اکھنڈ بھارت
پاکستان کو ختم کرنا مودی کے ایجنڈے میں شامل ہے
یہ ایک تسلیم شدہ فارمولا ہے کہ کسی بھی ملک کے معاشی استحکام کا دارومدار اس کے سیاسی استحکام پر ہوتا ہے، وہ ملک یقینا خوش قسمت ہیں کہ جہاں سیاسی استحکام ہے اور اسی لیے وہاں کی معیشتیں ترقی کر رہی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کو شروع سے ہی سیاسی عدم استحکام کی لعنت نے جوگھیرا ہے تو آج بھی وہ لعنت ملک کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ملک کی ترقی تو ایک طرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہی ملک دولخت ہوا اور اب دولخت ہونے کے بعد بھی ہمارے سیاستدان باہم دست و گریباں ہیں، انھوں نے ملک کے دو ٹکڑے ہونے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اپنی جارحانہ روش کو برقرار رکھا ہے۔
اس وقت بھی ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس سمت میں جائے گا۔ ہمارا دشمن آج بھی اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے وہ اسے اپنے اکھنڈ بھارت کا ہی حصہ مانتا ہے۔ دہلی میں بھارت کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر ہوئی ہے، اس عمارت کو نریندر مودی نے خالص ہندوتوا فلسفے کو سامنے رکھ کر تعمیر کرایا ہے۔
اس کا ڈیزائن مدھیہ پردیش میں واقع ایک ہزاروں سال پرانے مندر کے کھنڈرات سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے۔ یہ عمارت بالکل اس مندرکی طرح تکونی ہے اور باہر سے بھی کوئی کشش نہیں رکھتی یہ تو انگریزوں کی تعمیر کردہ پرانی پارلیمنٹ ہاؤس سے بھی بدتر ہے مگر چونکہ مودی ایک کٹر ہندو ہے۔ اس نے اپنے عقیدے کے مطابق اس نئے دور میں تعمیر ہونے والی اس پارلیمنٹ کی عمارت کو بھی ایک قدیم زمانے کی عمارت بنا دیا ہے۔
گوکہ حزب اختلاف کے رہنما اس عمارت سے ذرا متاثر نہیں ہیں کیونکہ دور سے اس کا نظارہ کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی گودام یا مندر ہو۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد بھی نریندر مودی نے رکھا تھا اور اب اس کا افتتاح بھی انھی نے کیا ہے جب کہ یہ حق دراصل بھارتی صدر کا تھا کیونکہ بھارت بظاہر ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کی علامت اور شناخت صدر جمہوریہ سے ہی ہوتی ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کے مطابق اس کا افتتاح کرنے کے لیے صدر کو دعوت دینا ضروری تھا مگر مودی نے کسی کی نہ سنی اور خود ہی اس کا افتتاح کر ڈالا۔ پھر سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اس نئی پارلیمنٹ کا افتتاح خالص ہندو روایت کے مطابق ہوا۔ بھارت کے تمام بڑے ہندو پنڈتوں کو یہاں مدعو کیا گیا تھا۔
انھوں نے اس عمارت کے افتتاح سے پہلے خوب پوجا پاٹ کی، پوری عمارت میں گائے کے گوبرکی دھونی دی گئی، گنگا جل چھڑکا گیا، بس ایک ہی چیز کی کمی رہ گئی کہ کسی گائے کو اس عمارت میں گھمایا پھرایا نہیں گیا شاید یہ حزب اختلاف کو مزید سیخ پا کرنے والی بات ہو جاتی۔ بھارتی حکمران ایک زمانے میں اپنے ملک کے سیکولر ہونے پر فخر کرتے رہے ہیں، یعنی ان کے ملک کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہاں کے حکمران پاکستان کو ایک مذہبی ملک ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔
اب حالات یہ ہیں کہ بھارت کا سیکولر ازم غائب ہوگیا ہے اور اب مودی نے اسے ایک کٹر ہندو ملک بنا دیا ہے۔ یہاں صرف ہندوؤں کو ہی فوقیت دی جاتی ہے جبکہ مسلمان اور عیسائی اقلیت کے ساتھ کھلے عام تعصب کی پالیسی چل رہی ہے۔ بھارت کی حکومت خود کو ہندوتوا کا پیروکار کہتی ہے یعنی اس کا مرکز ہندوتوا ہے۔ نریندر مودی کی پوری کابینہ میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ مودی کی پارٹی بی جے پی انتخابات میں صرف ہندوؤں کو ٹکٹ دیتی ہے وہ کسی مسلمان کو لوک سبھا اور راج سبھا میں بھیجنے کی غلطی نہیں کرتی۔
اس کے مطابق بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور ان کے سوا کسی بھی قوم کو بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔چند سال قبل بھارت میں بی جے پی نے یہ پالیسی اپنائی تھی کہ بھارت میں رہنے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے جو اپنی رہائش گاہ کے مکمل دستاویزات رکھتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس دستاویزات نہیں ہیں انھیں بھارت چھوڑنا ہوگا۔ بی جے پی کی پالیسی کے خلاف مسلمانوں نے بھارت کے طول و عرض میں شدید مظاہرے کیے تھے۔
دہلی میں مسلمان کئی مہینوں تک شہر کے بیچوں بیچ ایک اہم شاہراہ پر دھرنا دیتے رہے تھے، اس احتجاج کا مغربی ممالک نے بھی خاص نوٹس لیا تھا اور مودی حکومت کو اپنی اس مسلم کش مہم کو ختم کرنے پر مجبورکردیا تھا۔ نریندر مودی بھارت کو اکھنڈ بھارت بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اسی کوشش کے تحت نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں ایک اکھنڈ بھارت کا نقشہ ایک دیوار پر بنایا گیا ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
اس نقشے پر بھارت کے تینوں پڑوسیوں کو سخت اعتراضات ہیں کیونکہ یہ علاقے کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے البتہ اب مودی ان علاقوں کو بھارت میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ اکھنڈ بھارت یعنی کہ بھارت کو مہان دیش بنایا جائے۔ مودی کی یہ پرانی خواہش ہے مگر شاید ایسا کبھی بھی نہ ہو پائے تاہم پاکستان مودی کے خاص نشانے پر ہے اسے پاکستان کا وجود ذرا پسند نہیں ہے۔
پاکستان کو ختم کرنا مودی کے ایجنڈے میں شامل ہے وہ چین کے بھارتی شمالی علاقوں میں پیش رفت کرنے سے قبل گلگت بلتستان کو ہتھیانے کے لیے پوری فوجی تیاری کر چکا تھا مگر اسی وقت چین نے اس کے اس مذموم ارادے کو خاک میں ملا دیا تھا۔ کیا ہم پاکستانی مودی کے ناپاک عزائم سے واقف نہیں ہیں، بالکل واقف ہیں مگر افسوس کہ اس کے باوجود بھی ہمارے سیاستدان باہم دست وگریباں ہیں اور اپنی فوج کو خود ہی کمزور کرنے کے لیے اس سے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کو شروع سے ہی سیاسی عدم استحکام کی لعنت نے جوگھیرا ہے تو آج بھی وہ لعنت ملک کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ملک کی ترقی تو ایک طرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہی ملک دولخت ہوا اور اب دولخت ہونے کے بعد بھی ہمارے سیاستدان باہم دست و گریباں ہیں، انھوں نے ملک کے دو ٹکڑے ہونے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اپنی جارحانہ روش کو برقرار رکھا ہے۔
اس وقت بھی ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس سمت میں جائے گا۔ ہمارا دشمن آج بھی اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے وہ اسے اپنے اکھنڈ بھارت کا ہی حصہ مانتا ہے۔ دہلی میں بھارت کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر ہوئی ہے، اس عمارت کو نریندر مودی نے خالص ہندوتوا فلسفے کو سامنے رکھ کر تعمیر کرایا ہے۔
اس کا ڈیزائن مدھیہ پردیش میں واقع ایک ہزاروں سال پرانے مندر کے کھنڈرات سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے۔ یہ عمارت بالکل اس مندرکی طرح تکونی ہے اور باہر سے بھی کوئی کشش نہیں رکھتی یہ تو انگریزوں کی تعمیر کردہ پرانی پارلیمنٹ ہاؤس سے بھی بدتر ہے مگر چونکہ مودی ایک کٹر ہندو ہے۔ اس نے اپنے عقیدے کے مطابق اس نئے دور میں تعمیر ہونے والی اس پارلیمنٹ کی عمارت کو بھی ایک قدیم زمانے کی عمارت بنا دیا ہے۔
گوکہ حزب اختلاف کے رہنما اس عمارت سے ذرا متاثر نہیں ہیں کیونکہ دور سے اس کا نظارہ کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی گودام یا مندر ہو۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد بھی نریندر مودی نے رکھا تھا اور اب اس کا افتتاح بھی انھی نے کیا ہے جب کہ یہ حق دراصل بھارتی صدر کا تھا کیونکہ بھارت بظاہر ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کی علامت اور شناخت صدر جمہوریہ سے ہی ہوتی ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کے مطابق اس کا افتتاح کرنے کے لیے صدر کو دعوت دینا ضروری تھا مگر مودی نے کسی کی نہ سنی اور خود ہی اس کا افتتاح کر ڈالا۔ پھر سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اس نئی پارلیمنٹ کا افتتاح خالص ہندو روایت کے مطابق ہوا۔ بھارت کے تمام بڑے ہندو پنڈتوں کو یہاں مدعو کیا گیا تھا۔
انھوں نے اس عمارت کے افتتاح سے پہلے خوب پوجا پاٹ کی، پوری عمارت میں گائے کے گوبرکی دھونی دی گئی، گنگا جل چھڑکا گیا، بس ایک ہی چیز کی کمی رہ گئی کہ کسی گائے کو اس عمارت میں گھمایا پھرایا نہیں گیا شاید یہ حزب اختلاف کو مزید سیخ پا کرنے والی بات ہو جاتی۔ بھارتی حکمران ایک زمانے میں اپنے ملک کے سیکولر ہونے پر فخر کرتے رہے ہیں، یعنی ان کے ملک کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہاں کے حکمران پاکستان کو ایک مذہبی ملک ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔
اب حالات یہ ہیں کہ بھارت کا سیکولر ازم غائب ہوگیا ہے اور اب مودی نے اسے ایک کٹر ہندو ملک بنا دیا ہے۔ یہاں صرف ہندوؤں کو ہی فوقیت دی جاتی ہے جبکہ مسلمان اور عیسائی اقلیت کے ساتھ کھلے عام تعصب کی پالیسی چل رہی ہے۔ بھارت کی حکومت خود کو ہندوتوا کا پیروکار کہتی ہے یعنی اس کا مرکز ہندوتوا ہے۔ نریندر مودی کی پوری کابینہ میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ مودی کی پارٹی بی جے پی انتخابات میں صرف ہندوؤں کو ٹکٹ دیتی ہے وہ کسی مسلمان کو لوک سبھا اور راج سبھا میں بھیجنے کی غلطی نہیں کرتی۔
اس کے مطابق بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور ان کے سوا کسی بھی قوم کو بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔چند سال قبل بھارت میں بی جے پی نے یہ پالیسی اپنائی تھی کہ بھارت میں رہنے کا حق صرف ان لوگوں کا ہے جو اپنی رہائش گاہ کے مکمل دستاویزات رکھتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس دستاویزات نہیں ہیں انھیں بھارت چھوڑنا ہوگا۔ بی جے پی کی پالیسی کے خلاف مسلمانوں نے بھارت کے طول و عرض میں شدید مظاہرے کیے تھے۔
دہلی میں مسلمان کئی مہینوں تک شہر کے بیچوں بیچ ایک اہم شاہراہ پر دھرنا دیتے رہے تھے، اس احتجاج کا مغربی ممالک نے بھی خاص نوٹس لیا تھا اور مودی حکومت کو اپنی اس مسلم کش مہم کو ختم کرنے پر مجبورکردیا تھا۔ نریندر مودی بھارت کو اکھنڈ بھارت بنانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اسی کوشش کے تحت نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں ایک اکھنڈ بھارت کا نقشہ ایک دیوار پر بنایا گیا ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
اس نقشے پر بھارت کے تینوں پڑوسیوں کو سخت اعتراضات ہیں کیونکہ یہ علاقے کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے البتہ اب مودی ان علاقوں کو بھارت میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ اکھنڈ بھارت یعنی کہ بھارت کو مہان دیش بنایا جائے۔ مودی کی یہ پرانی خواہش ہے مگر شاید ایسا کبھی بھی نہ ہو پائے تاہم پاکستان مودی کے خاص نشانے پر ہے اسے پاکستان کا وجود ذرا پسند نہیں ہے۔
پاکستان کو ختم کرنا مودی کے ایجنڈے میں شامل ہے وہ چین کے بھارتی شمالی علاقوں میں پیش رفت کرنے سے قبل گلگت بلتستان کو ہتھیانے کے لیے پوری فوجی تیاری کر چکا تھا مگر اسی وقت چین نے اس کے اس مذموم ارادے کو خاک میں ملا دیا تھا۔ کیا ہم پاکستانی مودی کے ناپاک عزائم سے واقف نہیں ہیں، بالکل واقف ہیں مگر افسوس کہ اس کے باوجود بھی ہمارے سیاستدان باہم دست وگریباں ہیں اور اپنی فوج کو خود ہی کمزور کرنے کے لیے اس سے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔