معاشی ترقی کا ہدف اور ڈیفالٹ
ملک کے معاشی حکام اور معاشی پالیسی سازوں کے مدنظر یہ ہونا چاہیے کہ اپنی کرنسی اپنا روپیہ مضبوط ہو
ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان ممالک نے زیادہ تر ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی اور ان شعبوں کو ترقی دینے کی بھرپورکوشش کی جن میں سرمایہ کاری کرنے کے زیادہ سے زیادہ فوائد تھے۔ ایک ڈالر صرف کرکے پانچ یا دس ڈالر سمیٹے جا سکتے تھے۔
منافع کے علاوہ افرادی قوت کی بھی زیادہ سے زیادہ کھپت ہوجاتی۔ اس طرح ملک بتدریج اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا ، کیونکہ ایسے ممالک نے ہی ترقی کی جن ممالک میں کرپشن اتنی دیدہ دلیری سے نہیں کی جاتی۔ نہ ہی کرپشن ہو یا ناجائز منافع خوری یا فراڈ کے دیگر طریقے مثلاً مال دکھایا کچھ اور آرڈر ملنے پر سپلائی ذرا گھٹیا مال کی کر دی۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار میں درجہ بندی کا فرق بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں پر بیرون ممالک کے سرمایہ کار مختلف طریقوں سے اپنی فزیبلٹی رپورٹس حاصل کر کے اس بات کا فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہاں پر کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ چاہے وہ صنعتی ہوں یا زرعی کیوں نہ ہوں ،کیونکہ اس طرح زراعت پر مبنی صنعتی اشیا کی تیاری کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
یوں وہ زیادہ سے زیادہ صرف ضروری سرمایہ کاری کر کے جو یقینا ڈالر کی صورت میں ہوتا ہے اور کسی بھی پروجیکٹ کو شروع کرنے اور چلانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کارکی سب سے اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ حتیٰ کہ 4 گنا یا 5 گنا اور بعض اوقات اس سے زائد بھی سمیٹ لیتا ہے ان تمام کو ڈالرز کی صورت میں اپنے ملک لے کر چلا جاتا ہے۔ البتہ انھیں پاکستان کی معاشی ترقی یہاں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی سے دلچسپی نہیں ہوتی۔
البتہ سی پیک کے تحت جو منصوبے مکمل ہو رہے ہیں اس سے چونکہ یہاں کی صنعت و تجارت اور روزگارکے مواقع بڑھنے کی ضمانت دی جا رہی ہے ،اسی لیے اس منصوبے کو گیم چینجر منصوبہ کہا جا رہا ہے جس کی مقررہ وقت میں تکمیل پاکستانی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
دوسرے ملک کی معاشی صورتحال کے ساتھ سیاسی صورت حال نے ملک کے صنعتی شعبے، پیداواری شعبے، کاروباری شعبے حتیٰ کہ ایکسپورٹ پر بھی نہایت ہی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ صرف ڈالر کی کمی یا کمیابی یا پھر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف کے درشت رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ان درآمدات پر بھی پابندی عائد کرتی رہی جوکہ بطور برآمدی میٹریلز استعمال ہو رہی تھیں۔
پھر اس ملک میں پہلے ہی مہنگائی کو بڑھانے میں مافیاز کا کردار اور اچانک کسی بھی ضرورت کی یا خوراکی اشیا کی کمیابی کی افواہیں اور پھر بڑے بڑے تجوریوں کے مالکان کا رویہ کہ کسی شے کی قلت کے خدشات کے پیش نظر صرف اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کے دام بڑھ جائیں گے مارکیٹ سے تمام مال سمیٹ کر اپنے گوداموں میں بھر لیا جاتا ہے۔
قوم اس قسم کے مناظر دیکھ چکی ہے کہ کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی گھی، کبھی ادویات حتیٰ کہ ہارڈویئر اور سینیٹری کے آئٹمز بھی بعض اوقات ان کا خام مال کے عالمی ریٹس بڑھنے اور بندرگاہ پر پلاسٹک میٹریلز کی تیاری کے لیے درآمدی خام مال کے روکے جانے اور کئی وجوہات کی بنا پر ملک میں سینیٹری آئٹمز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں۔
اب اس طرح کے حالات جب پیدا کردیے جائیں گے تو اس سے ظاہر ہے دیگر کئی امور شامل ہو کر ملکی ترقی کے شرح ہدف کو گرا دیں گی اور پاکستان میں یہی کچھ ہوا ہے کہ بتایا جا رہا ہے کہ ملکی معاشی کی شرح کا ہدف 5 فیصد طے کیا گیا تھا لیکن ہدف نصف فیصد سے بھی کم حاصل ہواہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی سرمایہ کار اور بڑے بزنس مین اس طرف متوجہ ہوجائیں اور ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
سرمایہ کار چاہے ملک کا ہو یا بیرون ملک کا وہ ملکی سیاسی معاشی اور دیگر مستقبل کے بارے میں خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری سے اجتناب کرتا ہے۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ پنجاب کے بڑے بزنس مین اکٹھے ہوجائیں، میں سرمایہ کاری کی گارنٹی دیتا ہوں جو ایک خوش آیند بات ہے۔
یہ وقت ہے بزنس مین کی حوصلہ افزائی کا کیونکہ ملکی کاروبار یا صنعتی اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہوگا، صنعتی پہیہ چلے گا رواں دواں ہوگا تو پھر زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک کی قومی آمدنی میں اضافہ ہوگا جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ پہلے سے کمی ہوئی ہے لہٰذا کاروباری لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ان کی تسلی، تشفی کے بعد ہی ملک میں سرمایہ کاری کا عمل تیز ہوگا۔ جب صنعتی پہیہ تیز رفتاری سے چلے گا جب ہی جا کر معاشی ترقی کے ہدف کے قریب یا بعض اوقات ہدف سے زیادہ کا بھی حصول ممکن ہے۔
جلد ہی نئے مالی سال کا آغاز ہونے والا ہے، اس میں بجٹ کے علاوہ جس امر پر زیادہ گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی وہ یہ ہے کہ افواہ سازی، بعض اوقات مافیاز اور دیگر عناصر جان بوجھ کر مختلف اقسام کی افواہیں پھیلا دیتے ہیں۔ جس سے ملک کی معاشی ترقی کے اپنے منزل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے اور خاص طور پر سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے کے بعد اور گزشتہ 6 ماہ سے یہ بات سب سے زیادہ سنائی دی جاتی رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ کئی معاشی ماہرین بھی یہ بات بلا جھجک کہہ رہے تھے۔ قارئین کرام کو معلوم ہے کہ اپنے کسی بھی معاشی جائزے والے کالم میں اس بات کا کبھی خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ معیشت کے اعشاریے ایسا کچھ ظاہر نہیں کر رہے تھے۔
اس سلسلے میں چیئرمین فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا ہے کہ روز کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں 10 ارب ڈالرز زرمبادلہ موجود ہے اور 28 ماہ میں پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کی افواہوں سے روپے پر اعتماد میں روز بروز کمی آتی رہتی ہے، لوگ ڈالر، سونے اور پلاٹ وغیرہ کو محفوظ سمجھ کر اس میں اپنا پیسہ لگا کر اپنے سرمائے کو جامد و ساکت کردیتے ہیں اور یہی بات معیشت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس طرح معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ملک کے معاشی حکام اور معاشی پالیسی سازوں کے مدنظر یہ ہونا چاہیے کہ اپنی کرنسی اپنا روپیہ مضبوط ہو، حکومت سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، کارخانہ داروں، کاروباری افراد، تاجروں کو اعتماد میں لے اور ملک میں کاروباری ماحول کے لیے مدد و تعاون فراہم کرے۔ چھوٹے تاجروں کو مراعات دے اور ٹیکس چوروں کو نہ چھوڑے اور ان کو بھی جو چوری کے راستے کو ان کے لیے آراستہ کرتے ہیں۔
رواں مالی سال تو آیندہ بیس روز کے بعد ماضی بن جائے گا، لیکن آیندہ مالی سال ان کوتاہیوں، غلطیوںسے اجتناب کیا جائے تاکہ معاشی ترقی کا ہدف حاصل ہو سکے۔
منافع کے علاوہ افرادی قوت کی بھی زیادہ سے زیادہ کھپت ہوجاتی۔ اس طرح ملک بتدریج اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا ، کیونکہ ایسے ممالک نے ہی ترقی کی جن ممالک میں کرپشن اتنی دیدہ دلیری سے نہیں کی جاتی۔ نہ ہی کرپشن ہو یا ناجائز منافع خوری یا فراڈ کے دیگر طریقے مثلاً مال دکھایا کچھ اور آرڈر ملنے پر سپلائی ذرا گھٹیا مال کی کر دی۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار میں درجہ بندی کا فرق بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں پر بیرون ممالک کے سرمایہ کار مختلف طریقوں سے اپنی فزیبلٹی رپورٹس حاصل کر کے اس بات کا فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہاں پر کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ چاہے وہ صنعتی ہوں یا زرعی کیوں نہ ہوں ،کیونکہ اس طرح زراعت پر مبنی صنعتی اشیا کی تیاری کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
یوں وہ زیادہ سے زیادہ صرف ضروری سرمایہ کاری کر کے جو یقینا ڈالر کی صورت میں ہوتا ہے اور کسی بھی پروجیکٹ کو شروع کرنے اور چلانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کارکی سب سے اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ حتیٰ کہ 4 گنا یا 5 گنا اور بعض اوقات اس سے زائد بھی سمیٹ لیتا ہے ان تمام کو ڈالرز کی صورت میں اپنے ملک لے کر چلا جاتا ہے۔ البتہ انھیں پاکستان کی معاشی ترقی یہاں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی سے دلچسپی نہیں ہوتی۔
البتہ سی پیک کے تحت جو منصوبے مکمل ہو رہے ہیں اس سے چونکہ یہاں کی صنعت و تجارت اور روزگارکے مواقع بڑھنے کی ضمانت دی جا رہی ہے ،اسی لیے اس منصوبے کو گیم چینجر منصوبہ کہا جا رہا ہے جس کی مقررہ وقت میں تکمیل پاکستانی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
دوسرے ملک کی معاشی صورتحال کے ساتھ سیاسی صورت حال نے ملک کے صنعتی شعبے، پیداواری شعبے، کاروباری شعبے حتیٰ کہ ایکسپورٹ پر بھی نہایت ہی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ صرف ڈالر کی کمی یا کمیابی یا پھر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف کے درشت رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ان درآمدات پر بھی پابندی عائد کرتی رہی جوکہ بطور برآمدی میٹریلز استعمال ہو رہی تھیں۔
پھر اس ملک میں پہلے ہی مہنگائی کو بڑھانے میں مافیاز کا کردار اور اچانک کسی بھی ضرورت کی یا خوراکی اشیا کی کمیابی کی افواہیں اور پھر بڑے بڑے تجوریوں کے مالکان کا رویہ کہ کسی شے کی قلت کے خدشات کے پیش نظر صرف اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کے دام بڑھ جائیں گے مارکیٹ سے تمام مال سمیٹ کر اپنے گوداموں میں بھر لیا جاتا ہے۔
قوم اس قسم کے مناظر دیکھ چکی ہے کہ کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی گھی، کبھی ادویات حتیٰ کہ ہارڈویئر اور سینیٹری کے آئٹمز بھی بعض اوقات ان کا خام مال کے عالمی ریٹس بڑھنے اور بندرگاہ پر پلاسٹک میٹریلز کی تیاری کے لیے درآمدی خام مال کے روکے جانے اور کئی وجوہات کی بنا پر ملک میں سینیٹری آئٹمز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں۔
اب اس طرح کے حالات جب پیدا کردیے جائیں گے تو اس سے ظاہر ہے دیگر کئی امور شامل ہو کر ملکی ترقی کے شرح ہدف کو گرا دیں گی اور پاکستان میں یہی کچھ ہوا ہے کہ بتایا جا رہا ہے کہ ملکی معاشی کی شرح کا ہدف 5 فیصد طے کیا گیا تھا لیکن ہدف نصف فیصد سے بھی کم حاصل ہواہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی سرمایہ کار اور بڑے بزنس مین اس طرف متوجہ ہوجائیں اور ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔
سرمایہ کار چاہے ملک کا ہو یا بیرون ملک کا وہ ملکی سیاسی معاشی اور دیگر مستقبل کے بارے میں خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری سے اجتناب کرتا ہے۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ پنجاب کے بڑے بزنس مین اکٹھے ہوجائیں، میں سرمایہ کاری کی گارنٹی دیتا ہوں جو ایک خوش آیند بات ہے۔
یہ وقت ہے بزنس مین کی حوصلہ افزائی کا کیونکہ ملکی کاروبار یا صنعتی اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہوگا، صنعتی پہیہ چلے گا رواں دواں ہوگا تو پھر زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک کی قومی آمدنی میں اضافہ ہوگا جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ پہلے سے کمی ہوئی ہے لہٰذا کاروباری لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ان کی تسلی، تشفی کے بعد ہی ملک میں سرمایہ کاری کا عمل تیز ہوگا۔ جب صنعتی پہیہ تیز رفتاری سے چلے گا جب ہی جا کر معاشی ترقی کے ہدف کے قریب یا بعض اوقات ہدف سے زیادہ کا بھی حصول ممکن ہے۔
جلد ہی نئے مالی سال کا آغاز ہونے والا ہے، اس میں بجٹ کے علاوہ جس امر پر زیادہ گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی وہ یہ ہے کہ افواہ سازی، بعض اوقات مافیاز اور دیگر عناصر جان بوجھ کر مختلف اقسام کی افواہیں پھیلا دیتے ہیں۔ جس سے ملک کی معاشی ترقی کے اپنے منزل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے اور خاص طور پر سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے کے بعد اور گزشتہ 6 ماہ سے یہ بات سب سے زیادہ سنائی دی جاتی رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ کئی معاشی ماہرین بھی یہ بات بلا جھجک کہہ رہے تھے۔ قارئین کرام کو معلوم ہے کہ اپنے کسی بھی معاشی جائزے والے کالم میں اس بات کا کبھی خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ معیشت کے اعشاریے ایسا کچھ ظاہر نہیں کر رہے تھے۔
اس سلسلے میں چیئرمین فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا ہے کہ روز کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں 10 ارب ڈالرز زرمبادلہ موجود ہے اور 28 ماہ میں پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کی افواہوں سے روپے پر اعتماد میں روز بروز کمی آتی رہتی ہے، لوگ ڈالر، سونے اور پلاٹ وغیرہ کو محفوظ سمجھ کر اس میں اپنا پیسہ لگا کر اپنے سرمائے کو جامد و ساکت کردیتے ہیں اور یہی بات معیشت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس طرح معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ملک کے معاشی حکام اور معاشی پالیسی سازوں کے مدنظر یہ ہونا چاہیے کہ اپنی کرنسی اپنا روپیہ مضبوط ہو، حکومت سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، کارخانہ داروں، کاروباری افراد، تاجروں کو اعتماد میں لے اور ملک میں کاروباری ماحول کے لیے مدد و تعاون فراہم کرے۔ چھوٹے تاجروں کو مراعات دے اور ٹیکس چوروں کو نہ چھوڑے اور ان کو بھی جو چوری کے راستے کو ان کے لیے آراستہ کرتے ہیں۔
رواں مالی سال تو آیندہ بیس روز کے بعد ماضی بن جائے گا، لیکن آیندہ مالی سال ان کوتاہیوں، غلطیوںسے اجتناب کیا جائے تاکہ معاشی ترقی کا ہدف حاصل ہو سکے۔