نریندر مودی کا دَورہ امریکا پاکستان کے لیے تشویش

بلا شبہ نریندر مودی نے ووٹ اور اقتدار کے حصول کے لیے بھارت میں نفرتوں کو فروغ دیا ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

سفارتی دُنیا کا موسم ایک جیسا کبھی نہیں رہتا۔ معاشی ، سیاسی اور عالمی اسٹریٹجک مفادات کے تحت یہ موسم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے۔

ڈپلومیسی شائد اِسی کا نام ہے ۔کہاں یہ وقت تھا کہ نریندر مودی کو امریکا اپنی سر زمین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا اور کہاں اب یہ وقت کہ اُسی نریندر مودی کو بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت میں امریکا خود سرکاری دَورے کی دعوت دے رہا ہے۔

جب امریکا نے نریندر مودی کا امریکی ویزہ منسوخ کرکے اُنہیں اپنے ہاں داخل ہونے سے منع کر دیا تھا، تب گجرات کے زخم ابھی تازہ تھے ۔ تب نریندر مودی کو ''گجرات کا قصاب'' کہا جارہا تھا ۔ مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں سیکڑوں بے گناہ گجراتی مسلمانوں کا جس درندگی اور شقاوتِ قلبی سے خون بہایا تھا، اس کی باز گشت سارے عالم میں سنائی دی گئی تھی ۔

اِسی پس منظر میں مودی کو ''گجرات کا قصائی ''(Butcher of Gujrat) کہا گیا ۔ یہ خطاب انمٹ دھبے کی طرح مودی جی کے دامن پر مستقل طور پر ثبت ہو چکا ہے۔ 21 سال گزر گئے ہیں لیکن بسیار بھارتی کوششوں کے باوجود یہ کریہہ دھبہ مٹ نہیں سکا ہے ۔ یہ داغ نریندر مودی کے شمشان گھاٹ پہنچنے تک ساتھ جائے گا۔

اب گجرات کے یہی ''قصائی صاحب'' جون 2023کے تیسرے ہفتے واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ اُن کے دَورے سے قبل امریکی وزیر دفاع، لائیڈ آسٹن ، نے بھارت کا 2روزہ دَورہ کیا ہے ۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان جنگی جہازوں کے انجن بنانے کا معاہدہ طے پا گیا ہے ۔

ان انجنوں سے بھارت 300 لڑاکا طیارے بنائے گا۔ امریکی حکومت، امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکی انتظامیہ نے نریندر مودی کے استقبال کے لیے اپنی بانہیں دراز کر رکھی ہیں ۔ امریکا، چین کی مخالفت میں، جس والہانہ انداز میں بھارت اور بھارتی وزیر اعظم کو پیار کررہا ہے ، اِس کی معنویت اور حقیقت سب پر عیاں ہے ۔ نریندر مودی 22جون کو امریکی ایوانِ نمائندگان اور امریکی سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے ۔

یہ خطاب غیر ملکی معززین کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز کہلاتا ہے ۔ مبینہ طور پر مودی جی اپنے مذکورہ خطاب میں اِس موضوع پر لب کشائی کریں گے کہ بھارت اور امریکا ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ترقی کے مراحل کس طرح طے کر سکتے ہیں اور یہ کہ دونوں ممالک کو عالمی سطح پر کن کن چیلنجوں کا سامنا ہے ؟ امریکی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر(Kevin McCarthy) نے نریندر مودی کو خط لکھ کر اِس موضوع کا تعین بھی کر دیا ہے ۔

یہ عجب ''اتفاق'' ہے کہ نریندر مودی کی امریکا یاترا سے دو ہفتے قبل نریندر مودی کے سب سے بڑے سیاسی مخالف اور حریف، راہل گاندھی، امریکا کے 6روزہ دَورے پر پہنچ گئے ۔ راہل گاندھی نے امریکا کے تین بڑے شہروں ( واشنگٹن، سان فرانسسکو اور نیویارک) کا مصروف ترین اور پُر شور دَورہ کیا ہے ۔ امریکی اور بھارتی میڈیا میں اِس دَورے کی کوریج خاصی نمایاں طور پر سامنے آئی ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ جس روز راہل گاندھی نیویارک پہنچے ، اُس شام نیویارک کے سب سے مشہور اور مہنگے علاقے ، مین ہیٹن، کے مصروف ترین اور مشہور ترین چوراہے (Times square)میں راہل گاندھی کی قدِ آدم الیکٹرانک فوٹو چمکتی دمکتی رہی ۔ شنید ہے اِس کے لیے نیویارک میں موجود امیر بھارتی اور راہل گاندھی کے سپورٹرز نے اِس کا خرچہ( ایک شب کا50ہزار ڈالر) برداشت کیا ۔


ہمارے لیے مگرقابلِ ذکر بات تو یہ ہے کہ واشنگٹن میں موجودگی کے دوران راہل گاندھی نے واشنگٹن پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران جہاں نریندرمودی کی مسلم دشمنی کا پردہ چاک کیا ، وہیں راہل گاندھی نے کھل کر عالمی صحافیوں کے رُو برو یہ بات بھی کہی :'' ( مقبوضہ) کشمیر میں جمہوری عمل کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے اور مسئلہ کشمیر پر وسیع پیمانے پر مذاکرات بھی کیے جانے چاہئیں۔

بلا شبہ نریندر مودی نے ووٹ اور اقتدار کے حصول کے لیے بھارت میں نفرتوں کو فروغ دیا ہے ۔اب بھارت میں مزید نفرتیں بونے کی گنجائش نہیں رہ گئی ۔ مودی نے ریاستی سفاکی طاقت سے بھارت میں اپنے مخالف میڈیا کو قید کررکھا ہے ۔''

جب گھر سے نریندر مودی کی مخالفت اور کشمیر دشمنی بارے واضح گواہی سامنے آ چکی ہے تو لازم تھا کہ واشنگٹن میں بروئے کار پاکستانی سفارتخانہ اور پاکستانی سفیر ( جناب مسعود خان) حرکت میں آتے اور راہل گاندھی کے مذکورہ اعترافات کی بنیاد پر کشمیر بارے پاکستانی موقف کو سامنے لاتے ۔یہ سنہری موقع بھی ، حسبِ سابق، ہمارے سفیر اور سفارتخانہ نے گنوا دیا۔

نریندر مودی ایسے موقع پر امریکا پہنچ رہے ہیں جب امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے حال ہی میں Human Rights Report On Indiaشائع کی ہے ۔ واضح اور غیر مبہم الفاظ میں امریکا نے اِس رپورٹ میں کہا ہے کہ '' نریندر مودی کی حکومت کے دوران بھارت میں انسانی حقوق کی شدید پامالیاں ہو رہی ہیں ۔ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے ۔ ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں عام ہیں ۔

مخالف نقطہ نظر رکھنے والے میڈیا کا گلا گھونٹا گیا ہے ۔ مذہبی اقلیتوں(مسلمانوں، دلتوں ، سکھوں ، عیسائیوں) کو کچلنے کا سفاک عمل جاری ہے ۔کشمیر میں دانستہ انتخابی عمل روک دیا گیا ہے ۔''نریندر مودی کی سرکار اور انڈین اسٹیبلشمنٹ اِس رپورٹ پر بے حد سٹپٹائی ہے ۔ یہ رپورٹ پاکستان اور خصوصاً امریکا میں بروئے کار پاکستانی سفارتخانے کے لیے چیلنج بھی تھی اور ایک زریں موقع بھی ۔نریندر مودی کے امریکی دَورے کے موقع پر پاکستان کو اِس زریں موقع سے استفادہ کرنا چاہیے تھا لیکن ہماری اتحادی حکومت اور ہمارے سفارتکاروں نے اِسے بھی اپنی نااہلیوں اور غفلتوں کے بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایسے موقع پر امریکا پہنچ رہے ہیں جب حال ہی میں ایک بھارتی نژاد امریکی دانشور(Ashoka Modi) نے نریندر مودی ، اُن کی حکومت اور بی جے پی کے ظالمانہ اقدامات پر ایک نہائت شاندار اور چشم کشا کتاب لکھی ہے۔

اِس کتاب کا عنوان ہے :India is Broken: A People Betrayed۔ مصنف اشوکا موڈی نے کمال مہارت ، محنت اور حقائق کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ مذہبی تعصب کو بروئے کار لاتے ہُوئے جب سے نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں، انڈیا درحقیقت باطنی طور پر لخت لخت ہو چکا ہے ۔

اور یہ کہ بھارت میں مسلم دشمنی اور عناد اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے ۔ اور یہ کہ بی جے پی ، آر ایس ایس اور نریندر مودی نے متحد ہو کر استحصالی سیاست اور ہتھکنڈوں کو فروغ دیا ہے تاکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو مستقل اور مضبوط رکھا جائے ۔ مذکورہ بالا معرکہ آرا کتاب کے مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ نریندر مودی نے اقتدار میں آ کر بھارت اور اپنے ووٹروں سے دغا کیا ہے ۔ اور یہ کہ نریندر مودی کے آہنی اقتدار نے بھارت میں سیکولرازم کی چُولیں ہلا دی ہیں ۔ اور یہ بھی کہ نریندر مودی نے دانستہ بھارت بھر میں تشدد اور خونریزی کو آگے بڑھایا ہے کہ وہ تشدد ہی میں اپنی حکومت اور پارٹی کی بقا سمجھتے ہیں ۔

اب پاکستان اور امریکا میں موجود پاکستانی سفارتکاروں کو چاہیے تھا کہ نریندر مودی کی امریکا یاترا کے موقع پر مذکورہ کتاب کے مندرجات کو بطورِ شواہد امریکی میڈیا میں بروئے کار لاتے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اِس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔
Load Next Story