سندھ کی جامعات کے وائس چانسلرز کا ’ ڈکیت ‘ کہنے پر خواجہ آصف سے معافی کا مطالبہ
مہذب ممالک میں اساتذہ کی عزت کی جاتی ہے اور ہمارے ایوانوں میں انھیں ڈاکو کہا جارہا ہے، وائس چانسلرز کا اسپیکر کو خط
صوبہ سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز اور سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین نے قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خواجہ آصف کی جانب سے وائس چانسلرز کو ' ڈکیت ' کہنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ مطالبہ سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع اور مشترکہ خط میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر امجد سراج میمن، شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹج کی وائس چانسلر اربیلا بھٹواور زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر پروفیسر فتح محمد مری نے کیا ہے۔
معافی کا مطالبہ کرنے والوں میں شیخ ایاز یونیورسٹی شکار پور کے وائس چانسلر غلام رضا بھٹی، پیپلز یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز برائے خواتین نواب شاہ کی وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سروش لودھی، شہید بینظیر بھٹو ویٹنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق حسن ، بھٹ شاہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین منشی، دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین سمیت دیگر جامعات کے وائس چانسلرز نے بھی وفاق وزیر سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔
سندھ کی 22 جامعات کے وائس چانسلرز نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھے گئے اپنے مشترکہ خط میں مزید کہا ہے کہ اس طرح کا بیان وائس چانسلرز کی حیثیت کو ہی متاثر نہیں کررہا بلکہ یہ بیان نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع اور اسکالر شپ کے حصول پر بھی اثر انداز ہوگا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے اعلی تعلیمی حلقوں کے ذمے دار ہونے کی حیثیت سے ہم وائس چانسلرز حکومتی تعاون کے بغیر ایک ایسا ماحول تخلیق کررہے جس میں طلبا کو سیکھنے، ایجاد کرنے اور اکیڈمک ایکسیلینس کے حصول کے مواقع سکیں، اس سلسلے میں ہمارے فیکلٹی اراکین ، عملے اور طلبہ کی مشترکہ جدوجہد بھی شامل ہے جس کے ذریعے ہم سب معاشرے کے متنوع شعبوں میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔
وائس چانسلرز نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے اس بیان کو ایوان کی کارروائی سے حذف کیا جائے ، مہذب ممالک میں اساتذہ کی عزت کی جاتی ہے اور ہمارے ایوانوں میں انھیں ڈاکو کہا جارہا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ ہی عرصے قبل آئین سازی کا یوم منانے کے لیے وائس چانسلرز کو اسمبلی میں مدعو کیا گیا تھا جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے قوم کے مستقبل کو بہتر شکل دینے کے لیے وائس چانسلرز کا کردار کس قدر اہم ہے لہذا اس طرح کے ریمارکس جامعات کے وائس چانسلرز کے لیے تشویش اور مایوسی کا باعث ہیں۔
وائس چانسلرز نے مزید کہا ہے کہ عوامی نمائندوں کی جانب سے اس قسم کے ریمارکس اور وائس چانسلر کو ڈکیت کہہ کر مخاطب کرنا دراصل ان کے کردار اور خدمات کی نفی کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیمی حلقوں کی تذلیل کے مترادف ہے جس سے وائس چانسلرز اور فیکلٹی کے کردار کو دھچکا پہنچ رہا ہے لہذا وزرا اور عوامی نمائندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات کے اظہار کے سلسلے میں الفاظ کے انتخاب کا خیال رکھیں ۔
یہ مطالبہ سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع اور مشترکہ خط میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر امجد سراج میمن، شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹج کی وائس چانسلر اربیلا بھٹواور زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر پروفیسر فتح محمد مری نے کیا ہے۔
معافی کا مطالبہ کرنے والوں میں شیخ ایاز یونیورسٹی شکار پور کے وائس چانسلر غلام رضا بھٹی، پیپلز یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز برائے خواتین نواب شاہ کی وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سروش لودھی، شہید بینظیر بھٹو ویٹنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق حسن ، بھٹ شاہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین منشی، دائود انجینیئرنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین سمیت دیگر جامعات کے وائس چانسلرز نے بھی وفاق وزیر سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔
سندھ کی 22 جامعات کے وائس چانسلرز نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھے گئے اپنے مشترکہ خط میں مزید کہا ہے کہ اس طرح کا بیان وائس چانسلرز کی حیثیت کو ہی متاثر نہیں کررہا بلکہ یہ بیان نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع اور اسکالر شپ کے حصول پر بھی اثر انداز ہوگا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے اعلی تعلیمی حلقوں کے ذمے دار ہونے کی حیثیت سے ہم وائس چانسلرز حکومتی تعاون کے بغیر ایک ایسا ماحول تخلیق کررہے جس میں طلبا کو سیکھنے، ایجاد کرنے اور اکیڈمک ایکسیلینس کے حصول کے مواقع سکیں، اس سلسلے میں ہمارے فیکلٹی اراکین ، عملے اور طلبہ کی مشترکہ جدوجہد بھی شامل ہے جس کے ذریعے ہم سب معاشرے کے متنوع شعبوں میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔
وائس چانسلرز نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے اس بیان کو ایوان کی کارروائی سے حذف کیا جائے ، مہذب ممالک میں اساتذہ کی عزت کی جاتی ہے اور ہمارے ایوانوں میں انھیں ڈاکو کہا جارہا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ ہی عرصے قبل آئین سازی کا یوم منانے کے لیے وائس چانسلرز کو اسمبلی میں مدعو کیا گیا تھا جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے قوم کے مستقبل کو بہتر شکل دینے کے لیے وائس چانسلرز کا کردار کس قدر اہم ہے لہذا اس طرح کے ریمارکس جامعات کے وائس چانسلرز کے لیے تشویش اور مایوسی کا باعث ہیں۔
وائس چانسلرز نے مزید کہا ہے کہ عوامی نمائندوں کی جانب سے اس قسم کے ریمارکس اور وائس چانسلر کو ڈکیت کہہ کر مخاطب کرنا دراصل ان کے کردار اور خدمات کی نفی کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیمی حلقوں کی تذلیل کے مترادف ہے جس سے وائس چانسلرز اور فیکلٹی کے کردار کو دھچکا پہنچ رہا ہے لہذا وزرا اور عوامی نمائندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات کے اظہار کے سلسلے میں الفاظ کے انتخاب کا خیال رکھیں ۔