پندرہ منٹ کا شہر
کچھ لوگ 15منٹ سٹی کے تصور سے خوفزدہ اس لیے ہیں کہ یہ تصور کاروں کے بجائے انسانوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے
2050 میں کرہ ارض پر آبادی آج کی نسبت دوگنا ہو جائے گی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل میں ہماری شہری زندگی کس قدر ناقابل برداشت ہوسکتی ہے۔
دنیا کا سب سے معتبر ادارہ انٹرنیشنل ریسورس پینل ( آئی آر پی) کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کی آبادی میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کا نصف صرف 9ممالک میں ہو گا جن میں پاکستان ، بھارت، نائجیریا، جمہوریہ کانگو، تنزانیہ، انڈونیشا، ایتھوپیا، تنزانیہ اور مصر شامل ہیں۔ شہروں کی جانب ہجرت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی، آج پونے دو کروڑ ہے۔
اپنے بڑے شہروں کو دیکھیں تو شہر کے اندر اتنے فاصلے طے کرنا معمول کی بات ہے جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہو، شہریوں کی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ جہاں یہ بڑے شہر اچھے معاشی امکانات کے حوالے سے پُر کشش ہیں وہیں یہاں پر زندگی بسر کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
جہاں ترقی پذیر ممالک بڑے شہروں میں ضروریات زندگی اور شہری سہولیات کے حوالے سے بے شمار و مثال سے دوچار ہیں اسی طرح ترقی یافتہ ممالک بھی ان مسائل اور پریشانیوں سے مبرا نہیں۔ شہروں کی منصوبہ بندی کے ماہرین اور ادارے اس ضمن میں مسلسل سوچ بچار اور نئے تصورات پر کام میں مصروف رہتے ہیں۔ابھی حال ہی میں شہری زندگی کا ایک نیا تصور زیربحث ہے جسے '15منٹس سٹی' کا نام دیا گیا ہے۔
اس تصور کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ اگر شہری کی تمام ضروریات زندگی پندرہ منٹ پیدل فاصلے پر میسر ہوں تو اُس کے معیار زندگی میں کتنی بہتری آ سکتی ہے۔ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اگر شہریوں کو ان کی ملازمت' کام کی جگہ' مارکیٹ' اسکول' عبادت گاہ اور دیگر ضروریات زندگی زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ کی مسافت پر میسر آ جائیں تو معیار زندگی میں غیرمعمول بہتری ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
ویسے تو اس تصور کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے اور بہت سے ماہرین اور سرکاری ذرائع اسے ناقابل عمل سمجھتے ہیں لیکن جو کوئی دوسری جنگ عظیم سے قبل یورپ کے کسی تاریخی گائوں کی گلیوں میں گھوما پھراہو وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ تصور کوئی ایسا ناقابل عمل بھی نہیں۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں امریکا کے وسطی علاقوں کے بعض شہروں میں اس حوالے سے کامیاب پیش رفت سامنے آئی ہے۔
2012میں پورٹ لینڈ شہر نے ایک نئے منصوبے کو اختیار کرتے ہوئے 20 منٹ کے فاصلے پر سہولیات فراہم کرنے کے چیلنج کو ممکن بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک علاقے کے مکینوں کو کریانے کا اسٹور' پارک اور ایلیمنٹری اسکول 20 منٹ یا اس سے کم مسافت پر فراہم کیا گیا ہے۔اس تصور نے کوووڈ19 کی عالمی وباء کے دوران غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ اس سے لوگوں کو پتہ چلا کہ زندگی کا پہیہ اس نئے طریقے کے تحت بھی چلایا جا سکتا جب کہ دوسری طرف شہروں کے منصوبہ سازوں کو مستقبل کے شہر بسانے کے نئے تصورات بھی ملے۔
اب جب کہ آن لائن خدمات کی فراہمی نے بہت سی سہولیات کی فراہمی کو گھر کی دہلیز پر ممکن بنا دیا ہے تو یہ تصور مزید قابل عمل نظر آتا ہے۔ (15منٹ سٹی) کے تصور کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 15منٹ سٹی اپنے شہریوں کی بہتر صحت کی ضمانت فراہم کرے گا کیونکہ ایسے شہر کا ماحول یہاں رہنے والوں کے پیدل چلنے کی عادت کی حوصلہ افزائی کرے گا جب کہ کاروں کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
حال ہی میں عالمی وباء اور عمومی طور پر موسم میں آنے والے منفی تغیرات سے پیدا شدہ صورتحال نے دنیا کے بہت سے شہروں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ 15منٹ سٹی' کے خدوخال میں سے کچھ کو اختیارکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ شہروں کو رہائش اختیار کرنے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پُرکشش اور سہولیات کی بلاتعطل فراہمی کے قابل بنایا جا سکے۔
اس بارے میں سب سے بڑی کارروائی چند برس قبل فرانس کے دارالحکومت پیرس میں سامنے آئی۔ کووڈ وباء پھوٹنے سے کچھ پہلے شہر کی میئر 'این ہیڈالگو' نے تو گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کاروں کے استعمال میں کمی کی مہم چلائی۔
2020کے انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے لیے جو مرکزی بیانیہ انھوں نے اختیار کیا وہ 15منٹ سٹی ہی کا تصور تھا۔ ان کا تصور یہ تھا کہ شہر میں حرکت پذیری کا مزاج کاریں نہیں پیدل چلنے والے طے کریں گے۔ دوسرے یہ کہ شہر کا ہر مربع میٹر علاقہ ایک سے زیادہ مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جائے گا اور آخری بات یہ کہ ایک علاقے کو یوں منظم کیا جائے گا کہ وہاں رہنے والوں کو اپنے کام کاج اور روز مرہ ضروریات کے لیے کہیں اور نہ جانا پڑے۔
کچھ لوگ 15منٹ سٹی کے تصور سے خوفزدہ اس لیے ہیں کہ یہ تصور کاروں کے بجائے انسانوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تو کووڈ19 جیسے لاک ڈائون کا ماحول پیدا کر دے گا۔ ماہرین نفسیات کو اندیشہ ہے کہ یہ تصور دیر پا نہیں اور بہت جلد احمق افسر شاہی کے ہتھے چڑھ کر اپنی کشش کھو دے گا۔
برطانیہ میں اس تصور پر بحث مباحثہ شاید زیادہ زور و شور سے اس لیے جاری ہے کیونکہ یہاں کے کئی شہروں بالخصوص آکسفورڈ نے اس تصور کے اصولوں کو سنجیدگی سے اختیارکرنے کی کوشش کی ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے کنزرویٹو پارٹی کے رکن 'نک فلیچر' نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے اس تصور کو 15منٹ سٹی کا بین الاقوامی اشتراکی تصور قرار دیتے ہوئے اس پر بحث کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے ہماری انفرادی آزادیاں سلب ہو جائیں گی۔ کیمونزم سے مغرب کی نفرت اپنی جگہ لیکن کیا یہ درست بات نہیں کہ مسائل کی دلدل میں زندہ رہنے کے بجائے کچھ پابندیوں کے ساتھ پُرسکون زندگی بسر کرنا کہیں زیادہ پر کشش آپشن ہے۔
دنیا کا سب سے معتبر ادارہ انٹرنیشنل ریسورس پینل ( آئی آر پی) کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کی آبادی میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کا نصف صرف 9ممالک میں ہو گا جن میں پاکستان ، بھارت، نائجیریا، جمہوریہ کانگو، تنزانیہ، انڈونیشا، ایتھوپیا، تنزانیہ اور مصر شامل ہیں۔ شہروں کی جانب ہجرت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی، آج پونے دو کروڑ ہے۔
اپنے بڑے شہروں کو دیکھیں تو شہر کے اندر اتنے فاصلے طے کرنا معمول کی بات ہے جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہو، شہریوں کی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ جہاں یہ بڑے شہر اچھے معاشی امکانات کے حوالے سے پُر کشش ہیں وہیں یہاں پر زندگی بسر کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
جہاں ترقی پذیر ممالک بڑے شہروں میں ضروریات زندگی اور شہری سہولیات کے حوالے سے بے شمار و مثال سے دوچار ہیں اسی طرح ترقی یافتہ ممالک بھی ان مسائل اور پریشانیوں سے مبرا نہیں۔ شہروں کی منصوبہ بندی کے ماہرین اور ادارے اس ضمن میں مسلسل سوچ بچار اور نئے تصورات پر کام میں مصروف رہتے ہیں۔ابھی حال ہی میں شہری زندگی کا ایک نیا تصور زیربحث ہے جسے '15منٹس سٹی' کا نام دیا گیا ہے۔
اس تصور کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ اگر شہری کی تمام ضروریات زندگی پندرہ منٹ پیدل فاصلے پر میسر ہوں تو اُس کے معیار زندگی میں کتنی بہتری آ سکتی ہے۔ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اگر شہریوں کو ان کی ملازمت' کام کی جگہ' مارکیٹ' اسکول' عبادت گاہ اور دیگر ضروریات زندگی زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ کی مسافت پر میسر آ جائیں تو معیار زندگی میں غیرمعمول بہتری ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
ویسے تو اس تصور کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے اور بہت سے ماہرین اور سرکاری ذرائع اسے ناقابل عمل سمجھتے ہیں لیکن جو کوئی دوسری جنگ عظیم سے قبل یورپ کے کسی تاریخی گائوں کی گلیوں میں گھوما پھراہو وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ تصور کوئی ایسا ناقابل عمل بھی نہیں۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں امریکا کے وسطی علاقوں کے بعض شہروں میں اس حوالے سے کامیاب پیش رفت سامنے آئی ہے۔
2012میں پورٹ لینڈ شہر نے ایک نئے منصوبے کو اختیار کرتے ہوئے 20 منٹ کے فاصلے پر سہولیات فراہم کرنے کے چیلنج کو ممکن بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک علاقے کے مکینوں کو کریانے کا اسٹور' پارک اور ایلیمنٹری اسکول 20 منٹ یا اس سے کم مسافت پر فراہم کیا گیا ہے۔اس تصور نے کوووڈ19 کی عالمی وباء کے دوران غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ اس سے لوگوں کو پتہ چلا کہ زندگی کا پہیہ اس نئے طریقے کے تحت بھی چلایا جا سکتا جب کہ دوسری طرف شہروں کے منصوبہ سازوں کو مستقبل کے شہر بسانے کے نئے تصورات بھی ملے۔
اب جب کہ آن لائن خدمات کی فراہمی نے بہت سی سہولیات کی فراہمی کو گھر کی دہلیز پر ممکن بنا دیا ہے تو یہ تصور مزید قابل عمل نظر آتا ہے۔ (15منٹ سٹی) کے تصور کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 15منٹ سٹی اپنے شہریوں کی بہتر صحت کی ضمانت فراہم کرے گا کیونکہ ایسے شہر کا ماحول یہاں رہنے والوں کے پیدل چلنے کی عادت کی حوصلہ افزائی کرے گا جب کہ کاروں کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
حال ہی میں عالمی وباء اور عمومی طور پر موسم میں آنے والے منفی تغیرات سے پیدا شدہ صورتحال نے دنیا کے بہت سے شہروں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ 15منٹ سٹی' کے خدوخال میں سے کچھ کو اختیارکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ شہروں کو رہائش اختیار کرنے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پُرکشش اور سہولیات کی بلاتعطل فراہمی کے قابل بنایا جا سکے۔
اس بارے میں سب سے بڑی کارروائی چند برس قبل فرانس کے دارالحکومت پیرس میں سامنے آئی۔ کووڈ وباء پھوٹنے سے کچھ پہلے شہر کی میئر 'این ہیڈالگو' نے تو گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کاروں کے استعمال میں کمی کی مہم چلائی۔
2020کے انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے لیے جو مرکزی بیانیہ انھوں نے اختیار کیا وہ 15منٹ سٹی ہی کا تصور تھا۔ ان کا تصور یہ تھا کہ شہر میں حرکت پذیری کا مزاج کاریں نہیں پیدل چلنے والے طے کریں گے۔ دوسرے یہ کہ شہر کا ہر مربع میٹر علاقہ ایک سے زیادہ مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جائے گا اور آخری بات یہ کہ ایک علاقے کو یوں منظم کیا جائے گا کہ وہاں رہنے والوں کو اپنے کام کاج اور روز مرہ ضروریات کے لیے کہیں اور نہ جانا پڑے۔
کچھ لوگ 15منٹ سٹی کے تصور سے خوفزدہ اس لیے ہیں کہ یہ تصور کاروں کے بجائے انسانوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تو کووڈ19 جیسے لاک ڈائون کا ماحول پیدا کر دے گا۔ ماہرین نفسیات کو اندیشہ ہے کہ یہ تصور دیر پا نہیں اور بہت جلد احمق افسر شاہی کے ہتھے چڑھ کر اپنی کشش کھو دے گا۔
برطانیہ میں اس تصور پر بحث مباحثہ شاید زیادہ زور و شور سے اس لیے جاری ہے کیونکہ یہاں کے کئی شہروں بالخصوص آکسفورڈ نے اس تصور کے اصولوں کو سنجیدگی سے اختیارکرنے کی کوشش کی ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے کنزرویٹو پارٹی کے رکن 'نک فلیچر' نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے اس تصور کو 15منٹ سٹی کا بین الاقوامی اشتراکی تصور قرار دیتے ہوئے اس پر بحث کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے ہماری انفرادی آزادیاں سلب ہو جائیں گی۔ کیمونزم سے مغرب کی نفرت اپنی جگہ لیکن کیا یہ درست بات نہیں کہ مسائل کی دلدل میں زندہ رہنے کے بجائے کچھ پابندیوں کے ساتھ پُرسکون زندگی بسر کرنا کہیں زیادہ پر کشش آپشن ہے۔