فلمی موسیقی سنتے دم نکلے تو…
یہ بات قابل غور ہے کہ اگر میرا ایمان ہے کہ مرتے وقت کلمہ طیبہ پڑھنا بڑے نصیب کی بات ہے ...
ہمارے رشتے کی ایک دادی تھیں، اللہ انھیں جنت نصیب کرے، بہت ہمدرد تھیں، ہر کسی کے کام آتی تھیں، شکوہ ان کی زبان پر ہم نے کبھی نہیں سنا۔ اللہ کا دیا ان کے پاس بہت کچھ تھا، ان کے بیٹے کی جب شادی ہوئی اور بہو گھر میں آئی تو ان کے لیے نئے مسائل پیدا ہوئے مگر ہم نے انھیں کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ بیٹے نے انھیں گھر سے باہر نکال دیا اور زندگی کے بقیہ دن کبھی کسی عزیز رشتے دار کے تو کبھی کسی کے ہاں گزارنے لگیں۔کچھ عرصے کے لیے کراچی شہر آئیں تو ہمارے ہاں بھی قیام کیا۔
ان کے ساتھ ایک بڑا بیگ تھا جس میں ان کے استعمال کے کپڑے تھے اور ایک عدد کفن بھی تھا۔ کفن ساتھ رکھنے پر ہمیں بڑا تعجب ہوا۔ ایک روز یہ حقیقت ہمیں معلوم ہوئی کہ یہ کفن آب زم زم میں دھلا ہوا ہے جو کسی نے حج سے واپسی پر انھیں تحفے میں لا کر دیا تھا۔ ہماری دادی کی خواہش تھی کہ جب ان کا انتقال ہو تو انھیں اس مبارک کفن میں دفنایا جائے۔ چنانچہ اسی خواہش میں وہ ہر وقت بیگ میں اپنے پاس کفن رکھتی تھیں کہ نہ جانے کب اللہ کے ہاں سے بلاوا آ جائے۔
مذکورہ واقعہ ہمارے بچپن کا ہے، اس کے بعد یہ بھی ہوا کہ ہماری ان دادی کو جس بہو اور بیٹے نے گھر سے نکالا تھا ان کا عبرتناک انجام ہوا بہرکیف ہمیں اپنے بچپن کے زمانے کا حال اچھی طرح معلوم ہے کہ جب ہمارے بزرگ ایک خاص بزرگی کی عمر میں پہنچ کر اپنے مرنے کی تیاری کرتے تھے مثلاً کوئی بزرگ والدہ یہ تمنا رکھتی کہ بس ان کی بیٹی کی شادی ہو جائے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں موت سے پہلے ایک بار کعبے کی زیارت کرا دے۔ کوئی بزرگ اپنے زندگی کے تمام معاملات اس طرح انجام دیتا نظر آتا کہ بس یہ معاملات طے کرتے ہی اس نے کسی سفر کی طرف روانہ ہونا ہے۔ بزرگوں کی ایک بڑی تعداد تو یہ تمنا کرتی تھی اور اکثر ہم نے خود بے شمار بزرگوں کو کہتے سنا کہ بس اللہ مرتے وقت کلمہ پڑھنا نصیب کر دے!
اب اس قسم کی تمنائیں سننے میں بھی کم آتی ہیں بلکہ اکثر مجھے اس معاشرتی تبدیلی اور سوچ کی تبدیلی پر حیرت ہوتی ہے کہ جب میں گاڑیوں میں دوران سفر گانے بجتے ہوئے یا فلمی گانوں کی ویڈیو چلتے ہوئے دیکھتا ہوں، شہروں کے درمیان چلنے والی مسافر گاڑیوں میں بھی ویڈیو فلمیں چل رہی ہوتی ہیں حالانکہ دوران سفر حادثات کا خطرہ ہوتا ہے اور موت بھی واقع ہو جاتی ہے جیسا کہ موٹروے ٹریفک پولیس کے ایک اعلی افسر کا کہنا ہے کہ صرف موٹروے پر سالانہ 12 ہزار کے قریب لوگ حادثات میں انتقال کر جاتے ہیں۔ شہروں میں بھی صبح و شام حادثات میں ہلاکتیں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔
اب ذرا غور کیجیے ہمارے بزرگ مرتے وقت کلمہ طیبہ زبان پر آنے کی تمنا رکھتے اور اس کے لیے خصوصی دعائیں کرتے تھے لیکن دوسری جانب جن گاڑیوں میں دوران سفر فلمی گانوں کی فحش ویڈیو چل رہی ہوں اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوجائے تو۔۔۔۔حالانکہ ہم میں سے اکثریت کو دیکھیں تو وہ ذرا سی مصیبت میں اللہ کو یاد کرتی ہے اور مرنے پر مردے کے حق میں بہتر کرنے کے لیے قبر تک کو پختہ کر کے سایہ کر دیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب اتنی غفلت کے دوران سفر جب حادثاتی موت کا بھی چانس ہو فلمی موسیقی میں دم نکلنے کا کام کرتے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی مرنے کی تیاری کے حوالے سے، ہمارے بزرگوں کی یہ خاصیت رہی ہے کہ جوں ہی وہ ایک مخصوص عمر کو پہنچتے تھے فوراً ہی دنیاداری کے تمام معاملات سمیٹنے کی کوشش کرتے کوئی ایسا کام ادھورا نہ چھوڑتے جو ان کے مرنے کے بعد دیگر لوگ انجام دیں یا اس پر تضاد پیدا ہو۔ یہاں مجھے ایک معروف عالم دین ڈاکٹراسرار احمد مثال ذہن میں آ رہی ہے۔ (ہو سکتا ہے کہ کوئی قاری ان کی شخصیت یا نظریات سے اختلاف کرے مگر حقیقت اور خوبی کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے)۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے 1992ء میں رفقا تنظیم اسلامی کو آگاہ کیا کہ 63 برس کے ہو چکے ہیں لہٰذا اب دنیا میں مزید رہنے کی خواہش نہیں رہی اور وہ رخصت ہونے کی تیاری شروع کر رہے ہیں۔ انھوں نے بعض املاک جو ان کے ذاتی نام پر تھی اقامت دین اور دین حق ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیں تا کہ ان کے بعد ان املاک پر ان کا کوئی وارث ملکیت کا دعویٰ نہ کر سکے اور ان املاک کا استعمال دینی مقاصد کے لیے ہوتا رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ واضح کرنے کے لیے کہ انھوں نے دین کی خدمت کو مالی منفعت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا ایک کتاب ''حساب کم و بیش'' کے نام سے تحریر کی۔ اس کتاب میں انھوں نے زندگی بھر ہونے والی آمدنی اور اخراجات کا حساب پیش کر دیا۔ اسی طرح تنظیم اسلامی کے امیر کے طور پر اپنے جانشین کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کا آغاز کیا۔ مسلسل چھ برس کی مشاورت کے بعد اپنا جانشین حافظ عاکف سعید کو مقرر کیا۔ (بحوالہ: ڈاکٹر اسرار احمد اور تنظیم اسلامی، ایک تعارف)۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے 40 برس کی عمر میں پہنچنے کے بعد اپنی بقیہ زندگی دین کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ بھی کیا اور معاشی اعتبار سے مضبوط نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنا مطب بند کر دیا اور مطب کے تمام اثاثہ جات فروخت کر دیے۔ یہاں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا کیونکہ یہ خوبی بھی آج تقریباً عنقا ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تنظیم کے لیے کبھی عرب شیوخ سے مالی تعاون کی پیشکش کو قبول نہیں کیا، ملکی حکمرانوں کے عطیات لینے سے انکار کر دیا اور عوام سے مالی تعاون کی اپیل سے حتی المقدور اجتناب کیا، نیز وزارت اور اہم ملکی مناصب قبول کرنے سے معذرت بھی کی۔
موجودہ دور میں ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ بالا خوبیاں آج کتنے لوگوں میں ہوں گی اس کا اندازہ پڑھنے والوں کو بھی ہے، راقم کا یہاں ان معاملات کے تذکرے کا مقصد مجھ سمیت تمام لوگوں کو احساس دلانا ہے۔ کاش مجھ سمیت تمام لوگ اس اہم پہلو پر بھی غور کریں۔
آئیے! غور کریں کہ ہمارے بزرگ کیوں ایک خاص عمر میں آ کر بڑے دل کے ساتھ، مسرت کے ساتھ آخرت کی تیاری کرتے تھے اور دنیاوی معاملات اس طرح سمیٹتے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد نہ تو ان کی عزت پر کوئی حرف آئے اور نہ ہی ان پر کسی کا کوئی معاملہ باقی ہو۔ دوسری جانب اس طرف بھی غور کریں کہ ہم میں سے بعض لوگ رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عام وخواص میں سے اکثریت ہمارے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے مخالف سمت میں سفر کیوں کر رہی ہے؟ ہر ایک کو صرف اور صرف بینک بیلنس بنانے کی فکر کیوں پڑی ہے؟ اور اگر فکر ہے بھی تو اس کی رفتار اس قدر زیادہ کیوں کہ ہم نہ پیچھے پلٹ کے دیکھنے کی فرصت رکھتے ہیں نہ ہی منزل کا تعین کرتے ہیں بلکہ ہر حصول کے بعد اگلے ٹارگٹ کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اگر میرا ایمان ہے کہ مرتے وقت کلمہ طیبہ پڑھنا بڑے نصیب کی بات ہے تو میں اس کے لیے اپنے بزرگوں کی طرح خواہش کیوں نہیں رکھتا؟ اگر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد سفر کی دعا پڑھ بھی لیتا ہوں تو دوران سفر فلمی ویڈیو گانوں سے لطف اندوز کیوں ہوتا ہوں جب کہ میں جانتا ہوں کہ آج بھی درجنوں مسافروں کا انتقال اچانک حادثہ ہونے کے سبب ہو گا؟ نیز میں دنیا کے معاملات اس طرح طے کیوں نہیں کر لیتا کہ اگر دنیا سے رخصتی کا بلاوا آ بھی جائے تو کسی کا ایک پیسہ بھی میری طرف نہ نکلتا ہو؟ آئیے! غور کریں۔
ان کے ساتھ ایک بڑا بیگ تھا جس میں ان کے استعمال کے کپڑے تھے اور ایک عدد کفن بھی تھا۔ کفن ساتھ رکھنے پر ہمیں بڑا تعجب ہوا۔ ایک روز یہ حقیقت ہمیں معلوم ہوئی کہ یہ کفن آب زم زم میں دھلا ہوا ہے جو کسی نے حج سے واپسی پر انھیں تحفے میں لا کر دیا تھا۔ ہماری دادی کی خواہش تھی کہ جب ان کا انتقال ہو تو انھیں اس مبارک کفن میں دفنایا جائے۔ چنانچہ اسی خواہش میں وہ ہر وقت بیگ میں اپنے پاس کفن رکھتی تھیں کہ نہ جانے کب اللہ کے ہاں سے بلاوا آ جائے۔
مذکورہ واقعہ ہمارے بچپن کا ہے، اس کے بعد یہ بھی ہوا کہ ہماری ان دادی کو جس بہو اور بیٹے نے گھر سے نکالا تھا ان کا عبرتناک انجام ہوا بہرکیف ہمیں اپنے بچپن کے زمانے کا حال اچھی طرح معلوم ہے کہ جب ہمارے بزرگ ایک خاص بزرگی کی عمر میں پہنچ کر اپنے مرنے کی تیاری کرتے تھے مثلاً کوئی بزرگ والدہ یہ تمنا رکھتی کہ بس ان کی بیٹی کی شادی ہو جائے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں موت سے پہلے ایک بار کعبے کی زیارت کرا دے۔ کوئی بزرگ اپنے زندگی کے تمام معاملات اس طرح انجام دیتا نظر آتا کہ بس یہ معاملات طے کرتے ہی اس نے کسی سفر کی طرف روانہ ہونا ہے۔ بزرگوں کی ایک بڑی تعداد تو یہ تمنا کرتی تھی اور اکثر ہم نے خود بے شمار بزرگوں کو کہتے سنا کہ بس اللہ مرتے وقت کلمہ پڑھنا نصیب کر دے!
اب اس قسم کی تمنائیں سننے میں بھی کم آتی ہیں بلکہ اکثر مجھے اس معاشرتی تبدیلی اور سوچ کی تبدیلی پر حیرت ہوتی ہے کہ جب میں گاڑیوں میں دوران سفر گانے بجتے ہوئے یا فلمی گانوں کی ویڈیو چلتے ہوئے دیکھتا ہوں، شہروں کے درمیان چلنے والی مسافر گاڑیوں میں بھی ویڈیو فلمیں چل رہی ہوتی ہیں حالانکہ دوران سفر حادثات کا خطرہ ہوتا ہے اور موت بھی واقع ہو جاتی ہے جیسا کہ موٹروے ٹریفک پولیس کے ایک اعلی افسر کا کہنا ہے کہ صرف موٹروے پر سالانہ 12 ہزار کے قریب لوگ حادثات میں انتقال کر جاتے ہیں۔ شہروں میں بھی صبح و شام حادثات میں ہلاکتیں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔
اب ذرا غور کیجیے ہمارے بزرگ مرتے وقت کلمہ طیبہ زبان پر آنے کی تمنا رکھتے اور اس کے لیے خصوصی دعائیں کرتے تھے لیکن دوسری جانب جن گاڑیوں میں دوران سفر فلمی گانوں کی فحش ویڈیو چل رہی ہوں اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوجائے تو۔۔۔۔حالانکہ ہم میں سے اکثریت کو دیکھیں تو وہ ذرا سی مصیبت میں اللہ کو یاد کرتی ہے اور مرنے پر مردے کے حق میں بہتر کرنے کے لیے قبر تک کو پختہ کر کے سایہ کر دیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب اتنی غفلت کے دوران سفر جب حادثاتی موت کا بھی چانس ہو فلمی موسیقی میں دم نکلنے کا کام کرتے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی مرنے کی تیاری کے حوالے سے، ہمارے بزرگوں کی یہ خاصیت رہی ہے کہ جوں ہی وہ ایک مخصوص عمر کو پہنچتے تھے فوراً ہی دنیاداری کے تمام معاملات سمیٹنے کی کوشش کرتے کوئی ایسا کام ادھورا نہ چھوڑتے جو ان کے مرنے کے بعد دیگر لوگ انجام دیں یا اس پر تضاد پیدا ہو۔ یہاں مجھے ایک معروف عالم دین ڈاکٹراسرار احمد مثال ذہن میں آ رہی ہے۔ (ہو سکتا ہے کہ کوئی قاری ان کی شخصیت یا نظریات سے اختلاف کرے مگر حقیقت اور خوبی کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے)۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے 1992ء میں رفقا تنظیم اسلامی کو آگاہ کیا کہ 63 برس کے ہو چکے ہیں لہٰذا اب دنیا میں مزید رہنے کی خواہش نہیں رہی اور وہ رخصت ہونے کی تیاری شروع کر رہے ہیں۔ انھوں نے بعض املاک جو ان کے ذاتی نام پر تھی اقامت دین اور دین حق ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیں تا کہ ان کے بعد ان املاک پر ان کا کوئی وارث ملکیت کا دعویٰ نہ کر سکے اور ان املاک کا استعمال دینی مقاصد کے لیے ہوتا رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ واضح کرنے کے لیے کہ انھوں نے دین کی خدمت کو مالی منفعت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا ایک کتاب ''حساب کم و بیش'' کے نام سے تحریر کی۔ اس کتاب میں انھوں نے زندگی بھر ہونے والی آمدنی اور اخراجات کا حساب پیش کر دیا۔ اسی طرح تنظیم اسلامی کے امیر کے طور پر اپنے جانشین کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کا آغاز کیا۔ مسلسل چھ برس کی مشاورت کے بعد اپنا جانشین حافظ عاکف سعید کو مقرر کیا۔ (بحوالہ: ڈاکٹر اسرار احمد اور تنظیم اسلامی، ایک تعارف)۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے 40 برس کی عمر میں پہنچنے کے بعد اپنی بقیہ زندگی دین کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ بھی کیا اور معاشی اعتبار سے مضبوط نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنا مطب بند کر دیا اور مطب کے تمام اثاثہ جات فروخت کر دیے۔ یہاں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا کیونکہ یہ خوبی بھی آج تقریباً عنقا ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تنظیم کے لیے کبھی عرب شیوخ سے مالی تعاون کی پیشکش کو قبول نہیں کیا، ملکی حکمرانوں کے عطیات لینے سے انکار کر دیا اور عوام سے مالی تعاون کی اپیل سے حتی المقدور اجتناب کیا، نیز وزارت اور اہم ملکی مناصب قبول کرنے سے معذرت بھی کی۔
موجودہ دور میں ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ بالا خوبیاں آج کتنے لوگوں میں ہوں گی اس کا اندازہ پڑھنے والوں کو بھی ہے، راقم کا یہاں ان معاملات کے تذکرے کا مقصد مجھ سمیت تمام لوگوں کو احساس دلانا ہے۔ کاش مجھ سمیت تمام لوگ اس اہم پہلو پر بھی غور کریں۔
آئیے! غور کریں کہ ہمارے بزرگ کیوں ایک خاص عمر میں آ کر بڑے دل کے ساتھ، مسرت کے ساتھ آخرت کی تیاری کرتے تھے اور دنیاوی معاملات اس طرح سمیٹتے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد نہ تو ان کی عزت پر کوئی حرف آئے اور نہ ہی ان پر کسی کا کوئی معاملہ باقی ہو۔ دوسری جانب اس طرف بھی غور کریں کہ ہم میں سے بعض لوگ رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عام وخواص میں سے اکثریت ہمارے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے مخالف سمت میں سفر کیوں کر رہی ہے؟ ہر ایک کو صرف اور صرف بینک بیلنس بنانے کی فکر کیوں پڑی ہے؟ اور اگر فکر ہے بھی تو اس کی رفتار اس قدر زیادہ کیوں کہ ہم نہ پیچھے پلٹ کے دیکھنے کی فرصت رکھتے ہیں نہ ہی منزل کا تعین کرتے ہیں بلکہ ہر حصول کے بعد اگلے ٹارگٹ کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اگر میرا ایمان ہے کہ مرتے وقت کلمہ طیبہ پڑھنا بڑے نصیب کی بات ہے تو میں اس کے لیے اپنے بزرگوں کی طرح خواہش کیوں نہیں رکھتا؟ اگر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد سفر کی دعا پڑھ بھی لیتا ہوں تو دوران سفر فلمی ویڈیو گانوں سے لطف اندوز کیوں ہوتا ہوں جب کہ میں جانتا ہوں کہ آج بھی درجنوں مسافروں کا انتقال اچانک حادثہ ہونے کے سبب ہو گا؟ نیز میں دنیا کے معاملات اس طرح طے کیوں نہیں کر لیتا کہ اگر دنیا سے رخصتی کا بلاوا آ بھی جائے تو کسی کا ایک پیسہ بھی میری طرف نہ نکلتا ہو؟ آئیے! غور کریں۔