زرمبادلہ ذخائر ملکی ضروریات سے 14 ارب ڈالر کم ہیں حفیظ پاشا
آئی ایم ایف ڈیل نہ ہونے کی صورت میں بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرانا ہوگی
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ملکی ضروریات کو درکار رقم سے 14 ارب ڈالر کم کی سطح پر ہیں، اس کے علاوہ رواں مالی سال کے اختتام تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 322 کی سطح تک جاسکتی ہیں۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کیا، اس موقع پر ان کی اہلیہ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا بھی موجود تھیں۔
جرمنی کے معروف تھنک ٹینک Friedrich Ebert Stiftung (FES) کے زیر اہتمام چھپنے والی اپنی کتاب 'پاکستانی معیشت کے اہم مسائل' سے خطاب میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ روپے کی زرمبادلہ کی شرح اور زرمبادلہ کے ذخائر خوفناک ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بیروزگاری بلند ترین 11 فیصد کی سطح پر ہے جبکہ غربت بھی اپنی بلند ترین سطح پر ہے کہ جہاں 10 کروڑ افراد اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت ملکی ضروریات سے 14 ارب ڈالر کم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کتاب میں انھوں نے بتایا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تخمینہ ایک ماہ کی درآمدی صورت حال کی بنیاد پر لگایا گہا ہے اور جس کے مطابق ایک ڈالر کی سطح 322 روپے کے مساوی ہونی چاہئے اور اگر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ڈیڑھ ماہ کے درآمدی بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں تو ایک ڈالر کی قدر 264 روپے کے مساوی ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں ایک ہفتے میں 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کا اضافہ
ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد سے زرمبادلہ کی شرح حکومتی کنٹرول میں ہے جبکہ اسے مارکیٹ کو طے کرنے دیا جانا چاہیے جو کہ آئی ایم ایف کا بھی مطالبہ ہے۔
ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ملنے کی صورت میں پاکستان کے پاس واحد راستہ یہی بچا ہے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرائے۔ پاکستان کی سب سے بڑی مشکل ملٹی لیٹرل قرضے ہیں۔زیادہ قرضہ انہی ذرائع سے حاصل کیا گیا۔اس قرضے کی واپسی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ڈیفالٹ کے خطرے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچے ہوئے دنیا کے 11 ممالک میں پاکستان کا نمبر نواں ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 ہزار ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے دہائیوں میں مکمل نہیں ہوسکے۔یہ منصوبے ا?ئندہ 18 سالوں میں بھی مکمل نہ ہوسکیں گے۔
ان کے مطابق پی ایس ڈی پی ماضی میں جی ڈی پی کا 3 فیصد ہوا کرتی ہے۔اب یہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔انھوں نے بتایا کہ خوراک میں مہنگائی 53 فیصد تک جانے کا خطرہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ڈالر کی قدر میں بے لگام اضافہ ہے۔ 10 سے 11 فیصد مزید لوگ سیلاب کے باث بے روزگار ہوئے۔ ان لوگوں کی تعداد 25 لاکھ کے قریب ہے، جبکہ 1 کروڑ 10 لاکھ لوگ پہلے ہی بے روزگار تھے-
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کیا، اس موقع پر ان کی اہلیہ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا بھی موجود تھیں۔
جرمنی کے معروف تھنک ٹینک Friedrich Ebert Stiftung (FES) کے زیر اہتمام چھپنے والی اپنی کتاب 'پاکستانی معیشت کے اہم مسائل' سے خطاب میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ روپے کی زرمبادلہ کی شرح اور زرمبادلہ کے ذخائر خوفناک ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بیروزگاری بلند ترین 11 فیصد کی سطح پر ہے جبکہ غربت بھی اپنی بلند ترین سطح پر ہے کہ جہاں 10 کروڑ افراد اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت ملکی ضروریات سے 14 ارب ڈالر کم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کتاب میں انھوں نے بتایا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تخمینہ ایک ماہ کی درآمدی صورت حال کی بنیاد پر لگایا گہا ہے اور جس کے مطابق ایک ڈالر کی سطح 322 روپے کے مساوی ہونی چاہئے اور اگر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ڈیڑھ ماہ کے درآمدی بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل ہوجائیں تو ایک ڈالر کی قدر 264 روپے کے مساوی ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں ایک ہفتے میں 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کا اضافہ
ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد سے زرمبادلہ کی شرح حکومتی کنٹرول میں ہے جبکہ اسے مارکیٹ کو طے کرنے دیا جانا چاہیے جو کہ آئی ایم ایف کا بھی مطالبہ ہے۔
ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ملنے کی صورت میں پاکستان کے پاس واحد راستہ یہی بچا ہے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرائے۔ پاکستان کی سب سے بڑی مشکل ملٹی لیٹرل قرضے ہیں۔زیادہ قرضہ انہی ذرائع سے حاصل کیا گیا۔اس قرضے کی واپسی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ڈیفالٹ کے خطرے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچے ہوئے دنیا کے 11 ممالک میں پاکستان کا نمبر نواں ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 ہزار ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے دہائیوں میں مکمل نہیں ہوسکے۔یہ منصوبے ا?ئندہ 18 سالوں میں بھی مکمل نہ ہوسکیں گے۔
ان کے مطابق پی ایس ڈی پی ماضی میں جی ڈی پی کا 3 فیصد ہوا کرتی ہے۔اب یہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔انھوں نے بتایا کہ خوراک میں مہنگائی 53 فیصد تک جانے کا خطرہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ڈالر کی قدر میں بے لگام اضافہ ہے۔ 10 سے 11 فیصد مزید لوگ سیلاب کے باث بے روزگار ہوئے۔ ان لوگوں کی تعداد 25 لاکھ کے قریب ہے، جبکہ 1 کروڑ 10 لاکھ لوگ پہلے ہی بے روزگار تھے-