ناپا نے انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول منعقد کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی
بھارت کے ڈرامہ گروپ کی شرکت نے اس فیسٹیول کو اور بھی دلچسپ بنادیا
ملکی خراب صورتحال کے باوجود اس سال کراچی میں ثقافتی سرگرمیاں عروج پر نظر آرہی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ شہر کراچی کے زندہ دل عوام تمام تر دہشت گردی اور قتل و غارت کی ہونے والی کاروائی کو نظر انداز کرکے شہر کی رونقوں میں اضافہ کے لیے گھروں سے باہر نکلے، اور خوف زدہ نہیں ہوئے۔ وہ اس بات کے لیے بھی پرعزم نظر آئے کہ وہ امن امان کی صورت حال بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر یں گے۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال شہر کراچی میں متعدد فلموں کی شوٹنگ کی جارہی ہیں اور اب تک ایک درجن سے زائد فلمیں پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں، جبکہ جو فلمیں زیر تکمیل ہیں وہ جلد مکمل کرلی جائیں گی،سب سے خو ش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران کراچی میں سب سے زیادہ تھیٹر کو فروغ حاصل ہوا۔ کراچی میں تھیٹر کی مقبولیت نے ایک بار شہر کی رونق میں اضافہ کردیا، اور یہ کریڈٹ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) کو جاتا ہے جس نے گزشتہ ماہ انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹول کا انعقاد کرکے ایک نئی مثال قائم کردی۔
شہر میں امن وامان کی انتہائی خراب صورتحال میں انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹول کا ہونا ایک ایسا کارنامہ تھا، جس پر ناپا کے سربراہ ضیاء محی الدین اور ان کی ٹیم کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے ایک عام تاثر تو یہ تھا انتہائی خراب صورتحال میں دنیا کے بڑے ممالک اس فیسٹول میں شرکت کیسے کریں گے وہ پاکستان آکر عدم تحفظ کا شکار تو نہیں ہوں گے ،لیکن غیر ملکی ڈرامہ گروپ جس میں برطانیہ ،جرمنی نیپال اور بھارت نے اس فیسٹیول میں حصہ لے کر ثابت کردیا کہ وہ تھیٹر کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
بھارت کے ڈرامہ گروپ کی شرکت نے اس فیسٹیول کو اور بھی دلچسپ بنادیا، نامور بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے پاکستان میں قیام کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پاکستان اور خاص طور سے کراچی میں تھیٹر کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا، مجھے خوشی ہے کہ اہل کراچی نے تھیٹر سے اپنی بے پناہ محبت اور بہت زیادہ لگاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔
اہل کراچی تھیٹر دیکھنا چاہتے ہیں، 4 مارچ سے شروع ہونے والا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول 27 مارچ تک جاری رہا، جس میں 30 سے زائد ڈرامے پیش کیے گئے، ناپا کی جانب سے ہونے والے تھیٹر فیسٹیول میں دکھائے جانے والے ڈراموں کو عوامی اور عالمی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی دوسری طرف ملک کے معروف اداکار کمپیئر مصنف انورمقصود تھیٹر کے فروغ اور اسے شہرت کی بلندی تک پہنچانے میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے کراچی کے آرٹس کونسل آڈیٹوریم میں اچھے اور معیاری تھیٹر سے شہر کے لوگوں کو تھیٹر دیکھنے پر مجبور کردیا، ان کے ڈراموں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔
گزشتہ دنوں ان کے دو ڈرامے کراچی میں پیش کیے گئے ایک ڈرامہ ان دنوں پیش کیا جارہا ہے، جبکہ ناپا کی جانب سے ڈرامہ فیسٹیول کی کامیابی کے بعد ایک ڈرامہ ''شکنتلا'' ان دنوں ناپا تھیٹر آڈیٹوریم میں پیش کیا جارہا ہے جس کے ڈائریکٹر زین احمداور شنکرہیں اس ڈرامے میں ناپا کے تربیت یافتہ فنکاروں نے کردار ادا کیے ہیں، یہ ڈرامہ کامیابی سے پیش کیا جارہا ہے،کراچی کا تھیٹر دراصل دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے ایک وہ تھیٹر جسے خواص کا تھیٹر کہا جارہا ہے جس میں ناپا کے تحت پیش کیے جانے والے ڈرامے جبکہ تھیٹر گروپ اجوکا تھیٹر، تحریک نسواں اور دیگر گروپ کے ڈرامے ایک مخصوص کلاس میں دیکھے اور پسند کیے جارہے ہیں۔
ان ڈراموں کے ٹکٹ بھی عام ڈراموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لیکن انہیں اچھے اور معیاری ڈرامے دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ معقول رقم خرچ کرکے اپنی فیملی کے ساتھ تفریح کیلیے ڈرامہ دیکھنے ضرور آتے ہیں، خواص تھیٹر کے ساتھ عوامی تھیٹر جسے اب وہ مقبولیت حاصل نہیں رہی جو ماضی میں عمر شریف اور معین اختر کے دور میں رہی ہے۔ اس کی وجہ غیر معیاری ڈرامے تھے کہ جس کی وجہ سے لوگوں نے ان ڈراموں کو مسترد کردیا، لیکن ایک بار پھر اسے بہتر بنانے اور اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔خادم حسین اچوی، شہزاد عالم، سید فرقان حیدر، ذاکر مستانہ اور دیگر لوگ جنہوں نے کراچی کے عوامی تھیٹر کے لیے بھر پور جدوجہد کی وہ اس پر خاصے پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ تھیٹر ہے جس نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا اورآج تھیٹر کے فنکار دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں تھیٹر کی کامیاب سرگرمیوں میں عوامی کمرشل تھیٹر کے لوگ بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی سٹیج کے مشہور مزاحیہ اداکار ذاکر مستانہ نے '' کیا کراچی بیمار ہے'' پیش کرکے عوامی کمرشل تھیٹر کی بحالی کا آغاز کیا۔
یہ ڈرامہ کراچی میں بے حد کامیابی سے پیش کیا گیا جس میں شہنی عظیم اور شکیل شاہ نے بھر پور کردار ادا کیا،اس ڈرامے کی کامیابی سے عوامی کمرشل تھیٹر کے فنکاروں میں جوش و جذبہ پیدا ہوا ، پھر سید فرقان حیدر ایک بار پھرسرگرم ہوگئے، گزشتہ دنوں انہوں نے چند نئے فنکاروں کو بھی منظر عام پر لانے کا اعلان کیا۔
سید فرقان حیدر تھیٹر کے ان کہنہ مشق ڈائریکٹرز میں سے ہیں کہ جنہوں نے کراچی میں تھیٹر کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور بے شمار قربانیاں دیں لیکن ہمت نہیں ہاری،گزشتہ دنوں انہوں نے تھیٹر کے ان ہی فنکاروں کے ساتھ جوان کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوئے ان کو کراچی میں تھیٹر کو فعال کرنے کے لیے ایک جگہ جمع کیا ،انہوں نے کراچی کے نیوی آڈیٹوریم(فلیٹ کلب) پر تھیٹر سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
انہوں نے تھیٹر کے معروف اداکار شکیل صدیقی کا لکھا ہوا مزاحیہ سٹیج ڈرامہ ''بیوی پرافیٹ میں میاں پاکٹ میں'' چار روز تک پیش کیا، جس میں اداکار شکیل صدیقی، رؤف لالہ، صفدر حیدر، نعیمہ گرج،سلیم آفریدی، چاند پوری لاہور سے آئے فنکار پرویز رضا، صبا رضا اور نئے اداکار انس نے اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس ڈرامے کو طویل عرصہ کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی، اس ڈرامے کی کامیابی کے بعد فنکاروں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ عوامی کمرشل تھیٹر کی کامیابی اور اس کی بحالی کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب اچھے اور معیاری تھیٹر پر ان کی توجہ ہوگی تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکے، اب وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا لیکن تھیٹر کے کامیڈی کنگ عمر شریف کو بھی اب عوامی کمرشل تھیٹرکے دور کو واپس لانے کے لیے سامنے آنا ہوگا کیونکہ تھیٹر کی دنیا بھر میں شہرت اور مقبولیت میں ان کی زبردست کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ عمر شریف اور سید فرقان حید رمل کر ایک بار کراچی کے عوامی کمرشل تھیٹر کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال شہر کراچی میں متعدد فلموں کی شوٹنگ کی جارہی ہیں اور اب تک ایک درجن سے زائد فلمیں پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں، جبکہ جو فلمیں زیر تکمیل ہیں وہ جلد مکمل کرلی جائیں گی،سب سے خو ش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران کراچی میں سب سے زیادہ تھیٹر کو فروغ حاصل ہوا۔ کراچی میں تھیٹر کی مقبولیت نے ایک بار شہر کی رونق میں اضافہ کردیا، اور یہ کریڈٹ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) کو جاتا ہے جس نے گزشتہ ماہ انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹول کا انعقاد کرکے ایک نئی مثال قائم کردی۔
شہر میں امن وامان کی انتہائی خراب صورتحال میں انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹول کا ہونا ایک ایسا کارنامہ تھا، جس پر ناپا کے سربراہ ضیاء محی الدین اور ان کی ٹیم کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے ایک عام تاثر تو یہ تھا انتہائی خراب صورتحال میں دنیا کے بڑے ممالک اس فیسٹول میں شرکت کیسے کریں گے وہ پاکستان آکر عدم تحفظ کا شکار تو نہیں ہوں گے ،لیکن غیر ملکی ڈرامہ گروپ جس میں برطانیہ ،جرمنی نیپال اور بھارت نے اس فیسٹیول میں حصہ لے کر ثابت کردیا کہ وہ تھیٹر کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
بھارت کے ڈرامہ گروپ کی شرکت نے اس فیسٹیول کو اور بھی دلچسپ بنادیا، نامور بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے پاکستان میں قیام کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پاکستان اور خاص طور سے کراچی میں تھیٹر کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہا، مجھے خوشی ہے کہ اہل کراچی نے تھیٹر سے اپنی بے پناہ محبت اور بہت زیادہ لگاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔
اہل کراچی تھیٹر دیکھنا چاہتے ہیں، 4 مارچ سے شروع ہونے والا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول 27 مارچ تک جاری رہا، جس میں 30 سے زائد ڈرامے پیش کیے گئے، ناپا کی جانب سے ہونے والے تھیٹر فیسٹیول میں دکھائے جانے والے ڈراموں کو عوامی اور عالمی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی دوسری طرف ملک کے معروف اداکار کمپیئر مصنف انورمقصود تھیٹر کے فروغ اور اسے شہرت کی بلندی تک پہنچانے میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے کراچی کے آرٹس کونسل آڈیٹوریم میں اچھے اور معیاری تھیٹر سے شہر کے لوگوں کو تھیٹر دیکھنے پر مجبور کردیا، ان کے ڈراموں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔
گزشتہ دنوں ان کے دو ڈرامے کراچی میں پیش کیے گئے ایک ڈرامہ ان دنوں پیش کیا جارہا ہے، جبکہ ناپا کی جانب سے ڈرامہ فیسٹیول کی کامیابی کے بعد ایک ڈرامہ ''شکنتلا'' ان دنوں ناپا تھیٹر آڈیٹوریم میں پیش کیا جارہا ہے جس کے ڈائریکٹر زین احمداور شنکرہیں اس ڈرامے میں ناپا کے تربیت یافتہ فنکاروں نے کردار ادا کیے ہیں، یہ ڈرامہ کامیابی سے پیش کیا جارہا ہے،کراچی کا تھیٹر دراصل دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے ایک وہ تھیٹر جسے خواص کا تھیٹر کہا جارہا ہے جس میں ناپا کے تحت پیش کیے جانے والے ڈرامے جبکہ تھیٹر گروپ اجوکا تھیٹر، تحریک نسواں اور دیگر گروپ کے ڈرامے ایک مخصوص کلاس میں دیکھے اور پسند کیے جارہے ہیں۔
ان ڈراموں کے ٹکٹ بھی عام ڈراموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لیکن انہیں اچھے اور معیاری ڈرامے دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ معقول رقم خرچ کرکے اپنی فیملی کے ساتھ تفریح کیلیے ڈرامہ دیکھنے ضرور آتے ہیں، خواص تھیٹر کے ساتھ عوامی تھیٹر جسے اب وہ مقبولیت حاصل نہیں رہی جو ماضی میں عمر شریف اور معین اختر کے دور میں رہی ہے۔ اس کی وجہ غیر معیاری ڈرامے تھے کہ جس کی وجہ سے لوگوں نے ان ڈراموں کو مسترد کردیا، لیکن ایک بار پھر اسے بہتر بنانے اور اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔خادم حسین اچوی، شہزاد عالم، سید فرقان حیدر، ذاکر مستانہ اور دیگر لوگ جنہوں نے کراچی کے عوامی تھیٹر کے لیے بھر پور جدوجہد کی وہ اس پر خاصے پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ تھیٹر ہے جس نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا اورآج تھیٹر کے فنکار دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں تھیٹر کی کامیاب سرگرمیوں میں عوامی کمرشل تھیٹر کے لوگ بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی سٹیج کے مشہور مزاحیہ اداکار ذاکر مستانہ نے '' کیا کراچی بیمار ہے'' پیش کرکے عوامی کمرشل تھیٹر کی بحالی کا آغاز کیا۔
یہ ڈرامہ کراچی میں بے حد کامیابی سے پیش کیا گیا جس میں شہنی عظیم اور شکیل شاہ نے بھر پور کردار ادا کیا،اس ڈرامے کی کامیابی سے عوامی کمرشل تھیٹر کے فنکاروں میں جوش و جذبہ پیدا ہوا ، پھر سید فرقان حیدر ایک بار پھرسرگرم ہوگئے، گزشتہ دنوں انہوں نے چند نئے فنکاروں کو بھی منظر عام پر لانے کا اعلان کیا۔
سید فرقان حیدر تھیٹر کے ان کہنہ مشق ڈائریکٹرز میں سے ہیں کہ جنہوں نے کراچی میں تھیٹر کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور بے شمار قربانیاں دیں لیکن ہمت نہیں ہاری،گزشتہ دنوں انہوں نے تھیٹر کے ان ہی فنکاروں کے ساتھ جوان کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوئے ان کو کراچی میں تھیٹر کو فعال کرنے کے لیے ایک جگہ جمع کیا ،انہوں نے کراچی کے نیوی آڈیٹوریم(فلیٹ کلب) پر تھیٹر سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
انہوں نے تھیٹر کے معروف اداکار شکیل صدیقی کا لکھا ہوا مزاحیہ سٹیج ڈرامہ ''بیوی پرافیٹ میں میاں پاکٹ میں'' چار روز تک پیش کیا، جس میں اداکار شکیل صدیقی، رؤف لالہ، صفدر حیدر، نعیمہ گرج،سلیم آفریدی، چاند پوری لاہور سے آئے فنکار پرویز رضا، صبا رضا اور نئے اداکار انس نے اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس ڈرامے کو طویل عرصہ کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی، اس ڈرامے کی کامیابی کے بعد فنکاروں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ عوامی کمرشل تھیٹر کی کامیابی اور اس کی بحالی کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب اچھے اور معیاری تھیٹر پر ان کی توجہ ہوگی تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکے، اب وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا لیکن تھیٹر کے کامیڈی کنگ عمر شریف کو بھی اب عوامی کمرشل تھیٹرکے دور کو واپس لانے کے لیے سامنے آنا ہوگا کیونکہ تھیٹر کی دنیا بھر میں شہرت اور مقبولیت میں ان کی زبردست کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ عمر شریف اور سید فرقان حید رمل کر ایک بار کراچی کے عوامی کمرشل تھیٹر کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔