مزدوروں کا عالمی دن
یکم مئی 1886میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کے لیے شکاگو میں جب ہڑتال شروع ہوئی تو ...
1886 کے واقعے سے قبل 1884 میں بھی ایک بڑی ہڑتال ہوئی جس کی خبر جرمنی زبان میں امریکا سے ایک ہفت روزہ 'دی شکاگو اربیٹر زیٹنگ' میں شایع ہوئی۔ اسے جرمنی کے 26 ہزار مہاجر مزدوروں نے پڑھا۔ یہ خبریں انگریزی، بوہیمین اور اسکینڈے نیوین زبانوں میں بھی شایع ہوئیں ۔ اس سلسلے میں مزدوروں کی حوصلہ افزائی کے لیے شکاگو کی مزدور یونینوں میں پکنک، تقاریر، لائبریری، رقص اور دیگر پروگراموں کا انعقاد کیا۔ ان عوامل سے محنت کش طبقہ منظم ہوتا رہا اور ان کی ثقافت پروان چڑھتی رہی۔ یکم مئی 1886میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کے لیے شکاگو میں جب ہڑتال شروع ہوئی تو ان ہڑتالیوں میں آدھے سے زیادہ مزدور 'میکورمک ہارویسٹر کمپنی' کے تھے۔
دو روز بعد جب عوامی جلسہ منعقد ہوا تو 'لومر شورز' یونین کے 6 ہزار مزدوروں نے شرکت کی۔ ہڑتال میں میکورمک پلانٹ کے 500 مزدور شامل ہوئے۔ پہلی تقریر میں اسپائیز نے سینٹرل لیبر یونین کو مخاطب ہوتے ہوئے مزدوروں کو متحد رہنے کی تلقین کی۔ جب 'لومر شورز' کے مزدوروں نے سڑک کی جانب پیش قدمی کی تو اچانک 200 پولیس اہلکار بغیر کسی خبرداری کے ان پر پل پڑے جس میں کم از کم ایک ہڑتالی ہلاک اور 5 یا 6 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد اسپائیز، اربیٹر زیٹانگ کے دفتر گئے اور ایک سرکلر چھاپا جس میں اسی شب کو مزدوروں سے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ احتجاجی اجلاس شکاگو کے' حے مارکیٹ' میں منعقد کیا گیا تھا جس میں اسپائز اور دیگر ٹریڈ یونین رہنمائوں البرٹ، پارسنز اور شیموئل فلڈن کو خطاب کرنا تھا۔
شکاگو کا میئر کارٹر ہیریسن جو شروع سے اس اجلاس کے دوران وہاں موجود تھا، اس کا کہنا تھا کہ 'یہاں پولیس کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 'اس نے پولیس کیپٹن جون بونفلڈ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ پولیس کو اسٹیشن ہائوس (یعنی تھانہ) میں بھیج دے'۔ رات دس بجے مزدو رہنما فلڈن جلسے کے خاتمے کا اعلان کرنے جا رہا تھا۔ موسلا دھار بارش کی وجہ سے چوک پر صرف 200 مزدور رہ گئے تھے۔ اچانک 180 کی نفری کا ایک پولیس دستہ برآمد ہوا جس کی قیادت بون فلڈ کر رہا تھا، اس نے لوگوں کو فورا منتشر ہونے کا حکم صادر کیا۔ مزدور رہنما فلڈن احتجاج کیا کہ 'ہم پر امن ہیں'۔ اسی دوران اچانک پولیس کے جتھے پر کسی نے بم پھینکا، جس کے نتیجے میں ایک فرد ہلاک، 6 شدید زخمی اور تقریبا 70 معمولی زخمی ہوئے۔
اس کے بعد پولیس نے مزدوروں پر گولی چلا دی، لیکن آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ اس موقعے پر کتنے مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ حکومتی کارندوں کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ بم سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کی جانب سے انتقام کے طور پر پھینکا گیا ۔ اس کے بعد اجلاس کے ہالز، یونین، آفس، چھاپے خانے کے مزدور اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ جب کہ سب کو یہ پتہ تھا کہ سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہاں تک کہ بہت سے معصوم لوگ جنہیں سوشلزم اور انارکزم کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا، انھیں بھی گرفتار کر کے شدید جسمانی اذیتیں دی گئی۔8 افراد پر مقدمہ چلایا گیا، جن میں اسپائز، فلڈن، پارسنز، ایڈلف فشر، جارج اینجل، میخائل شواب، لوئس لنگ اور اوسکر نیب شامل تھے۔
مقدمہ 21 جون 1886 کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل کو ریاست کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔ ان آٹھوں افراد میں سے کسی پر بھی بم پھیکے جانے کا ثبوت نہیں ملا جب کہ ان میں سے صرف تین افراد حے مارکیٹ چوک میں موجود تھے، شکاگو کے میئر ہیریسن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی نے بھی تشدد کی کارروائی کی ہو۔ مزدور رہنما پارسنز اپنے دو چھوٹے بچوں سمیت آئے ہوئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ' یہ لوگ ہزاروں لوگوں کے رہنما ہیں، یہ واقعہ ان ہی کی وجہ سے رونما ہوا، لہٰذا آپ ہمارے ادارے اور سماج کو بچانے کے لیے انھیں سزا دیں'19 اگست کو ان سب کو سزائے موت سنائی گئی۔
نیبے کو 15 سال کی قید، شدید عالمی مہم کی وجہ سے شواب اور فلڈن کو عمر قید جب کہ لنگ نے قید میں خودکشی کر لی تھی۔ پھر 11 نومبر 1887 کو اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی، ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلینڈ، آئرلینڈ اور جرمنی کے شہری تھے۔ یہ بین الاقوامیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے جنازے میں 6 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد ایک عرصے تک نیب، شواب اور فلڈن کی رہائی کے لیے مہم عالمی طور پر چلتی رہی۔ عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے اسپائز نے کہا تھا کہ یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ 'اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمیں پھانسی دینے سے محنت کشوں کی آواز ختم ہو جائے گی تو یہ تمہاری بھول ہے، اس شعلے کو جتنا دبائو گے یہ مزید بھڑکے گا' دوسری انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس 1889میں پیرس میں 'انقلاب فرانس' کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقعے پر منعقد ہوئی جس میں ریمونڈ لیونگ نے یہ تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقعے پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔ یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لیے اس تجویز کو با قاعدہ طور پر 1891 میں تسلیم کر لیا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اور یکم مئی کو دنیا بھر میں تعطیل ہوتی ہے۔ مگر آج بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہوتی اور جلسہ جلوس کی بھی اجازت نہیں ہے۔
جیسا کہ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، ایران، افغانستان، کویت، دبئی اور بھوٹان وغیرہ جب کہ جاپان شاید واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہوتی لیکن مزدور لاکھوں کی تعداد میں جلسہ جلوس کرتے ہیں اور چھٹی کا مطالبہ بھی ۔ انقلاب فرانس اور پیرس کمیون سے متاثر ہو کر شکاگو کے مزدور متحد ہوئے اور جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے مطالبات منوائے۔ اسی تسلسل میں انقلاب روس، انقلاب چین، انقلاب اسپین، انقلاب ہند و چین، بلقان، بالٹک، کوہ قاف، ایشیاء کوچک اور وسطیٰ ایشیا میں انقلابات بر پا ہوئے۔ لیکن کمیونسٹ انقلاب کی تکمیل نہ ہونے پر یہ سارے انقلاب، رد انقلاب میں تبدیل ہو گئے۔ اب پھر مزدور یورپ، امریکا، ایشیا اور افریقہ میں عظیم جدوجہد میں بر سر پیکار ہیں۔ لاطینی امریکا کے 35 ملکوں میں سے 33 میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ بر سر اقتدار ہیں۔
حال ہی میں چلی میں سوشلسٹ پارٹی کی خاتون صدر مشعل اور پیرس کی خاتون میئر منتخب ہو کر آئیں ہیں۔ اب بھی کچھ ممالک اپنے آپ کو سوشلسٹ کہلواتے ہیں جیسا کہ شمالی کوریا، زمبابوے، بیلا روس اور لاطینی امریکی ممالک وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور، چلی، مالاٹے گوئے اور، اورے گوا وغیرہ۔ عالمی طور پر سرمایہ داری انحطاط پزیر ہے۔ اس وقت ساڑھے سات ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت اور تقریبا دو ارب بے روزگار ہیں۔ عالمی سرما یہ داری کی گروتھ ریٹ اوسطا 2 فیصد تک آ گئی ہے۔ جرمنی کی 2 امریکا کی 3، جاپان کی 0 فیصد، یورپ کی 1.5 فیصد، چین کی 11 فیصد سے گھٹ کر 7.5، برازیل1 فیصد اور انڈیا 8 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد تک آ گئی ہے۔ پاکستان کے مزدورں کے حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔
ایک وہ وقت تھا یعنی 1951 میں جب سابقہ مشرقی پاکستان کی اکثریتی نشستیں کمیونسٹوں نے حاصل کی تھیں اور لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار کامریڈ مرزا ابراہیم نے مسلم لیگی مشتاق گرمانی کو شکست دی۔ کراچی کی گلی کوچوں میں 1972-73کی مزدوروں کی ہڑتالوں میں لوگ چاچا علی جان، عثمان بلوچ، عزیز الحسن، ٹکا خان، فیض اللہ اور جاوید شکور کو جانتے تھے۔ جب سائٹ سے ہزاروں کا جلوس جن میں 95 فیصد پختون مزدور ہوتے تھے اور ان کی قیادت ایک ان پڑھ مزدور رہنما چاچا علی جان کرتے تھے تو کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ علی جان تو مہاجر ہے۔
لانڈھی کورنگی ملیر اور شاہ فیصل کالونی میں بسنے والے بیشتر مزدور اردو بولنے والے تھے مگر ان کے رہنما عثمان بلوچ اور ٹکا خان ہوتے تھے، کوئی یہ سوال نہیں کرتا تھا کہ یہ تو بلوچ اور پختون ہیں۔ مگر آج محنت کشوں کی رنگ و نسل اور فرقوں میں تقسیم سے اس کمر توڑ مہنگائی کے باوجود کوئی خاطر خواہ رد عمل نہیں ہو رہا۔ یہی سرمایہ داروں کی چال ہے کہ محنت کشوں کو تقسیم کرو اور نان ایشوز پر انھیں الجھائے رکھو۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
دو روز بعد جب عوامی جلسہ منعقد ہوا تو 'لومر شورز' یونین کے 6 ہزار مزدوروں نے شرکت کی۔ ہڑتال میں میکورمک پلانٹ کے 500 مزدور شامل ہوئے۔ پہلی تقریر میں اسپائیز نے سینٹرل لیبر یونین کو مخاطب ہوتے ہوئے مزدوروں کو متحد رہنے کی تلقین کی۔ جب 'لومر شورز' کے مزدوروں نے سڑک کی جانب پیش قدمی کی تو اچانک 200 پولیس اہلکار بغیر کسی خبرداری کے ان پر پل پڑے جس میں کم از کم ایک ہڑتالی ہلاک اور 5 یا 6 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد اسپائیز، اربیٹر زیٹانگ کے دفتر گئے اور ایک سرکلر چھاپا جس میں اسی شب کو مزدوروں سے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ احتجاجی اجلاس شکاگو کے' حے مارکیٹ' میں منعقد کیا گیا تھا جس میں اسپائز اور دیگر ٹریڈ یونین رہنمائوں البرٹ، پارسنز اور شیموئل فلڈن کو خطاب کرنا تھا۔
شکاگو کا میئر کارٹر ہیریسن جو شروع سے اس اجلاس کے دوران وہاں موجود تھا، اس کا کہنا تھا کہ 'یہاں پولیس کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 'اس نے پولیس کیپٹن جون بونفلڈ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ پولیس کو اسٹیشن ہائوس (یعنی تھانہ) میں بھیج دے'۔ رات دس بجے مزدو رہنما فلڈن جلسے کے خاتمے کا اعلان کرنے جا رہا تھا۔ موسلا دھار بارش کی وجہ سے چوک پر صرف 200 مزدور رہ گئے تھے۔ اچانک 180 کی نفری کا ایک پولیس دستہ برآمد ہوا جس کی قیادت بون فلڈ کر رہا تھا، اس نے لوگوں کو فورا منتشر ہونے کا حکم صادر کیا۔ مزدور رہنما فلڈن احتجاج کیا کہ 'ہم پر امن ہیں'۔ اسی دوران اچانک پولیس کے جتھے پر کسی نے بم پھینکا، جس کے نتیجے میں ایک فرد ہلاک، 6 شدید زخمی اور تقریبا 70 معمولی زخمی ہوئے۔
اس کے بعد پولیس نے مزدوروں پر گولی چلا دی، لیکن آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ اس موقعے پر کتنے مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے۔ حکومتی کارندوں کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ بم سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کی جانب سے انتقام کے طور پر پھینکا گیا ۔ اس کے بعد اجلاس کے ہالز، یونین، آفس، چھاپے خانے کے مزدور اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ جب کہ سب کو یہ پتہ تھا کہ سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہاں تک کہ بہت سے معصوم لوگ جنہیں سوشلزم اور انارکزم کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا، انھیں بھی گرفتار کر کے شدید جسمانی اذیتیں دی گئی۔8 افراد پر مقدمہ چلایا گیا، جن میں اسپائز، فلڈن، پارسنز، ایڈلف فشر، جارج اینجل، میخائل شواب، لوئس لنگ اور اوسکر نیب شامل تھے۔
مقدمہ 21 جون 1886 کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل کو ریاست کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔ ان آٹھوں افراد میں سے کسی پر بھی بم پھیکے جانے کا ثبوت نہیں ملا جب کہ ان میں سے صرف تین افراد حے مارکیٹ چوک میں موجود تھے، شکاگو کے میئر ہیریسن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی نے بھی تشدد کی کارروائی کی ہو۔ مزدور رہنما پارسنز اپنے دو چھوٹے بچوں سمیت آئے ہوئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ' یہ لوگ ہزاروں لوگوں کے رہنما ہیں، یہ واقعہ ان ہی کی وجہ سے رونما ہوا، لہٰذا آپ ہمارے ادارے اور سماج کو بچانے کے لیے انھیں سزا دیں'19 اگست کو ان سب کو سزائے موت سنائی گئی۔
نیبے کو 15 سال کی قید، شدید عالمی مہم کی وجہ سے شواب اور فلڈن کو عمر قید جب کہ لنگ نے قید میں خودکشی کر لی تھی۔ پھر 11 نومبر 1887 کو اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی، ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلینڈ، آئرلینڈ اور جرمنی کے شہری تھے۔ یہ بین الاقوامیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے جنازے میں 6 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد ایک عرصے تک نیب، شواب اور فلڈن کی رہائی کے لیے مہم عالمی طور پر چلتی رہی۔ عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے اسپائز نے کہا تھا کہ یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ 'اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمیں پھانسی دینے سے محنت کشوں کی آواز ختم ہو جائے گی تو یہ تمہاری بھول ہے، اس شعلے کو جتنا دبائو گے یہ مزید بھڑکے گا' دوسری انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس 1889میں پیرس میں 'انقلاب فرانس' کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقعے پر منعقد ہوئی جس میں ریمونڈ لیونگ نے یہ تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقعے پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔ یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لیے اس تجویز کو با قاعدہ طور پر 1891 میں تسلیم کر لیا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اور یکم مئی کو دنیا بھر میں تعطیل ہوتی ہے۔ مگر آج بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہوتی اور جلسہ جلوس کی بھی اجازت نہیں ہے۔
جیسا کہ سعودی عرب، قطر، عرب امارات، ایران، افغانستان، کویت، دبئی اور بھوٹان وغیرہ جب کہ جاپان شاید واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہوتی لیکن مزدور لاکھوں کی تعداد میں جلسہ جلوس کرتے ہیں اور چھٹی کا مطالبہ بھی ۔ انقلاب فرانس اور پیرس کمیون سے متاثر ہو کر شکاگو کے مزدور متحد ہوئے اور جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے مطالبات منوائے۔ اسی تسلسل میں انقلاب روس، انقلاب چین، انقلاب اسپین، انقلاب ہند و چین، بلقان، بالٹک، کوہ قاف، ایشیاء کوچک اور وسطیٰ ایشیا میں انقلابات بر پا ہوئے۔ لیکن کمیونسٹ انقلاب کی تکمیل نہ ہونے پر یہ سارے انقلاب، رد انقلاب میں تبدیل ہو گئے۔ اب پھر مزدور یورپ، امریکا، ایشیا اور افریقہ میں عظیم جدوجہد میں بر سر پیکار ہیں۔ لاطینی امریکا کے 35 ملکوں میں سے 33 میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ بر سر اقتدار ہیں۔
حال ہی میں چلی میں سوشلسٹ پارٹی کی خاتون صدر مشعل اور پیرس کی خاتون میئر منتخب ہو کر آئیں ہیں۔ اب بھی کچھ ممالک اپنے آپ کو سوشلسٹ کہلواتے ہیں جیسا کہ شمالی کوریا، زمبابوے، بیلا روس اور لاطینی امریکی ممالک وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور، چلی، مالاٹے گوئے اور، اورے گوا وغیرہ۔ عالمی طور پر سرمایہ داری انحطاط پزیر ہے۔ اس وقت ساڑھے سات ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت اور تقریبا دو ارب بے روزگار ہیں۔ عالمی سرما یہ داری کی گروتھ ریٹ اوسطا 2 فیصد تک آ گئی ہے۔ جرمنی کی 2 امریکا کی 3، جاپان کی 0 فیصد، یورپ کی 1.5 فیصد، چین کی 11 فیصد سے گھٹ کر 7.5، برازیل1 فیصد اور انڈیا 8 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد تک آ گئی ہے۔ پاکستان کے مزدورں کے حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔
ایک وہ وقت تھا یعنی 1951 میں جب سابقہ مشرقی پاکستان کی اکثریتی نشستیں کمیونسٹوں نے حاصل کی تھیں اور لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار کامریڈ مرزا ابراہیم نے مسلم لیگی مشتاق گرمانی کو شکست دی۔ کراچی کی گلی کوچوں میں 1972-73کی مزدوروں کی ہڑتالوں میں لوگ چاچا علی جان، عثمان بلوچ، عزیز الحسن، ٹکا خان، فیض اللہ اور جاوید شکور کو جانتے تھے۔ جب سائٹ سے ہزاروں کا جلوس جن میں 95 فیصد پختون مزدور ہوتے تھے اور ان کی قیادت ایک ان پڑھ مزدور رہنما چاچا علی جان کرتے تھے تو کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ علی جان تو مہاجر ہے۔
لانڈھی کورنگی ملیر اور شاہ فیصل کالونی میں بسنے والے بیشتر مزدور اردو بولنے والے تھے مگر ان کے رہنما عثمان بلوچ اور ٹکا خان ہوتے تھے، کوئی یہ سوال نہیں کرتا تھا کہ یہ تو بلوچ اور پختون ہیں۔ مگر آج محنت کشوں کی رنگ و نسل اور فرقوں میں تقسیم سے اس کمر توڑ مہنگائی کے باوجود کوئی خاطر خواہ رد عمل نہیں ہو رہا۔ یہی سرمایہ داروں کی چال ہے کہ محنت کشوں کو تقسیم کرو اور نان ایشوز پر انھیں الجھائے رکھو۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات