سرکاری یونیورسٹیوں کا بحران
اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کو کمرشل بنادیا گیا ہے
اس ملک کی عجیب سی تاریخ ہے۔ ملک اپنے قیام کے بعد سے سیاسی و معاشی بحرانوں کا شکار رہا ہے مگر ان بحرانوں سے سب سے زیادہ تعلیم اور صحت کا شعبہ متاثر ہوتا ہے۔
جب پاکستان بھارت سے دو جنگوں میں الجھا تو تعلیم اور صحت کا بجٹ کم ہوا۔ جب میاں نواز شریف نے 1999میں چاغی میں ایٹمی دھماکے کرنے کے احکامات جاری کیے اور امریکا نے اقتصادی امداد روکی تو تعلیم کے بجٹ میں کمی کی گئی۔
اب ملک پھر شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت نے یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں آیندہ ڈیڑھ فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے مگر معاملہ اگلے مالیاتی سال میں فنڈزکی تخفیف تک محدود نہیں رہا بلکہ موجودہ مالیاتی سال کی مالیاتی قسط میں بھی 5 فیصد کٹوتی کردی گئی ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ماہ جون کی گرانٹ میں تمام جامعات کے لیے 5 فیصد کٹوتی کے ساتھ بھجوائی۔ اس طرح آیندہ مالیاتی سال کی گرانٹ میں ڈیڑھ فیصد کمی کی گئی ہے۔ وفاق کے تحت چلنے والی اردو یونیورسٹی کی سالانہ گرانٹ میں سے بھی 54 ملین روپے منہا کیے گئے۔ سندھ کی دیگر جامعات کی مجموعی گرانٹ سے بھی اسی طرح 5.5 فیصد کٹوتی کی گئی۔
سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں نے فیسیں بڑھانے کا سلسلہ شرع کردیا۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا وطالبات نے فیسوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے صر ف 59.7 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں جوکہ یونیورسٹیوں کی ضروریات کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔
ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختارکا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں کو اپنی یونیورسٹیوں کے مالیاتی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے صوبائی حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ نئے کیمپس قائم نہ کریں۔
ڈاکٹر مختار نے صوبائی حکومتوں کے زیرِ کنٹرول یونیورسٹیوں کے مالیاتی مسائل کے حل کا فارمولہ آشکار کیا مگر وفاقی حکومت کی جامعات کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت وفاق کی تین بڑی یونیورسٹیوں وفاقی اردو یونیورسٹی، علامہ اقبال یونیورسٹی اورکامسیٹس میں وائس چانسلر موجود نہیں ہیں۔
سب سے زیادہ خراب حالات وفاقی اردو یونیورسٹی کے ہیں۔ یونیورسٹی میں گزشتہ 2 ماہ سے کوئی قائم مقام وائس چانسلر بھی نہیں ہے۔
اس ماہ ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی نہیں ہوسکی۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کے ارکان کو پنشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی نہیں ہوسکی ہے۔ ان ریٹائر ہونے والے اساتذہ میں سے دو انتقال کرچکے ہیں۔ اردو یونیورسٹی کا المیہ ہے کہ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن کے دور میں ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس متعارف کرایا گیا۔
یہ آرڈیننس پاکستان کے کلچرکے مطابق نہیں ہے، یوں اردو یونیورسٹی مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ 2002 سے اب تک ایک درجن سے زائد وائس چانسلر ٰآئے اور چلے گئے۔
صدرِ پاکستان یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے کچھ تاجر دوستوں کو یونیورسٹی کی سینیٹ کا رکن بنایا جنھیں یونیورسٹی امور کا کوئی تجربہ نہیں تھا، یوں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے گائیڈ لائن کو نظراندازکیا گیا۔ ایچ ای سی نے ان تقرریوں کے بارے میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بنائی تو اس کمیٹی کی سفارشات کو بھی نظرانداز کردیا گیا، یوں یونیورسٹی کا مالیاتی خسارہ مزید بڑھ گیا۔
ان عناصر نے مستقل وائس چانسلر کے تقرر میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ معروف دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد اور کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد ڈاکٹر ریاض احمد نے جو گزشتہ سال اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن تھے، یونیورسٹی کے قانون کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کیں۔
مخصوص مفادات کے حامل افراد نے یونیورسٹی کی سینیٹ کے ایجنڈا میں یہ تجاویز شامل نہ ہونے دیں مگر وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان تجاویز کا مثبت جائزہ لیا، البتہ سیاسی معاملات اتنے زیادہ گھمبیر ہیں کہ یونیورسٹی کے قانون میں تبدیلی کے عمل کو مکمل کرنے پر مکمل توجہ نہیں دے پا رہی ہے۔
اس وقت یونیورسٹی کی انتظامیہ ہائر ایجوکیشن کمیشن، وفاقی وزارتِ تعلیم اور وزیراعظم ہاؤس سے جنگ میں مصروف ہے جس کے نتیجہ میں اردو زبان کے نام پر بننے والا قومی ادارہ زوال پزیر ہے۔ معاملہ صرف ایک وفاقی یونیورسٹی کا نہیں ہے دیگر یونیورسٹیوں کے حالا ت بھی مخدوش ہیں۔
پیپلز پارٹی کی پہلے حکومت میں خیبر پختون خوا کے پسماندہ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ اس یونیورسٹی میں 45 سال قبل شعبہ صحافت قائم کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان، اس سے متصل قبائلی علاقوں اور افغانستان کے بہت سے طلبہ نے گومل یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں تعلیم حاصل کی۔
اس شعبہ سے کئی نامور صحافی اور اساتذہ فارغ التحصیل ہوئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ شعبہ صحافت ماس کمیونی کیشن اور میڈیا اسٹڈیز میں تبدیل ہوا۔ اب ان شعبوں میں صحافت، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا جیسے جدید مضامین پڑھائے جانے لگے، مگر شاید گومل یونیورسٹی کے اربابِ اختیار نے شعبہ صحافت کو جدید بنانے پر توجہ نہیں دی، یوں شعبہ میں طلبہ کے داخلے لینے کی شرح کم ہوتی چلی گئی۔
اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کو کمرشل بنادیا گیا ہے، اگرکسی شعبہ میں طلبہ کی تعداد کم ہوتی ہے تو پھر داخلے نہیں دیے جاتے، یوں داخلے کم ہونے کی بناء پر اب گومل یونیورسٹی کے معزز وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر شکیب اﷲ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ایجنڈا میں یہ نکتہ شامل کیا گیا ہے کہ وہ شعبہ جات بھی بند کریں گے۔
جن میں طلبہ کی تعداد کم ہے کیونکہ طلبہ کی تعداد کم ہونے سے یہ شعبہ جات یونیورسٹی پر مالی بوجھ بن گئے ہیں۔ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا مالیاتی وجوہات کی بناء پر یہ اعلان ایک قومی المیہ سے کم نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے اربابِ اختیارکوگومل یونیورسٹی کے مالیاتی بدحالی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت تقریباً 9 سال سے زیادہ عرصہ تک برسرِ اقتدار رہی، مگر یونیورسٹی کے حالتِ زار پر کوئی توجہ نہ دی۔ سابقہ دور میں کے پی کی یونیورسٹیوں میں بدانتظامی اور مالیاتی بحرانوں کی صورتحال رہی۔ موجودہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے لیے بھی تعلیم کا معاملہ اہم نہیں ہے۔
دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں پرانے شعبے ختم نہیں ہوتے اور نئے شعبے بنتے ہیں، مگر کے پی میں سب کچھ مختلف ہورہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملک سے غربت کا خاتمہ صد فی صد خواندگی کے ہدف کو حاصل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ یونیورسٹیاں اپنی تحقیق کے ذریعہ سماجی اداروں کی رہنمائی کرتی ہیں۔ یونیورسٹیاں انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہوجائیں تو وہ اپنا یہ بنیادی فریضہ ادا نہیں کرسکتیں۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے اپنی جماعت کے منشور میں یہ ہدف پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں نہ مسلم لیگ ن اور نہ ہی پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں یہ ہدف پورا ہوا بلکہ ہمیشہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی ہوتی رہی۔ سرکاری جامعات کا انفرا اسٹرکچر فرسودہ ہوچکا ہے اور جامعات مسلسل مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔
سرکاری یونیورسٹیوں میں جدید ترین سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اس حکومت نے پھر یونیورسٹیوں کے بجٹ میں کمی کی ہے۔ مستقبل میں بر سر اقتدار آنے والی حکومت سے بھی اس ضمن میں کوئی امید نہیں ہے۔
جب پاکستان بھارت سے دو جنگوں میں الجھا تو تعلیم اور صحت کا بجٹ کم ہوا۔ جب میاں نواز شریف نے 1999میں چاغی میں ایٹمی دھماکے کرنے کے احکامات جاری کیے اور امریکا نے اقتصادی امداد روکی تو تعلیم کے بجٹ میں کمی کی گئی۔
اب ملک پھر شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت نے یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں آیندہ ڈیڑھ فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے مگر معاملہ اگلے مالیاتی سال میں فنڈزکی تخفیف تک محدود نہیں رہا بلکہ موجودہ مالیاتی سال کی مالیاتی قسط میں بھی 5 فیصد کٹوتی کردی گئی ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ماہ جون کی گرانٹ میں تمام جامعات کے لیے 5 فیصد کٹوتی کے ساتھ بھجوائی۔ اس طرح آیندہ مالیاتی سال کی گرانٹ میں ڈیڑھ فیصد کمی کی گئی ہے۔ وفاق کے تحت چلنے والی اردو یونیورسٹی کی سالانہ گرانٹ میں سے بھی 54 ملین روپے منہا کیے گئے۔ سندھ کی دیگر جامعات کی مجموعی گرانٹ سے بھی اسی طرح 5.5 فیصد کٹوتی کی گئی۔
سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں نے فیسیں بڑھانے کا سلسلہ شرع کردیا۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا وطالبات نے فیسوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے صر ف 59.7 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں جوکہ یونیورسٹیوں کی ضروریات کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔
ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختارکا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں کو اپنی یونیورسٹیوں کے مالیاتی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے صوبائی حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ نئے کیمپس قائم نہ کریں۔
ڈاکٹر مختار نے صوبائی حکومتوں کے زیرِ کنٹرول یونیورسٹیوں کے مالیاتی مسائل کے حل کا فارمولہ آشکار کیا مگر وفاقی حکومت کی جامعات کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت وفاق کی تین بڑی یونیورسٹیوں وفاقی اردو یونیورسٹی، علامہ اقبال یونیورسٹی اورکامسیٹس میں وائس چانسلر موجود نہیں ہیں۔
سب سے زیادہ خراب حالات وفاقی اردو یونیورسٹی کے ہیں۔ یونیورسٹی میں گزشتہ 2 ماہ سے کوئی قائم مقام وائس چانسلر بھی نہیں ہے۔
اس ماہ ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی نہیں ہوسکی۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کے ارکان کو پنشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی نہیں ہوسکی ہے۔ ان ریٹائر ہونے والے اساتذہ میں سے دو انتقال کرچکے ہیں۔ اردو یونیورسٹی کا المیہ ہے کہ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن کے دور میں ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس متعارف کرایا گیا۔
یہ آرڈیننس پاکستان کے کلچرکے مطابق نہیں ہے، یوں اردو یونیورسٹی مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ 2002 سے اب تک ایک درجن سے زائد وائس چانسلر ٰآئے اور چلے گئے۔
صدرِ پاکستان یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے کچھ تاجر دوستوں کو یونیورسٹی کی سینیٹ کا رکن بنایا جنھیں یونیورسٹی امور کا کوئی تجربہ نہیں تھا، یوں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے گائیڈ لائن کو نظراندازکیا گیا۔ ایچ ای سی نے ان تقرریوں کے بارے میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بنائی تو اس کمیٹی کی سفارشات کو بھی نظرانداز کردیا گیا، یوں یونیورسٹی کا مالیاتی خسارہ مزید بڑھ گیا۔
ان عناصر نے مستقل وائس چانسلر کے تقرر میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ معروف دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد اور کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد ڈاکٹر ریاض احمد نے جو گزشتہ سال اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن تھے، یونیورسٹی کے قانون کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کیں۔
مخصوص مفادات کے حامل افراد نے یونیورسٹی کی سینیٹ کے ایجنڈا میں یہ تجاویز شامل نہ ہونے دیں مگر وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان تجاویز کا مثبت جائزہ لیا، البتہ سیاسی معاملات اتنے زیادہ گھمبیر ہیں کہ یونیورسٹی کے قانون میں تبدیلی کے عمل کو مکمل کرنے پر مکمل توجہ نہیں دے پا رہی ہے۔
اس وقت یونیورسٹی کی انتظامیہ ہائر ایجوکیشن کمیشن، وفاقی وزارتِ تعلیم اور وزیراعظم ہاؤس سے جنگ میں مصروف ہے جس کے نتیجہ میں اردو زبان کے نام پر بننے والا قومی ادارہ زوال پزیر ہے۔ معاملہ صرف ایک وفاقی یونیورسٹی کا نہیں ہے دیگر یونیورسٹیوں کے حالا ت بھی مخدوش ہیں۔
پیپلز پارٹی کی پہلے حکومت میں خیبر پختون خوا کے پسماندہ علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ اس یونیورسٹی میں 45 سال قبل شعبہ صحافت قائم کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان، اس سے متصل قبائلی علاقوں اور افغانستان کے بہت سے طلبہ نے گومل یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں تعلیم حاصل کی۔
اس شعبہ سے کئی نامور صحافی اور اساتذہ فارغ التحصیل ہوئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ شعبہ صحافت ماس کمیونی کیشن اور میڈیا اسٹڈیز میں تبدیل ہوا۔ اب ان شعبوں میں صحافت، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا جیسے جدید مضامین پڑھائے جانے لگے، مگر شاید گومل یونیورسٹی کے اربابِ اختیار نے شعبہ صحافت کو جدید بنانے پر توجہ نہیں دی، یوں شعبہ میں طلبہ کے داخلے لینے کی شرح کم ہوتی چلی گئی۔
اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کو کمرشل بنادیا گیا ہے، اگرکسی شعبہ میں طلبہ کی تعداد کم ہوتی ہے تو پھر داخلے نہیں دیے جاتے، یوں داخلے کم ہونے کی بناء پر اب گومل یونیورسٹی کے معزز وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر شکیب اﷲ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ایجنڈا میں یہ نکتہ شامل کیا گیا ہے کہ وہ شعبہ جات بھی بند کریں گے۔
جن میں طلبہ کی تعداد کم ہے کیونکہ طلبہ کی تعداد کم ہونے سے یہ شعبہ جات یونیورسٹی پر مالی بوجھ بن گئے ہیں۔ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا مالیاتی وجوہات کی بناء پر یہ اعلان ایک قومی المیہ سے کم نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے اربابِ اختیارکوگومل یونیورسٹی کے مالیاتی بدحالی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت تقریباً 9 سال سے زیادہ عرصہ تک برسرِ اقتدار رہی، مگر یونیورسٹی کے حالتِ زار پر کوئی توجہ نہ دی۔ سابقہ دور میں کے پی کی یونیورسٹیوں میں بدانتظامی اور مالیاتی بحرانوں کی صورتحال رہی۔ موجودہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے لیے بھی تعلیم کا معاملہ اہم نہیں ہے۔
دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں پرانے شعبے ختم نہیں ہوتے اور نئے شعبے بنتے ہیں، مگر کے پی میں سب کچھ مختلف ہورہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملک سے غربت کا خاتمہ صد فی صد خواندگی کے ہدف کو حاصل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ یونیورسٹیاں اپنی تحقیق کے ذریعہ سماجی اداروں کی رہنمائی کرتی ہیں۔ یونیورسٹیاں انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہوجائیں تو وہ اپنا یہ بنیادی فریضہ ادا نہیں کرسکتیں۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی سابقہ چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے اپنی جماعت کے منشور میں یہ ہدف پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں نہ مسلم لیگ ن اور نہ ہی پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں یہ ہدف پورا ہوا بلکہ ہمیشہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی ہوتی رہی۔ سرکاری جامعات کا انفرا اسٹرکچر فرسودہ ہوچکا ہے اور جامعات مسلسل مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔
سرکاری یونیورسٹیوں میں جدید ترین سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اس حکومت نے پھر یونیورسٹیوں کے بجٹ میں کمی کی ہے۔ مستقبل میں بر سر اقتدار آنے والی حکومت سے بھی اس ضمن میں کوئی امید نہیں ہے۔