آذر بائیجان تا قزاقستان
قزاقستان وسط ایشیا کاایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ زمینی راستے سے تجارت تو بہت ہی آسان اور سود مند ہے
وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے نے مرحوم و مغفور صدر ممنون حسین کے دورے آذر بائیجان کی یاد تازہ کردی۔
مارچ 2014میں ہونے والے اس دورے کا ایجنڈا بھی وزیر اعظم کے دورے کی طرح بہت بھرپور تھا ۔ اس میں ایک بڑا معاملہ باکو میں نیشنل بینک آف پاکستان کی بینک شاخ کھولنے سے متعلق تھا۔
مشکل یہ تھی کہ آذر بائیجان کے قانون کے مطابق پاکستان کے قومی بینک کی شاخ کھولنے کے لیے ایکویٹی کی جتنی رقم درکار تھی، پاکستان اسے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔
دوران مذاکرات صدر مرحوم نے ایجنڈے کا یہ نکتہ صدر الہام علیوف کے سامنے رکھا تو انھوں نے اسی وقت ذرا سا بھی سوچے بغیر اپنی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے حکام کو ہدایت کی کہ پاکستان کے لیے ایسی تمام شرائط ختم کر دی جائے جو نیشنل بینک کی شاخ کھولنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔یوں یہ معاملہ دوران مذاکرات ہی حل ہو گیا۔
اس واقعے کی یاد صدر الہام علیوف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان مذاکرات کے درمیان اس اتفاق رائے سے پیدا ہوئی جس کے تحت پاکستانی سے چاول کی برآمد پر آذر بائیجان میں درآمدی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ دورے کے اختتام پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے صدر ممنون حسین صاحب نے کہا تھا کہ ترکیہ کی طرح آذربائجان بھی ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھتا ہے۔
یہ حقیقت پہلی بار 2014ء صدر ممنون حسین کے دورے کے موقع پر ثابت ہوئی تھی اور اس بار وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کے موقع پر چاول کی برآمد کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ خصوصی رعایت کے ضمن میں سامنے آئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان محبت کا یہ سلسلہ دو معاملات یعنی نیشنل بینک کی شاخ کھولنے اور چاول کی برآمد تک ہی محدود نہیں۔ زندگی کے بہت سے معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔
آذربائیجان میں پاکستانی ایک دوست ملک کے شہری یا سیاح نہیں ہوتے، ایک ایسے ملک کے مہمان عزیز کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے لیے محاورے کے مطابق آنکھیں بچھا دی جاتی ہیں۔
آپ کسی ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھ جائیں اور انتظامیہ جان لے کہ یہ پاکستانی ہے تو وہ اپنے ہر گاہک کو بڑے اشتیاق سے بتاتے ہیں کہ آج ایک یا چند پاکستانی ہمارے مہمان بنے ہیں پھر یہ لوگ ان پاکستانیوں کے گرد محبت سے جمع ہو کر اشاروں کنایوں سے باتیں کرتے ہیں اور کچھ نہ کہہ سکیں تو دل دل پاکستان کے بول دہرا کر آپ کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے دل میں جگہ رکھنے والے ایسے ملک کے ساتھ ہمارے کشمیر اور نگورنو کاراباخ کے علاوہ قریبی دفاعی تعاون تو ہے ہی لیکن وہ اپنی کچھ کامیابیوں میں بھی ہمیں شریک کرنا چاہتے ہیں۔
مثلا آذر بائیجان میں ایک جملہ کسی تکیہ کلام کی طرح دہرایا جاتا ہے کہ اگر کوئی پانی کے لیے بور کرے تو وہاں سے بھی پیٹرول اور گیس نکل آتا ہے۔ کچھ ایسی بات ہی اس وقت کے سفیر پاکستان نے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک نے تیل اور گیس کی تلاش کو بعض دشواریوں کے باوجود یقینی بنایا اور اس سے حاصل ہونے والی دولت سے اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا، اس جیسی کوئی دوسری مثال شاید مشکل سے ہی ملے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان نے جن داخلی اور خارجی مشکلات کے باوجود دہشت گردی کے ناسور پر قابو پایا، اس سے آذری دوست بہت متاثر ہیں۔
یوں دونوں ملکوں کا یہ اختصاص ایک دوسرے کی طاقت بن سکتا ہے۔ پاکستان کی یہ خواہش تھی کہ توانائی کے ذخائر کی تلاش کے سلسلے میں استحصالی قوتوں اور کمپنیوں کے چنگل سے نجات حاصل کر کے آذری بھائیوں پر انحصار کیا جائے۔ اس معاملے میں کافی پیش رفت ہو جاتی اگر عمران خان جیسا سبز قدم بیچ میں نہ آ جاتا۔
اب اس رکاوٹ کے ہٹنے کے بعد معاملات پھر پٹڑی پر آ گئے ہیں ۔ تیل و گیس کی تلاش اور پیداوار تو وقت طلب معاملہ ہے جب کہ پاکستان کا فوری مسئلہ سستی توانائی کا حصول ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے یہ بھائی اگلے ماہ ہی ایل این جی کارگو کی پہلی قسط پاکستان بھجوا رہے ہیں۔
یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا جس کا سب سے بڑا مظہر دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست فضائی سروس کا آغاز ہے۔ 2018 میں جب میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو اس زمانے میں Look Central Asia (اگر چہ آذر بائیجان وسط ایشیا میں نہیں اس کے پڑوس میں کاکیشیا میں ہے)، Look Far East and Africa پالیسی بنائی گئی تھی تاکہ تجارت خاص طور برآمدات کے سلسلے میں نئی منڈیاں تلاش کی جاسکیں لیکن 2014 کے دھرنے کے بعد جس خرابی کا آغاز ہوا، اس نے حکومت کو اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی مہلت ہی نہ دی ورنہ آج پاکستان کا شمار دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں کیا جا رہا ہوتا۔
اب لگتا ہے کہ وہی نامکمل سفر ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے۔وزیر اعظم نے آذر بائیجان کے دورے سے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے، اس کی اگلی کڑی وسط ایشیا کے ایک اور قریب ترین ملک قزاقستان کے صدر کے دورہ پاکستان کی تیاریاں ہیں۔
جنھوں نے صرف چند ہی روز قبل ٹیلی فون پر وزیر اعظم سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ قزاقستان کے سفیر عزت مآب یزرہان کستافن( (Yerzhan Kistafin سے گزشتہ دنوں عزیز بہن عفت رؤف کی معیت میں ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس دورے کے لیے بڑے اشتیاق جوش وخروش سے تیاریاں کر رہے ہیں کیوں ہم پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور پاکستان زندگی کے دیگر شعبوں سمیت بیرونی دنیا سے براستہ گرم پانی ہمارا تعلق استوار کرنے میں معاون بن سکتا ہے۔
قزاقستان وسط ایشیا کاایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ زمینی راستے سے تجارت تو بہت ہی آسان اور سود مند ہے۔ اس کے باوجود قزاقستان ائیر لائن جولائی سے پاکستان سے براہ راست پروازیں شروع کر رہا ہے۔
یوں وسط ایشیا سے نہ صرف زمینی اور فضائی راستے بحال ہو رہے ہیں بلکہ اس خواب کی تعبیر بھی ہو رہی ہے، ایک سازش کے تحت جس میں رخنہ ڈال کر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
حکومت پاکستان نے ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹوں کے قیام ، روس افغانستان اور ایران کے ساتھ چارٹر ٹریڈ کے انقلابی معاہدوں اور روس سے تیل کی درآمد کے بعد وسط ایشیا کی طرف ایک بڑی جست لگادی ہے۔ قومی معیشت کے احیا اور بحالی کی طرف یہ ایک بڑی اور کامیاب کوشش ہے۔
بہ قول میاں محمد بخش علیہ رحمہ مالی نے اپنی کھیتی میں بھر بھر کے مشقیں ڈال دی ہیں، مالک بھی ان شاء اللہ پھل پھول لانے میں دیر نہیں کرے گا کیوں کہ یہ کام بڑی نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ ہو رہا ہے۔
مارچ 2014میں ہونے والے اس دورے کا ایجنڈا بھی وزیر اعظم کے دورے کی طرح بہت بھرپور تھا ۔ اس میں ایک بڑا معاملہ باکو میں نیشنل بینک آف پاکستان کی بینک شاخ کھولنے سے متعلق تھا۔
مشکل یہ تھی کہ آذر بائیجان کے قانون کے مطابق پاکستان کے قومی بینک کی شاخ کھولنے کے لیے ایکویٹی کی جتنی رقم درکار تھی، پاکستان اسے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔
دوران مذاکرات صدر مرحوم نے ایجنڈے کا یہ نکتہ صدر الہام علیوف کے سامنے رکھا تو انھوں نے اسی وقت ذرا سا بھی سوچے بغیر اپنی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے حکام کو ہدایت کی کہ پاکستان کے لیے ایسی تمام شرائط ختم کر دی جائے جو نیشنل بینک کی شاخ کھولنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔یوں یہ معاملہ دوران مذاکرات ہی حل ہو گیا۔
اس واقعے کی یاد صدر الہام علیوف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان مذاکرات کے درمیان اس اتفاق رائے سے پیدا ہوئی جس کے تحت پاکستانی سے چاول کی برآمد پر آذر بائیجان میں درآمدی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ دورے کے اختتام پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے صدر ممنون حسین صاحب نے کہا تھا کہ ترکیہ کی طرح آذربائجان بھی ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھتا ہے۔
یہ حقیقت پہلی بار 2014ء صدر ممنون حسین کے دورے کے موقع پر ثابت ہوئی تھی اور اس بار وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کے موقع پر چاول کی برآمد کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ خصوصی رعایت کے ضمن میں سامنے آئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان محبت کا یہ سلسلہ دو معاملات یعنی نیشنل بینک کی شاخ کھولنے اور چاول کی برآمد تک ہی محدود نہیں۔ زندگی کے بہت سے معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔
آذربائیجان میں پاکستانی ایک دوست ملک کے شہری یا سیاح نہیں ہوتے، ایک ایسے ملک کے مہمان عزیز کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے لیے محاورے کے مطابق آنکھیں بچھا دی جاتی ہیں۔
آپ کسی ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھ جائیں اور انتظامیہ جان لے کہ یہ پاکستانی ہے تو وہ اپنے ہر گاہک کو بڑے اشتیاق سے بتاتے ہیں کہ آج ایک یا چند پاکستانی ہمارے مہمان بنے ہیں پھر یہ لوگ ان پاکستانیوں کے گرد محبت سے جمع ہو کر اشاروں کنایوں سے باتیں کرتے ہیں اور کچھ نہ کہہ سکیں تو دل دل پاکستان کے بول دہرا کر آپ کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے دل میں جگہ رکھنے والے ایسے ملک کے ساتھ ہمارے کشمیر اور نگورنو کاراباخ کے علاوہ قریبی دفاعی تعاون تو ہے ہی لیکن وہ اپنی کچھ کامیابیوں میں بھی ہمیں شریک کرنا چاہتے ہیں۔
مثلا آذر بائیجان میں ایک جملہ کسی تکیہ کلام کی طرح دہرایا جاتا ہے کہ اگر کوئی پانی کے لیے بور کرے تو وہاں سے بھی پیٹرول اور گیس نکل آتا ہے۔ کچھ ایسی بات ہی اس وقت کے سفیر پاکستان نے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک نے تیل اور گیس کی تلاش کو بعض دشواریوں کے باوجود یقینی بنایا اور اس سے حاصل ہونے والی دولت سے اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا، اس جیسی کوئی دوسری مثال شاید مشکل سے ہی ملے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان نے جن داخلی اور خارجی مشکلات کے باوجود دہشت گردی کے ناسور پر قابو پایا، اس سے آذری دوست بہت متاثر ہیں۔
یوں دونوں ملکوں کا یہ اختصاص ایک دوسرے کی طاقت بن سکتا ہے۔ پاکستان کی یہ خواہش تھی کہ توانائی کے ذخائر کی تلاش کے سلسلے میں استحصالی قوتوں اور کمپنیوں کے چنگل سے نجات حاصل کر کے آذری بھائیوں پر انحصار کیا جائے۔ اس معاملے میں کافی پیش رفت ہو جاتی اگر عمران خان جیسا سبز قدم بیچ میں نہ آ جاتا۔
اب اس رکاوٹ کے ہٹنے کے بعد معاملات پھر پٹڑی پر آ گئے ہیں ۔ تیل و گیس کی تلاش اور پیداوار تو وقت طلب معاملہ ہے جب کہ پاکستان کا فوری مسئلہ سستی توانائی کا حصول ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے یہ بھائی اگلے ماہ ہی ایل این جی کارگو کی پہلی قسط پاکستان بھجوا رہے ہیں۔
یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا جس کا سب سے بڑا مظہر دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست فضائی سروس کا آغاز ہے۔ 2018 میں جب میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو اس زمانے میں Look Central Asia (اگر چہ آذر بائیجان وسط ایشیا میں نہیں اس کے پڑوس میں کاکیشیا میں ہے)، Look Far East and Africa پالیسی بنائی گئی تھی تاکہ تجارت خاص طور برآمدات کے سلسلے میں نئی منڈیاں تلاش کی جاسکیں لیکن 2014 کے دھرنے کے بعد جس خرابی کا آغاز ہوا، اس نے حکومت کو اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی مہلت ہی نہ دی ورنہ آج پاکستان کا شمار دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں کیا جا رہا ہوتا۔
اب لگتا ہے کہ وہی نامکمل سفر ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے۔وزیر اعظم نے آذر بائیجان کے دورے سے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے، اس کی اگلی کڑی وسط ایشیا کے ایک اور قریب ترین ملک قزاقستان کے صدر کے دورہ پاکستان کی تیاریاں ہیں۔
جنھوں نے صرف چند ہی روز قبل ٹیلی فون پر وزیر اعظم سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ قزاقستان کے سفیر عزت مآب یزرہان کستافن( (Yerzhan Kistafin سے گزشتہ دنوں عزیز بہن عفت رؤف کی معیت میں ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس دورے کے لیے بڑے اشتیاق جوش وخروش سے تیاریاں کر رہے ہیں کیوں ہم پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور پاکستان زندگی کے دیگر شعبوں سمیت بیرونی دنیا سے براستہ گرم پانی ہمارا تعلق استوار کرنے میں معاون بن سکتا ہے۔
قزاقستان وسط ایشیا کاایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ زمینی راستے سے تجارت تو بہت ہی آسان اور سود مند ہے۔ اس کے باوجود قزاقستان ائیر لائن جولائی سے پاکستان سے براہ راست پروازیں شروع کر رہا ہے۔
یوں وسط ایشیا سے نہ صرف زمینی اور فضائی راستے بحال ہو رہے ہیں بلکہ اس خواب کی تعبیر بھی ہو رہی ہے، ایک سازش کے تحت جس میں رخنہ ڈال کر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
حکومت پاکستان نے ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹوں کے قیام ، روس افغانستان اور ایران کے ساتھ چارٹر ٹریڈ کے انقلابی معاہدوں اور روس سے تیل کی درآمد کے بعد وسط ایشیا کی طرف ایک بڑی جست لگادی ہے۔ قومی معیشت کے احیا اور بحالی کی طرف یہ ایک بڑی اور کامیاب کوشش ہے۔
بہ قول میاں محمد بخش علیہ رحمہ مالی نے اپنی کھیتی میں بھر بھر کے مشقیں ڈال دی ہیں، مالک بھی ان شاء اللہ پھل پھول لانے میں دیر نہیں کرے گا کیوں کہ یہ کام بڑی نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ ہو رہا ہے۔