اگر طیب ایردوآن ہار جاتے
عوام کی ایک بڑی تعدادمطمئن ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف ان کے ثقافتی اورنظریاتی عقایدکاتحفظ یقینی بنادیاہے
' دعا کریں، طیب ایردوآن جیت جائیں، ورنہ خطہ بہت سے مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔'
یہ جملہ پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ہے۔ ترکیہ کے صدارتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کے بعد کی بات ہے جو بے نتیجہ رہا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب وزیر اعظم نے یہ بات اپنے ایک دوست عظیم چودہری سے تشویش کے لہجے میں کہی۔
ترکیہ جیسا عزیز از جان دوست ہو یا کوئی بھی دوسرا دوست ملک، ایک دوست کی حیثیت سے اس کے انتخابی عمل میں اصولی طور پر اتنی دل چسپی ہی ہونی چاہیے کہ انتخابات پر امن رہیں اور عوام کی حقیقی رائے کے مظہر ہوں۔
یہ بھی درست ہے کہ رجب طیب ایردوآن پاکستان کے لیے ہمیشہ پرجوش اور پر خلوص رہے ہیں اور شریف خاندان سمیت پاکستانی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات بھی گرم جوش ہیں۔ اس وجہ سے انتخابات میں ان کی کامیابی کی خواہش اور فکر مندی فطری ہے لیکن خطے کے مسائل سے اس معاملے کا کیا تعلق؟ یہ سوال جتنا ترکیہ کے عوام کے لیے اہم ہے، اتنا ہی اہم پاکستان اور خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی ہے۔
ترکیہ میں حالیہ انتخاب محض انتخاب نہ تھے، تہذیبی آویزش تھی۔ دو برس ہوتے ہیں، ترکیہ کے ایک چھوٹے صوبے بردر کے شہر بردر میں واقع محمد عاکف ایرسوئے یونیورسٹی میں ایک نوجوان اسکالر سر این دال سے ملاقات ہوئی۔ بین الاقوامی تعلقات کے اس سنجیدہ طالب علم نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ ہماری قیادت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
اس سلسلے میں مجھے جو کہنا تھا کہا لیکن جواب میں؛ میں نے یہ سوال کیا کہ جن ترکوں سے اس موضوع پر بات ہوتی ہے، وہ بہت پرجوش ہوتے ہیں یا ان میں تشویش کا ایک پہلو دیکھنے کو ملتا ہے۔ سبب کیا ہے؟ کہنے لگے کہ اس سوال کا جواب تو میں آپ کو اسی وقت بھی دے سکتا ہوں لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ کچھ چیزیں آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور خود کسی فیصلے پر پہنچیں۔
رات کا کھانا کچھ دیر میں ختم ہو گیا۔ مجھے کچھ خریدنا تھا چناں چہ ہم دونوں ان کی منگیتر کے ساتھ پہلے ہوٹل کی لابی میں پہنچے پھر شاپنگ ایریا میں اور اس کے بعد کچھ دیگر مقامات پر۔ کہنے لگے کہ آپ ہمارے ملنے جلنے اور دعا سلام کے طریقوں پر غور کیجئے گا۔ ترکی زبان ہمارے لیے کچھ ایسی اجنبی بھی نہیں۔ دو چار روز کسی جگہ گزار لینے کے بعد مسافر گفتگو کو سمجھنے لگتا ہے۔ ان کی بول چال میں بیشتر اسی قسم کے الفاظ ہوے ہیں جو ہم عام طور پر اردو یا عربی وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کسر اگر ہوتی ہے تو لہجے کی ہوتی ہے۔ لہجہ پکڑ لیا تو سمجھئے نصف سے زیادہ مسئلہ حل ہو گیا۔
امریکا میں جیسے آتے جاتے پاس سے گزرتے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور تھوڑی جان پہچان ہو تو ہیلو ہائے بھی ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ترکوں کے ہاں بھی ہے۔ جہاں کہیں آنکھیں چار ہوئیں، مسکرا کر منھ ہی منھ میں کچھ کلمات کہہ دیے۔ ترک تیزی سے بولتے ہیں اور لہجے میں کچھ گمبھیر تا بھی ہوتی ہے لہٰذا ابتدائی سماعت میں بات بالعموم سمجھ میں نہیں آتی۔ سر این کے کہنے پر یہ مسکراہٹ اور خیرمقدمی الفاظ میں نے ذرا توجہ سے سنے تو معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل پاکستان جیسی صورت حال ہے جیسے جان پہچان ہو نہ ہو، آنکھ ملتے ہی ہم لوگ السلام علیکم کہہ دیتے ہیں، ان کے یہاں ' سلام علیک' کہا جاتا ہے۔
سر این نے بتایا کہ یہ ایک نیا رجحان ہے، زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی دہائی پہلے کا۔ لوگ باگ نجی زندگی میں ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے پر سلامتی ہی بھیجتے ہوں لیکن سرکاری دفاتر، تقریبات اور پبلک مقامات پر ان الفاظ سے گریز کرتے ہوئے ' مرحبا' کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ ماضی میں یہ خطرہ ہوتا تھا کہ آپ ایسا کرتے ہوئے پائے گئے تو ریاست آپ کو مذہبی قرار دے کر انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے۔
' یہ تبدیلی طیب ایردوآن کی مرہون منت ہے'.
سر این نے بتایا۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ اب مرحبا نہیں کہتے، بے شمار لوگ کہتے ہیں لیکن ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں کا نظریاتی پس منظر مختلف ہے۔ سلام علیک والے اپنے رجحان کا تحفظ چاہتے ہیں اور مرحبا والے پرانے رجحان کی واپسی کے آرزو مند ہیں۔ یہ گویا ایک تہذیبی اور نظریاتی آویزش ہے جو ہمہ وقت ترکی میں جاری رہتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں یہی کشمکش بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئی۔
ان انتخابات کا تہذیبی پہلو تو یہی تھا جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ مشکل نہیں۔ تہذیبی آویزش کے پہلو بہ پہلو ترکیہ میں ایک سیاسی کشمکش بھی جاری رہی جو تہذیبی پہلو کا ایک فطری پہلو ہے جس میں پاکستان اور مسلم دنیا کے بارے میں غور و فکر کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ پہلے بھارت کا ذکر۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان فطری محبت اور گرم جوشی بھارت کے لیے ہمیشہ فکر مندی کا باعث رہی ہے لہٰذا بھارت نے ترکیہ میں اپنی لابی بنانے اور مضبوط کرنے کے لیے ان تھک محنت کی ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر روایتی سفارت کاری کو ذریعہ بنایا گیا۔ آشرم بنائے گئے جہاں ترک سماج کے با اثر لوگوں کو مدعو کر کے ان سے یوگا وغیرہ کے ذریعے رابطے مضبوط بنائے گئے۔ اسی طرح اب وہاں ہولی جیسے تہوار بھی باقاعدگی سے منائے جانے لگے ہیں۔ استنبول کی سڑکوں پر بالی وڈ کے اداکاروں کے بڑے بڑے بل بورڈ بھی اکثر اوقات دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں کتنی مؤثر رہی ہیں؟
اس کا اندازہ چند برس قبل اس وقت زیادہ ہوا جب بھارت نے آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ کشمیر کے متنازع خطے کی حیثیت بدل کر اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنایا۔ اس موقع پر ترکیہ میں بھی حکومت اور غیر سرکاری سطح پر مکالمے ہوئے۔ ان مواقع پر نوٹ کیا گیا کہ بالائی طبقات کے کچھ نمائندے بعض عرب ملکوں کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر غیر جانب داری اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ ترکیہ میں ایسی رائے رکھنے والا یہ طبقہ وہی ہے جو ان انتخابات میں کمال کلیچ دار اولو کی حمایت میں تھا۔ خود کمال کلیچ دار اولو بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران میں انھوں دو ٹوک اعلان کیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لائیں گے۔ انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ ترکیہ کا رخ مسلم دنیا کی طرف زیادہ ہے، وہ اسے دوبارہ مغرب کی طرف موڑ دیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ترکیہ کے خارجہ تعلقات کا ایک تیسرا رخ بھی ہے۔
اس ملک کی خارجہ پالیسی کے اس پہلو کا تعلق مشرق میں ابھرتے ہوئے طاقت کے نئے مراکز سے ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا اور نیٹو کا اتحادی رہتے ہوئے بھی مشرق کے سب سے بڑے اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم میں بھرپور دل چسپی لی ہے اور اس میں شمولیت کے ابتدائی مراحل ایران کی طرح کامیابی سے طے کر لیے ہیں۔
آسانی کے لیے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح سعودی عرب نے چین کے تعاون سے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر خطے میں ابھرنے والے نئے امکانات سے استفادے کی تیاری کی ہے، اسی طرح ترکیہ بھی اپنے مغربی رشتے متاثر کیے بغیر اپنے فطری رشتوں یعنی مشرق کی طرف زیادہ بامعنی انداز میں لوٹ رہا ہے۔
اس میں ظاہر ہے کہ ترکیہ کے پیش نظر اقتصادی مفادات کے علاوہ نظریاتی پہلو بھی ہیں۔ اب یہ کہنا تو اضافی ہوگا کہ اس پر عزم پالیسی کے اصل معمار اور روح رواں صدر ایردوآن ہیں لیکن کمال کلیچ دار اولو اس پالیسی کے یک سر مخالف تھے اور انھوں نے علانیہ اس سے مراجعت کی بات کی تھی۔
اس پس منظر میں اگر حالیہ انتخابات میں صدر طیب ایردوآن کی کامیابی میں پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے اطمینان کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں تو دوسری طرف خود ترکیہ کے اندر بھی اس سلسلے میں اطمینان کی گہری لہر پائی جاتی ہے۔
عوام کی ایک بڑی تعداد مطمئن ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف ان کے ثقافتی اور نظریاتی عقاید کا تحفظ یقینی بنا دیا ہے بلکہ یہ ممکن بھی نہیں رہا کہ اب کوئی ان کے وطن کو ان کے فطری اتحادیوں اور محبت کرنے والے دوستوں سے محروم کر سکے گا۔
یہ جملہ پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ہے۔ ترکیہ کے صدارتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کے بعد کی بات ہے جو بے نتیجہ رہا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب وزیر اعظم نے یہ بات اپنے ایک دوست عظیم چودہری سے تشویش کے لہجے میں کہی۔
ترکیہ جیسا عزیز از جان دوست ہو یا کوئی بھی دوسرا دوست ملک، ایک دوست کی حیثیت سے اس کے انتخابی عمل میں اصولی طور پر اتنی دل چسپی ہی ہونی چاہیے کہ انتخابات پر امن رہیں اور عوام کی حقیقی رائے کے مظہر ہوں۔
یہ بھی درست ہے کہ رجب طیب ایردوآن پاکستان کے لیے ہمیشہ پرجوش اور پر خلوص رہے ہیں اور شریف خاندان سمیت پاکستانی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات بھی گرم جوش ہیں۔ اس وجہ سے انتخابات میں ان کی کامیابی کی خواہش اور فکر مندی فطری ہے لیکن خطے کے مسائل سے اس معاملے کا کیا تعلق؟ یہ سوال جتنا ترکیہ کے عوام کے لیے اہم ہے، اتنا ہی اہم پاکستان اور خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی ہے۔
ترکیہ میں حالیہ انتخاب محض انتخاب نہ تھے، تہذیبی آویزش تھی۔ دو برس ہوتے ہیں، ترکیہ کے ایک چھوٹے صوبے بردر کے شہر بردر میں واقع محمد عاکف ایرسوئے یونیورسٹی میں ایک نوجوان اسکالر سر این دال سے ملاقات ہوئی۔ بین الاقوامی تعلقات کے اس سنجیدہ طالب علم نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ ہماری قیادت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
اس سلسلے میں مجھے جو کہنا تھا کہا لیکن جواب میں؛ میں نے یہ سوال کیا کہ جن ترکوں سے اس موضوع پر بات ہوتی ہے، وہ بہت پرجوش ہوتے ہیں یا ان میں تشویش کا ایک پہلو دیکھنے کو ملتا ہے۔ سبب کیا ہے؟ کہنے لگے کہ اس سوال کا جواب تو میں آپ کو اسی وقت بھی دے سکتا ہوں لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ کچھ چیزیں آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور خود کسی فیصلے پر پہنچیں۔
رات کا کھانا کچھ دیر میں ختم ہو گیا۔ مجھے کچھ خریدنا تھا چناں چہ ہم دونوں ان کی منگیتر کے ساتھ پہلے ہوٹل کی لابی میں پہنچے پھر شاپنگ ایریا میں اور اس کے بعد کچھ دیگر مقامات پر۔ کہنے لگے کہ آپ ہمارے ملنے جلنے اور دعا سلام کے طریقوں پر غور کیجئے گا۔ ترکی زبان ہمارے لیے کچھ ایسی اجنبی بھی نہیں۔ دو چار روز کسی جگہ گزار لینے کے بعد مسافر گفتگو کو سمجھنے لگتا ہے۔ ان کی بول چال میں بیشتر اسی قسم کے الفاظ ہوے ہیں جو ہم عام طور پر اردو یا عربی وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کسر اگر ہوتی ہے تو لہجے کی ہوتی ہے۔ لہجہ پکڑ لیا تو سمجھئے نصف سے زیادہ مسئلہ حل ہو گیا۔
امریکا میں جیسے آتے جاتے پاس سے گزرتے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور تھوڑی جان پہچان ہو تو ہیلو ہائے بھی ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ترکوں کے ہاں بھی ہے۔ جہاں کہیں آنکھیں چار ہوئیں، مسکرا کر منھ ہی منھ میں کچھ کلمات کہہ دیے۔ ترک تیزی سے بولتے ہیں اور لہجے میں کچھ گمبھیر تا بھی ہوتی ہے لہٰذا ابتدائی سماعت میں بات بالعموم سمجھ میں نہیں آتی۔ سر این کے کہنے پر یہ مسکراہٹ اور خیرمقدمی الفاظ میں نے ذرا توجہ سے سنے تو معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل پاکستان جیسی صورت حال ہے جیسے جان پہچان ہو نہ ہو، آنکھ ملتے ہی ہم لوگ السلام علیکم کہہ دیتے ہیں، ان کے یہاں ' سلام علیک' کہا جاتا ہے۔
سر این نے بتایا کہ یہ ایک نیا رجحان ہے، زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی دہائی پہلے کا۔ لوگ باگ نجی زندگی میں ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے پر سلامتی ہی بھیجتے ہوں لیکن سرکاری دفاتر، تقریبات اور پبلک مقامات پر ان الفاظ سے گریز کرتے ہوئے ' مرحبا' کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ ماضی میں یہ خطرہ ہوتا تھا کہ آپ ایسا کرتے ہوئے پائے گئے تو ریاست آپ کو مذہبی قرار دے کر انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے۔
' یہ تبدیلی طیب ایردوآن کی مرہون منت ہے'.
سر این نے بتایا۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ اب مرحبا نہیں کہتے، بے شمار لوگ کہتے ہیں لیکن ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں کا نظریاتی پس منظر مختلف ہے۔ سلام علیک والے اپنے رجحان کا تحفظ چاہتے ہیں اور مرحبا والے پرانے رجحان کی واپسی کے آرزو مند ہیں۔ یہ گویا ایک تہذیبی اور نظریاتی آویزش ہے جو ہمہ وقت ترکی میں جاری رہتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں یہی کشمکش بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئی۔
ان انتخابات کا تہذیبی پہلو تو یہی تھا جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ مشکل نہیں۔ تہذیبی آویزش کے پہلو بہ پہلو ترکیہ میں ایک سیاسی کشمکش بھی جاری رہی جو تہذیبی پہلو کا ایک فطری پہلو ہے جس میں پاکستان اور مسلم دنیا کے بارے میں غور و فکر کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ پہلے بھارت کا ذکر۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان فطری محبت اور گرم جوشی بھارت کے لیے ہمیشہ فکر مندی کا باعث رہی ہے لہٰذا بھارت نے ترکیہ میں اپنی لابی بنانے اور مضبوط کرنے کے لیے ان تھک محنت کی ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر روایتی سفارت کاری کو ذریعہ بنایا گیا۔ آشرم بنائے گئے جہاں ترک سماج کے با اثر لوگوں کو مدعو کر کے ان سے یوگا وغیرہ کے ذریعے رابطے مضبوط بنائے گئے۔ اسی طرح اب وہاں ہولی جیسے تہوار بھی باقاعدگی سے منائے جانے لگے ہیں۔ استنبول کی سڑکوں پر بالی وڈ کے اداکاروں کے بڑے بڑے بل بورڈ بھی اکثر اوقات دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں کتنی مؤثر رہی ہیں؟
اس کا اندازہ چند برس قبل اس وقت زیادہ ہوا جب بھارت نے آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ کشمیر کے متنازع خطے کی حیثیت بدل کر اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنایا۔ اس موقع پر ترکیہ میں بھی حکومت اور غیر سرکاری سطح پر مکالمے ہوئے۔ ان مواقع پر نوٹ کیا گیا کہ بالائی طبقات کے کچھ نمائندے بعض عرب ملکوں کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر غیر جانب داری اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ ترکیہ میں ایسی رائے رکھنے والا یہ طبقہ وہی ہے جو ان انتخابات میں کمال کلیچ دار اولو کی حمایت میں تھا۔ خود کمال کلیچ دار اولو بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران میں انھوں دو ٹوک اعلان کیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لائیں گے۔ انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ ترکیہ کا رخ مسلم دنیا کی طرف زیادہ ہے، وہ اسے دوبارہ مغرب کی طرف موڑ دیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ترکیہ کے خارجہ تعلقات کا ایک تیسرا رخ بھی ہے۔
اس ملک کی خارجہ پالیسی کے اس پہلو کا تعلق مشرق میں ابھرتے ہوئے طاقت کے نئے مراکز سے ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا اور نیٹو کا اتحادی رہتے ہوئے بھی مشرق کے سب سے بڑے اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم میں بھرپور دل چسپی لی ہے اور اس میں شمولیت کے ابتدائی مراحل ایران کی طرح کامیابی سے طے کر لیے ہیں۔
آسانی کے لیے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح سعودی عرب نے چین کے تعاون سے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر خطے میں ابھرنے والے نئے امکانات سے استفادے کی تیاری کی ہے، اسی طرح ترکیہ بھی اپنے مغربی رشتے متاثر کیے بغیر اپنے فطری رشتوں یعنی مشرق کی طرف زیادہ بامعنی انداز میں لوٹ رہا ہے۔
اس میں ظاہر ہے کہ ترکیہ کے پیش نظر اقتصادی مفادات کے علاوہ نظریاتی پہلو بھی ہیں۔ اب یہ کہنا تو اضافی ہوگا کہ اس پر عزم پالیسی کے اصل معمار اور روح رواں صدر ایردوآن ہیں لیکن کمال کلیچ دار اولو اس پالیسی کے یک سر مخالف تھے اور انھوں نے علانیہ اس سے مراجعت کی بات کی تھی۔
اس پس منظر میں اگر حالیہ انتخابات میں صدر طیب ایردوآن کی کامیابی میں پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے اطمینان کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں تو دوسری طرف خود ترکیہ کے اندر بھی اس سلسلے میں اطمینان کی گہری لہر پائی جاتی ہے۔
عوام کی ایک بڑی تعداد مطمئن ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف ان کے ثقافتی اور نظریاتی عقاید کا تحفظ یقینی بنا دیا ہے بلکہ یہ ممکن بھی نہیں رہا کہ اب کوئی ان کے وطن کو ان کے فطری اتحادیوں اور محبت کرنے والے دوستوں سے محروم کر سکے گا۔