مذاکرات امن کے قیام کے لیے ناگزیر

اگر موجودہ حکومت متحرب اہم گروہ سے امن مزاکرات میں کامیاب ہو جاتی ہےتو باقی ماندہ گروہوں سے نپٹنا قدر آسان ہوجائے گا

اگر موجودہ حکومت متحرب اہم گروہ سے امن مزاکرات میں کامیاب ہو جاتی ہےتو باقی ماندہ گروہوں سے نپٹنا قدر آسان ہوجائے گا. فوٹو فائل

جب توپ خانے سرد پڑ جاتے ہیں تو امن کی راہیں ہموار ہونے لگتی ہیں بشرطیکہ بارود کی بو طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے گوشت پوست کے انسانوں کو جنگی جنون اور خود سری میں مبتلا نہ کردے۔ اس جنون اور انتہا پسندی کی ہولناک مثالیں بنی نوع انسان کی تاریخ میں جا بجا موجود ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ اس دور کا انسان، تمام تر آگہی کے باوجود اس حقیقت سے منہ چرا رہا ہے کہ انتہاپسندی اور عدم برداشت پرمہذب معاشرہ کا وجود ممکن نہیں۔

افغانستان میں ایک دہائی سے طویل مدت سے جاری جنگ امریکہ اور اتحادیوں کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ جوں جوں 2014 کے فوجی انخلاکی مدّت قریب آرہی ہےتوں توں افغانستان اور خطے کا مستقبل اورامن و امان کی صورتِ حال ،مغرب کو بالعموم اور ہمسایہ ممالک کو بالخصوص پریشان کیئے ہوئےہے۔ امریکہ تمام تر کوششوں کے باوجود طالبان کو امن مزاکرات میں شامل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے،جس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ افغان طالبان جمہوریت اور افغان مستقبل کے لیےایک سنگین خطرہ ہیں جس کے سدِباب کے لیے 2014 کے بعد بھی قابض فوج کا افغانستان میں ٹہرنا ناگزیر ہے۔ جبکہ دوسری طرف صدر کرزئی امریکہ اور نیٹو کو مزاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور بارہا افغانستان میں اتحادی فوج کی نقل و حرکت اور کاروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا تے رہے ہیں. بحر حال ان سب حالات کے باوجود مزاکرات وہ واحد راستہ ہیں جس میں امریکہ اور اتحادیوں کی بھی لاج رہ جاتی ہے اور جوافغانستان اور خطہ کے پر امن مستقبل کا بھی ضامن ہے۔

آنے والا وقت افغانستان اور پاکستان کے لیے امن و امان کی صورتِ حال میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں پیش آنے والے حالات و واقعات نے افغانستان اور پاکستان کو آپس میں اس طرح بُن دیا ہے کہ ایک طرف کے حالات کا اثر دوسری جانب واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ پاکستانی طالبان اورپاکستانی حکومت کے درمیان مزاکرات میں پیش رفت انتہائی خوش آئند ہے۔ اس معاملہ میں حکومت کی جانب سے انتہائی احتیاط اور سنجیدگی درکار ہے۔ قومیں اختلاف ونظریات پر قائم رہتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں لیکن جب اختلاف تصادم کی صورت اختیار کر جائے تو حالات وہ ہوتے ہیں جو آج ارضِ پاک کے ہیں۔ ریاست اپنی کمزوری اور غفلت کے ذریعے معاشرے کے انتشار پسند طبقہ کو انتہا پسند بناتی ہے جس کا مظاہرہ پاکستان کی مختصر تاریخ میں بارہا دیکھا گیا ہے۔

افغانستان میں ایک دہائی سے طویل مدت سے جاری جنگ نے دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کو بھی مزاکرات کی جانب مائل کردیا ہے، پھر پاکستان جو اس جنگ میں جانی اور مالی اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، کیونکر مزاکرات کی طرف پیش رفت نہ کرے۔ کوئی بھی ریاست مستقل جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ قبائلی علاقہ جات کی صورتِ حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اب سوائے مزاکرات کے کوئی چارہ نہیں۔


ایک خیال کے مطابق متحرب گروہوں کی تعداد 50 کے قریب بتائی جاتی ہے جو پاکستان ریاست سے بر سرِ پیکار ہیں۔ اگر اس خبرکو مبالغہ پر مبنی قرار دیا جائے تب بھی یہ معاملات کی سنجیدگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جبکہ بیرونی طاقتوں کے عنصر کو بھی مدد نظر رکھا جائے جو ان حالات میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، تو مزاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے اس مشکل صورتِ حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

میرے خیال میں موجودہ حالات کے پیش نظر جہاں مزاکرات کا امکان ہو وہاں ہر صورت مزاکرات کیے جائیں اور جہاں طاقت کے استعمال سے بات بنتی ہو وہاں طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ طاقت کا استعمال اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہیے کہ متحرب گروہوں کو مزاکرات کی طرف مائل کیا جاسکے۔ لیکن محض طاقت کے استعمال ہی پر زور دیا گیا تو معاملات اور بگڑ جائینگے جس کی صورت میں پاکستان اندرونی انتشار کا شکار رہے گا اور خطہ میں ہونے والی تبدیلیوں اور مواقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے گا۔ اگر موجودہ حکومت متحرب اہم گروہ سے امن مزاکرات میں کامیاب ہو جاتی ہے تو باقی ماندہ گروہوں سے نپٹنا قدر آسان ہوجائے گا۔

حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ملک میں ہر صورت امن قائم ہو ، ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی دور رس ہو اور خطہ کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے طے کی جائے تاکہ آنے والے حالات میں ملکی مفادات کا تحفظ موثر طور پر کیا جاسکے اور خطہ میں مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story