بجٹ برائے 202324 کا معاشی جائزہ

پاکستان کے عوام کی اکثریت کوبجٹ کے شماریاتی گورکھ دھندوں کاعلم نہیں ہوتاکیونکہ وہ اپنے کام دھندوں میں مصروف ہوتے ہیں

نئے مالی سال 2023-24 کے لیے وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا جس کا حجم 14 ہزار 460 ارب کا لگایا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی کل آمدن بجٹ کے حجم کے نصف سے بھی کم ہے یعنی 6887 ارب روپے۔ اور آمدن سے زیادہ قرض کی ادائیگی قسطوں کی ادائیگی اور سود کی ادائیگیوں کے لیے 7303 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

اس طرح بجٹ کے خدوخال ظاہر کر رہے ہیں کہ بجٹ معاشی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اسے نہ عوام دوست، نہ کاروبار دوست اور نہ ہی امیر دوست بجٹ کہہ سکتے ہیں بلکہ بجٹ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اسے خسارے کا بجٹ کہا جائے تو بہتر ہے، الیکشن زدہ بجٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔

5 سال قبل وفاقی بجٹ 7600 ارب روپے کا تھا، اب یہ اس سے تقریباً دگنے حجم کا بجٹ ہے۔ وفاق کا ترقیاتی بجٹ کا حجم اس وقت 6500 ارب روپے کا تھا اور اب 1150 ارب روپے کا ہے۔

پاکستان کے عوام کی اکثریت کو بجٹ کے شماریاتی گورکھ دھندوں کا علم نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے کام دھندوں میں مصروف ہوتے ہیں لیکن بجٹ کے بعد جیسے ہی ہر شے کے دام بڑھنے لگتے ہیں تو انھیں خبر ہو جاتی ہے، مارکیٹوں بازاروں سے بجٹ ہو کر گزرا ہے، جس نے یہ تباہی پھیلا دی ہے۔

لوگ بجٹ کو مختلف نام دے رہے ہیں لیکن میرے خیال میں پاکستان کا وفاقی بجٹ عوام کی اکثریت بلکہ 99 فیصد کی مالی حالت سے شدید متاثر ہے کیونکہ اس وقت صرف ایک فیصد طبقہ ایسا ہے جس کا بجٹ متاثر نہیں ہے۔ ورنہ ہر گھر کا بجٹ فیل ہے، شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے بھی بجٹ پر شدید تنقید کردی ہے۔

آئی ایم ایف کے نمایندے کی اس بات پر خوف ہے کہ بجٹ کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا گیا ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر بجٹ اصلاحات پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت نے بھی اصولی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔

اس طرح یہ بجٹ منظوری سے قبل آئی ایم ایف زدہ بجٹ بن جائے گا۔ اب اس بجٹ کو الیکشن زدہ بجٹ میں ڈھال کر زیادہ سے زیادہ انتخابی فوائد کے حصول کے لیے حکومت کو پاپڑ بیلنے پڑیں گے، کیونکہ آئی ایم ایف اب ناکوں چنے چبوائے گا۔

اگرچہ حکومت نے کہا ہے کہ اس کا پلان بی تیار ہے، لیکن اس کے لیے کمر کسنے کی تیاری کہیں نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ کسی بھی مشکل مسئلے کا شافی حل کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے نہ ہی بجٹ کے ذریعے مستقبل کی طرف مثبت پیش رفت نظر آ رہی ہے۔


یہ بجٹ کیسا ہے؟ کیسا نہیں؟ اس کے بارے میں ایک روز قبل شایع کیے گئے، اکنامک سروے رپورٹ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس قدر مشکل حالات جس میں ہر معاشی اشاریہ منفیت کا شکار ہو۔ ایسے میں شاہکار بجٹ تو پیش نہیں کیا جاسکتا۔

بتایا گیا کہ اکنامک گروتھ جس کا ہدف 5 فیصد تھا وہ محض 0.29 فیصد رہا اور گزشتہ کئی سالوں کے دوران جس قدر انفلیشن ریٹ رہا اس کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کسی طرح افراط زر کی شرح کو کم ازکم پچھلے سال کے قریب ہی لے آتی۔

مثلاً اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں 6.8 فیصد، 2020 میں 10.7 فیصد، 2021 میں 8.9 فیصد، 2022 میں 11.3 فیصد اور 2023 میں 30 فیصد سے زائد افراط زر رہا۔ اس طرح مہنگائی بڑھتی رہی تو عوام کا بجٹ بھی فیل اور حکومت کا بجٹ بھی اس سے شدید متاثر ہوگا۔

اکنامک سروے میں اعلان کیا گیا کہ گزشتہ سال فی کس آمدن کے مقابلے میں فی کس آمدن میں کمی ہوئی۔ جی ڈی پی میں کمی ہوئی۔ زراعت میں محض 1.55 فیصد گروتھ ہوئی۔

سروس سیکٹر محض 0.86 فیصد گروتھ اور انڈسٹریز سیکٹر جو کہ پاکستان میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے وہ شدید منفیت کا شکار ہوکر منفی 9.2 فیصد تک گر گیا۔ اب بھلا بتائیے جب ٹیکس ادا کرنے والا شعبہ ہی اتنے زیادہ انحطاط کا شکار ہو جائے تو آیندہ مالی سال کے بجٹ میں تجویز کردہ ٹیکس ہدف جو کہ 9200 ارب تک کا ہے وہ ہدف کیسے حاصل کیا جاسکے گا۔

برآمدات کا ہدف تیس ارب ڈالرز مقرر کیا جانا اور اس کے حصول کے لیے کسی قسم کے آسان روڈ میپ کا نہ ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ اس ہدف کے طے کرنے میں ایکسپورٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے علاوہ بجٹ کے علاوہ ترسیلات زر میں بھی تقریباً 21 فیصد کی کمی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ حکومت لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت برآمد کرنے کا فوری اور موثر بندوبست کرے۔

بجٹ میں قلیل رقم لیپ ٹاپ کے لیے رکھی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ڈاکٹر اور ہر ماسٹر ڈگری ہولڈر یا ایم بی اے جس نے کم از کم 2019 تک ڈگری لے لی ہے ان سب کو فری لیپ ٹاپ فراہم کیا جائے کیونکہ بے روزگاروں میں ان کا تناسب زیادہ ہے اور طالبات کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے۔

تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ اور پنشن میں صرف 17.5 فیصد اضافہ یہ لاکھوں بوڑھے پنشنرز کے ساتھ شدید ظلم اور ناانصافی ہے۔ لہٰذا ان کی پنشن میں کم ازکم تیس فیصد اضافہ کیا جانا ضروری ہے۔

حکومت کو اپنے وسائل کو بڑھانے، معاشی سرگرمیوں میں اضافہ، افرادی قوت کی برآمدات کے لیے مختلف ملکوں سے مذاکرات کرنے اور دیگر بہت سی باتوں پر اصلاحی اقدامات کے ذریعے ہی بجٹ کو قدرے بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ بجٹ معیشت دوست کہلاسکے۔
Load Next Story