یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
اسٹنگر میزائل ملنے کی دیر تھی کہ جنگ افغانستان میں سوویت یونین کی ہوا اکھڑ گئی ...
QUETTA:
پہلے تو مجھے یقین ہی نہ آیا کہ یہ بریگیڈیئر محمد یوسف کا گھر ہے ۔ صبح ، جب میں ان سے ملنے کے لیے لاہور سے واہ کینٹ آ رہا تھا ، تو میرے ذہن میں تھا کہ کوئی محل نما گھر ہوگا ۔ جب سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں تاریخ کی سب سے بڑی گوریلا جنگ لڑی جا رہی تھی، تو یہ بریگیڈیئر محمد یوسف تھے ، جو آئی ایس آئی کے افغان سیل کے چیف تھے، اور اس دوران میں اربوں کھربوںڈالر کا اسلحہ انھی کے ہاتھوں سے افغانستان میں جہادی تنظیموں میں تقسیم ہوتا رہا تھا۔ میں جنگ افغانستان پر ایک ریسرچ پیپر لکھ رہا تھا اور اسی سلسلے میں بریگیڈیر یوسف کا انٹرویو کرنے آیا تھا۔
میری توقع کے بر خلاف، یہ دس بارہ مرلہ کا ایک سادہ سا گھر تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ ایک درویش خدا مست کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ بریگیڈیئر محمدیوسف نے سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان میں آئی ایس آئی کے سرفروشانہ کردار پر The Bear Trap اور The Silent Soldier دو کتابیں بھی لکھی ہیں، جو اب تک اس موضوع پر لکھی گئی مستند ترین چیزیں ہیں ۔ آئی ایس آئی کے اس مرد مجاہد نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خاموش زندگی بسرکی ا ور ایک دن اسی خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آج آئی ایس آئی پر لکھنے بیٹھا ہوں تو اس مردمجاہد کی یاد آنکھ میں آنسو بن کے جھلملا رہی ہے۔ اگرچہ آئی ایس آئی ، جنگ افغانستان سے پہلے بھی بروئے کار تھی، لیکن اس کو عالمگیر شہرت سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان سے ہی ملی۔
دسمبر1979 میں جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اول اول یہ آئی ایس آئی اوراس کے چیف جنرل اختر عبدالرحمان خان تھے ، جنہوں نے جنرل ضیاالحق سے یہ کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کے اندر سے مزاحمت منظم کی جا سکتی ہے ، اور یہ کہ آئی ایس آئی یہ خفیہ آپریشن کرنے کی بھرپور استعداد رکھتی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کا یہ وہ ابتدائی دور تھا ، جب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تک ، آئی ایس آئی کے اس covert operation کو ناقابل عمل قرار دیتی تھی ۔ تقریباً ایک سال تک آئی ایس آئی تنہا افغانستان میں سرگرم عمل رہی تھی ،اوراس کے بعد ہی امریکا اوریورپ نے اس جنگ میں قدم رکھا تھا۔
جنگ افغانستان کا دوسرا نمایاں پہلو یہ تھا کہ یہ صرف آئی ایس آئی تھی ، جس کا افغان کمانڈروں سے براہ راست رابطہ ہوتا تھا۔ سی آئی اے سمیت یورپ کی کسی خفیہ ایجنسی کو افغانستان کے اندرڈائریکٹ آپریٹ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کوئی غیر ملکی سفارت کار یا اہل کار، آئی ایس آئی کی مرضی کے بغیر کسی افغان کمانڈر سے مل نہیں سکتا تھا۔ یہ آئی ایس آئی چیف ہی تھے ، جنہوں نے امریکا کو اس امر پر قائل کیا کہ جب تک افغان مزاحمت کاروں کو سوویت یونین کے ائرسڑائیک کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے سٹنگر میزائل مہیا نہیں کیے جائیں گے' افغان جنگ فتح سے ہم کنار نہیں ہو سکے گی۔آخرکار ، امریکا کو آئی ایس آئی کی اس حکمت عملی پر صاد کرنا پڑا اور افغان مزاحمت کاروں کو اسٹنگر میزائل ملنا شروع ہوگئے۔
اسٹنگر میزائل ملنے کی دیر تھی کہ جنگ افغانستان میں سوویت یونین کی ہوا اکھڑ گئی ، اور اس نے افغانستان سے بحفاظت نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیے۔ صاف ظاہر تھا کہ آئی ایس آئی کی منصوبہ بندی کامیاب رہی ہے ۔سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان میں آئی ایس آئی کی یہ کامیابی اس قدر عظیم الشان تھی کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاںانگشت بدنداں تھیں ۔ یہی وہ مرحلہ تھا ، جب آئی ایس آئی ، ان خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی تھی ، اور رقابت کی آگ ان کے سینوں کو بری طرح جلانے لگی تھی ۔ صرف باہر سے نہیں ، پاکستان کے اندر سے بھی آئی ایس آئی کے خلاف بے بنیا د پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔
آئی ایس آئی کو معاہدہ جینیوا پر سخت تحفظات تھے اور اس معاملہ میں جنرل ضیاالحق بھی اس کے ہم نوا تھے ۔ چوہدری شجاعت حسین راوی ہیں ،'' ایک دن فوری طور پر ایوان صدر پہنچنے کا حکم ملا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وزیراعظم جونیجو ، وزیرخزانہ یاسین وٹو اور وزیرمملکت برائے امور خارجہ زین نورانی پہلے سے موجود ہیں۔ جنرل ضیاالحق غصے سے کھول رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ اگر حکومت نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے ، تو عوام آپ کی بوٹیاں نوچ لیں گے ۔ ایک صوفے کے کنارے پرآگے ہو کے وہ بیٹھے ہوئے تھے ، اور اتنے غصے میں انھوں نے یہ کہا کہ صوفہ پر اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئے۔ میٹنگ کا ماحول مگر اتنا گمبھیر تھا کہ ان کے اس طرح گرنے کے باوجود ہر کسی کے چہرے پر تناو کی کیفیت جوں کی توں تھی۔''
معاہدہ جینیوا کے فوراً بعد اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہوا ، توآئی ایس آئی مخالف عناصرکو موقع مل گیا۔ آئی ایس آئی کو اس سانحہ میں ملوث کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں ۔ حقیقتاً ، یہی اختلافات تھے، جو چند ہفتوں کے اندراندر جونیجو حکومت کو لے ڈوبے تھے۔ سانحہ اوجڑی کیمپ نقطہ ء آغاز تھا، اس کے بعد پھر آئی ایس آئی کے خلاف ایک منظم مہم شروع ہو گئی ، جو آج تک جاری ہے، اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس مکروہ مہم کو پہلے دن سے ' سی آئی اے' اور 'را' کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ دنیا بھر میں قومی خفیہ ایجنسیوں کو بے پناہ عزت وتکریم سے نوازا جاتا ہے۔ اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوںکے کارناموں پر فلمیں تیار کی جاتی ہیں ، اپنے اپنے سیکرٹ ایجنٹوں کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو اپنے وطن کے لیے نہ صرف یہ کہ اپنی جان ، بلکہ اپنی شناخت تک قربان کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر نجانے کہاں کہاں ان سرفروشوں کی بے نام قبریں ہیں ، جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی جان کا نذرانہ اس طرح پیش کیا کہ یہاں ان کی مائوں کو صرف اتنا معلوم ہوا کہ کہیں بہت دور، کسی انجان مقام پرآج ان کا بیٹا مادروطن پر قربان ہو گیا ہے۔ ماں کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے اور اس نے کہا، اے خدا ، میرے بیٹے کی شہادت قبول فرما۔ عظیم مسلم سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کی جنگی کامیابیوں کا راز کیا ہے۔ سپہ سالار نے اپنے انٹیلی جنس چیف علی بن سفیان کی طرف دیکھ کر کہا، ' میری فوج کا خفیہ شعبہ ؛کیونکہ اس کے ذریعے سے ، میں نہ صرف یہ کہ دشمن کی نقل وحرکت پر مستقل نگاہ رکھتا ہوں ، بلکہ اس کے عزائم کا پیشگی اندازہ بھی کر لیتا ہوں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایس ایس جی ( اسپیشل سروسز گروپ ) پاک فوج کا بازوئے شمشیر زن ہے، تو آئی ایس آئی (انٹرسروسز انٹیلی جنس ) پاک فوج کی آنکھیں اور کان ہیں۔ آئی ایس آئی پر حملہ، صرف پاک فوج پر حملہ نہیں ، سیدھا اوربراہ راست پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے، اورجو لوگ بھی آئی ایس آئی کے خلاف اس خطرناک حملہ میں دامے ، درمے ، سخنے حصہ لے رہے ہیں ، وہ ملک کے دفاعی اداروں سے ہی نہیں ، ملکی سلامتی سے بھی کھیل رہے ہیں ۔ پاکستان کے لیے آئی ایس آئی کی جو بے بہا خدمات ہیں ، ان پرحسینہ واجد کے ایوارڈیافتہ ایک ٹی وی اینکر کے بے سروپا الزامات کی بنیاد پر یک قلم خط تنسیخ نہیں پھیرا جا سکتا ، نہیں صاحب ، ہر گز نہیں ۔ شاعر نے کہا تھا ؎
درپردہ انھیں غیر سے ہے ربط نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردا نہیں کرتے
پہلے تو مجھے یقین ہی نہ آیا کہ یہ بریگیڈیئر محمد یوسف کا گھر ہے ۔ صبح ، جب میں ان سے ملنے کے لیے لاہور سے واہ کینٹ آ رہا تھا ، تو میرے ذہن میں تھا کہ کوئی محل نما گھر ہوگا ۔ جب سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں تاریخ کی سب سے بڑی گوریلا جنگ لڑی جا رہی تھی، تو یہ بریگیڈیئر محمد یوسف تھے ، جو آئی ایس آئی کے افغان سیل کے چیف تھے، اور اس دوران میں اربوں کھربوںڈالر کا اسلحہ انھی کے ہاتھوں سے افغانستان میں جہادی تنظیموں میں تقسیم ہوتا رہا تھا۔ میں جنگ افغانستان پر ایک ریسرچ پیپر لکھ رہا تھا اور اسی سلسلے میں بریگیڈیر یوسف کا انٹرویو کرنے آیا تھا۔
میری توقع کے بر خلاف، یہ دس بارہ مرلہ کا ایک سادہ سا گھر تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ ایک درویش خدا مست کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ بریگیڈیئر محمدیوسف نے سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان میں آئی ایس آئی کے سرفروشانہ کردار پر The Bear Trap اور The Silent Soldier دو کتابیں بھی لکھی ہیں، جو اب تک اس موضوع پر لکھی گئی مستند ترین چیزیں ہیں ۔ آئی ایس آئی کے اس مرد مجاہد نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خاموش زندگی بسرکی ا ور ایک دن اسی خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آج آئی ایس آئی پر لکھنے بیٹھا ہوں تو اس مردمجاہد کی یاد آنکھ میں آنسو بن کے جھلملا رہی ہے۔ اگرچہ آئی ایس آئی ، جنگ افغانستان سے پہلے بھی بروئے کار تھی، لیکن اس کو عالمگیر شہرت سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان سے ہی ملی۔
دسمبر1979 میں جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اول اول یہ آئی ایس آئی اوراس کے چیف جنرل اختر عبدالرحمان خان تھے ، جنہوں نے جنرل ضیاالحق سے یہ کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کے اندر سے مزاحمت منظم کی جا سکتی ہے ، اور یہ کہ آئی ایس آئی یہ خفیہ آپریشن کرنے کی بھرپور استعداد رکھتی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کا یہ وہ ابتدائی دور تھا ، جب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تک ، آئی ایس آئی کے اس covert operation کو ناقابل عمل قرار دیتی تھی ۔ تقریباً ایک سال تک آئی ایس آئی تنہا افغانستان میں سرگرم عمل رہی تھی ،اوراس کے بعد ہی امریکا اوریورپ نے اس جنگ میں قدم رکھا تھا۔
جنگ افغانستان کا دوسرا نمایاں پہلو یہ تھا کہ یہ صرف آئی ایس آئی تھی ، جس کا افغان کمانڈروں سے براہ راست رابطہ ہوتا تھا۔ سی آئی اے سمیت یورپ کی کسی خفیہ ایجنسی کو افغانستان کے اندرڈائریکٹ آپریٹ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کوئی غیر ملکی سفارت کار یا اہل کار، آئی ایس آئی کی مرضی کے بغیر کسی افغان کمانڈر سے مل نہیں سکتا تھا۔ یہ آئی ایس آئی چیف ہی تھے ، جنہوں نے امریکا کو اس امر پر قائل کیا کہ جب تک افغان مزاحمت کاروں کو سوویت یونین کے ائرسڑائیک کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے سٹنگر میزائل مہیا نہیں کیے جائیں گے' افغان جنگ فتح سے ہم کنار نہیں ہو سکے گی۔آخرکار ، امریکا کو آئی ایس آئی کی اس حکمت عملی پر صاد کرنا پڑا اور افغان مزاحمت کاروں کو اسٹنگر میزائل ملنا شروع ہوگئے۔
اسٹنگر میزائل ملنے کی دیر تھی کہ جنگ افغانستان میں سوویت یونین کی ہوا اکھڑ گئی ، اور اس نے افغانستان سے بحفاظت نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیے۔ صاف ظاہر تھا کہ آئی ایس آئی کی منصوبہ بندی کامیاب رہی ہے ۔سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان میں آئی ایس آئی کی یہ کامیابی اس قدر عظیم الشان تھی کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاںانگشت بدنداں تھیں ۔ یہی وہ مرحلہ تھا ، جب آئی ایس آئی ، ان خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی تھی ، اور رقابت کی آگ ان کے سینوں کو بری طرح جلانے لگی تھی ۔ صرف باہر سے نہیں ، پاکستان کے اندر سے بھی آئی ایس آئی کے خلاف بے بنیا د پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔
آئی ایس آئی کو معاہدہ جینیوا پر سخت تحفظات تھے اور اس معاملہ میں جنرل ضیاالحق بھی اس کے ہم نوا تھے ۔ چوہدری شجاعت حسین راوی ہیں ،'' ایک دن فوری طور پر ایوان صدر پہنچنے کا حکم ملا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وزیراعظم جونیجو ، وزیرخزانہ یاسین وٹو اور وزیرمملکت برائے امور خارجہ زین نورانی پہلے سے موجود ہیں۔ جنرل ضیاالحق غصے سے کھول رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ اگر حکومت نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے ، تو عوام آپ کی بوٹیاں نوچ لیں گے ۔ ایک صوفے کے کنارے پرآگے ہو کے وہ بیٹھے ہوئے تھے ، اور اتنے غصے میں انھوں نے یہ کہا کہ صوفہ پر اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئے۔ میٹنگ کا ماحول مگر اتنا گمبھیر تھا کہ ان کے اس طرح گرنے کے باوجود ہر کسی کے چہرے پر تناو کی کیفیت جوں کی توں تھی۔''
معاہدہ جینیوا کے فوراً بعد اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہوا ، توآئی ایس آئی مخالف عناصرکو موقع مل گیا۔ آئی ایس آئی کو اس سانحہ میں ملوث کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں ۔ حقیقتاً ، یہی اختلافات تھے، جو چند ہفتوں کے اندراندر جونیجو حکومت کو لے ڈوبے تھے۔ سانحہ اوجڑی کیمپ نقطہ ء آغاز تھا، اس کے بعد پھر آئی ایس آئی کے خلاف ایک منظم مہم شروع ہو گئی ، جو آج تک جاری ہے، اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس مکروہ مہم کو پہلے دن سے ' سی آئی اے' اور 'را' کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ دنیا بھر میں قومی خفیہ ایجنسیوں کو بے پناہ عزت وتکریم سے نوازا جاتا ہے۔ اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوںکے کارناموں پر فلمیں تیار کی جاتی ہیں ، اپنے اپنے سیکرٹ ایجنٹوں کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو اپنے وطن کے لیے نہ صرف یہ کہ اپنی جان ، بلکہ اپنی شناخت تک قربان کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر نجانے کہاں کہاں ان سرفروشوں کی بے نام قبریں ہیں ، جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی جان کا نذرانہ اس طرح پیش کیا کہ یہاں ان کی مائوں کو صرف اتنا معلوم ہوا کہ کہیں بہت دور، کسی انجان مقام پرآج ان کا بیٹا مادروطن پر قربان ہو گیا ہے۔ ماں کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے اور اس نے کہا، اے خدا ، میرے بیٹے کی شہادت قبول فرما۔ عظیم مسلم سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کی جنگی کامیابیوں کا راز کیا ہے۔ سپہ سالار نے اپنے انٹیلی جنس چیف علی بن سفیان کی طرف دیکھ کر کہا، ' میری فوج کا خفیہ شعبہ ؛کیونکہ اس کے ذریعے سے ، میں نہ صرف یہ کہ دشمن کی نقل وحرکت پر مستقل نگاہ رکھتا ہوں ، بلکہ اس کے عزائم کا پیشگی اندازہ بھی کر لیتا ہوں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایس ایس جی ( اسپیشل سروسز گروپ ) پاک فوج کا بازوئے شمشیر زن ہے، تو آئی ایس آئی (انٹرسروسز انٹیلی جنس ) پاک فوج کی آنکھیں اور کان ہیں۔ آئی ایس آئی پر حملہ، صرف پاک فوج پر حملہ نہیں ، سیدھا اوربراہ راست پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے، اورجو لوگ بھی آئی ایس آئی کے خلاف اس خطرناک حملہ میں دامے ، درمے ، سخنے حصہ لے رہے ہیں ، وہ ملک کے دفاعی اداروں سے ہی نہیں ، ملکی سلامتی سے بھی کھیل رہے ہیں ۔ پاکستان کے لیے آئی ایس آئی کی جو بے بہا خدمات ہیں ، ان پرحسینہ واجد کے ایوارڈیافتہ ایک ٹی وی اینکر کے بے سروپا الزامات کی بنیاد پر یک قلم خط تنسیخ نہیں پھیرا جا سکتا ، نہیں صاحب ، ہر گز نہیں ۔ شاعر نے کہا تھا ؎
درپردہ انھیں غیر سے ہے ربط نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردا نہیں کرتے