حکومت سے اسمگل شدہ ٹائروں کیخلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ

اسمگلنگ سے نمٹنے کیلیے دکانوں پر چھاپے، ٹرکوں کا معائنہ، افغان حکومت سے بات کی جائے

غیر موافق ٹائر ڈمپ، زائد المیعاد اور پرانے ٹائر نئے کے نام سے فروخت کیے جارہے ہیں، ٹائر سیکٹر فوٹو: فائل

FRANKFURT:
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پاکستان میں اسمگل شدہ ٹائروں کی بھرمار کے سبب مقامی انڈسٹری کی فروخت جمود کا شکار ہے۔

اسمگل شدہ ٹائروں کا مارکیٹ شیئر 50 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے، چمن اور لنڈی کوتل کے راستے یومیہ 250 ٹرک اسمگل شدہ ٹائر لے کر پاکستان پہنچ رہے ہیں جو ملک بھر میں کھلے عام فروخت کیے جارہے ہیں، ٹائروں کی اسمگلنگ کو متعلقہ کسٹم افسران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، پاکستانی ٹائر کا اسمگل شدہ 110 برانڈز سے مقابلہ ناممکن ہوگیا، اسمگلنگ پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان میں 50 سال پرانی ٹائر مینوفیکچرنگ کی صنعت بند ہوجائیگی۔ اسمگلنگ کے سبب حکومت کو ریونیو کی مد میں سالانہ 15 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے، دوسری جانب مقامی انڈسٹری کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔


مقامی ٹائر انڈسٹری نے ملک میں اسمگل شدہ ٹائروں کی بھرمار پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایف بی آر اور وفاقی وزارت خزانہ سے فوری طور پر اسمگل شدہ ٹائروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا ہے۔ انڈسٹری کی جانب سے ایف بی آر اور وفاقی وزارت خزانہ کو ارسال کردہ ایس او ایس مراسلے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک بھر کے بڑے شہروں میں قائم ایسی دکانوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر مہم چلائی جائے۔

پہلے مرحلے میں ایف بی آر انویسٹی گیشن اور انٹیلی جنس ونگ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور راولپنڈی کی بڑی مارکیٹ پر چھاپوں سے اس کا آغاز کرے اور مختلف دکانوں میں ٹائروں کے بارے میں دستاویز طلب کرے، قانونی دستاویز موجود نہ ہونے پر اسٹاک فوری طور پر قبضے میں لے کر اسمگل شدہ ٹائر فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، دوسرے مرحلے میں لنڈی کوتل اور چمن سے کوئٹہ، کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور دیگر شہروں کو جانیوالے راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کی جائیں۔

ان چیک پوسٹوں کو مکمل اختیار ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی ٹرک کو روک کر اس کا معائنہ کرسکیں اور اگر قانون کے مطابق سامان ہو تو جانے دیا جائے، غیرقانونی سامان کی صورت میں سامان کو فوری ضبط کرلیا جائے، تیسرے مرحلے میں حکومت کو افغان حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے اور مسئلے کا تصفیہ ڈھونڈنا چاہیے۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق زیادہ تر سرد مغربی ملکوں کے لیے بنائے گئے ٹائر پاکستان میں لاکر ڈمپ کیے جارہے ہیں جو پاکستان کے گرم موسم کے لیے غیرموافق اور گاڑی میں سفر کرنے والوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اسی طرح زائد المیعاد اور استعمال شدہ ٹائروں کو بھی نئے ٹائر کے نام پر فروخت کیا جا رہا ہے۔
Load Next Story