معاشی زلزلہ
آخر وہ کونسے دنیا کے ممالک ہیں جن کے زرمبادلہ کے ذخائر کا انحصار ڈالر پر نہیں ہے
یکم جون آئی اور گزر گئی۔ اس تاریخ کو معاشی زلزلہ آناتھا جس کے تباہ کن اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے۔ اسی طرح جس طرح کورونا وباء نے پوری دنیا کو جڑوں سے ہلا ڈالا۔ اس کے صرف انسانی صحت پر ہی اثرات مرتب نہ ہوئے بلکہ اس نے کئی ملکوں میں معاشی کے ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی پیدا کیا جس کے اثرات پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔
جون کی پہلی کو امریکا نے ڈیفالٹ ہونا تھا۔ پوری دنیا کی کاروباری برادری لرزہ براندام تھی۔ خاص طور پر امپورٹرز ایکسپورٹرز منی ایکسچینج کا کام کرنے والے اور وہ تمام ممالک جن کے زر مبادلہ کے ذخائر ڈالر میں ہیں۔
آخر وہ کونسے دنیا کے ممالک ہیں جن کے زرمبادلہ کے ذخائر کا انحصار ڈالر پر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں امریکا پر کل غیر ملکی قرضوں کی حد بڑھانے کی شکل میں آزمائش آن پڑی تھی اگر امریکا ڈیفالٹ کر جاتا تو اس کا عالمی مارکیٹ اور معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگتا۔
اس کے سنگین اثرات تو امریکا کے اندر تو ظاہر ہوتے ہی لیکن یہ ایک عالمی بحران کی شکل میں پوری دنیا پر چھا جاتے۔
اس کے دو انتہائی منفی اثرات بے روزگاری اور مہنگائی کی شکل میں ظاہر ہوتے جب کہ دنیا یوکرین روس جنگ کے بدترین اثرات پہلے ہی سے بھگت رہی ہے۔ یعنی بحران ملٹی پلائی ہو جاتا ۔ دنیا کے عوام اور ملکوں کے پاس جو بھی تھوڑی بہت جمع پونجی تھی وہ اس سیلاب بلا کے ہاتھوں نذر ہو جاتی۔
عالمی معیشت اور منڈی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا اس وقت دنیا کی ایک چوتھائی معیشت کا مالک اور دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔
پوری دنیا کے کاروباری لوگ جو اپنی اشیا امریکا کو برآمد کرتے ہیں بری طرح متاثر ہوتے کہ امریکا کے ڈیفالٹ ہونے سے ان کے کارخانے بند ہو جاتے یا ان کی پیداوار بہت کم رہ جاتی نتیجہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری کی شکل میں نکلتا۔ امریکی وہ قوم ہیں جن کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔
ان کی زیر استعمال اشیاء کا تعلق صرف بنیادی سہولتوں سے ہی نہیں ہے بلکہ اشیاء تعیش گاڑیاں وغیرہ بڑے پیمانے پر شامل ہیں۔ امریکا سالانہ تین ٹریلین ڈالرز کی اشیاء درآمد کرتا ہے۔
تین ٹریلین کا مطلب ہے تین ہزار ارب ڈالرز۔ اس مقدار اور اعتبار سے امریکا دنیا کا سب سے بڑا امپورٹر ہے۔ اگر ڈیفالٹ کر جاتا تو عالمی تجارت تقریباً رک جاتی اور دنیا بھر کے تجارتی ادارے دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتے۔
امریکا ڈھائی ہزار ارب ڈالرز کی اشیاء دوسرے ممالک کو بھجواتا ہے۔ عالمی تجارت میں امریکا کا حصہ ساڑھے پانچ ہزار ڈالر بنتا ہے جب کہ دنیا کی کل عالمی تجارت کا حجم 28ہزار ارب ڈالر ہے۔
امریکا کے ڈیفالٹ ہونے کا یہ نتیجہ نکلتا کہ عالمی تجارت کا ایک چوتھائی حصہ غائب ہوجاتا۔ اس سے امریکی معیشت سے جڑے پوری دنیا کے لوگوں کا روزگار اور کاروبار بری طرح متاثر ہوتا۔ پاکستان کو ہی لے لیں اس کی سب سے زیادہ برآمدات امریکا جاتی ہیں۔
اس صورتحال سے امریکا کا سب سے بڑا حریف چین بھی بری طرح سے متاثر ہوتا۔ انفرادی طور پر چین کی سب سے بڑی برآمدی منڈی امریکا ہی ہے یعنی 581بلین ڈالرز۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح عالمی تجارت امریکا کے گرد گھوم رہی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک کی لین دین کی کرنسی امریکی ڈالر ہے۔ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک جن روس اور چین شامل ہیں چینی کرنسی یوان اور روسی کرنسی روبل میں لین دین کر رہے ہیں تاکہ اگر امریکی معیشت کسی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات کم سے کم ان پر پڑیں ۔ خود امریکا اور یورپ کو بھی یقین ہے کہ امریکا مستقبل قریب میںعالمی طاقت نہیں رہے گا۔
چین کے عالمی طاقت بننے کی شکل میں اپنے مفادات کے لیے یورپ بھی چین کے ساتھ چلا جائے گا۔ جس کے لیے فرانس نے امریکا سے بتدریج دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔
جون کی پہلی کو امریکا نے ڈیفالٹ ہونا تھا۔ پوری دنیا کی کاروباری برادری لرزہ براندام تھی۔ خاص طور پر امپورٹرز ایکسپورٹرز منی ایکسچینج کا کام کرنے والے اور وہ تمام ممالک جن کے زر مبادلہ کے ذخائر ڈالر میں ہیں۔
آخر وہ کونسے دنیا کے ممالک ہیں جن کے زرمبادلہ کے ذخائر کا انحصار ڈالر پر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں امریکا پر کل غیر ملکی قرضوں کی حد بڑھانے کی شکل میں آزمائش آن پڑی تھی اگر امریکا ڈیفالٹ کر جاتا تو اس کا عالمی مارکیٹ اور معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگتا۔
اس کے سنگین اثرات تو امریکا کے اندر تو ظاہر ہوتے ہی لیکن یہ ایک عالمی بحران کی شکل میں پوری دنیا پر چھا جاتے۔
اس کے دو انتہائی منفی اثرات بے روزگاری اور مہنگائی کی شکل میں ظاہر ہوتے جب کہ دنیا یوکرین روس جنگ کے بدترین اثرات پہلے ہی سے بھگت رہی ہے۔ یعنی بحران ملٹی پلائی ہو جاتا ۔ دنیا کے عوام اور ملکوں کے پاس جو بھی تھوڑی بہت جمع پونجی تھی وہ اس سیلاب بلا کے ہاتھوں نذر ہو جاتی۔
عالمی معیشت اور منڈی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا اس وقت دنیا کی ایک چوتھائی معیشت کا مالک اور دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔
پوری دنیا کے کاروباری لوگ جو اپنی اشیا امریکا کو برآمد کرتے ہیں بری طرح متاثر ہوتے کہ امریکا کے ڈیفالٹ ہونے سے ان کے کارخانے بند ہو جاتے یا ان کی پیداوار بہت کم رہ جاتی نتیجہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری کی شکل میں نکلتا۔ امریکی وہ قوم ہیں جن کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔
ان کی زیر استعمال اشیاء کا تعلق صرف بنیادی سہولتوں سے ہی نہیں ہے بلکہ اشیاء تعیش گاڑیاں وغیرہ بڑے پیمانے پر شامل ہیں۔ امریکا سالانہ تین ٹریلین ڈالرز کی اشیاء درآمد کرتا ہے۔
تین ٹریلین کا مطلب ہے تین ہزار ارب ڈالرز۔ اس مقدار اور اعتبار سے امریکا دنیا کا سب سے بڑا امپورٹر ہے۔ اگر ڈیفالٹ کر جاتا تو عالمی تجارت تقریباً رک جاتی اور دنیا بھر کے تجارتی ادارے دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتے۔
امریکا ڈھائی ہزار ارب ڈالرز کی اشیاء دوسرے ممالک کو بھجواتا ہے۔ عالمی تجارت میں امریکا کا حصہ ساڑھے پانچ ہزار ڈالر بنتا ہے جب کہ دنیا کی کل عالمی تجارت کا حجم 28ہزار ارب ڈالر ہے۔
امریکا کے ڈیفالٹ ہونے کا یہ نتیجہ نکلتا کہ عالمی تجارت کا ایک چوتھائی حصہ غائب ہوجاتا۔ اس سے امریکی معیشت سے جڑے پوری دنیا کے لوگوں کا روزگار اور کاروبار بری طرح متاثر ہوتا۔ پاکستان کو ہی لے لیں اس کی سب سے زیادہ برآمدات امریکا جاتی ہیں۔
اس صورتحال سے امریکا کا سب سے بڑا حریف چین بھی بری طرح سے متاثر ہوتا۔ انفرادی طور پر چین کی سب سے بڑی برآمدی منڈی امریکا ہی ہے یعنی 581بلین ڈالرز۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح عالمی تجارت امریکا کے گرد گھوم رہی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک کی لین دین کی کرنسی امریکی ڈالر ہے۔ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک جن روس اور چین شامل ہیں چینی کرنسی یوان اور روسی کرنسی روبل میں لین دین کر رہے ہیں تاکہ اگر امریکی معیشت کسی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات کم سے کم ان پر پڑیں ۔ خود امریکا اور یورپ کو بھی یقین ہے کہ امریکا مستقبل قریب میںعالمی طاقت نہیں رہے گا۔
چین کے عالمی طاقت بننے کی شکل میں اپنے مفادات کے لیے یورپ بھی چین کے ساتھ چلا جائے گا۔ جس کے لیے فرانس نے امریکا سے بتدریج دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔