چائلڈ لیبر عالمی مسئلہ قوانین پر عملدرآمد سے قابو پایا جا سکتا ہے ایکسپریس فورم

جبری مشقت کے خاتمے کیلیے ملکر کام کرنا ہوگا، سارہ احمد،پنجاب میں ملازمت کیلیے عمر کی بالائی حد 15 برس کردی،توصیف دلشاد

چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلیے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانا ہوگی، فاطمہ طاہر۔ فوٹو: ایکسپریس

چائلڈ لیبر عالمی مسئلہ ہے، اس کی بڑی وجہ معاشی عدم استحکام اور سماجی رویے ہیں، دنیا بھر میں اس کی روک تھام کیلیے کام ہو رہا ہے، پاکستان میں اس حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی ہے۔

چائلڈ لیبر ایکٹ، ڈومیسٹک لیبر ایکٹ میں بھی بچوں کی ملازمت کے تدارک کیلیے اقدامات قابل تحسین، پنجاب میں ملازمت کیلیے عمر کی بالائی حد 15 برس کر دی گئی ہے، قوانین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرنے سے چائلڈ لیبر پر قابو پایا جاسکتا ہے، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب نے گزشتہ چار برسوں میں چائلڈ لیبر، بچوں سے جنسی زیادتی، بھیک اور ان کی اسمگلنگ جیسے جرائم کی روک تھام کیلیے دن رات ایک کیا ہے۔

بچوں کو ریسکیو کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیم اور ہنر سکھایا جا رہا ہے، کونسلنگ کی جا رہی ہے اور ری ہیبلی ٹیشن سینٹر میں رکھا گیا ہے، چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف محکمہ لیبر نے 1400 سے زائد ایف آرز درج کروائی ہیں، چائلڈ لیبر سماجی مسئلہ ہے، من حیث القوم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلیے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانا ہوگی، ان خیالات کا اظہار حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''چائلڈ لیبر کے خاتمے کے عالمی دن'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔

چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب سارہ احمد نے کہا کہ بچوں کو اچھی زندگی اور تحفظ دینا ہمارا مشن ہے، حکومت یا کوئی بھی ادارہ، اکیلے اس مسئلے پر قابو نہیں پاسکتا، من حیث القوم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انھوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ افراد بچوں پر تشدد کر رہے ہیں، اگر کوئی بچہ مشکل میں ہو تو ہماری ہیلپ لائن 1121 پر اطلاع کریں۔


ایڈیشنل سیکرٹری لیبر پنجاب توصیف دلشاد کھٹانہ نے کہا کہ چائلڈ لیبر سادہ معاملہ نہیں ، انھوں نے کہا قانون میں ملازمت کی کم از کم عمر 15 برس ہے لہٰذا جہاں کہیں بھی کم عمر بچے کام کر رہے ہیں،وہاں مالکان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی، اب تک 1400 سے زائد ایف آئی آرز درج کروائی جاچکی ہیں۔

نمائندہ سول سوسائٹی افتخار مبارک نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلیے عالمی کنونشن موجود ہیں جن کی توثیق پاکستان نے بھی کر رکھی ہے، قومی و بین الاقوامی سطح پر بچوں کے بہترین مفاد میں ہے کہ تعلیم کو فروغ دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ پنجاب میں 2016ء میں بھٹوں پر بچوں کی جبری مشقت کے حوالے سے قانون منظور ہوا، اس کے علاوہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین میں بہتری لائی گئی، ملازمت کیلیے عمر کی بالائی حد میں اضافہ کیا گیا جس کے بعد پنجاب میں کم از کم 15 برس جبکہ وفاقی قانون میں 14 برس ہے،انھوں نے کہا کہ بچوں کی مشقت کے تدارک کیلیے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔

کلینکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر نے کہا کہ دنیا میں ہونے والے تمام مظالم میں سب سے بڑا ظلم چائلڈ لیبر ہے،بچے کی زندگی متاثر ہوتی ہے،ا س کا بچپن چھین لیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسے جذباتی اور نفسیاتی طور پر تباہ کر دیا جاتا ہے، انھوں نے کہا کہ دکانوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچے جرائم اور منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں، انھوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے سب سے اہم قانون سازی اور اس پر عملدرآمد ہے۔
Load Next Story