ملک میں پہلے مارشل لا کا شاخسانہ

اصل صورتحال یہ تھی کہ تشکیل پاکستان کے فوراً بعد سے جمہوریت کی نفی سے بحرانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا

zahedahina@gmail.com

ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا خیال ہے کہ فوجی آمریت جمہوری نظام سے بہتر ہوتی ہے، وہ ملک پر نافذ ہونے والے پہلے مارشل لا کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دور میں پاکستان زیادہ بہتر اور مستحکم تھا۔

اصل صورتحال یہ تھی کہ تشکیل پاکستان کے فوراً بعد سے جمہوریت کی نفی سے بحرانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جسے ایوب خان کے مارشل لا نے مزید سنگین کر دیا۔

14اگست 1947 کو گزرے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ11مارچ1948کو مشرقی پاکستان کے سب سے بڑے شہر ڈھاکا میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دن ایک بڑا جلوس نکالا گیا جو بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہا تھا، اس جلوس کا ہدف وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کا دفتر تھا۔

لوگوں میں فوری اشتعال کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے جو نئے نوٹ اور سکے تیار کیے گئے تھے، ان پر بنگلہ کے بجائے صرف اردو عبارت استعمال کی گئی تھی۔ یہ احتجاج بنگالی قوم پرستی کی جانب پہلا قدم تھا۔ پولیس نے طاقت کے ذریعے جلوس کو منتشر کرنا چاہا جس سے بہت سے مظاہرین زخمی ہوئے۔

تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ زخمیوں میں شیر بنگال مولانا فضل الحق بھی شامل تھے، جنھوں نے 1940کو قرارداد لاہور پیش کی تھی اور جو اس جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ ایک نوجوان بھی پر جوش نعرے لگا رہا تھا جس کا نام شیخ مجیب الرحمن تھا ۔ جب زبان کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا تو محمد علی جناح21 مارچ1948کو بنگالیوں سے خطاب کرنے خود ڈھاکا پہنچے۔

بنگال کے رہنمائوں نے 23 جون1949میں مسلم لیگ کی جگہ آل پاکستان عوامی مسلم لیگ تشکیل دی جس کے سربراہ عبدالحمید بھاشانی تھے جب کہ پارٹی کے جوائنٹ سیکریٹری مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما شیخ مجیب الرحمن تھے ۔ عوامی لیگ کی قیادت میں جگتو فرنٹ بنایا گیا جس نے 1954کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کا صفایا کر دیا۔

237 نشستوں میں سے جگتو فرنٹ کو 223 اور مسلم لیگ کو صرف 9 نشستیں ملیں۔ یہ وہی بنگال تھا جس نے 1946کے انتخابات میں مسلم لیگ کو 119مسلم نشستوں میں سے 113نشستوں پرکامیابی دلائی تھی۔ صرف 8 سال بعد بنگال کے مسلمانوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے بنگالی قوم پرستی کی حقیقت کو تسلیم کر لیا۔1971میں بنگلہ دیش کا قیام اس کا فطری اور منطقی نتیجہ تھا۔

پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ1956میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس آئین کے13حصے تھے جن میں 234 آرٹیکلز شامل تھے۔ اس آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ گورنر جنرل کا عہدہ ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ صدر نے لے لی۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریاست کا سربراہ صرف مسلمان ہوگا اور ملک وفاقی پارلیمان کے تحت کام کرے گا۔ اس آئین کے تحت دو سال بعد ملک میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جانا تھا۔

مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے سابق صوبوں کے اشتراک سے ایک ایسی منتخب جمہوری حکومت کا انتخاب تقریباً یقینی تھا جس میں اقتدار اعلیٰ پر سول اور فوجی بیورو کریسی کی بالادستی کا خاتمہ ہو جانا تھا، اس خطرے کو بھانپتے ہوئے 7اکتوبر 1958کو ملک پر پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ صدر اسکندر مرزا برطانیہ کی مشہور سینڈ ہرسٹ کی امپیریل ملٹری اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنیوالے برصغیر کے پہلے فوجی افسر تھے جنھوں نے بعد ازاں سول بیورو کریسی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

صدر اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کو پاکستان کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا پھر انھیں اس عہدے سے الگ کر کے وزیر اعظم بنا دیا۔ مارشل لا سے چند ماہ قبل جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت ختم ہونے والی تھی جس میں صدر اسکندر مرزا نے دو سال کی توسیع کی تھی۔ اسی جنرل نے اپنے مارشل کے صرف بیس دنوں کے اندر ہی اپنے '' محسن '' کا پتہ صاف کر دیا۔ انھیں پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ روانہ کر دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیٹی قائم کی۔


مئی1961میں آئینی رپورٹ جنرل ایوب خان کو پیش کی گئی اور یکم مارچ 1962کو آئین کی منظور ی دے دی گئی۔ یہ صدارتی آئین تھا، قومی اسمبلی کی کل156نشستوں میں سے چھ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ انتخابی کالج اسی ہزار بنیادی جمہوری اراکین پر مشتمل تھا ۔ صدر کے لیے مسلمان ہونا لازمی تھا لیکن اسپیکر (جو قائم مقام صدر بھی بن سکتا تھا ) کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔ صدر ملک کا چیف ایگزیکٹو تھا جسے وزرا نامزد کرنے کا اختیار تھا۔ آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی مارشل لا ختم کردیا گیا لیکن جنرل ایوب خان فوج کی مدد سے ملک پر مسلط ہوگئے۔

جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور میں جو صنعتی ترقی ہوئی، اس کا فائدہ بائیس خاندانوں اور ملک کے بعض مخصوص علاقوں کو پہنچا ۔ عوام افراطِ زر، مہنگائی اور اشیائے صرف کی قلت کا شکار رہے۔ معروف صحافی اور دانشور ایم ضیا الدین نے اس حوالے سے کہا تھا۔

ایوب خان کے دور سے ہی ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کی عادت پڑگئی ہے۔ امریکا اور یورپ کے ساتھ سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے بعد ہمیں مفت میں اسلحہ ملا کرتا تھا۔ انھوں نے ہمارے کنٹونمنٹ بھی بنا کر دیے جس کی وجہ سے ہمارے ڈیفنس بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ اسی طرح امریکا ہمیں تقریباً مفت گیہوں دیتا تھا جسے ہم بیچ کر سویلین بجٹ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔

ایوب خان کو اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے جاگیر داروں اور کاروباری لوگوں کی حمایت درکار تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو جس طرح ہرایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ مشرقی پاکستان کا پٹ سن بیچ کر ہم مغربی پاکستان پر خرچ کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم ایوب خان کے دور میں ہی پیدا ہوئے تھے۔

جنرل ایوب خان کی نظر میں عوام میں اتنا شعور نہیں تھا کہ انھیں براہ راست ووٹ کا حق دیا جائے۔ اس کے ساتھ انھوں نے پاکستان کے تما م اہم سیاست دانوں کو راہ سے ہٹانے کے لیے ایبڈو اور پروڈا جیسے قانون بنا کر سات ہزار سے زیادہ سیاسی مخالفین کو سات سال کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔

1962کے آئین کے بعد صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے جنرل ایوب خان کو کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں تھا لیکن کئی سیاست دانوں نے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ کر لیا ۔ فاطمہ جناح کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی لیکن انھیں زبردست دھاندلی کے ذریعے ہروا دیا گیا جس سے شدید عوامی ناراضی پیدا ہوئی ۔ جنرل ایوب خان نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے آپریشن جبرالٹر کیا، جس کے بعد 1965کی جنگ شروع ہوگئی۔

اس جنگ سے معاشی طور پر ملک کو غیر معمولی نقصان پہنچا۔ امریکا نے اس بنیاد پر پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں کہ اس نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے امریکی اسلحے کو اس جنگ میں ہندوستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ اس جنگ نے جنرل ایوب خان کو بے حد کمزور کر دیا، انھیں تاشقند معاہدہ کرنا پڑا۔ فوج کے اندر ایوب خان کی مخالفت بڑھی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے الگ ہوکر پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو معاشی مسائل کی وجہ سے زور پکڑ گئی۔ بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق پر پابندیوں کی وجہ سے طلبا اور مزدور بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ مشرقی پاکستان میں بھی احتجاج زور پکڑ گیا اور 1968اور1969کے درمیان پورا پاکستان مسلسل مظاہروں اور ہڑتالوں کی زد میں رہا۔

برسر اقتدار قوتوں نے کچھ پسپائی اختیار کی اور ایوب خان کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے انھیں معزول کرکے 1962کے آئین کو منسوخ کرکے ون یونٹ اور مساوی نمایندگی کے نظام کو ختم کر کے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1970میں عام انتخابات کرائے۔ عوامی لیگ کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوگئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

یحییٰ خان اور ان کے حامی جرنیلوں اور سیاست دانوں نے اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان ، پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اس بحران کے دوران فوجی اور سول بیوروکریسی پر مشتمل یحییٰ خان حکومت نے بعض جماعتوں کو عوامی لیگ کے خلاف استعمال کیا۔ شکست کے بعد فوج نے ہتھیار ڈال دیے، انھیں جنیوا معاہدے کے تحت تحفظ ملا اور وہ اپنے حامیوں کو خیر باد کہہ کر واپس اپنے وطن لوٹ آئے۔

یہ تھا ملک پر پہلے مارشل لا کا بھیانک شاخسانہ۔
Load Next Story