کراچی بلدیاتی معرکے چند اہم پہلو
کراچی کے موجودہ انتخابی منظرنامے کا آخری اورسب سے اہم پہلو اس کی موجودہ تقسیم یعنی آج کی حزب اقتداراور حزب اختلاف ہے
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں توقع یہی تھی کہ حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کی محنت رنگ لائے گی اور ان کے مقابل دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دے گا لیکن زمینی حقائق مختلف نکلے۔
آج کے کراچی کو سمجھنے کے لیے شدت جذبات میں کی جانے والی تنقید اور تاریخ کی بعض سچائیوں سے اخذ کیا جانے والا بیانیہ ماحول میں موجود تلخی میں اضافہ تو کرے گا لیکن زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد گار ثابت نہیں ہوسکے گا۔
جماعت اسلامی یا حافظ صاحب کے موجودہ بیانئے کاایک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے دھاندلی کے ذریعے شہر کا مینڈیٹ ان سے چھین لیا ہے لہذا اب ہم انھیں اطمینان سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔
سیاسی مہم جوئی کے لیے یہ حکمت عملی درست ہوسکتی ہے لیکن جماعت اگر اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ واپس حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ نعرہ معاونت نہیں کرے گا، اس کے لیے بعض دیگر حقائق کو سمجھنا ضروری ہو گا اگرچہ یہ حقائق نہایت تلخ اور ناپسندیدہ بھی ہوں۔
یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی نے ان بلدیاتی انتخابات میں جو ووٹ حاصل کیے، وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تقریبا دو گنا تھے۔ اس اعتبار سے عمومی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی حریف جماعت کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔
ووٹوں کی یہ تعداد یقینا ثابت کرتی ہے کہ حافظ نعیم واقعتا ایک برانڈ ہیں لیکن انتخابی سیاست کے اسرار و رموز کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ مجموعی ووٹوں کے زیادہ ہونے کا ہمیشہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حاصل ہونے والی نشستیں بھی اسی تناسب سے ہوں گی لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ کوئی سیاسی گروہ مجموعی طور پر کم ووٹ لے کر بھی مختلف حلقوں سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتا ہے۔ کراچی میں بالکل یہی ہوا ہے۔
انتخابی سائنس کے اس پہلو پر زور دیتے ہوئے یہاں یہ صفائی پیش کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی جا رہی کہ مختلف گروہوں نے نتائج کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں کرنے کے لیے زور زبردستی نہیں کی ہو گی، بالکل کی ہوگی بلکہ جو زیادہ طاقت رکھتا ہو گا، اس نے حتی المقدور زیادہ کیا ہو گا لیکن ایسا تو ہمیشہ ہوتا ہے لیکن ایسے معاملات کو کھیل کاحصہ سمجھنے کے باوجود جماعت اسلامی جیسی قوتیں رائے عامہ کی طاقت کے ذریعے نتائج کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔
کراچی کے بلدیاتی منظر نامے پر ایسا نہیں ہوسکا تو زور زبردستی کے علاوہ بھی اس کی کچھ وجوہات ہیں جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات جس پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، شہر کی آبادی کا تبدیل شدہ تناسب ہے۔ گو جماعت اسلامی خود کو لسانی اور نسلی تعصبات سے ہمیشہ بلند رکھتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسے سب سے زیادہ ووٹ اردو بولنے والے ہی دیتے ہیں۔
ماضی کے اعداد و شمار پیش نظر رکھیں تو شہر میں اردو بولنے والوں کا تناسب کوئی ستر فیصد کے قریب تھا لیکن گزشتہ تیس برس میں یہ تناسب کم ہو کر کوئی انچاس فیصد پر آ چکا ہے، اس کے مقابلے میں گزشتہ تیس برس کے دوران میں سندھی بولنے والی ابادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ تناسب کیسے بڑھا، یہ ایک بالکل مختلف موضوع ہے جسے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس عرصے میں پشتو بولنے والوں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف شہر کی ڈیموگرافی مکمل طور پر بدل گئی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں روزگار کے وسائل کی تقسیم کی نوعیت میں بھی بہت زیادہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
اسے خوش قسمتی تو ہر گز نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان پشتو بولنے والوں کی غالب اکثریت خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں سے نہیں آئی بلکہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے اور یہ لوگ اب دستاویزات حاصل کر کے مقامی شہری کا مرتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی فیصلے پاکستانی پختونوں کی طرح نظریاتی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ تعصبات اور مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
اس ڈیمو گرافک تبدیلی نے اس بار بھی انتخابی معرکے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور آنے والے انتخابات میں بھی اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔
حالیہ بلدیاتی انتخاب کی ایک حقیقت یہ ہے کہ آبادی کے بدلے ہوئے تناسب کی وجہ سے چند لسانی و نسلی طبقات کا ووٹ چند خاص علاقوں میں تقسیم ہوئے بغیر پیپلز پارٹی کے حق میں چلا گیا جب کہ حافظ نعیم الرحمن کا ووٹ جو تناسب میں ویسے بھی کم ہو چکا تھا، مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو گیا یوں ان کی نشستوں کی تعداد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کم ہو گئی۔
اس کمی میں کچھ اثر حلقہ بندیوں کی جادو گری کا بھی ہے جسے طاقت ور قوت ہمیشہ اپنے حق میں کر لیتی ہے۔ کراچی کے موجودہ انتخابی نتائج کو سمجھنے کے لیے اس تبدیلی کو سمجھنا ناگزیر ہے اور نظر انداز کرنا انتہا درجے کی سادگی۔
کراچی کے سیاسی جغرافیے کو سمجھنے کے لیے جہاں ڈیمو گرافک تبدیلی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ، وہیں چند دیگر سیاسی حقائق اور رائے عامہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کی کھوکھلی حیثیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ 2018 میں ملنے والے قومی اسمبلی کی نشستیں عوام کی حقیقی رائے کی عکاس نہیں تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ شہر میں الطاف حسین کی اپیل اب بھی موجود ہے۔
وہ اگر عوام سے کہہ دیں کہ وہ انتخابی مہم سے لا تعلق رہیں تو پھر پندرہ سے بیس فیصد لوگ ہی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ کراچی میں سیاست کرنے کا جو کوئی بھی خواہش مند ہو، اسے یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی یہ پہلو نظر انداز کر کے سیاست کرنا چاہتا ہے تو پھر سیاست کے ساتھ اس کی سنجیدگی پر ضرور سوال ہو گا۔
کراچی کے موجودہ انتخابی منظر نامے کا آخری اور سب سے اہم پہلو اس کی موجودہ تقسیم یعنی آج کی حزب اقتدار اور حزب اختلاف ہے۔ ایم کیو ایم ہو یا پی ٹی آئی، یہ دونوں سیاسی حقیقتیں ہیں لیکن وقت کی میزان پر ثابت ہوا ہے کہ ان دونوں کے طرز عمل پر سوالات ہیں، انھیں بھرپور اقتدار ملا لیکن انھوں نے شہر کے لیے کچھ کر کے نہیں دیا بلکہ ان کے ادوار میں مسائل میں زیادہ اضافہ ہوا۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی زیادہ سنجیدہ سیاسی قوتیں ہیں۔
یہ دونوں اگر ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں تو شہر اور اپنے سیاسی مفاد میں دیگر کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج دے سکتی تھیں اور دے سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے حالیہ انتخابی تلخی نے ان دونوں کو باہم متحد نہیں ہونے دیا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو صوبائی حکومت کے وسائل اور جماعت اسلامی کی قوت عمل ان ہونی کر دکھاتی۔
اب یہ نہیں ہو پایا تو اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے گا اور آخری بات یہ کہ یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہو جاتیں تو سندھ کی شہری اور دیہی تقسیم کی شدت میں بھی کمی واقع ہوسکتی تھی شہر میں سنجیدہ سیاست فروغ پاسکتی تھی، اب صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
آج کے کراچی کو سمجھنے کے لیے شدت جذبات میں کی جانے والی تنقید اور تاریخ کی بعض سچائیوں سے اخذ کیا جانے والا بیانیہ ماحول میں موجود تلخی میں اضافہ تو کرے گا لیکن زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد گار ثابت نہیں ہوسکے گا۔
جماعت اسلامی یا حافظ صاحب کے موجودہ بیانئے کاایک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے دھاندلی کے ذریعے شہر کا مینڈیٹ ان سے چھین لیا ہے لہذا اب ہم انھیں اطمینان سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔
سیاسی مہم جوئی کے لیے یہ حکمت عملی درست ہوسکتی ہے لیکن جماعت اگر اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ واپس حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ نعرہ معاونت نہیں کرے گا، اس کے لیے بعض دیگر حقائق کو سمجھنا ضروری ہو گا اگرچہ یہ حقائق نہایت تلخ اور ناپسندیدہ بھی ہوں۔
یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی نے ان بلدیاتی انتخابات میں جو ووٹ حاصل کیے، وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تقریبا دو گنا تھے۔ اس اعتبار سے عمومی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی حریف جماعت کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔
ووٹوں کی یہ تعداد یقینا ثابت کرتی ہے کہ حافظ نعیم واقعتا ایک برانڈ ہیں لیکن انتخابی سیاست کے اسرار و رموز کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ مجموعی ووٹوں کے زیادہ ہونے کا ہمیشہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حاصل ہونے والی نشستیں بھی اسی تناسب سے ہوں گی لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ کوئی سیاسی گروہ مجموعی طور پر کم ووٹ لے کر بھی مختلف حلقوں سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتا ہے۔ کراچی میں بالکل یہی ہوا ہے۔
انتخابی سائنس کے اس پہلو پر زور دیتے ہوئے یہاں یہ صفائی پیش کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی جا رہی کہ مختلف گروہوں نے نتائج کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں کرنے کے لیے زور زبردستی نہیں کی ہو گی، بالکل کی ہوگی بلکہ جو زیادہ طاقت رکھتا ہو گا، اس نے حتی المقدور زیادہ کیا ہو گا لیکن ایسا تو ہمیشہ ہوتا ہے لیکن ایسے معاملات کو کھیل کاحصہ سمجھنے کے باوجود جماعت اسلامی جیسی قوتیں رائے عامہ کی طاقت کے ذریعے نتائج کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔
کراچی کے بلدیاتی منظر نامے پر ایسا نہیں ہوسکا تو زور زبردستی کے علاوہ بھی اس کی کچھ وجوہات ہیں جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات جس پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، شہر کی آبادی کا تبدیل شدہ تناسب ہے۔ گو جماعت اسلامی خود کو لسانی اور نسلی تعصبات سے ہمیشہ بلند رکھتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسے سب سے زیادہ ووٹ اردو بولنے والے ہی دیتے ہیں۔
ماضی کے اعداد و شمار پیش نظر رکھیں تو شہر میں اردو بولنے والوں کا تناسب کوئی ستر فیصد کے قریب تھا لیکن گزشتہ تیس برس میں یہ تناسب کم ہو کر کوئی انچاس فیصد پر آ چکا ہے، اس کے مقابلے میں گزشتہ تیس برس کے دوران میں سندھی بولنے والی ابادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ تناسب کیسے بڑھا، یہ ایک بالکل مختلف موضوع ہے جسے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس عرصے میں پشتو بولنے والوں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف شہر کی ڈیموگرافی مکمل طور پر بدل گئی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں روزگار کے وسائل کی تقسیم کی نوعیت میں بھی بہت زیادہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
اسے خوش قسمتی تو ہر گز نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان پشتو بولنے والوں کی غالب اکثریت خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں سے نہیں آئی بلکہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے اور یہ لوگ اب دستاویزات حاصل کر کے مقامی شہری کا مرتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی فیصلے پاکستانی پختونوں کی طرح نظریاتی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ تعصبات اور مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
اس ڈیمو گرافک تبدیلی نے اس بار بھی انتخابی معرکے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور آنے والے انتخابات میں بھی اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔
حالیہ بلدیاتی انتخاب کی ایک حقیقت یہ ہے کہ آبادی کے بدلے ہوئے تناسب کی وجہ سے چند لسانی و نسلی طبقات کا ووٹ چند خاص علاقوں میں تقسیم ہوئے بغیر پیپلز پارٹی کے حق میں چلا گیا جب کہ حافظ نعیم الرحمن کا ووٹ جو تناسب میں ویسے بھی کم ہو چکا تھا، مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو گیا یوں ان کی نشستوں کی تعداد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کم ہو گئی۔
اس کمی میں کچھ اثر حلقہ بندیوں کی جادو گری کا بھی ہے جسے طاقت ور قوت ہمیشہ اپنے حق میں کر لیتی ہے۔ کراچی کے موجودہ انتخابی نتائج کو سمجھنے کے لیے اس تبدیلی کو سمجھنا ناگزیر ہے اور نظر انداز کرنا انتہا درجے کی سادگی۔
کراچی کے سیاسی جغرافیے کو سمجھنے کے لیے جہاں ڈیمو گرافک تبدیلی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ، وہیں چند دیگر سیاسی حقائق اور رائے عامہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کی کھوکھلی حیثیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ 2018 میں ملنے والے قومی اسمبلی کی نشستیں عوام کی حقیقی رائے کی عکاس نہیں تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ شہر میں الطاف حسین کی اپیل اب بھی موجود ہے۔
وہ اگر عوام سے کہہ دیں کہ وہ انتخابی مہم سے لا تعلق رہیں تو پھر پندرہ سے بیس فیصد لوگ ہی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ کراچی میں سیاست کرنے کا جو کوئی بھی خواہش مند ہو، اسے یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی یہ پہلو نظر انداز کر کے سیاست کرنا چاہتا ہے تو پھر سیاست کے ساتھ اس کی سنجیدگی پر ضرور سوال ہو گا۔
کراچی کے موجودہ انتخابی منظر نامے کا آخری اور سب سے اہم پہلو اس کی موجودہ تقسیم یعنی آج کی حزب اقتدار اور حزب اختلاف ہے۔ ایم کیو ایم ہو یا پی ٹی آئی، یہ دونوں سیاسی حقیقتیں ہیں لیکن وقت کی میزان پر ثابت ہوا ہے کہ ان دونوں کے طرز عمل پر سوالات ہیں، انھیں بھرپور اقتدار ملا لیکن انھوں نے شہر کے لیے کچھ کر کے نہیں دیا بلکہ ان کے ادوار میں مسائل میں زیادہ اضافہ ہوا۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی زیادہ سنجیدہ سیاسی قوتیں ہیں۔
یہ دونوں اگر ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں تو شہر اور اپنے سیاسی مفاد میں دیگر کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج دے سکتی تھیں اور دے سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے حالیہ انتخابی تلخی نے ان دونوں کو باہم متحد نہیں ہونے دیا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو صوبائی حکومت کے وسائل اور جماعت اسلامی کی قوت عمل ان ہونی کر دکھاتی۔
اب یہ نہیں ہو پایا تو اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے گا اور آخری بات یہ کہ یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہو جاتیں تو سندھ کی شہری اور دیہی تقسیم کی شدت میں بھی کمی واقع ہوسکتی تھی شہر میں سنجیدہ سیاست فروغ پاسکتی تھی، اب صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔