معیشت اور بجٹ میثاق معیشت کی فوری ضرورت
حکومت کو نا صرف ٹیکسوں کی مد میں کمی کا مسئلہ ہو گا بلکہ بے روزگاری بھی کافی بڑھ جائے گی
دنیا کی حکومتیں ہر سال معمول کے مطابق اپنا بجٹ پیش کرتی ہیں جس میں یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ نئے مالی سال کے دوران ان کی آمدنی کا تخمینہ کیا ہے اور وہ تعلیم، صحت، سماجی اور معاشی ترقی کے لیے، مختلف شعبوں میں کیا اخراجات کرنے اور ترغیبات دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
مزید برآں، وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ نئے مالی سال کے دوران انھوں نے درآمدی و برآمدی تجارت کا کیا ہدف مقرر کیا ہے اور اس کے حصول کے لیے وہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں کیا رد و بدل کرنا چاہتی ہیں۔
عام حالات میں سالانہ بجٹ کا پیش کیا جانا، ایک اہم بات ضرور ہوتی ہے لیکن اسے کوئی غیر معمولی عمل تصور نہیں کیا جاتا۔ تاہم، غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں غریب، امیر، کاروباری طبقات، حزب اختلاف کی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ نظریں بجٹ پر مرکوز ہوتی ہیں کیونکہ بجٹ تجاویز سے سب کسی نا کسی خوف سے ضرور دوچار رہتے ہیں۔
ہم چوں کہ اب ایک غریب ملک کہلانے کے قریب پہنچ چکے ہیں، لہٰذا ہر آنے والے بجٹ سے ہمارا خوفزدہ رہنا ایک فطری امر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کے نئے مالی سال کے بجٹ پر سماج کے ہر طبقے کی جانب سے بھرپور اور ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ دنوں بعد سارا شور و غوغا تھم جائے گا اور کاروبار زندگی حسب سابق پرانی ڈگر پر دوبارہ چلنے لگے گا۔
میرا صحافتی سفر نصف صدی سے زیادہ طویل ہے، اگرچہ معیشت میرا بنیادی شعبہ نہیں ہے تاہم، اس عرصے کے دوران میں نے معاشی موضوعات پر بھی، غیر روایتی انداز میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان امیر ملک یقیناً نہیں لیکن وہ اتنا غریب ملک بھی نہیں ہے جتنا کہ عام طور پر اسے سمجھا جاتا ہے، اگر محتاط ترین اندازہ لگایا جائے تو ہماری سرکاری یعنی دستاویزی معیشت (جی ڈی پی ) کا حجم لگ بھگ 300 ارب ڈالر کے آس پاس ہے۔
بہت سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر، غیر دستاویزی اور متوازی معیشت (بلیک اکانومی) کا حجم بھی کم و بیش اتنا ہی بڑا ہے۔
اس تجزیے کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی دراصل 600 ارب ڈالر کے مساوی ہے، یہ تجزیہ اگر درست ہے اور متوازی معیشت کو دستاویزی بنا کر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو حکومت کی آمدنی میں یقینی طور پر دگنا سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ایسا ہونے کی صورت میں مالی لحاظ سے غریب حکومت بجٹ خسارے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے راتوں رات باہر نکل سکتی ہے۔
چلیں یہ مان لیا جائے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر غیر دستاویزی معیشت کا حجم اتنا زیادہ نہیں بلکہ وہ سرکاری معیشت کا 50فیصد یعنی 150 ارب ڈالر کے برابر ہے تب بھی اسے ٹیکس کے دائرے میں لا کر حکومت مالیاتی خسارے سے نکل سکتی ہے اور اسے عوام پر ٹیکس لگانے کا عذاب بھی مول نہیں لینا پڑے گا۔
اب ہم ایک دوسرے مسئلے پر نظر ڈالتے ہیں۔ حکومت کو اپنی ملکیت میں چلنے والے کاروباری اداروں کی وجہ سے ہر سال کئی سو ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
یہ وہ بوجھ ہے جو درحقیقت حکومت برداشت نہیں کرتی بلکہ اس خسارے کو عوام اور ٹیکس گزاروں کے جیبوں سے رقم نکال کر پورا کیا جاتا ہے۔ ان اداروں کو منافع میں لانا ممکن نہیں تو انھیں نجی اور سرکاری شراکت داری میں چلا کر خسارے سے نکالا جائے یا ان کی نج کاری کر کے حکومت اپنے مالیاتی خسارے کو کم کرے اور عوام کو بھی اس بوجھ سے آزاد کرائے۔ اس معاملے پر واضح پالیسی اختیار کی جائے۔
اب ہم آتے ہیں اس سنگین مسئلے کی جانب جس نے معیشت کی ترقی اور بجٹ سازی کے عمل کو مفلوج کر رکھا ہے۔ یہ جاری کھاتے کے خسارے یعنی زرمبادلہ کی شدید کمی کا مسئلہ ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ پاکستان ڈالر کم کماتا ہے جب کہ اسے ڈالروں کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ اس وقت ملک کو ڈالر کی بھاری کمی کا سامنا ہے۔
اس بھیانک خسارے کو یا تو غیرملکی قرضوں یا دوست ملکوں کی امداد سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں حوالوں سے صورتحال بڑی پریشان کن ہے۔
آج سے دس سال پہلے تک سیاسی طور پر جو عالمی اور علاقائی منظر نامہ تھا اس کے تناظر میں امداد کا ملنا نسبتا آسان ہوا کرتا تھا۔ اب پرانی سیاسی صف بندیاں ختم کر کے دنیا کے ملک ایک دوسرے سے قریب آ رہے ہیں، لہٰذا اب ہمارے دیرینہ دوست ملکوں کا رویہ بھی ماضی کی طرح کا بہت فیاضانہ نہیں ہے۔ اب ڈالر خود کمانے پڑیں گے جس کی ہمیں زیادہ عادت نہیں ہے۔
یہ کام درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے75 سال تک ملک کے اندر صنعت کاری پر کوئی توجہ نہیں دی اور خود کو درآمدی اشیا کی مارکیٹ بنائے رکھا لہٰذا درآمدات میں غیر معمولی کٹوتی بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس سے رہی سہی کاروباری سرگرمیاں ماند پڑجائیں گی۔
حکومت کو نا صرف ٹیکسوں کی مد میں کمی کا مسئلہ ہو گا بلکہ بے روزگاری بھی کافی بڑھ جائے گی اور پہلے سے موجود سیاسی و معاشی عدم استحکام بھی شدید تر ہو جائے گا۔ اس لیے درآمدی بل میں فوری کمی کے لیے علاقائی تجارت کو بلا تاخیر فروغ دینا ہوگا۔
اس مقصد کے لیے تمام پڑوسی ممالک سے بلا امتیاز تجارت کا آغاز کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے نا صرف درآمدی بل بہت کم ہو گا بلکہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بہت کم ہو جائیں گی۔ اس تجارتی پالیسی سے ہماری برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
ان معاملات کے ساتھ ہمیں بعض دیگر تلخ حقائق بھی تسلیم کرنے ہوں گے، ایسا کیے بغیر موجودہ بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔ سب سے پہلے اس امر پر غور کریں کہ ہم کپاس پیدا کرنے والے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے ملک ہیں جب کہ بنگلہ دیش کپاس پیدا نہ کرنے کے باوجود تیار شدہ ملبوسات اور ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والا چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس شعبے میں وہ 46 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ کا زر مبادلہ کماتا ہے۔
کیا یہ غور طلب بات نہیں کہ ہماری ٹیکسٹائل برآمدات بہ مشکل صرف 14 ارب ڈالر تک محدود کیوں ہیں؟ ہمارے لیے بنگلہ دیش جیسی پالیسی اختیار کرنے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ اس سوال کا جواب پالیسی سازوں سے مانگنا تو چاہیے! برآمدات بڑھانے اور زر مبادلہ کمانے کے لیے آئی ٹی سیکٹر کو مسلسل نظر انداز کیوں کیا جاتا رہا ہے؟
ہندوستان اگر آئی ٹی برآمدات سے تقریباً دو سو ارب ڈالر کما سکتا ہے تو ہم اس اہم شعبے کو غیر معمولی ترغیبات دے کر چند برسوں میں 10 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کیوں نہیں کر سکتے؟ ای کامرس کے ذریعے دنیا میں اربوں ڈالر کا کاروبار ہو رہا ہے۔
پاکستان کے ذہین نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر کے ملک با آسانی کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کما سکتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے اور غیر روایتی شعبے موجود ہیں، جن پر فوری عمل کر کے معاشی بحران کی شدت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی دنیا میں کرنے کو بہت کچھ ہے اگر ہم کچھ کرنا چاہیں، سر جوڑ کر بیٹھا جائے، پرانے دور کی سیاسی اور نظریاتی سوچ ترک کرتے ہوئے خود کو جدید دنیا کا حصہ بنانے کے لیے ایک قابل عمل میثاق معیشت پر قومی اتفاق رائے کے ذریعے آگے بڑھنے کا عزم کیا جائے، ایسا کیے بغیر معاشی بحران کے اس خطرناک گرداب سے باہر نکلنے کی کوئی امید خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی۔
مزید برآں، وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ نئے مالی سال کے دوران انھوں نے درآمدی و برآمدی تجارت کا کیا ہدف مقرر کیا ہے اور اس کے حصول کے لیے وہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں کیا رد و بدل کرنا چاہتی ہیں۔
عام حالات میں سالانہ بجٹ کا پیش کیا جانا، ایک اہم بات ضرور ہوتی ہے لیکن اسے کوئی غیر معمولی عمل تصور نہیں کیا جاتا۔ تاہم، غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں غریب، امیر، کاروباری طبقات، حزب اختلاف کی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ نظریں بجٹ پر مرکوز ہوتی ہیں کیونکہ بجٹ تجاویز سے سب کسی نا کسی خوف سے ضرور دوچار رہتے ہیں۔
ہم چوں کہ اب ایک غریب ملک کہلانے کے قریب پہنچ چکے ہیں، لہٰذا ہر آنے والے بجٹ سے ہمارا خوفزدہ رہنا ایک فطری امر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کے نئے مالی سال کے بجٹ پر سماج کے ہر طبقے کی جانب سے بھرپور اور ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ دنوں بعد سارا شور و غوغا تھم جائے گا اور کاروبار زندگی حسب سابق پرانی ڈگر پر دوبارہ چلنے لگے گا۔
میرا صحافتی سفر نصف صدی سے زیادہ طویل ہے، اگرچہ معیشت میرا بنیادی شعبہ نہیں ہے تاہم، اس عرصے کے دوران میں نے معاشی موضوعات پر بھی، غیر روایتی انداز میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان امیر ملک یقیناً نہیں لیکن وہ اتنا غریب ملک بھی نہیں ہے جتنا کہ عام طور پر اسے سمجھا جاتا ہے، اگر محتاط ترین اندازہ لگایا جائے تو ہماری سرکاری یعنی دستاویزی معیشت (جی ڈی پی ) کا حجم لگ بھگ 300 ارب ڈالر کے آس پاس ہے۔
بہت سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر، غیر دستاویزی اور متوازی معیشت (بلیک اکانومی) کا حجم بھی کم و بیش اتنا ہی بڑا ہے۔
اس تجزیے کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی دراصل 600 ارب ڈالر کے مساوی ہے، یہ تجزیہ اگر درست ہے اور متوازی معیشت کو دستاویزی بنا کر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو حکومت کی آمدنی میں یقینی طور پر دگنا سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ایسا ہونے کی صورت میں مالی لحاظ سے غریب حکومت بجٹ خسارے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے راتوں رات باہر نکل سکتی ہے۔
چلیں یہ مان لیا جائے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر غیر دستاویزی معیشت کا حجم اتنا زیادہ نہیں بلکہ وہ سرکاری معیشت کا 50فیصد یعنی 150 ارب ڈالر کے برابر ہے تب بھی اسے ٹیکس کے دائرے میں لا کر حکومت مالیاتی خسارے سے نکل سکتی ہے اور اسے عوام پر ٹیکس لگانے کا عذاب بھی مول نہیں لینا پڑے گا۔
اب ہم ایک دوسرے مسئلے پر نظر ڈالتے ہیں۔ حکومت کو اپنی ملکیت میں چلنے والے کاروباری اداروں کی وجہ سے ہر سال کئی سو ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
یہ وہ بوجھ ہے جو درحقیقت حکومت برداشت نہیں کرتی بلکہ اس خسارے کو عوام اور ٹیکس گزاروں کے جیبوں سے رقم نکال کر پورا کیا جاتا ہے۔ ان اداروں کو منافع میں لانا ممکن نہیں تو انھیں نجی اور سرکاری شراکت داری میں چلا کر خسارے سے نکالا جائے یا ان کی نج کاری کر کے حکومت اپنے مالیاتی خسارے کو کم کرے اور عوام کو بھی اس بوجھ سے آزاد کرائے۔ اس معاملے پر واضح پالیسی اختیار کی جائے۔
اب ہم آتے ہیں اس سنگین مسئلے کی جانب جس نے معیشت کی ترقی اور بجٹ سازی کے عمل کو مفلوج کر رکھا ہے۔ یہ جاری کھاتے کے خسارے یعنی زرمبادلہ کی شدید کمی کا مسئلہ ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہیں کہ پاکستان ڈالر کم کماتا ہے جب کہ اسے ڈالروں کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ اس وقت ملک کو ڈالر کی بھاری کمی کا سامنا ہے۔
اس بھیانک خسارے کو یا تو غیرملکی قرضوں یا دوست ملکوں کی امداد سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں حوالوں سے صورتحال بڑی پریشان کن ہے۔
آج سے دس سال پہلے تک سیاسی طور پر جو عالمی اور علاقائی منظر نامہ تھا اس کے تناظر میں امداد کا ملنا نسبتا آسان ہوا کرتا تھا۔ اب پرانی سیاسی صف بندیاں ختم کر کے دنیا کے ملک ایک دوسرے سے قریب آ رہے ہیں، لہٰذا اب ہمارے دیرینہ دوست ملکوں کا رویہ بھی ماضی کی طرح کا بہت فیاضانہ نہیں ہے۔ اب ڈالر خود کمانے پڑیں گے جس کی ہمیں زیادہ عادت نہیں ہے۔
یہ کام درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے75 سال تک ملک کے اندر صنعت کاری پر کوئی توجہ نہیں دی اور خود کو درآمدی اشیا کی مارکیٹ بنائے رکھا لہٰذا درآمدات میں غیر معمولی کٹوتی بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس سے رہی سہی کاروباری سرگرمیاں ماند پڑجائیں گی۔
حکومت کو نا صرف ٹیکسوں کی مد میں کمی کا مسئلہ ہو گا بلکہ بے روزگاری بھی کافی بڑھ جائے گی اور پہلے سے موجود سیاسی و معاشی عدم استحکام بھی شدید تر ہو جائے گا۔ اس لیے درآمدی بل میں فوری کمی کے لیے علاقائی تجارت کو بلا تاخیر فروغ دینا ہوگا۔
اس مقصد کے لیے تمام پڑوسی ممالک سے بلا امتیاز تجارت کا آغاز کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے نا صرف درآمدی بل بہت کم ہو گا بلکہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بہت کم ہو جائیں گی۔ اس تجارتی پالیسی سے ہماری برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
ان معاملات کے ساتھ ہمیں بعض دیگر تلخ حقائق بھی تسلیم کرنے ہوں گے، ایسا کیے بغیر موجودہ بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔ سب سے پہلے اس امر پر غور کریں کہ ہم کپاس پیدا کرنے والے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے ملک ہیں جب کہ بنگلہ دیش کپاس پیدا نہ کرنے کے باوجود تیار شدہ ملبوسات اور ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والا چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اس شعبے میں وہ 46 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ کا زر مبادلہ کماتا ہے۔
کیا یہ غور طلب بات نہیں کہ ہماری ٹیکسٹائل برآمدات بہ مشکل صرف 14 ارب ڈالر تک محدود کیوں ہیں؟ ہمارے لیے بنگلہ دیش جیسی پالیسی اختیار کرنے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ اس سوال کا جواب پالیسی سازوں سے مانگنا تو چاہیے! برآمدات بڑھانے اور زر مبادلہ کمانے کے لیے آئی ٹی سیکٹر کو مسلسل نظر انداز کیوں کیا جاتا رہا ہے؟
ہندوستان اگر آئی ٹی برآمدات سے تقریباً دو سو ارب ڈالر کما سکتا ہے تو ہم اس اہم شعبے کو غیر معمولی ترغیبات دے کر چند برسوں میں 10 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کیوں نہیں کر سکتے؟ ای کامرس کے ذریعے دنیا میں اربوں ڈالر کا کاروبار ہو رہا ہے۔
پاکستان کے ذہین نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر کے ملک با آسانی کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کما سکتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے اور غیر روایتی شعبے موجود ہیں، جن پر فوری عمل کر کے معاشی بحران کی شدت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی دنیا میں کرنے کو بہت کچھ ہے اگر ہم کچھ کرنا چاہیں، سر جوڑ کر بیٹھا جائے، پرانے دور کی سیاسی اور نظریاتی سوچ ترک کرتے ہوئے خود کو جدید دنیا کا حصہ بنانے کے لیے ایک قابل عمل میثاق معیشت پر قومی اتفاق رائے کے ذریعے آگے بڑھنے کا عزم کیا جائے، ایسا کیے بغیر معاشی بحران کے اس خطرناک گرداب سے باہر نکلنے کی کوئی امید خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی۔