طالبعلم کی حراست جامعہ کراچی کے داخلی دروازوں پر رینجرز تعیناتی کی تجویز
طالبعلم کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں حراست اورجھوٹی ایف آئی آر کے معاملے پر وائس چانسلر کی زیر صدارت اہم اجلاس میں تجاویز پیش
جامعہ کراچی کے طالب علم کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں حراست کے بعد پیدا صورت حال پر یونیورسٹی کے داخلی دروازوں پر رینجرز تعینات کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کی کیمپس سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں حراست اور جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے کے معاملے نے یونیورسٹی انتظامیہ کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی زیر صدارت پیر کی صبح کیمپس میں سکیورٹی صورتحال پر اہم اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔
اجلاس میں رینجرز کے ونگ کمانڈر بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر احتشام نامی طالب علم کی کیمپس سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جبری حراست اور ازاں بعد مبینہ ٹاؤن تھانے میں اس کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر سے پیدا ہونے والی صورت حال اور مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا ۔
ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی جانب سے اس موقع پر رینجرز کے ونگ کمانڈر کو تجویز دی گئی ہے بہتر اور موثر سکیورٹی کے لیے رینجرز کو ماضی کی طرح یونیورسٹی کے داخلی دروازوں پر واپس آجانا چاہیے۔ داخلی دروازوں کی سکیورٹی یونیورسٹی کے گارڈز ہی کے پاس ہی رہے گی تاہم رینجرز اہلکار ان کی معاونت کے لیے موجود رہیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وائس چانسلر کی جانب سے دی گئی اس تجویز سے اتفاق کیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ سفارش بھی کی گئی کہ مستقبل کے لیے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا جائے جس کے تحت تمام آفیشل سکیورٹی اداروں کی یونیورسٹی انتظامیہ سے کوآرڈینیشن ہو اور اس حکمت عملی کے تحت کسی بھی کارروائی کے سلسلےمیں اگر سکیورٹی ادارہ یونیورسٹی کیمپس میں آتا ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ اس سے لاعلم نہ ہو۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ 4 روز قبل 2 طلبہ کے مابین معمولی تلخ کلامی کے بعد سی ٹی ڈی کی مداخلت اور طالب علم کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر کے معاملے پر بظاہر وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اسماعیل راہو نے نوٹس لیا تھا، تاہم یونیورسٹی ذرائع کہتے ہیں کہ یہ نوٹس زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں اور جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو فی الحال اس معاملے پر کوئی آفیشل نوٹس نہیں ملا۔
اُدھر جامعہ کراچی میں بھی اس واقعے کی تاحال کوئی داخلی انکوائری شروع نہیں ہوسکی ہے، نہ ہی جھوٹی ایف آئی آر کا محرک بننے والے طالب علم کے خلاف کوئی داخلی کارروائی سامنے آئی ہے ۔
کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کی کیمپس سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں حراست اور جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے کے معاملے نے یونیورسٹی انتظامیہ کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی زیر صدارت پیر کی صبح کیمپس میں سکیورٹی صورتحال پر اہم اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔
اجلاس میں رینجرز کے ونگ کمانڈر بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر احتشام نامی طالب علم کی کیمپس سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جبری حراست اور ازاں بعد مبینہ ٹاؤن تھانے میں اس کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر سے پیدا ہونے والی صورت حال اور مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا ۔
ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی جانب سے اس موقع پر رینجرز کے ونگ کمانڈر کو تجویز دی گئی ہے بہتر اور موثر سکیورٹی کے لیے رینجرز کو ماضی کی طرح یونیورسٹی کے داخلی دروازوں پر واپس آجانا چاہیے۔ داخلی دروازوں کی سکیورٹی یونیورسٹی کے گارڈز ہی کے پاس ہی رہے گی تاہم رینجرز اہلکار ان کی معاونت کے لیے موجود رہیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وائس چانسلر کی جانب سے دی گئی اس تجویز سے اتفاق کیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ سفارش بھی کی گئی کہ مستقبل کے لیے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا جائے جس کے تحت تمام آفیشل سکیورٹی اداروں کی یونیورسٹی انتظامیہ سے کوآرڈینیشن ہو اور اس حکمت عملی کے تحت کسی بھی کارروائی کے سلسلےمیں اگر سکیورٹی ادارہ یونیورسٹی کیمپس میں آتا ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ اس سے لاعلم نہ ہو۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ 4 روز قبل 2 طلبہ کے مابین معمولی تلخ کلامی کے بعد سی ٹی ڈی کی مداخلت اور طالب علم کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر کے معاملے پر بظاہر وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اسماعیل راہو نے نوٹس لیا تھا، تاہم یونیورسٹی ذرائع کہتے ہیں کہ یہ نوٹس زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں اور جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو فی الحال اس معاملے پر کوئی آفیشل نوٹس نہیں ملا۔
اُدھر جامعہ کراچی میں بھی اس واقعے کی تاحال کوئی داخلی انکوائری شروع نہیں ہوسکی ہے، نہ ہی جھوٹی ایف آئی آر کا محرک بننے والے طالب علم کے خلاف کوئی داخلی کارروائی سامنے آئی ہے ۔