مودی کو واشنگٹن میں دورے کی دعوت
یہ امریکی پروٹوکول میں کسی غیر ملکی مہمان کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز ہے
امریکی کانگریس کے لیڈروں نے جون کے شروع میں بتایا کہ انھوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو 22جون کو مدعو کیا ہے کہ انھیں امریکی ایوان نمایندگان اور سینیٹ سے خطاب کی دعوت دی ہے۔ یہ امریکی پروٹوکول میں کسی غیر ملکی مہمان کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔
اب ان کے نام بھی دیکھ لیں کہ کن امریکی لیڈروں نے بھارتی وزیر اعظم کو خطاب کے لیے مدعو کیا ہے۔ ان میں سرفہرست امریکی ری پبلیکن اسپیکر کیون میک کارتھی ہیں۔ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر چک شومر سینیٹ میں ری پبلیکن لیڈر مچ میک کونل اور ہاؤس ڈیمو کریٹک لیڈر حکیم جعفریز ہیں۔
ان تمام امریکی لیڈروں نے ایک خط میں امریکی ایوان نمایندگان کے مشترکہ اجلاس سے بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کو خطاب کے لیے مدعو کیا ہے۔ امریکی قانون سازوں کے مشترکہ سیشن سے خطاب مودی کا دوسری مرتبہ ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اس ریاستی دورے کی دعوت بھارتی وزیر اعظم کو گزشتہ مہینے دی۔
اصل بات یہ ہے کہ بائیڈن شدت سے خواہش مند ہیں کہ بھارت جو دنیا میں سب سے بڑی ڈیمو کریسی ہے کے ساتھ گہرے تعلقات بنائے جائیں۔ کانگریس کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کا موقعہ صرف امریکا کے قریبی اتحادیوں کو دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد امریکا سمیت مغربی ممالک نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کو ویزہ نہ دینے کی پالیسی اختیار کی جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے جس میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ یہ دور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا تھا۔ الزام یہ تھا کہ مودی نے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
بھارت کی طرف سے ایسا آخری دورہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نومبر 2009 میں کیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت بتدریج روس سے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ یہ من موہن سنگھ ہی تھے جنھوں نے بند بھارتی معشیت کو کھلی معشیت میں بدل دیا امریکی اور مغربی سرمایہ کاروں کے لیے ۔ ایک ارب کی منڈی چین کے بعد دوسری بڑی منڈی تھی۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا جس میں من موہن سنگھ کا بھارت کامیاب رہا۔ اس کامیابی کا ثبوت یہ تھا کہ بھارت امریکا میں دوریاں کم ہوئی گئیں یہاں تک کہ آخر کار دونوں ملک سٹریجٹک معاہدے میں بندھ گئے۔
ویسے بھی دونوں ملکوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ پہلے نمبر پر جمہوریت پھر سیکولرازم لبرل ازم کوئی بھی ایسی چیز رکاوٹ نہیں تھی جو انھیں ایک دوسرے کے قریب آنے سے روک سکتی۔ امریکی ہوں یا مغربی سفارت کار دانشور رائٹر فلاسفر سب کے سب بھارتی تہذیب اور کلچر کے عاشق ہیں۔
بہرحال بات دوروں کی ہو رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے آخری بار1982 میں صدر ضیاء الحق کے دورے کو امریکا نے ریاستی دورہ کا درجہ دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار تھا۔ یہ عزت افزائی جنرل ضیا الحق کو اس لیے ملی کہ انھوں نے امریکی سامراجی مفادات کی حفاظت کے لیے لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں کو افغانستان میں امریکی جنگ میں جھونک دیا۔
اس سے قبل دو بار 1961 اور 1965 میں یہ اعزاز صدر ایوب خان کو دیا گیا سیٹو سینٹو ،سرد جنگ میں امریکی اتحادی بننا۔ یہ وہ تمام پالسیاں ہی تھیں جن کے نتائج کا سامنا آج ہم پاکستانی معیشت کی تباہی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ بھارت نے شروع سے ہی سوویت یونین اور امریکا کو اپنے مفادات کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔ جب کہ پاکستان اپنے لیڈروں کی بدولت صرف امریکی مفادات کے لیے استعمال ہوا۔
22مئی سے 22جون۔ 22مئی کو سری نگر میں جی 20کانفرنس اور اب 22جون کو مودی کا ریاستی دورہ واشنگٹن کیا نہیں بتاتا کہ امریکا کی نظر میں کشمیر کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی جمہوری لیڈر کو امریکا نے یہ اعزاز نہیں بخشا اب آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ برصغیر کی تقسیم کس کے مفاد میں تھی۔ یہ تھی برطانوی امریکی سامراج اور پاکستانی اشرافیہ کے مفاد میں ۔ پاکستانی عوام تو اس سارے معاملے میں کہیں بھی Matterہی نہیں کرتے ۔
اب ان کے نام بھی دیکھ لیں کہ کن امریکی لیڈروں نے بھارتی وزیر اعظم کو خطاب کے لیے مدعو کیا ہے۔ ان میں سرفہرست امریکی ری پبلیکن اسپیکر کیون میک کارتھی ہیں۔ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر چک شومر سینیٹ میں ری پبلیکن لیڈر مچ میک کونل اور ہاؤس ڈیمو کریٹک لیڈر حکیم جعفریز ہیں۔
ان تمام امریکی لیڈروں نے ایک خط میں امریکی ایوان نمایندگان کے مشترکہ اجلاس سے بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی کو خطاب کے لیے مدعو کیا ہے۔ امریکی قانون سازوں کے مشترکہ سیشن سے خطاب مودی کا دوسری مرتبہ ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اس ریاستی دورے کی دعوت بھارتی وزیر اعظم کو گزشتہ مہینے دی۔
اصل بات یہ ہے کہ بائیڈن شدت سے خواہش مند ہیں کہ بھارت جو دنیا میں سب سے بڑی ڈیمو کریسی ہے کے ساتھ گہرے تعلقات بنائے جائیں۔ کانگریس کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کا موقعہ صرف امریکا کے قریبی اتحادیوں کو دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد امریکا سمیت مغربی ممالک نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کو ویزہ نہ دینے کی پالیسی اختیار کی جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے جس میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ یہ دور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا تھا۔ الزام یہ تھا کہ مودی نے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
بھارت کی طرف سے ایسا آخری دورہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نومبر 2009 میں کیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت بتدریج روس سے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ یہ من موہن سنگھ ہی تھے جنھوں نے بند بھارتی معشیت کو کھلی معشیت میں بدل دیا امریکی اور مغربی سرمایہ کاروں کے لیے ۔ ایک ارب کی منڈی چین کے بعد دوسری بڑی منڈی تھی۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا جس میں من موہن سنگھ کا بھارت کامیاب رہا۔ اس کامیابی کا ثبوت یہ تھا کہ بھارت امریکا میں دوریاں کم ہوئی گئیں یہاں تک کہ آخر کار دونوں ملک سٹریجٹک معاہدے میں بندھ گئے۔
ویسے بھی دونوں ملکوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ پہلے نمبر پر جمہوریت پھر سیکولرازم لبرل ازم کوئی بھی ایسی چیز رکاوٹ نہیں تھی جو انھیں ایک دوسرے کے قریب آنے سے روک سکتی۔ امریکی ہوں یا مغربی سفارت کار دانشور رائٹر فلاسفر سب کے سب بھارتی تہذیب اور کلچر کے عاشق ہیں۔
بہرحال بات دوروں کی ہو رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے آخری بار1982 میں صدر ضیاء الحق کے دورے کو امریکا نے ریاستی دورہ کا درجہ دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار تھا۔ یہ عزت افزائی جنرل ضیا الحق کو اس لیے ملی کہ انھوں نے امریکی سامراجی مفادات کی حفاظت کے لیے لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں کو افغانستان میں امریکی جنگ میں جھونک دیا۔
اس سے قبل دو بار 1961 اور 1965 میں یہ اعزاز صدر ایوب خان کو دیا گیا سیٹو سینٹو ،سرد جنگ میں امریکی اتحادی بننا۔ یہ وہ تمام پالسیاں ہی تھیں جن کے نتائج کا سامنا آج ہم پاکستانی معیشت کی تباہی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ بھارت نے شروع سے ہی سوویت یونین اور امریکا کو اپنے مفادات کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔ جب کہ پاکستان اپنے لیڈروں کی بدولت صرف امریکی مفادات کے لیے استعمال ہوا۔
22مئی سے 22جون۔ 22مئی کو سری نگر میں جی 20کانفرنس اور اب 22جون کو مودی کا ریاستی دورہ واشنگٹن کیا نہیں بتاتا کہ امریکا کی نظر میں کشمیر کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی جمہوری لیڈر کو امریکا نے یہ اعزاز نہیں بخشا اب آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ برصغیر کی تقسیم کس کے مفاد میں تھی۔ یہ تھی برطانوی امریکی سامراج اور پاکستانی اشرافیہ کے مفاد میں ۔ پاکستانی عوام تو اس سارے معاملے میں کہیں بھی Matterہی نہیں کرتے ۔