کچھ سنا تم نے
المیہ یہ ہے کہ ہم منفی باتوں کو ہی چسکے لے لے کر بیان کرتے ہیں...
ہماری ایک دوست ہیں، ان کے بارے میں علم ہوا کہ وہ وحشت و دیوانگی میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ یہ سن کر ہمیں حیرت کے ساتھ دلی افسوس بھی بہت ہوا۔ حیرت اس بات پر تھی کہ ہماری تو ان سے تقریباً ہر ہفتے ملاقات اور بات ہوتی ہے تو یہ حادثہ کب پیش آیا، کوئی صدمہ پہنچا یا کوئی ایسی اطلاع ملی جس کو سن کر وہ اپنے حواس قائم نہ رکھ سکیں۔ یہ سب سوچتے ہوئے ہم نے ان کو فون ملایا تو ایک دو گھنٹیاں بجنے کے بعد انھوں نے خود فون ریسیو کیا۔ سلام کے بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ہمیں تو قطعی محسوس بھی نہیں ہوا کہ ان کے دماغ میں کچھ خلل واقع ہو گیا ہے۔
ان سے بات ختم کر کے ہم نے ان موصوفہ کو فون کیا جنھوں نے ہمیں یہ اطلاع دی تھی۔ ان سے شکوہ کیا کہ آپ کو کس ظالم نے بتایا ہے کہ فلاں پاگل ہو گئی ہیں؟ وہ محترمہ بڑے وثوق سے کہنے لگیں کہ ان کی بہن نے خود بتایا ہے۔ اب تو ہم مزید کنفیوز ہو گئے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے، ابھی تو موصوفہ سے خود ہماری بات ہوئی ہے، پھر سوچا کہ شاید وقتی اثر ہوا جس میں دماغی حالت ٹھیک ہو جاتی ہو، تصدیق کے لیے پھر ان کی بہن صاحبہ کو فون کیا اور اپنی دوست کی خیریت دریافت کی۔ وہ کہنے لگیں بالکل ٹھیک ہے، یہ سن کر ہم نے ساری بات انھیں بتائی تو وہ خوب ہنسیں اور کہنے لگیں کہ انھوں تو محاورتاً یہ کہا کہ وہ پاگل ہوگئی ہے۔
تو مذکورہ خاتون نے لہجے اور الفاظ پر غور کیے بغیر آدھے شہر میں یہ افواہ پھیلادی۔ یہ سن کر ہم نے تو اﷲ پاک کا شکر ادا کیا اور لائن ڈس کنیکٹ کر دی مگر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بات کا بتنگڑ کیسے بنتا ہے۔ افواہیں کیسے پھیلتی ہیں۔ ذرا سی بات کیا سے کیا بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا مذہب اسی لیے سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرنے کی تاکید کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ بعض اوقات ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ بھی تصویر کا ایک رخ ہوتا ہے، حقیقت اس کے پردے میں چھپی ہوتی ہے۔ اسی موقع کے حوالہ سے کس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
غیروں سے سنا تم نے غیروں سے کہا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی ملک میں سمندر کے کنارے ایک حبشی کسی خوبصورت خاتون کی گود میں سر رکھے لیٹے اور کچھ پی رہا تھا۔ وہاں سے ایک بزرگ کا گزر ہوا، انھوں نے حبشی سے کہا کہ تم یہ غلط کر رہے ہو، اس طرح کی حرکتیں ایسے مقام پر مناسب بھی نہیں اور گناہ کا باعث ہیں۔ حبشی نے کہا، اے مرد دانا، میں اس عورت کا سگا بیٹا ہوں، جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوں، حکما نے مجھے صبح کے اوقات میں ساحل کے قریب کچھ وقت گزارنے کے لیے کہا ہے، میں بیٹھ نہیں سکتا اسی لیے لیٹا ہوں اور اس بوتل میں پانی ہے جو میں پی رہا ہوں۔ اے بزرگ آپ تو مرد دانا ہو، آپ نے کیسے بغیر جانے بوجھے مجھ پر الزام لگایا اور گناہ کے مرتکب ہونے پر گمان بھی بہت بڑا گناہ ہے، اگر آپ مجھ سے پوچھ نہ لیتے تو شہر میں جا کر میرے بارے میں جانے کیا کیا باتیں کرتے۔ یہ سن کر بزرگ نے اس سے معافی مانگی اور اپنی راہ ہو لیے۔
اس لیے بعض اوقات سنی سنائی باتوں کے علاوہ جو ہم دیکھتے ہیں، وہ بھی اس وقوع سے متعلق نہیں ہوتا، اس لیے بغیر تحقیق کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لینا سخت گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ عام بات بن گئی ہے کسی بھی جگہ جہاں دو یا دو سے زیادہ لوگ بیٹھے ہوں تو باہمی معاملات کے علاوہ ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے اور اکثر یہ کہہ کر باتوں کو شیئر کیا جاتا ہے، صرف تم کو بتا رہا ہوں، وعدہ کرو آگے نہیں کرو گے/گی۔ اب سامنے والا بھی بات کو نہ پھیلانے کا وعدہ تو کر لیتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اور باتوں میں مزید گل پھول لگا کر بات آگے کر دیتا ہے۔ اس طرح لفظوں کے ہیر پھیر اور انداز بیاں سے حقیقت کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے اور یہ کچھ سے کچھ ہونے والی بات میں افواہ بن جاتی ہے۔
ناقابل بیان باتوں کو بیان کرنا بھی افواہ کے زمرے میں آتا ہے۔ بعض اوقات کوئی سچی بات بھی اپنے بیان کرنے کے انداز میں بات کے رخ کو کہیں سے کہیں بدل دیتی ہے۔ ہمارے ایک رشتے دار نے اپنے والدین سے الگ ہو کر اپنی گھر گرہستی بنائی اور اپنا الگ مکان خرید لیا۔ اب تمام رشتے داروں میں یہ افواہ گردش کر گئی کہ ان کی بیگم ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں یا ان کے والدین نے انھیں گھر سے نکال دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی کی وجہ سے گھر چھوٹا پڑ رہا تھا تو انھوں نے وہ گھر بھائی کی سہولت کے لیے دے دیا اور خود افورڈ کر سکتے تھے تو الگ ہوگئے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ہم منفی باتوں کو ہی چسکے لے لے کر بیان کرتے ہیں، مثبت پہلو پر ہماری نظر ذرا کم ہی جاتی ہے۔ اور یہی نہیں لوگوں کے کہے ہوئے الفاظ بھی ایسے صفائی سے تبدیل کر دیتے ہیں جس سے لوگوں میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ آج کل حکومت اور فوج کے درمیان ایک ہی صفحے پر رہنے کی جو باتیں ہو رہی ہیں وہ بھی اسی صورت حال کو جنم دے رہی ہیں کہ آیا حکومت اور فوج ایک صفحے پر بھی ہیں یا نہیں۔ اب ہمیں تو معلوم نہیں کہ یہ صفحہ کون سا ہے اور کتنا بڑا ہے، اس پر دونوں آ بھی سکتے ہیں یا نہیں، مگر میڈیا ہو یا عام ادارے جہاں دو چار لوگ جمع ہوئے، یہی بحث جاری ہے اور اس افواہ کی وجہ سے فوج کو الگ بیان دینے پڑ رہے ہیں اور حکومتی عہدیداران کو کچھ اور بیان، مگر اس سے معاملہ بجائے سلجھنے کے اور الجھ رہا ہے۔
یاد رکھیں! یہ افواہ سازی یوں ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے پیچھے افواہ ساز کا کوئی نہ کوئی مقصد کارفرما ضرور ہوتا ہے۔ کبھی ذاتی مفاد کے حصول کے لیے تو کبھی کسی کو ذلیل کرنا مقصود نظر ہوتا ہے، تو کبھی صرف اور صرف ذاتی تسکین کے لیے بھی باتوں کو ادھر سے ادھر کر دیا جاتا ہے، مگر جناب یہ افواہ ساز کبھی پکڑا نہیں جاتا۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بات کہاں سے کہاں تک پہنچی ہے، کیونکہ ان کے حوالے سے کبھی ایک نہیں ہوتے، اکثر افواہ بھی صرف معاملے کو بڑھا چڑھا کر یہاں بیان کرنا درست نہیں ہو سکتی۔
ان سے بات ختم کر کے ہم نے ان موصوفہ کو فون کیا جنھوں نے ہمیں یہ اطلاع دی تھی۔ ان سے شکوہ کیا کہ آپ کو کس ظالم نے بتایا ہے کہ فلاں پاگل ہو گئی ہیں؟ وہ محترمہ بڑے وثوق سے کہنے لگیں کہ ان کی بہن نے خود بتایا ہے۔ اب تو ہم مزید کنفیوز ہو گئے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے، ابھی تو موصوفہ سے خود ہماری بات ہوئی ہے، پھر سوچا کہ شاید وقتی اثر ہوا جس میں دماغی حالت ٹھیک ہو جاتی ہو، تصدیق کے لیے پھر ان کی بہن صاحبہ کو فون کیا اور اپنی دوست کی خیریت دریافت کی۔ وہ کہنے لگیں بالکل ٹھیک ہے، یہ سن کر ہم نے ساری بات انھیں بتائی تو وہ خوب ہنسیں اور کہنے لگیں کہ انھوں تو محاورتاً یہ کہا کہ وہ پاگل ہوگئی ہے۔
تو مذکورہ خاتون نے لہجے اور الفاظ پر غور کیے بغیر آدھے شہر میں یہ افواہ پھیلادی۔ یہ سن کر ہم نے تو اﷲ پاک کا شکر ادا کیا اور لائن ڈس کنیکٹ کر دی مگر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بات کا بتنگڑ کیسے بنتا ہے۔ افواہیں کیسے پھیلتی ہیں۔ ذرا سی بات کیا سے کیا بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا مذہب اسی لیے سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرنے کی تاکید کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ بعض اوقات ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ بھی تصویر کا ایک رخ ہوتا ہے، حقیقت اس کے پردے میں چھپی ہوتی ہے۔ اسی موقع کے حوالہ سے کس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
غیروں سے سنا تم نے غیروں سے کہا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی ملک میں سمندر کے کنارے ایک حبشی کسی خوبصورت خاتون کی گود میں سر رکھے لیٹے اور کچھ پی رہا تھا۔ وہاں سے ایک بزرگ کا گزر ہوا، انھوں نے حبشی سے کہا کہ تم یہ غلط کر رہے ہو، اس طرح کی حرکتیں ایسے مقام پر مناسب بھی نہیں اور گناہ کا باعث ہیں۔ حبشی نے کہا، اے مرد دانا، میں اس عورت کا سگا بیٹا ہوں، جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوں، حکما نے مجھے صبح کے اوقات میں ساحل کے قریب کچھ وقت گزارنے کے لیے کہا ہے، میں بیٹھ نہیں سکتا اسی لیے لیٹا ہوں اور اس بوتل میں پانی ہے جو میں پی رہا ہوں۔ اے بزرگ آپ تو مرد دانا ہو، آپ نے کیسے بغیر جانے بوجھے مجھ پر الزام لگایا اور گناہ کے مرتکب ہونے پر گمان بھی بہت بڑا گناہ ہے، اگر آپ مجھ سے پوچھ نہ لیتے تو شہر میں جا کر میرے بارے میں جانے کیا کیا باتیں کرتے۔ یہ سن کر بزرگ نے اس سے معافی مانگی اور اپنی راہ ہو لیے۔
اس لیے بعض اوقات سنی سنائی باتوں کے علاوہ جو ہم دیکھتے ہیں، وہ بھی اس وقوع سے متعلق نہیں ہوتا، اس لیے بغیر تحقیق کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لینا سخت گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ عام بات بن گئی ہے کسی بھی جگہ جہاں دو یا دو سے زیادہ لوگ بیٹھے ہوں تو باہمی معاملات کے علاوہ ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے اور اکثر یہ کہہ کر باتوں کو شیئر کیا جاتا ہے، صرف تم کو بتا رہا ہوں، وعدہ کرو آگے نہیں کرو گے/گی۔ اب سامنے والا بھی بات کو نہ پھیلانے کا وعدہ تو کر لیتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اور باتوں میں مزید گل پھول لگا کر بات آگے کر دیتا ہے۔ اس طرح لفظوں کے ہیر پھیر اور انداز بیاں سے حقیقت کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے اور یہ کچھ سے کچھ ہونے والی بات میں افواہ بن جاتی ہے۔
ناقابل بیان باتوں کو بیان کرنا بھی افواہ کے زمرے میں آتا ہے۔ بعض اوقات کوئی سچی بات بھی اپنے بیان کرنے کے انداز میں بات کے رخ کو کہیں سے کہیں بدل دیتی ہے۔ ہمارے ایک رشتے دار نے اپنے والدین سے الگ ہو کر اپنی گھر گرہستی بنائی اور اپنا الگ مکان خرید لیا۔ اب تمام رشتے داروں میں یہ افواہ گردش کر گئی کہ ان کی بیگم ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں یا ان کے والدین نے انھیں گھر سے نکال دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی کی وجہ سے گھر چھوٹا پڑ رہا تھا تو انھوں نے وہ گھر بھائی کی سہولت کے لیے دے دیا اور خود افورڈ کر سکتے تھے تو الگ ہوگئے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ہم منفی باتوں کو ہی چسکے لے لے کر بیان کرتے ہیں، مثبت پہلو پر ہماری نظر ذرا کم ہی جاتی ہے۔ اور یہی نہیں لوگوں کے کہے ہوئے الفاظ بھی ایسے صفائی سے تبدیل کر دیتے ہیں جس سے لوگوں میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ آج کل حکومت اور فوج کے درمیان ایک ہی صفحے پر رہنے کی جو باتیں ہو رہی ہیں وہ بھی اسی صورت حال کو جنم دے رہی ہیں کہ آیا حکومت اور فوج ایک صفحے پر بھی ہیں یا نہیں۔ اب ہمیں تو معلوم نہیں کہ یہ صفحہ کون سا ہے اور کتنا بڑا ہے، اس پر دونوں آ بھی سکتے ہیں یا نہیں، مگر میڈیا ہو یا عام ادارے جہاں دو چار لوگ جمع ہوئے، یہی بحث جاری ہے اور اس افواہ کی وجہ سے فوج کو الگ بیان دینے پڑ رہے ہیں اور حکومتی عہدیداران کو کچھ اور بیان، مگر اس سے معاملہ بجائے سلجھنے کے اور الجھ رہا ہے۔
یاد رکھیں! یہ افواہ سازی یوں ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے پیچھے افواہ ساز کا کوئی نہ کوئی مقصد کارفرما ضرور ہوتا ہے۔ کبھی ذاتی مفاد کے حصول کے لیے تو کبھی کسی کو ذلیل کرنا مقصود نظر ہوتا ہے، تو کبھی صرف اور صرف ذاتی تسکین کے لیے بھی باتوں کو ادھر سے ادھر کر دیا جاتا ہے، مگر جناب یہ افواہ ساز کبھی پکڑا نہیں جاتا۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بات کہاں سے کہاں تک پہنچی ہے، کیونکہ ان کے حوالے سے کبھی ایک نہیں ہوتے، اکثر افواہ بھی صرف معاملے کو بڑھا چڑھا کر یہاں بیان کرنا درست نہیں ہو سکتی۔