آزمودہ را آزمودن جہل است
اسٹیبلشمنٹ بھی زرداری اور نواز شریف سے عاجز تھی ، اقتدار میں آ کر دونوں پارٹیاں صرف پیسہ بناتی ہیں
علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا ؎
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
پی ڈی ایم تحریک انصاف کی بربادی پر بغلیں بجا رہی ہے لیکن وہ شاید بھول گئے ہیں کہ پنجابی شاعر بلھے شاہ نے کہا تھا جس کا ترجمہ ہے کہ ''دشمنوں کے مرنے پر خوشی نہ مناؤ کہ دوستوں کو بھی ایک دن مرجانا ہے'' یہ تیرہ جماعتوں کا ٹولہ کون سا وطن سے مخلص ہے؟ یہ بھی اقتدار کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ازل سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں، ایک دوسرے کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کی باتیں زیادہ پرانی نہیں ہوئیں، تحریک انصاف کے ساتھ وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا تھا، وہ بھی طاقت کے نشے میں چور تھے، لوگ تین تین دن کی ہڑتالوں سے تنگ تھے، وہ بھی طاقت کو نہ سنبھال سکے، انھیں اتنا بڑا مینڈیٹ ملا تھا۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں انھیں سیٹیں ملی تھیں، لیکن انھوں نے کراچی کے لیے کچھ نہ کیا، حتیٰ یہ کہ کوٹہ سسٹم تک ختم نہ کروایا، وہ بھی طاقت کے نشے میں چور تھے، جس طرح اللہ تعالیٰ دولت دے کر آزماتا ہے، اسی طرح شہرت اور طاقت دے کر بھی آزماتا ہے۔ اس ملک میں جسے بھی طاقت ملی وہ دولت جمع کرنے میں لگ گیا۔
اسٹیبلشمنٹ بھی زرداری اور نواز شریف سے عاجز تھی ، اقتدار میں آ کر دونوں پارٹیاں صرف پیسہ بناتی ہیں، اس لیے انھیں ایک تیسری پارٹی کی ضرورت محسوس ہوئی جو ملک کا اقتدار (بظاہر) سنبھال سکے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
چنانچہ اس ''نیک مقصد'' کے لیے پی ٹی آئی بنوائی گئی، دھرنے ہوئے، طاہر القادری کو بلایا گیا، ملک کے در و دیوار پر طاہر القادری کے حق میں نعرے لکھے گئے، ان کو کرکٹ گراؤنڈ سے اٹھا کر اسٹیج پر بٹھا دیا گیا، جنھیں سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا، وہ کپتان کی انگلی اٹھنے کا اشارہ پا کر الیکشن جیت گئے۔
ان کی جھولی میں آزاد امیدوار ڈالے گئے، ادھر اُدھر سے کارکنان جمع کرکے دے دیے گئے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ انھیں اقتدار میں کون لایا ہے؟ بس یہیں سے غلطی شروع ہوئی، ان کی گردن میں سریا تو پہلے ہی فٹ تھا، کرکٹ کی دنیا میں گھمنڈی اور تکبر آمیز رویے کی گونج تھی، انھوں نے کئی کرکٹرز کا کیریئر بھی تباہ کیا، ورلڈ کپ جتوانے کے بعد وہ اور زیادہ گھمنڈی ہوگئے تھے۔ جو قوتیں انھیں اقتدار میں لا رہی تھیں۔
ان کے رویے نے عمران کو اور زیادہ متکبر بنا دیا، وہ سمجھے وہ ان قوتوں کے چہیتے ہیں، وہ سیاست دان تو تھے نہیں جو اس کھیل کو سمجھتے، اس لیے آسانی سے ٹریپ ہوگئے، اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں مہنگائی بام عروج پر پہنچانے کی بنا پر وہ غیر مقبول ہونے لگے، ان کے وزیروں کے کرتوت سامنے آنے لگے، کوئی چینی باہر بھجوا رہا ہے کوئی گندم، اور انھیں کسی کرپشن کی نہ خبر تھی نہ ہی فکر، وہ تو چین کی بنسری بجا رہے تھے۔
خودستائی اس قدر کہ کسی کی کوئی بات گوارا نہیں، بس کبھی کبھار ان کے چاہنے والے انھیں ہوا لگانے کے لیے باہر لے آتے تھے اور انھیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ انھیں خواب خرگوش کے مزے لینے کے لیے کمرے میں بند کردیتے تھے۔
وہ کسی بیرونی سفارت کار سے نہ ملتے تھے، امریکی سفیر کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ انھیں ان کے قریبی ساتھیوں نے بانس پر یہ کہہ کر چڑھا دیا تھا کہ ''وہ وزیر اعظم ہیں'' اس لیے ہر کس و ناکس سے ملاقات نہیں کرسکتے، پی ٹی آئی کے کارکن سیاست کے مزاج کو نہ سمجھتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ کہیں اور سے ہدایات لیتے تھے، آج وہ جب بالکل اکیلے ہوگئے تو کل تک جن سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
آج انھی کی کانگریس ویمن سے پندرہ پندرہ منٹ زوم پر گفتگو کرکے التجا کرتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے اور انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوایا جائے۔ کل تک وہ امریکا کو بڑھکیں لگا رہے تھے کہ ہم تمہارے غلام ہیں جو تمہاری ہر ناجائز خواہش اور مطالبات پورے کریں؟ کل تک وہ امریکا کو کہہ رہے تھے کہ ان کی حکومت امریکا نے گرائی ہے، پھر یکایک ان کے تیروں کا رُخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو گیا۔ اب وہ ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں، واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کی جماعت تتر بتر ہوچکی ۔ اب بھی وقت ہے، ملک ایک پریشر ککر بنا ہوا ہے، بولنے اور لکھنے پر پابندی ہے، اکثریت اپنی بقا کے لیے ''چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی'' کے مقولے پہ کاربند ہیں، تحریک انصاف کے پنجرے سے جب سارے پنچھی اڑ گئے تو ان کو ''مذاکراتی ٹیم'' بنانے کا خیال آیا، جب انھیں مذاکرات کی دعوت دی جاتی تھی تو ان کا تکبر آسمان کو چھوتا تھا۔
انھوں نے اپنے خیرخواہوں اور دوستوں کی بات نہ مانی اور خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی، اسمبلیاں توڑ دیں اور یہ سمجھے کہ اب وہ پھر سے اپنی مقبولیت کیش کرا لیں گے، لیکن وہ جانتے نہیں تھے کہ ان کا پالا کن '' قوتوں'' سے پڑا ہے۔
وہ ملکی سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھے جہاں انھوں نے جب چاہا کسی بھی کرکٹر کا مستقبل خراب کردیا، اور میدان اور ٹیم سے باہر نکال دیا، ان میں صوبائی تعصب بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، آخر وہ کہتے ہیں ناں ''سو سنار کی تو ایک لوہار کی'' اب سر پکڑ کر رویے اور آہ و زاری کیجیے آپ کی کوئی نہیں سننے والا۔
ایک بات کہنا چاہوں گی کہ آزمائے ہوؤں کو مت آزمائیے، فارسی کی ایک مثل ہے کہ ''آزمودہ را آزمودن جہل است۔'' یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے، دوسرا یہ کہ تحریر اور تقریر پر سے پابندی اٹھا لیجیے، لوگوں کو بولنے دیجیے، یہاں تو کوئی ''ہائیڈ پارک'' بھی نہیں جہاں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔
صدیق سالک کا ناول ''پریشر ککر'' 1971 کے تناظر میں لکھا گیا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا؟ متعصب رویوں نے بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بھر دی تھی اور پھر یہ پریشر ککر پھٹ کر بنگلہ دیش بن گیا ، بچے کچھے پاکستان کو پریشر ککر مت بنائیے، آزمائے ہوؤں کو مت آزمائیے، مخلص اور دیانتدار قیادت کو سامنے لائیے، قوم آپ کی شکر گزار ہوگی۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
پی ڈی ایم تحریک انصاف کی بربادی پر بغلیں بجا رہی ہے لیکن وہ شاید بھول گئے ہیں کہ پنجابی شاعر بلھے شاہ نے کہا تھا جس کا ترجمہ ہے کہ ''دشمنوں کے مرنے پر خوشی نہ مناؤ کہ دوستوں کو بھی ایک دن مرجانا ہے'' یہ تیرہ جماعتوں کا ٹولہ کون سا وطن سے مخلص ہے؟ یہ بھی اقتدار کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ ازل سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں، ایک دوسرے کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کی باتیں زیادہ پرانی نہیں ہوئیں، تحریک انصاف کے ساتھ وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا تھا، وہ بھی طاقت کے نشے میں چور تھے، لوگ تین تین دن کی ہڑتالوں سے تنگ تھے، وہ بھی طاقت کو نہ سنبھال سکے، انھیں اتنا بڑا مینڈیٹ ملا تھا۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں انھیں سیٹیں ملی تھیں، لیکن انھوں نے کراچی کے لیے کچھ نہ کیا، حتیٰ یہ کہ کوٹہ سسٹم تک ختم نہ کروایا، وہ بھی طاقت کے نشے میں چور تھے، جس طرح اللہ تعالیٰ دولت دے کر آزماتا ہے، اسی طرح شہرت اور طاقت دے کر بھی آزماتا ہے۔ اس ملک میں جسے بھی طاقت ملی وہ دولت جمع کرنے میں لگ گیا۔
اسٹیبلشمنٹ بھی زرداری اور نواز شریف سے عاجز تھی ، اقتدار میں آ کر دونوں پارٹیاں صرف پیسہ بناتی ہیں، اس لیے انھیں ایک تیسری پارٹی کی ضرورت محسوس ہوئی جو ملک کا اقتدار (بظاہر) سنبھال سکے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
چنانچہ اس ''نیک مقصد'' کے لیے پی ٹی آئی بنوائی گئی، دھرنے ہوئے، طاہر القادری کو بلایا گیا، ملک کے در و دیوار پر طاہر القادری کے حق میں نعرے لکھے گئے، ان کو کرکٹ گراؤنڈ سے اٹھا کر اسٹیج پر بٹھا دیا گیا، جنھیں سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا، وہ کپتان کی انگلی اٹھنے کا اشارہ پا کر الیکشن جیت گئے۔
ان کی جھولی میں آزاد امیدوار ڈالے گئے، ادھر اُدھر سے کارکنان جمع کرکے دے دیے گئے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ انھیں اقتدار میں کون لایا ہے؟ بس یہیں سے غلطی شروع ہوئی، ان کی گردن میں سریا تو پہلے ہی فٹ تھا، کرکٹ کی دنیا میں گھمنڈی اور تکبر آمیز رویے کی گونج تھی، انھوں نے کئی کرکٹرز کا کیریئر بھی تباہ کیا، ورلڈ کپ جتوانے کے بعد وہ اور زیادہ گھمنڈی ہوگئے تھے۔ جو قوتیں انھیں اقتدار میں لا رہی تھیں۔
ان کے رویے نے عمران کو اور زیادہ متکبر بنا دیا، وہ سمجھے وہ ان قوتوں کے چہیتے ہیں، وہ سیاست دان تو تھے نہیں جو اس کھیل کو سمجھتے، اس لیے آسانی سے ٹریپ ہوگئے، اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں مہنگائی بام عروج پر پہنچانے کی بنا پر وہ غیر مقبول ہونے لگے، ان کے وزیروں کے کرتوت سامنے آنے لگے، کوئی چینی باہر بھجوا رہا ہے کوئی گندم، اور انھیں کسی کرپشن کی نہ خبر تھی نہ ہی فکر، وہ تو چین کی بنسری بجا رہے تھے۔
خودستائی اس قدر کہ کسی کی کوئی بات گوارا نہیں، بس کبھی کبھار ان کے چاہنے والے انھیں ہوا لگانے کے لیے باہر لے آتے تھے اور انھیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ انھیں خواب خرگوش کے مزے لینے کے لیے کمرے میں بند کردیتے تھے۔
وہ کسی بیرونی سفارت کار سے نہ ملتے تھے، امریکی سفیر کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ انھیں ان کے قریبی ساتھیوں نے بانس پر یہ کہہ کر چڑھا دیا تھا کہ ''وہ وزیر اعظم ہیں'' اس لیے ہر کس و ناکس سے ملاقات نہیں کرسکتے، پی ٹی آئی کے کارکن سیاست کے مزاج کو نہ سمجھتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ کہیں اور سے ہدایات لیتے تھے، آج وہ جب بالکل اکیلے ہوگئے تو کل تک جن سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
آج انھی کی کانگریس ویمن سے پندرہ پندرہ منٹ زوم پر گفتگو کرکے التجا کرتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے اور انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوایا جائے۔ کل تک وہ امریکا کو بڑھکیں لگا رہے تھے کہ ہم تمہارے غلام ہیں جو تمہاری ہر ناجائز خواہش اور مطالبات پورے کریں؟ کل تک وہ امریکا کو کہہ رہے تھے کہ ان کی حکومت امریکا نے گرائی ہے، پھر یکایک ان کے تیروں کا رُخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو گیا۔ اب وہ ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں، واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کی جماعت تتر بتر ہوچکی ۔ اب بھی وقت ہے، ملک ایک پریشر ککر بنا ہوا ہے، بولنے اور لکھنے پر پابندی ہے، اکثریت اپنی بقا کے لیے ''چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی'' کے مقولے پہ کاربند ہیں، تحریک انصاف کے پنجرے سے جب سارے پنچھی اڑ گئے تو ان کو ''مذاکراتی ٹیم'' بنانے کا خیال آیا، جب انھیں مذاکرات کی دعوت دی جاتی تھی تو ان کا تکبر آسمان کو چھوتا تھا۔
انھوں نے اپنے خیرخواہوں اور دوستوں کی بات نہ مانی اور خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی، اسمبلیاں توڑ دیں اور یہ سمجھے کہ اب وہ پھر سے اپنی مقبولیت کیش کرا لیں گے، لیکن وہ جانتے نہیں تھے کہ ان کا پالا کن '' قوتوں'' سے پڑا ہے۔
وہ ملکی سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھے جہاں انھوں نے جب چاہا کسی بھی کرکٹر کا مستقبل خراب کردیا، اور میدان اور ٹیم سے باہر نکال دیا، ان میں صوبائی تعصب بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، آخر وہ کہتے ہیں ناں ''سو سنار کی تو ایک لوہار کی'' اب سر پکڑ کر رویے اور آہ و زاری کیجیے آپ کی کوئی نہیں سننے والا۔
ایک بات کہنا چاہوں گی کہ آزمائے ہوؤں کو مت آزمائیے، فارسی کی ایک مثل ہے کہ ''آزمودہ را آزمودن جہل است۔'' یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے، دوسرا یہ کہ تحریر اور تقریر پر سے پابندی اٹھا لیجیے، لوگوں کو بولنے دیجیے، یہاں تو کوئی ''ہائیڈ پارک'' بھی نہیں جہاں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔
صدیق سالک کا ناول ''پریشر ککر'' 1971 کے تناظر میں لکھا گیا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کیوں بنا؟ متعصب رویوں نے بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بھر دی تھی اور پھر یہ پریشر ککر پھٹ کر بنگلہ دیش بن گیا ، بچے کچھے پاکستان کو پریشر ککر مت بنائیے، آزمائے ہوؤں کو مت آزمائیے، مخلص اور دیانتدار قیادت کو سامنے لائیے، قوم آپ کی شکر گزار ہوگی۔