غیر معمولی سیاسی حالات
ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ ابھی تک ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ ہم ایک چھوٹی سی ایلیٹ کے غلام ہو کر رہ گئے ہیں
ہمارا ملک جمہوری کہلاتا ہے لیکن یہ جمہوریت مٹھی بھرافراد کے قبضے میں ہے جو وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ایلیٹ کے ہاتھوں میں اس بری طرح سے جکڑ لیا گیا ہے کہ ان کا آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار اور ووٹ کا استعمال ناممکن کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
جمہوریت میں عوام بااختیار اور اپنی رائے دینے میں آزاد ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ ابھی تک ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ ہم ایک چھوٹی سی ایلیٹ کے غلام ہو کر رہ گئے ہیں۔
محمد علی بوگرہ کے بعد ملک میں جو افراتفری مچی اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک مٹھی بھر ارب پتی ایلیٹ ملک پر اس طرح قبضہ جما کر بیٹھی ہے کہ وہ عوام کے کندھوں سے اترنا ہی نہیں چاہتی، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے کوئی ایسا نظام پیش کرنے سے قاصر رہی ہیں جو جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بن سکے، چونکہ ایلیٹ نے چاروں طرف اپنے مہرے بٹھا رکھی ہے عوامی دولت کی لوٹ مار میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور یہ طبقہ آزادی سے عوامی محنت کی لوٹ مار میں مصروف ہے ، اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مصروف ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے لیکن ملک کے بعض حصوں میں ابھی تک وڈیرہ شاہی کی حکومت ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مڈل کلاس وہ کردار ادا نہ کرسکی جو اسے کرنا چاہیے تھا اس کے برخلاف یہ بدقسمت طبقہ ایلیٹ کا غلام بن کر رہ گیا۔
ہم نے اس سے قبل کئی بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جب تک عوام سیاست میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اور اشرافیہ کے غلام بنے رہیں گے۔ ملک کا یہی حال رہے گا، جمہوریت کا نام عوام ہے لیکن ہمارے ملک میں عوام کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے ان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ انتخابات کے موقع پر اشرافیہ کے بتائے ہوئے امیدوار کے بکس میں اپنا ووٹ ڈال دیں۔
اصل میں ہماری بیوروکریسی میں ایسے افراد گھسے ہوئے ہیں جو قدم قدم پر اشرافیہ کی خدمت انجام دیتے ہیں اور اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
ہر دور میں حکمران طبقہ دھڑلے سے لوٹ مار میں مصروف رہا ہے، بے چارے عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی غربت کے ذمے دار کون ہیں؟ بددیانت اشرافیہ عوام کے ذہن کو طبقاتی مفادات سے آگاہ کرنے کے بجائے انھیں پیروں اور فقیروں کے حوالے کردیتی ہے کہ وہ اپنے مسائل پیروں، فقیروں کے ذریعے حل کرائیں موجودہ صورت حال اس قدر المناک ہے کہ عوام کو ایک طرف ڈرا کر رکھا گیا ہے دوسری طرف انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھا گیا ہے تاکہ ان کی طاقت بٹی رہے اور وہ ایلیٹ کا مقابلہ نہ کرسکے۔
ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اس سے فائدے اٹھانے سے قاصر ہے، ایک بڑے ہنگامی دور کے بعد لوگ خوش تھے کہ وہ ارب پتی اشرافیہ سے نجات حاصل کر لیں لیکن غیر معمولی ہوشیار اشرافیہ نے بڑی تیزی سے ایسے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ بے چارے عوام خوف کا شکار ہوکر اپنا جمہوری فرض ادا کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔
انگریز ہندوستان پر اپنی حکمرانی بچانے اور قائم رکھنے کے لیے پولیس کو استعمال کرتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک کے عوام میں ایک سخت تناؤ کی کیفیت ہے ہمارا حکمران طبقہ پریشان ہے اس صورتحال سے کس طرح بچا جائے ایسے میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی فائدے اٹھانے کے بجائے عوام سے جڑ جانا چاہیے۔
جمہوریت میں عوام بااختیار اور اپنی رائے دینے میں آزاد ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ ابھی تک ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ ہم ایک چھوٹی سی ایلیٹ کے غلام ہو کر رہ گئے ہیں۔
محمد علی بوگرہ کے بعد ملک میں جو افراتفری مچی اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک مٹھی بھر ارب پتی ایلیٹ ملک پر اس طرح قبضہ جما کر بیٹھی ہے کہ وہ عوام کے کندھوں سے اترنا ہی نہیں چاہتی، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے کوئی ایسا نظام پیش کرنے سے قاصر رہی ہیں جو جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بن سکے، چونکہ ایلیٹ نے چاروں طرف اپنے مہرے بٹھا رکھی ہے عوامی دولت کی لوٹ مار میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور یہ طبقہ آزادی سے عوامی محنت کی لوٹ مار میں مصروف ہے ، اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مصروف ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے لیکن ملک کے بعض حصوں میں ابھی تک وڈیرہ شاہی کی حکومت ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مڈل کلاس وہ کردار ادا نہ کرسکی جو اسے کرنا چاہیے تھا اس کے برخلاف یہ بدقسمت طبقہ ایلیٹ کا غلام بن کر رہ گیا۔
ہم نے اس سے قبل کئی بار یاد دہانی کرائی ہے کہ جب تک عوام سیاست میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اور اشرافیہ کے غلام بنے رہیں گے۔ ملک کا یہی حال رہے گا، جمہوریت کا نام عوام ہے لیکن ہمارے ملک میں عوام کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے ان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ انتخابات کے موقع پر اشرافیہ کے بتائے ہوئے امیدوار کے بکس میں اپنا ووٹ ڈال دیں۔
اصل میں ہماری بیوروکریسی میں ایسے افراد گھسے ہوئے ہیں جو قدم قدم پر اشرافیہ کی خدمت انجام دیتے ہیں اور اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
ہر دور میں حکمران طبقہ دھڑلے سے لوٹ مار میں مصروف رہا ہے، بے چارے عوام کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی غربت کے ذمے دار کون ہیں؟ بددیانت اشرافیہ عوام کے ذہن کو طبقاتی مفادات سے آگاہ کرنے کے بجائے انھیں پیروں اور فقیروں کے حوالے کردیتی ہے کہ وہ اپنے مسائل پیروں، فقیروں کے ذریعے حل کرائیں موجودہ صورت حال اس قدر المناک ہے کہ عوام کو ایک طرف ڈرا کر رکھا گیا ہے دوسری طرف انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھا گیا ہے تاکہ ان کی طاقت بٹی رہے اور وہ ایلیٹ کا مقابلہ نہ کرسکے۔
ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اس سے فائدے اٹھانے سے قاصر ہے، ایک بڑے ہنگامی دور کے بعد لوگ خوش تھے کہ وہ ارب پتی اشرافیہ سے نجات حاصل کر لیں لیکن غیر معمولی ہوشیار اشرافیہ نے بڑی تیزی سے ایسے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ بے چارے عوام خوف کا شکار ہوکر اپنا جمہوری فرض ادا کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔
انگریز ہندوستان پر اپنی حکمرانی بچانے اور قائم رکھنے کے لیے پولیس کو استعمال کرتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک کے عوام میں ایک سخت تناؤ کی کیفیت ہے ہمارا حکمران طبقہ پریشان ہے اس صورتحال سے کس طرح بچا جائے ایسے میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی فائدے اٹھانے کے بجائے عوام سے جڑ جانا چاہیے۔