں نظرانداز کرکے ان کا معاملہ اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
ہر کالم نگار کے قارئین میں سے کچھ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کو کالم نگار کوئی بہت ہی باخبر اور پہنچا ہوا لگتا ہے تو وہ ان سے مختلف اوقات پر ایسے سوالات کرتے رہتے ہیں، کہ ایسا کیوں ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوا اور اب کیا ہوگا تو اسی چکر میں تبدیلی کے قارئین میں سے بھی کچھ لوگ مجھے بھی دانشور سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی طرف سے اس طرح کے سوالات وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں مگر 9 مئی یعنی یوم سیاہ کے المناک بلکہ شرمناک واقعات کے بعد ایک سوال مسلسل ہورہا ہے کہ اس کے منصوبہ ساز کے ساتھ ایسا کیوں ہوا کہ وہ عرش سے فرش پر آگیا۔اب میرے جیسا بندہ ان ثقیل سوالات کے جوابات کیسے دے؟ مگر اپنی دانشوری کی لاج رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ تو بتانا پڑے گا۔ مگر اس سے پہلے کہ میں اپنی دانشوری کی کرشمہ سازی پیش کروں پہلے ایک حکایت نما کہانی سناتا ہوں کہ موڈ ذرا بہتر ہوجائے، پھر اس کے بعد اپنی دانشوری کا رعب بٹھائیں گے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ:
"ایک شکاری شیر کا شکار کرنا چاہتا تھا لیکن وہ خوف کا شکار رہتا تھا'اس نے اپنے ایک ہمدرد کو اپنے ہدف اور خوف کے بارے میں بتایا اور مدد طلب کی ' اس نے مشورہ دیا کہ فلاں جگہ کرامت والا مرشد ہے وہ ہر مسئلے کا حل بتاتا ہے، مستجاب الدعوت شخصیت ہے۔
ان کی دعاؤں میں بلا کی تاثیر ہے۔ تم اس کے پاس جاکر اپنی فریاد سنا دو۔ وہ شکاری فوراً مرشد کے پاس پہنچا اور اپنی پریشانی کا سبب بتایا۔ کہ مرشد جس گھر میں رہتا ہوں اسی گھر میں ایک شیر بھی ہے میں ڈر کے مارے باہر نہیں نکل سکتا۔ مرشد نے کہا "بولو تم کیا چاہتے ہو؟" شکاری کے ذہن پر شیر خوف سوار تھا اور اس کے شکار کابھی جنون تھا' اس نے مرشد سے فرمائش کی کہ اسے بہادر بنا دیا جائے۔ مرشد نے اپنی کرامت والی لاٹھی اس کے پیٹ پر مار دی، جس سے وہ بہادر شکاری میں تبدیل ہو گیا۔
اب وہ بلا خوف زندگی گزارنے لگا۔ تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ اسے احساس ہونے لگا کہ یہ تبدیلی بھی کافی نہیں ہے کیونکہ اسے اب بھی شیر کو گھر سے نکالنے میں مشکل آ رہی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اس کی مدد کی جائے۔
پھر کرامت والی لاٹھی اس کے پیٹ پر پڑی 'مرشد نے ایک دو بندے اس کی مدد کو بھیجے یوں وہ شیر کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔اب اس کے تیور مکمل طور پر بدل گئے تھے وہ دیگر ہر ایک پر بلاوجہ رعب جھاڑنے لگا تھا۔
ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نا میں سب سے طاقتور بن جاؤں۔ اس وقت سب سے طاقتور تو وہ خود تھا لیکن ایک اس سے بھی طاقتور تھا اور وہ مرشد تھا کیونکہ اگر شیر کو گھر سے نکال سکتا ہے تو کل کسی اور کو اس سے بھی طاقتور بنا دے گا، لہذا مستقبل کے خطرات سے مکمل تحفظ اسی میں ہے کہ مرشد کو ہی ختم کر دیا جائے۔
اس خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اس نے سب سے پہلے مرشد پر حملہ کرنے کا پلان بنایا اور پھر اس پلان پر عمل درآمد کرنے کے لیے مرشد کے پاس پہنچا اور حملہ کر دیا۔
لیکن مرشد تو مرشد ہوتا ہے اس کو سب کچھ پتہ چل چکا تھا' اس نے کرامت والی لاٹھی سے وار کرکے کہا چل واپس، اب شیر والی حیثیت تیری نہیں رہی۔ سب کچھ کھونے کے بعد اس نے کہا میں اپنے کیے پر شرمندہ اور پشیمان ہوں اور اس سوچ کی بھرپور مذمت کرتا ہوں، آیندہ ایسا نہیں ہوگا، اب آپ جو کہیں گے میں ماننے کو تیار ہوں یعنی دوسرے لفظوں میں ڈائیلاگ کے لیے تیار ہوں مگر مرشد نے کہا بھئی آپ کا کھیل ختم ہو چکاہے۔
اسکول کے زمانے میں جب اساتذہ ہمیں اس طرح کی سبق آموز کہانی سناتے تھے تو آخر میں پوچھتے تھے آپ نے کیا سبق سیکھا اس کہانی سے، جب میں نے آج اپنے آپ سے پوچھا تو میں نے یہ سبق سیکھا کہ اگر ایسے حالات میں شیر بن کر رہنا ہے تو مرشد سے کبھی نہ بگاڑناچاہئے ورنہ پھر اپنی اصل حالت میں جانے کے لیے تیار رہیں۔
یہ کہانی ملکی سیاسی منظر نامے کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جب میں نے اس کہانی کو سنا تو مجھے "مشن ہائیبرڈ سسٹم" یاد آگیا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا وہ ناکام مشن تھا جس کے ملبے تلے آنے سے منصوبہ ساز بھی محفوظ نہیں رہے۔
پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر کے غبارے میں اتنی ہوا بھری گئی جس سے اس ملک کی حقیقی سیاسی قوتیں خائف ہوکر رہ گئیں۔ پہلے ایک صوبے کی حکومت اس کے حوالے کی گئی پھر وفاقی حکومت کے"سنگھاسن"پر لاکر بٹھا دیا گیا ساتھ ہی ساتھ پنجاب کی حکومت بھی اسے سونپ دی گئی۔ اس نے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پاکستان کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا۔ ہماری آنے والی کئی نسلوں کو مقروض بنا کر رکھ دیا۔
صرف اتنا ہی نہیں جب اقتدار سے نکالا گیا تو اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشا، ان کی کردار کشی سے لے کر ان پر حملوں تک، کون سا ایسا کام ہے جو اس نے نہ کیا ہو۔ جب اپنا تیار کردہ رپورٹ خود کو سب کچھ سمجھنے لگ جائے تو مرشد کا فرض بنتا ہے اسے آئینہ دکھائے۔ آج ''تبدیلی آئی رے'' کے ساتھ وہی ہوا جوایسے کاموں میں ہوا تھا کیونکہ مرشد تو مرشد ہوتا ہے۔یہ مکافات عمل اور مقام عبرت ہے کہ آج وہ بالکل اکیلا ہوگیا ہے۔
اور وہ کہتے ہیں کہ "شاید میرا کیس لڑنے کے لیے وکلاء بھی ساتھ چھوڑ جائیں"۔ اس نے ساری حدود و قیود کراس کر دی، اور اپنی ڈوبتی ہوئی ساکھ بچانے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے اپنے ساتھیوں یہاں تک کہ خواتین رہنماؤں اور ورکرز اور ان کے خاندان کی عزتیں بھی داؤ پر لگا دیں، اور بڑی عیاری سے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات لگا دئے۔
اس پر اگلے کالم میں گفتگو ہوگی۔ سردست اتنا بتادوں کہ اس پی ٹی آئی کی تباہ کاریوں سے نمٹنا شاید کسی سیاسی حکومت کے بس کی بات نہ ہو۔ پی ڈی ایم نے بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا اور اس کے کیے کا ملبہ ایک سال سے اٹھا رکھا ہے۔
موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے جارہی ہے آئینی طور پر الیکشن ناگزیر ہیں، مگر ملک کے حالات ہنگامی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ان حالات میں الیکشن کسی صورت مسائل کا حل نہیں ، جو بھی حکومت آئے گی رسوائی اس کا مقدر بنے گی۔ یہ سیاست کا نہیں ریاست بچانے کا وقت ہے اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
سپہ سالار ملک کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر دو تین سال کے لیے ٹیکنو کریٹس حکومت لائیں جس کا مکمل خاکہ تیار پڑا ہے۔ مختلف شعبوں کے منجھے ہوئے ماہرین ہوں جو اس ملک کی اکانومی کو درست کریں اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بطور چیف ایگزیکٹو ذمے داری نبھائیں، اور بے رحم احتساب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کروائیں۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے ملک کو بحالی کی طرف لایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ہر راستہ ہمیں مزید دلدل میں دھنسانے کا سبب بنے گا۔