تدبیر اور رحم
جتنی عزت‘ دبدبہ اور توقیر مامون کے حصے آئی‘ اس کا عشر عشیر بھی دنیا کے اکثر حکمرانوں کے نصیب میں نہ آسکی
خلیفہ مامون الرشید اپنے دور کا عظیم ترین حکمران تھا۔ دولت کے لحاظ سے بھی افسانوی حد تک امیر تھا۔ جتنی عزت' دبدبہ اور توقیر مامون کے حصے آئی' اس کا عشر عشیر بھی دنیا کے اکثر حکمرانوں کے نصیب میں نہ آسکی۔ مگر جہاں اس کی جاہ و حشمت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
بالکل وہیں' مامون کی شخصیت کے متضاد پہلوؤں پر بھی نظر جاتی ہے۔ مامون کا اپنے سگے بھائی سے حکومت حاصل کرنے کا سلوک' اس قدر جابرانہ تھا کہ ہندوستان کا آخری طاقتور شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ' اپنے خاندان پر ظلم کے حوالے سے طفل مکتب معلوم ہوتا ہے۔
بہر حال' مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں میں اقتدر کی منتقلی کا منظم طریقہ نہ گزشتہ دور میں تھا اور نہ ہی جدید دنیا میں ہے۔ الیکشن اور ووٹ کی طاقت ہمارے ملک بلکہ مسلمان ممالک میں آج بھی بے قدر ہے۔
کوئی بھی ایسا مسلمان ملک نہیں جس میں انسانی حقوق کی پاسداری 'عوامی جائز طاقت اورعدل کا بول بالا ہو۔ یہ صرف مغربی دنیا ہے۔ جس نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے پاسداری کی ہے۔ بہر حال مامون ' مجموعہِ تضادات تھا۔
مثلاً اسے عام لوگوں کے معاملات جاننے کا عشق تھا۔ صرف بغداد میں' خلیفہ نے سترہ سو خواتین پر مشتمل ' شہر کے حالات جاننے کا ایک خفیہ گروہ بنا رکھا تھا۔ یہ خواتین تمام دن شہر میں گھومتی پھرتی تھیں' اور بغداد کے تمام معاملات ' خلیفہ تک پہنچاتی تھیں۔
عجیب بات یہ بھی تھی کہ مامون کے علاوہ' ان جاسوس عورتوں کا نام و نشان تک کسی کے علم میں نہیں تھا۔شہر اور ملک کے حقیقی حالات جاننے کے باوجود خلیفہ نے کبھی بھی اپنی سلطنت کے کسی بھی شہری کی شخصی آزادی کو محدود نہیں کیا۔وہ ان لوگوں سے بھی بدگمان نہیں ہوتا تھا' جو اس پر ہر دم معترض رہتے تھے۔ حیرت انگیز نکتہ یہ تھا کہ وہ تمام معلومات کو عام لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرتا تھا۔
ایک بار خود مامون پر ایک شخص نے تیس ہزار دینار کا دعویٰ دائر کیا۔ جس کی جواب دہی کے لیے اس کو دارالقضا میں حاضر ہونا پڑا۔خدام نے قالین لا کر بچھایا تاکہ خلیفہ اس پر تشریف فرما ہو' لیکن قاضی القضاہ نے مامون سے کہا کہ یہاں آپ اور مدعی دونوں برابر درجہ رکھتے ہیں۔
مامون نے کچھ برا نہ منایا' بلکہ اس کے صلہ میں قاضی القضاہ کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔ یہ سچا قصہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی ذہنی روش کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ' بادشاہ کی دریا دلی اور فیاضی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے ذاتی حقوق سے بالاتر ہو چکا تھا۔ متعدد ایسے بدزبان شعرا تھے جو اس کی ہجو لکھتے تھے۔ لیکن خلیفہ کبھی ان کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتا تھا۔ ایک بلند پایہ شاعردعبل نے ایک ہجو میں اس کی نسبت لکھا:
شادو بذکرک بعد طول خمولہ
واستقدوک من الحفیض الا وھد
''میری قوم نے تیرے نام کو جو بالکل بجھا ہوا تھا۔ شہرت دے دی اور تجھ کو پستی سے نکال کر بلندی پر بٹھا دیا''۔
مامون نے یہ ہجو سنی تو صرف یہ کہ وہ دعبل کو ایسی غلط بات کہتے ذرا شرم نہیں آئی۔ میں گمنام کس دن تھا۔ پیدا ہوا تو خلافت کی آغوش میں پیدا ہوا اور دودھ پیا تو اسی کی چھاتیوں کا پیا۔ایک بار مامون کا چچا ابراہیم شاکی ہوا کہ دعبل کی بد زبانیاں حد سے گزر گئیں۔ میری ایسی بری ہجو لکھی ہے جو کسی طرح درگزر کے قابل نہیں ۔ ابراہیم نے اس ہجو کے کچھ اشعار بھی سنائے۔ مامون نے کہا''چچا جان۔ اس نے میری ہجو اس سے بھی بڑھ کر لکھی ہے۔
اور چونکہ میں نے درگزرکی۔ امید ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ دعبل کی بیہودہ گوئی سے سارا دربار نالاں تھا۔ ابوسعید مخزومی نے چند بار ' مامون کو بھڑکایا کہ آخر درگزر کہاں تک۔ مامون نے کہا''اچھا اگر بدلہ ہی لینا ہے تو تم بھی اس کی ہجو لکھ دو۔ مگر صرف یہ لکھو کہ دعبل لوگوں کی ہجو میں جو کچھ کہتا ہے غلط کہتا ہے''۔
مامون اکثر کہا کرتا تھا کہ مجھ کو ''عفو میں جو مزا آتا ہے۔ اگرلوگ جان جائیں تو جرم اور نافرمانی کو میرے پاس تحفہ لے کر آئیں''۔(خلیفہ مامون الرشید ' از شبلی نعمانی )
مسلمانوں کی تاریخ سے یہ واقعات نکال کر درج کرنے کا ایک مقصد ہے کہ ہمارے اختیارات کا مالک طبقہ' اپنے شہریوں کے معاملات میں رحم اور فیاضی سے کام نہیں لیتا۔رموزِ حکمرانی میں انھیں''عفو'' کی تدبیر اورطاقت کا اندازہ ہی نہیں۔ ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی ' تحریک انصاف کے حکمران ہوں یا مذہبی جماعتوں کے کلیدی کردار۔ یہ تمام کسی صورت میں ایک دوسرے کو معاف کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ ان کا سیاسی اختلاف اب ہر طور پر ذاتی انتقام میں بدل چکا ہے۔
کسی بھی جماعت کو اٹھا کر دیکھ لیجیے کسی بھی دور کے ' سیاسی بادشاہ کی نبض پر ہاتھ رکھیے۔ آپ کو سیاسی مخالفین کے خلاف جنون کی حد تک انتقامی جذبہ نظر آئے گا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئی فریق بھی اس سے مبرا نہیں۔ ستر کی دہائی میں بھٹو صاحب کی ایف ایس ایف ' بھرپور طرز پر ایک گسٹاپو طرز کی طاقت تھی۔
دلائی کیمپ کی کہانیاں آج تک مشہور ہیں۔ بھٹو نے سیاسی دشمنی کو ریاستی جبر سے قابو کرنے کا چلن اپنایا۔ وقت نے ان کی پر تشدد پالیسیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک ڈالا۔ تحریک انصاف کے اکابرین نے بھی اپنے مخالفین پر ریاستی جبر کا کلہاڑا بڑے شوق سے چلایا۔ اور ان پر زندگی کے تمام دروازے بند کر ڈالے۔ دراصل ' ہمارے سیاست دان' سیاسی پختگی سے عاری لوگ ہیں۔
ان میں سے اکثریت لکڑی کی ٹانگیں لگا کر اپنا قد اونچا دکھانے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ مگر پوری دنیا جانتی ہے کہ ان کی اصلیت کیا ہے۔
اس منفی جذبہ کو صرف سیاست دانوں تک محدود کرنا حد درجہ ناانصافی ہو گی۔ مہربانوں کے تمام دور' ذاتی انتقام کی کہانیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ صدر ایوب نے جس نرگسیت کا شکار ہو کر اپنے مخالف سیاسی قائدین پر عتاب شاہی نازل کیا۔ اس بے رحم ناانصافی کے ردعمل میں ملک دو لخت ہونے کی بنیاد پڑ گئی ۔ کرپشن کا ڈھول بجانے کی طفلانہ روایت اسی کے دور کی ایجاد ہے۔
یحییٰ خان بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے عمل میں ہر حد کو پار کر گیا۔ یحییٰ خان کی بے اعتدالیوں کا منبع ' خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا۔ ہر چیز برباد کرنے کے بعد بھی یہ ظالم لوگ حد درجہ مطمئن رہے۔ ضیاء الحق بھی سفاک طرز حکومت کا حامل رہا۔
دائیں بازو کے سیاسی گروہ کو' بائیں بازو سے لڑوا دیا۔ سیاسی مخالفین کو شاہی قلعہ میں درگور کر ڈالا۔ پھر حد درجہ بے تدبیری سے ہمارے ملک کو افغانستان کے اندرونی مسائل کی بھٹی میں جھونک دیا۔ خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔
پرویز مشرف نے بھی مسلم لیگ ن پر ہر طرح کا ظلم کیا۔ اور آخری دم تک تناؤ رہا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی جبر کو ایک ہتھیار کے طور پر ہمیشہ استعمال کیا گیا۔ مگر ہر بار مظلوم فریق مزید طاقتور ہو کر نکلا ۔ اب اس کو ایک تدبیر کے تحت عفو اور رحم میں بدلنا' اصل بہادری اور جرأت کا کام ہے۔ اور یہی عنصر ہمارے مقتدر طبقے میں مفقود ہے۔
دراصل اس طرز کا رحم دارانہ عمل' انسانی عظمت کی معراج ہوتی ہے۔ اور لکڑی کی ٹانگیں لگا کرکوئی بھی عظمت کا مینار نہیں بن سکتا۔دور حاضر میں حق حکمرانی کو رحم کے اصول پر قائم کرتے ہوئے' نیلسن منڈیلا کا ' دیومالائی کردار سامنے آتا ہے۔ ستائیس سال تک' نسل پرست حکومت نے منڈیلا کو قید و بند کی صعوبت میں مبتلا رکھا۔ سردیوں میں اسے ٹھنڈے فرش پر سلایا گیا۔ پتھر کٹوائے گئے۔
جیل کی تاریک ترین کوٹھریوں میں آنکھیں باندھ کر رکھا گیا۔ ستائیس برس کے بعد' جب منڈیلا ' جیل سے رہا ہوا۔ تو نسل پرست سفید فام حکومت کے سابقہ عمائدین شدید خوف میں مبتلا تھے۔ انھیں تو گردن زنی تک کا خطرہ تھا۔ مگر نیلسن منڈیلا نے کمال کردار کا مظاہرہ کیا۔
اپنے تمام سیاسی اور غیر سیاسی دشمنوں کو معاف کر دیا۔ اس کی یہ حد درجہ کامیاب تدبیر نے ساؤتھ افریقہ کے سیاہ اور سفید فام لوگوں کے دل جوڑ دیے۔ اس طرح کافی حد تک ایک مثالی معاشرہ قائم کر ڈالا۔ساؤتھ افریقہ کی ترقی پوری دنیا کے لیے آج بھی مثال ہے۔
ہمارے ملک میں مہربانوں کے پاس اصل اقتدار ہے۔ خواہش ہے کہ وہ خلیفہ مامون الرشید اور نیلسن منڈیلا کی طرح 'رحم دلی کی طرف جائیں۔ ایک سیاسی جماعت کے جزوی افراد نے جو مہیب غلطی کی ہے فراخ دلی اور تدبیر سے معاف کر دیں۔ شاید اس سے معاشرے کے گہرے زخم بھر جائیں۔ شاید انتقام سے بہتر جذبہ ' یعنی رحم' ملک کو ترقی کی طرف گامزن کر پائے!
بالکل وہیں' مامون کی شخصیت کے متضاد پہلوؤں پر بھی نظر جاتی ہے۔ مامون کا اپنے سگے بھائی سے حکومت حاصل کرنے کا سلوک' اس قدر جابرانہ تھا کہ ہندوستان کا آخری طاقتور شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ' اپنے خاندان پر ظلم کے حوالے سے طفل مکتب معلوم ہوتا ہے۔
بہر حال' مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں میں اقتدر کی منتقلی کا منظم طریقہ نہ گزشتہ دور میں تھا اور نہ ہی جدید دنیا میں ہے۔ الیکشن اور ووٹ کی طاقت ہمارے ملک بلکہ مسلمان ممالک میں آج بھی بے قدر ہے۔
کوئی بھی ایسا مسلمان ملک نہیں جس میں انسانی حقوق کی پاسداری 'عوامی جائز طاقت اورعدل کا بول بالا ہو۔ یہ صرف مغربی دنیا ہے۔ جس نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے پاسداری کی ہے۔ بہر حال مامون ' مجموعہِ تضادات تھا۔
مثلاً اسے عام لوگوں کے معاملات جاننے کا عشق تھا۔ صرف بغداد میں' خلیفہ نے سترہ سو خواتین پر مشتمل ' شہر کے حالات جاننے کا ایک خفیہ گروہ بنا رکھا تھا۔ یہ خواتین تمام دن شہر میں گھومتی پھرتی تھیں' اور بغداد کے تمام معاملات ' خلیفہ تک پہنچاتی تھیں۔
عجیب بات یہ بھی تھی کہ مامون کے علاوہ' ان جاسوس عورتوں کا نام و نشان تک کسی کے علم میں نہیں تھا۔شہر اور ملک کے حقیقی حالات جاننے کے باوجود خلیفہ نے کبھی بھی اپنی سلطنت کے کسی بھی شہری کی شخصی آزادی کو محدود نہیں کیا۔وہ ان لوگوں سے بھی بدگمان نہیں ہوتا تھا' جو اس پر ہر دم معترض رہتے تھے۔ حیرت انگیز نکتہ یہ تھا کہ وہ تمام معلومات کو عام لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرتا تھا۔
ایک بار خود مامون پر ایک شخص نے تیس ہزار دینار کا دعویٰ دائر کیا۔ جس کی جواب دہی کے لیے اس کو دارالقضا میں حاضر ہونا پڑا۔خدام نے قالین لا کر بچھایا تاکہ خلیفہ اس پر تشریف فرما ہو' لیکن قاضی القضاہ نے مامون سے کہا کہ یہاں آپ اور مدعی دونوں برابر درجہ رکھتے ہیں۔
مامون نے کچھ برا نہ منایا' بلکہ اس کے صلہ میں قاضی القضاہ کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔ یہ سچا قصہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی ذہنی روش کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ' بادشاہ کی دریا دلی اور فیاضی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے ذاتی حقوق سے بالاتر ہو چکا تھا۔ متعدد ایسے بدزبان شعرا تھے جو اس کی ہجو لکھتے تھے۔ لیکن خلیفہ کبھی ان کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتا تھا۔ ایک بلند پایہ شاعردعبل نے ایک ہجو میں اس کی نسبت لکھا:
شادو بذکرک بعد طول خمولہ
واستقدوک من الحفیض الا وھد
''میری قوم نے تیرے نام کو جو بالکل بجھا ہوا تھا۔ شہرت دے دی اور تجھ کو پستی سے نکال کر بلندی پر بٹھا دیا''۔
مامون نے یہ ہجو سنی تو صرف یہ کہ وہ دعبل کو ایسی غلط بات کہتے ذرا شرم نہیں آئی۔ میں گمنام کس دن تھا۔ پیدا ہوا تو خلافت کی آغوش میں پیدا ہوا اور دودھ پیا تو اسی کی چھاتیوں کا پیا۔ایک بار مامون کا چچا ابراہیم شاکی ہوا کہ دعبل کی بد زبانیاں حد سے گزر گئیں۔ میری ایسی بری ہجو لکھی ہے جو کسی طرح درگزر کے قابل نہیں ۔ ابراہیم نے اس ہجو کے کچھ اشعار بھی سنائے۔ مامون نے کہا''چچا جان۔ اس نے میری ہجو اس سے بھی بڑھ کر لکھی ہے۔
اور چونکہ میں نے درگزرکی۔ امید ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ دعبل کی بیہودہ گوئی سے سارا دربار نالاں تھا۔ ابوسعید مخزومی نے چند بار ' مامون کو بھڑکایا کہ آخر درگزر کہاں تک۔ مامون نے کہا''اچھا اگر بدلہ ہی لینا ہے تو تم بھی اس کی ہجو لکھ دو۔ مگر صرف یہ لکھو کہ دعبل لوگوں کی ہجو میں جو کچھ کہتا ہے غلط کہتا ہے''۔
مامون اکثر کہا کرتا تھا کہ مجھ کو ''عفو میں جو مزا آتا ہے۔ اگرلوگ جان جائیں تو جرم اور نافرمانی کو میرے پاس تحفہ لے کر آئیں''۔(خلیفہ مامون الرشید ' از شبلی نعمانی )
مسلمانوں کی تاریخ سے یہ واقعات نکال کر درج کرنے کا ایک مقصد ہے کہ ہمارے اختیارات کا مالک طبقہ' اپنے شہریوں کے معاملات میں رحم اور فیاضی سے کام نہیں لیتا۔رموزِ حکمرانی میں انھیں''عفو'' کی تدبیر اورطاقت کا اندازہ ہی نہیں۔ ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی ' تحریک انصاف کے حکمران ہوں یا مذہبی جماعتوں کے کلیدی کردار۔ یہ تمام کسی صورت میں ایک دوسرے کو معاف کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ ان کا سیاسی اختلاف اب ہر طور پر ذاتی انتقام میں بدل چکا ہے۔
کسی بھی جماعت کو اٹھا کر دیکھ لیجیے کسی بھی دور کے ' سیاسی بادشاہ کی نبض پر ہاتھ رکھیے۔ آپ کو سیاسی مخالفین کے خلاف جنون کی حد تک انتقامی جذبہ نظر آئے گا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئی فریق بھی اس سے مبرا نہیں۔ ستر کی دہائی میں بھٹو صاحب کی ایف ایس ایف ' بھرپور طرز پر ایک گسٹاپو طرز کی طاقت تھی۔
دلائی کیمپ کی کہانیاں آج تک مشہور ہیں۔ بھٹو نے سیاسی دشمنی کو ریاستی جبر سے قابو کرنے کا چلن اپنایا۔ وقت نے ان کی پر تشدد پالیسیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک ڈالا۔ تحریک انصاف کے اکابرین نے بھی اپنے مخالفین پر ریاستی جبر کا کلہاڑا بڑے شوق سے چلایا۔ اور ان پر زندگی کے تمام دروازے بند کر ڈالے۔ دراصل ' ہمارے سیاست دان' سیاسی پختگی سے عاری لوگ ہیں۔
ان میں سے اکثریت لکڑی کی ٹانگیں لگا کر اپنا قد اونچا دکھانے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ مگر پوری دنیا جانتی ہے کہ ان کی اصلیت کیا ہے۔
اس منفی جذبہ کو صرف سیاست دانوں تک محدود کرنا حد درجہ ناانصافی ہو گی۔ مہربانوں کے تمام دور' ذاتی انتقام کی کہانیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ صدر ایوب نے جس نرگسیت کا شکار ہو کر اپنے مخالف سیاسی قائدین پر عتاب شاہی نازل کیا۔ اس بے رحم ناانصافی کے ردعمل میں ملک دو لخت ہونے کی بنیاد پڑ گئی ۔ کرپشن کا ڈھول بجانے کی طفلانہ روایت اسی کے دور کی ایجاد ہے۔
یحییٰ خان بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے عمل میں ہر حد کو پار کر گیا۔ یحییٰ خان کی بے اعتدالیوں کا منبع ' خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا۔ ہر چیز برباد کرنے کے بعد بھی یہ ظالم لوگ حد درجہ مطمئن رہے۔ ضیاء الحق بھی سفاک طرز حکومت کا حامل رہا۔
دائیں بازو کے سیاسی گروہ کو' بائیں بازو سے لڑوا دیا۔ سیاسی مخالفین کو شاہی قلعہ میں درگور کر ڈالا۔ پھر حد درجہ بے تدبیری سے ہمارے ملک کو افغانستان کے اندرونی مسائل کی بھٹی میں جھونک دیا۔ خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔
پرویز مشرف نے بھی مسلم لیگ ن پر ہر طرح کا ظلم کیا۔ اور آخری دم تک تناؤ رہا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی جبر کو ایک ہتھیار کے طور پر ہمیشہ استعمال کیا گیا۔ مگر ہر بار مظلوم فریق مزید طاقتور ہو کر نکلا ۔ اب اس کو ایک تدبیر کے تحت عفو اور رحم میں بدلنا' اصل بہادری اور جرأت کا کام ہے۔ اور یہی عنصر ہمارے مقتدر طبقے میں مفقود ہے۔
دراصل اس طرز کا رحم دارانہ عمل' انسانی عظمت کی معراج ہوتی ہے۔ اور لکڑی کی ٹانگیں لگا کرکوئی بھی عظمت کا مینار نہیں بن سکتا۔دور حاضر میں حق حکمرانی کو رحم کے اصول پر قائم کرتے ہوئے' نیلسن منڈیلا کا ' دیومالائی کردار سامنے آتا ہے۔ ستائیس سال تک' نسل پرست حکومت نے منڈیلا کو قید و بند کی صعوبت میں مبتلا رکھا۔ سردیوں میں اسے ٹھنڈے فرش پر سلایا گیا۔ پتھر کٹوائے گئے۔
جیل کی تاریک ترین کوٹھریوں میں آنکھیں باندھ کر رکھا گیا۔ ستائیس برس کے بعد' جب منڈیلا ' جیل سے رہا ہوا۔ تو نسل پرست سفید فام حکومت کے سابقہ عمائدین شدید خوف میں مبتلا تھے۔ انھیں تو گردن زنی تک کا خطرہ تھا۔ مگر نیلسن منڈیلا نے کمال کردار کا مظاہرہ کیا۔
اپنے تمام سیاسی اور غیر سیاسی دشمنوں کو معاف کر دیا۔ اس کی یہ حد درجہ کامیاب تدبیر نے ساؤتھ افریقہ کے سیاہ اور سفید فام لوگوں کے دل جوڑ دیے۔ اس طرح کافی حد تک ایک مثالی معاشرہ قائم کر ڈالا۔ساؤتھ افریقہ کی ترقی پوری دنیا کے لیے آج بھی مثال ہے۔
ہمارے ملک میں مہربانوں کے پاس اصل اقتدار ہے۔ خواہش ہے کہ وہ خلیفہ مامون الرشید اور نیلسن منڈیلا کی طرح 'رحم دلی کی طرف جائیں۔ ایک سیاسی جماعت کے جزوی افراد نے جو مہیب غلطی کی ہے فراخ دلی اور تدبیر سے معاف کر دیں۔ شاید اس سے معاشرے کے گہرے زخم بھر جائیں۔ شاید انتقام سے بہتر جذبہ ' یعنی رحم' ملک کو ترقی کی طرف گامزن کر پائے!